WatanDost
Chief Minister (5k+ posts)
سی آئی اے کے مددگاروں سے مناسب سلوک ہوگا
پاکستانی سفیر کِرسچیان امانپور کے پروگرام دِس ویک میں بات کر رہے تھے
امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی کے سلسلے میں امریکی حکام کی مدد کے الزام میں گرفتار افراد کے بارے میں پاکستانی حکام کا دفاع کیا ہے۔
[HI]
پاکستانی سفیر کا کہنا ہے کہ وہ افراد جنہوں نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن تک پہنچنے میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی مدد کی، ان سے مناسب سلوک ہوگا۔
[/HI]کلِک سی آئی اے ایجنٹوں کے خلاف کریک ڈاؤن
انہوں نے یہ بات اتوار کو امریکی ٹیلی وژن چینل اے بی سی کے پروگرام دِس ویک میں ایک انٹرویو کے دوران کہی۔
[HI]
حسین حقانی نے اسامہ بن لادن تک پہنچنے میں پاکستان میں سی آئی اے کی مدد اور اس کے لیے مخبری کرنے والےگرفتار افراد کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ان لوگوں سے دوست خفیہ ادارے (فرینڈلی انٹیلیجنس سروس کی بنیاد پر نمٹا جائے گا۔
[/HI]پاکستانی سفیر نے کہا کہ پاکستان نے اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ کے معاملے میں تیس سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا ہے، ان کے پاس معلومات ہیں اور معلومات کی نوعیت کے تحت ہر ایک سے نمٹا جائے گا۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اسامہ بن لادن کے اتنے برس سے پاکستان میں موجود ہونے پر کسی اہلکار کو جوابدہ بنایا جائے گا یا سزا دی جائے گی تو انہوں نے کہا کہ آپ یہ نہ بھولیں کہ اسامہ تک پہنچنے میں پہلا سراغ پاکستانی حکام کی طرف سے ہی آیا تھا، اور اس ہی کی کی بنیاد پر امریکہ اسامہ کا کے اتہ پتہ کا معلوم ہو سکا۔
پاکستانی سفیر کا حراست میں لیے گئے افراد کے بارے میں کہنا تھا کہ کسی کو سزا نہیں دی جا رہی، اس کارروائی کا مقصد تفتیش ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ ہوا کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اب پاکستان ایمن الظواہری کی تلاش کو بھی ترجیح دے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستتان اور امریکہ مل کر کام کر رہے ہیں اور مشترکہ کارروائیاں جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
اگر ہمارے پاس انٹیلیجنس ہوتی تو ہم کارروائی کرتے
اے بی سی پر کرسچیان آمانپور سے بات کرتے ہوئے حسین حقانی کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کی فوج یا حکومت کے پاس اسامہ بن لادن کے اتہ پتہ ہوتا تو ان کے خلاف کارروائی ضرور کی جاتی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کی یہ پالیسی نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کی حفاظت کی جائے۔انہوں نے کہا کہ یہ نہ بھولیں کہ پاکستان میں اسی کے دہائی کے بہت سے جہادی باقیات ہیں اور یہ ممکن ہے کہ وہ اس میں ملوث ہوں۔
سفیر نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان پر بہت دباؤ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ نے افغانستان سے زیادہ عراق پر توجہ اور پیسا لگایا اور اب وہ پاکستان سے زیادہ افغانستان پر رقم لگا رہا ہے۔
فوجی اہلکاروں کے خلاف کسی ممکنہ کارروائی کے بارے میں سوال کے جواب میں حسین حقانی نے کہا کہ جنرل کیانی ایک پیشہ ور فوجی افسر ہیں۔ وہ ماضی والے افسروں سے مختلف ہیں، وہ سازشی ( کُو میکر) نہیں ہیں۔ ہاں تفتیش کی جا رہی ہے لیکن میں اس بارے میں آپ کومزید نہیں بتا سکتا، وہ مناسب نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی قصوروار پایا گیا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ صدر اوباما یہ خود کہہ چکے ہیں کہ صدر زرداری، وزیر اعظم گیلانی اور جنرل کیانی اسامہ کی ایبٹ آباد میں رہائش سے لاعلم تھے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستانی حکام امریکہ کے خلاف جارہانہ بیانات کیوں دے رہے ہیں تو سفیر نے کہا کہ زمینی حقائق پیچیدہ ہیں اور ظاہر ہے کہ عوام قومی سلامتی کی خلاف ورزی پر خوش نہیں ہیں اور سیاستدانوں کو ان ہی لوگوں سے ووٹ بھی لینے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو چاہیے کہ وہ پاکستانی عوام کو منانے پر زیادہ توجہ دے۔

پاکستانی سفیر کِرسچیان امانپور کے پروگرام دِس ویک میں بات کر رہے تھے
امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی کے سلسلے میں امریکی حکام کی مدد کے الزام میں گرفتار افراد کے بارے میں پاکستانی حکام کا دفاع کیا ہے۔
[HI]
