پوری سرکاری مشینری میں کوئی ایسا رجل الرشید نہیں تھا جو حکومت کو اس اقدام کے منفی نتائج سے آگاہ کرتا- نجانے حکومت اس
appeasement
کی پالیسی سے کیا پیغام دینا چاہتی تھی؟ خصوصاً ایسے معاشرے کو جو پہلے ہی سے کریک ہوتی فالٹ لائنز پر کھڑا ہے- جہاں فرقہ وارایت پر قابو پاؤ تو لسانیت کا جن قابو سے باہر ہوتا ہے
اس رویے کی تفہیم وتشریح بہرحال مشکل ہے جب حکومت مذہبی ہم آہنگی کے درپے ہو جاۓ، سماج میں مندمل ہوتے ناسور کو کریدنے اور بجھتے ہوۓ انگاروں پر تیل چھڑکنے لگے- اپنی سرپرستی میں تفریق، تعصب، اور مسلکی جانبداری کو ہوا دینے لگے- مگر یاد رکھے کہ تعصب پر مبنی ان رویوں اور پالیسوں سے کدورتیں بڑھیں گی جس کا فائدہ انتہاپسند عناصر اٹھائیں گے- مذہبی جذبات کا استحصال کرکے معاشرے کا امن وسکون تہہ وبالا کریں گے- مگر تاک میں بیٹھے ان شعلہ بیان مقررین کو ایندھن تو آپ کے دوغلے اور دو رخے اقدامات فراہم کر رہے ہیں
افسوس یہ المیہ بھی ریاست مدینہ کی دعوے دار حکومت میں رونما ہونا تھا- صدافسوس
appeasement
کی پالیسی سے کیا پیغام دینا چاہتی تھی؟ خصوصاً ایسے معاشرے کو جو پہلے ہی سے کریک ہوتی فالٹ لائنز پر کھڑا ہے- جہاں فرقہ وارایت پر قابو پاؤ تو لسانیت کا جن قابو سے باہر ہوتا ہے
اس رویے کی تفہیم وتشریح بہرحال مشکل ہے جب حکومت مذہبی ہم آہنگی کے درپے ہو جاۓ، سماج میں مندمل ہوتے ناسور کو کریدنے اور بجھتے ہوۓ انگاروں پر تیل چھڑکنے لگے- اپنی سرپرستی میں تفریق، تعصب، اور مسلکی جانبداری کو ہوا دینے لگے- مگر یاد رکھے کہ تعصب پر مبنی ان رویوں اور پالیسوں سے کدورتیں بڑھیں گی جس کا فائدہ انتہاپسند عناصر اٹھائیں گے- مذہبی جذبات کا استحصال کرکے معاشرے کا امن وسکون تہہ وبالا کریں گے- مگر تاک میں بیٹھے ان شعلہ بیان مقررین کو ایندھن تو آپ کے دوغلے اور دو رخے اقدامات فراہم کر رہے ہیں
افسوس یہ المیہ بھی ریاست مدینہ کی دعوے دار حکومت میں رونما ہونا تھا- صدافسوس