پاکستانی سفیر کا کہنا ہے کہ وہ افراد جنہوں نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن تک پہنچنے میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی مدد کی، ان سے مناسب سلوک ہوگا۔
[/HI]کلِک سی آئی اے ایجنٹوں کے خلاف کریک ڈاؤن
انہوں نے یہ بات اتوار کو امریکی ٹیلی وژن چینل اے بی سی کے پروگرام دِس ویک میں ایک انٹرویو کے دوران کہی۔
[HI]
حسین حقانی نے اسامہ بن لادن تک پہنچنے میں پاکستان میں سی آئی اے کی مدد اور اس کے لیے مخبری کرنے والےگرفتار افراد کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ان لوگوں سے دوست خفیہ ادارے (فرینڈلی انٹیلیجنس سروس کی بنیاد پر نمٹا جائے گا۔
[/HI]پاکستانی سفیر نے کہا کہ پاکستان نے اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ کے معاملے میں تیس سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا ہے، ان کے پاس معلومات ہیں اور معلومات کی نوعیت کے تحت ہر ایک سے نمٹا جائے گا۔
پاکستان نے اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ کے سلسلے میں تیس سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا ہے، ان کے پاس معلومات ہیں اور معلومات کی نوعیت کے تحت ہر ایک سے نمٹا جائے گا
حسین حقانی
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اسامہ بن لادن کے اتنے برس سے پاکستان میں موجود ہونے پر کسی اہلکار کو جوابدہ بنایا جائے گا یا سزا دی جائے گی تو انہوں نے کہا کہ آپ یہ نہ بھولیں کہ اسامہ تک پہنچنے میں پہلا سراغ پاکستانی حکام کی طرف سے ہی آیا تھا، اور اس ہی کی کی بنیاد پر امریکہ اسامہ کا کے اتہ پتہ کا معلوم ہو سکا۔
پاکستانی سفیر کا حراست میں لیے گئے افراد کے بارے میں کہنا تھا کہ کسی کو سزا نہیں دی جا رہی، اس کارروائی کا مقصد تفتیش ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ ہوا کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اب پاکستان ایمن الظواہری کی تلاش کو بھی ترجیح دے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستتان اور امریکہ مل کر کام کر رہے ہیں اور مشترکہ کارروائیاں جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
اگر ہمارے پاس انٹیلیجنس ہوتی تو ہم کارروائی کرتے
اے بی سی پر کرسچیان آمانپور سے بات کرتے ہوئے حسین حقانی کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کی فوج یا حکومت کے پاس اسامہ بن لادن کے اتہ پتہ ہوتا تو ان کے خلاف کارروائی ضرور کی جاتی۔
جنرل کیانی ایک پیشہ ور فوجی افسر ہیں۔ وہ ماضی والے افسروں سے مختلف ہیں، وہ سازشی ( کُو میکر) نہیں ہیں۔ ہاں تفتیش کی جا رہی ہے لیکن میں اس بارے میں آپ کومزید نہیں بتا سکتا، وہ مناسب نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی قصوروار پایا گیا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
حسین حقانی
ان کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کی یہ پالیسی نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کی حفاظت کی جائے۔انہوں نے کہا کہ یہ نہ بھولیں کہ پاکستان میں اسی کے دہائی کے بہت سے جہادی باقیات ہیں اور یہ ممکن ہے کہ وہ اس میں ملوث ہوں۔
سفیر نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان پر بہت دباؤ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ نے افغانستان سے زیادہ عراق پر توجہ اور پیسا لگایا اور اب وہ پاکستان سے زیادہ افغانستان پر رقم لگا رہا ہے۔
فوجی اہلکاروں کے خلاف کسی ممکنہ کارروائی کے بارے میں سوال کے جواب میں حسین حقانی نے کہا کہ جنرل کیانی ایک پیشہ ور فوجی افسر ہیں۔ وہ ماضی والے افسروں سے مختلف ہیں، وہ سازشی ( کُو میکر) نہیں ہیں۔ ہاں تفتیش کی جا رہی ہے لیکن میں اس بارے میں آپ کومزید نہیں بتا سکتا، وہ مناسب نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی قصوروار پایا گیا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ صدر اوباما یہ خود کہہ چکے ہیں کہ صدر زرداری، وزیر اعظم گیلانی اور جنرل کیانی اسامہ کی ایبٹ آباد میں رہائش سے لاعلم تھے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستانی حکام امریکہ کے خلاف جارہانہ بیانات کیوں دے رہے ہیں تو سفیر نے کہا کہ زمینی حقائق پیچیدہ ہیں اور ظاہر ہے کہ عوام قومی سلامتی کی خلاف ورزی پر خوش نہیں ہیں اور سیاستدانوں کو ان ہی لوگوں سے ووٹ بھی لینے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو چاہیے کہ وہ پاکستانی عوام کو منانے پر زیادہ توجہ دے۔
Last edited by a moderator: