Zia Hydari
Chief Minister (5k+ posts)
دامادِ رسول ﷺ سیّدنا علی المرتضیٰؓ
اﷲ پاک نے حضرت علی المرتضیٰؓ کی صفت وثناء قرآن پاک میں یوں بیان فرمائی ہے ارشادباری تعالیٰ ہے "وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًاوَّیَتِیْمًاوَّاَسِیْرًا"اورکھاناکھلاتے ہیں اس کی محبت پرمسکین اوریتیم اوراسیرکو"۔(پارہ ۲۹سورۃ الدھر)
دامادِ رسول،فاتحِ خبیر،حاملِ ذوالفقارخلیفہ چہارم امیرالمومنین حضرت علی المرتضیٰؓ کانام علیؓ کنیت ابوالحسن ،ابوتراب القابات مرتضیٰ ،اسداﷲ ،حیدرکرار،شیرخدا ہیں ۔ آپؓ حضورنبی کریمﷺکے چچازادبھائی اوردامادبھی ہیں ۔آپؓ حضورﷺسے عمرمیں تیس برس چھوٹے تھے ۔آپؓ کی پیدائش خانہ کعبہ میں ہوئی ۔ آپؓ بچوں میں سب سے پہلے ایمان لائے۔(مشکوٰۃ المصابیح )
جس وقت آپؓ ایمان لائے اسوقت آپؓ کی عمردس بارہ سال تھی سواغزوہ تبوک کے سارے غزوات میں آپﷺکے ساتھ شریک ہوئے ۔
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضورنبی ﷺنے انصارومہاجرین میں بھائی چارہ قائم فرمایاتوحضرت سیدناعلی المرتضیٰؓ نے حضورنبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کیایارسول اﷲﷺآپﷺنے تمام صحابہ کرام علہیم الرضوان کے درمیان مساوات اخوت کارشتہ قائم کیالیکن میرے ساتھ ایساکچھ نہیں کیا؟آقاﷺنے فرمایااے علیؓ تم میرے دنیاوآخرت کے بھائی ہو۔ر
وایات میں آتاہے کہ آقاﷺنے حضرت سیدناعلی المرتضیٰ ؓ سے فرمایااے علیؓ!مجھے ہجرت کاحکم ہوگیاہے میں سیدناابوبکرصدیقؓ کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کرنیوالاہوں ۔میرے پاس جولوگوں کی امانتیں ہیں وہ میں تمہارے حوالے کرتاہوں تم ان امانتوں کوان کے حقیقی مالکوں تک پہنچادینامشرکین مکہ نے میرے قتل کی منصوبہ بندی کی ہے اوروہ آج رات مجھے قتل کرنے کاناپاک ارادہ رکھتے ہیں تم بسترپرمیری چادراوڑھ کرلیٹ جاؤ۔حضرت علی المرتضیٰ ؓ آقاﷺکے حکم کے مطابق لیٹ گئے ۔آقاﷺسورۃ یٰسین کی تلاوت کرتے ہوئے گھرسے باہرتشریف لائے تھے ۔آقاﷺنے مٹھی بھرکرخاک کی کفارکے منہ پرماری جس سے وہ اندھے ہوگئے تھے ساری رات انتظارکرتے رہے آخرکارایک شخص نے ان کوبتایاکہ حضورﷺتومکہ مکرمہ سے جاچکے ہیں مشرکین مکہ میں سے ایک شخص نے اندرداخل ہوکرسوئے ہوئے آدمی کے اوپرسے چادراتاری توحضرت سیدناعلی المرتضیٰ کودیکھ کرپریشان ہوگئے انہوں نے حضرت علی المرتضیٰ ؓ سے آقاﷺکے بارے میں پوچھاتوحضرت علی المرتضیٰ ؓ نے جواب دیاکہ آقاﷺکی نگرانی تم کررہے تھے اس لئے تمہیں معلوم ہوناچاہیے کہ وہ کہاں ہیں؟مشرکین مکہ یہ جواب سن کرشرمندہ ہوکرواپس چلے گئے ۔حضرت علی المرتضیٰؓ نے آقاﷺکے فرمان کے مطابق صبح ہوتے ہی لوگوں کوامانتیں واپس کرکے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی جانب سفرہجرت شروع کردیا۔آپؓ قباکے مقام پرآقاﷺ اورحضرت ابوبکرصدیقؓ سے جاملے تھے آقاﷺنے قباکے مقام پرایک مسجدکی بنیادرکھی تھی جس کی تعمیرمیں آپؓ نے بھی آقاﷺکے شانہ بشانہ حصہ لیاتھاوہ مسجدجمعہ کے روزمکمل ہوئی آقاﷺنے جمعہ کی نمازبھی اسی مسجدمیں اداکی تھی اس لئے تاریخ میں یہ مسجد"مسجدجمعہ"کے نام پرمشہورہوگئی ۔
حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت ہوئی تواس کے بعدتین دن مسندخلافت خالی رہی تھی ۔ حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے چوتھے دن مدینہ منورہ کے اکابرصحابہ کرام علہیم الرضوان مہاجرین اورانصارنے حضرت علی ؓکو خلفیہ بننے کا مشورہ دیاتھاکہ آپؓ مسندخلافت کی تمام ترذمہ داریاں سنبھال لیں آپؓ نے خلیفہ بننے سے یکسرانکارکردیاتھا۔اس دوران حضرت طلحہ بن عبیداﷲ ؓ حضرت زبیربن العوامؓ حضرت سعدابن وقاصؓ،حضرت عبداﷲ بن عمرؓکوبھی خلیفہ بننے کی پیش کش کی گئی تھی۔لیکن ان تمام صحابہ کرام علہیم الرضوان نے خلیفہ بننے سے انکارکردیاتھا۔باغیوں نے اہل مدینہ کومخاطب کرکے یہ اعلان کیاکہ تم دودن کے اندراپناخلفیہ نامزدکرلو کیونکہ تمہاراحکم امت محمدیہﷺپرنافذالعمل ہے ہم اس خلیفہ کی بیت کرکے واپس چلے جائیں گے ورنہ ہم تمام اکابرکوقتل کردیں گے اہل مدینہ نے باغیوں کایہ اعلان سناتوحضرت علی المرتضیٰؓ کی خدمت میں دوبارہ حاضرہوئے تھے اورآپؓکوخلافت کرنے کے لئے قائل کرناشروع کردیایہاں تک کہ آپؓ نے منصب خلافت قبول کرلیا۔منصب خلافت سنبھالنے کے بعدآپؓ مسجدنبوی ﷺمیں تشریف لے گئے تھے اورمنبررسول ﷺپرکھڑے ہوکرخطبہ دیاتھا۔خطبہ خلافت سے فارغ ہونے کے بعدآپؓکے سامنے سب سے اہم مسئلہ حضرت عثمان غنیؓ کے قاتلوں کوتلاش کرکے ان کوسزادیناتھا آپؓ نے حضرت عثمان غنیؓ کے قاتلوں کی پہچان کے لئے حضرت عثمان غنیؓ کی زوجہ حضرت نائلہ ؓ سے ملاقات کی اوران سے قاتلوں کے بارے میں دریافت کیا۔جس گروہ سے قاتلوں کاتعلق تھاان پرکسی کاقابونہ تھا۔وہ جماعت جس میں حضرت عثمان غنیؓ کے قاتل شامل تھے انہوں نے حضرت علیؓ کے ہاتھ پربیعت کرلی اوراپنے آپ کوحضرت علیؓ کازبردست حامی ظاہرکرنا شروع کردیاتھاان حالات میں قصاص لیناآسان نہیں تھا۔آپؓ کاسارازمانہ خلافت جنگوں اورفتنوں فسادکی نذر ہوگیاتھاجس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ آپؓ لوگوں کوحضرت ابوبکرصدیقؓ اورحضرت عمرفاروقؓ کے دورکے مطابق چلاناچاہتے تھے جب کی دولت کی فراوانی اورخوشحالی نیزاعمال کی بداعتدالیوں نے لوگوں کوایک مختلف طرززندگی کاعادی بنادیاتھا۔آپؓ کی دانش مشورے اوررائے پرحضرت عمرفاروقؓ جیساشخص اعتمادکرتاتھا۔آپؓ کی خلافت چارسال نوماہ اورچنددن رہی ۔
سترہ رمضان المبارک 40ہجری بروزجمعہ فجرکے وقت خارجی عبدالرحمن ابن ملجم مرادی اپنے دوساتھی شبیب اوروردان کے ہمراہ جامع مسجدکوفہ میں پہنچے اورتینوں مسجدکے ایک کونے میں چھپ گئے ۔جس وقت آپؓ نمازفجرکے لئے تشریف آئے تھے اس وقت شبیب نے آپؓ پرپہلاوار کیااوراس کے بعدعبدالرحمٰن ابن ملجم نے دوسراوارکیاواردن یہ دیکھ کربھاگ کھڑاہواتھاشبیب بھی وارکرنے کے بعدبھاگ نکلاتھااورخارجی عبدالرحمن ابن ملجم مرادی پکڑاگیاتھا۔حضرت علی ؓ نے اپنے بھانجے حضرت ام ہانیؓ کے بیٹے حضرت جعدہ ؓکونمازپڑھانے کاحکم دیاتھااس دوران سورج طلوع ہوچکاتھالوگ آپؓ کوزخمی حالت میں گھرلے گئے تھے اورخارجی عبدالرحمن ابن ملجم مرادی کوآپؓ کی خدمت میں پیش کیاتوآپؓ نے اس بدبخت سے پوچھاکہ تجھے کس چیزنے مجھے مارنے پرآمادہ کیا؟خارجی عبدالرحمن ابن ملجم مرادی نے آپؓ کے سوال کونظراندازکرتے ہوئے کہاکہ میں نے اس تلوارکوچالیس روزتک تیزکیااوراﷲ تعالیٰ سے دعاکی کہ اس سے وہ شخص مارا جائے جوخلق کے لئے شرکاباعث ہوآپؓ نے فرمایامیں دیکھ رہاہوں تواس تلوارسے ماراجائے گا۔اس کے بعدآپؓ نے حاضرین محفل بالخصوص حضرت امام حسن ؓ کومخاطب کرتے ہوئے فرمایااگرمیں جانبرنہ ہوسکاتوتم اسے قصاص کے طورپراسی تلوارکے ایک ہی وارسے قتل کر ڈالنا۔آپؓ نے حالت زخمی میں اپنے بچوں کوچندنصیحتیں اوروصیت کی ۔آپؓ نے بچوں کونصیحتیں اوروصیت کرنے بعدکلمہ توحیدپڑھااوراپنی جان اﷲ کے سپردکردی ۔آپ ؓنے 21رمضان المبارک ۶۳ہجری کواس جہان فانی سے کوچ فرمایاآپؓ کوحضرت سیدناامام حسن ؓ حضرت سیدناامام حسین ؓ اورحضرت عبداﷲ بن جعفرؓ نے غسل دیا۔حضرت سیدناامام حسن ؓ نے نمازہ جنازہ پڑھائی اورآپؓ نجف شریف میں مدفون ہیں۔
اناللّٰہ واناالیہ راجعون۔اﷲ
اﷲ پاک نے حضرت علی المرتضیٰؓ کی صفت وثناء قرآن پاک میں یوں بیان فرمائی ہے ارشادباری تعالیٰ ہے "وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًاوَّیَتِیْمًاوَّاَسِیْرًا"اورکھاناکھلاتے ہیں اس کی محبت پرمسکین اوریتیم اوراسیرکو"۔(پارہ ۲۹سورۃ الدھر)
دامادِ رسول،فاتحِ خبیر،حاملِ ذوالفقارخلیفہ چہارم امیرالمومنین حضرت علی المرتضیٰؓ کانام علیؓ کنیت ابوالحسن ،ابوتراب القابات مرتضیٰ ،اسداﷲ ،حیدرکرار،شیرخدا ہیں ۔ آپؓ حضورنبی کریمﷺکے چچازادبھائی اوردامادبھی ہیں ۔آپؓ حضورﷺسے عمرمیں تیس برس چھوٹے تھے ۔آپؓ کی پیدائش خانہ کعبہ میں ہوئی ۔ آپؓ بچوں میں سب سے پہلے ایمان لائے۔(مشکوٰۃ المصابیح )
جس وقت آپؓ ایمان لائے اسوقت آپؓ کی عمردس بارہ سال تھی سواغزوہ تبوک کے سارے غزوات میں آپﷺکے ساتھ شریک ہوئے ۔
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضورنبی ﷺنے انصارومہاجرین میں بھائی چارہ قائم فرمایاتوحضرت سیدناعلی المرتضیٰؓ نے حضورنبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کیایارسول اﷲﷺآپﷺنے تمام صحابہ کرام علہیم الرضوان کے درمیان مساوات اخوت کارشتہ قائم کیالیکن میرے ساتھ ایساکچھ نہیں کیا؟آقاﷺنے فرمایااے علیؓ تم میرے دنیاوآخرت کے بھائی ہو۔ر
وایات میں آتاہے کہ آقاﷺنے حضرت سیدناعلی المرتضیٰ ؓ سے فرمایااے علیؓ!مجھے ہجرت کاحکم ہوگیاہے میں سیدناابوبکرصدیقؓ کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کرنیوالاہوں ۔میرے پاس جولوگوں کی امانتیں ہیں وہ میں تمہارے حوالے کرتاہوں تم ان امانتوں کوان کے حقیقی مالکوں تک پہنچادینامشرکین مکہ نے میرے قتل کی منصوبہ بندی کی ہے اوروہ آج رات مجھے قتل کرنے کاناپاک ارادہ رکھتے ہیں تم بسترپرمیری چادراوڑھ کرلیٹ جاؤ۔حضرت علی المرتضیٰ ؓ آقاﷺکے حکم کے مطابق لیٹ گئے ۔آقاﷺسورۃ یٰسین کی تلاوت کرتے ہوئے گھرسے باہرتشریف لائے تھے ۔آقاﷺنے مٹھی بھرکرخاک کی کفارکے منہ پرماری جس سے وہ اندھے ہوگئے تھے ساری رات انتظارکرتے رہے آخرکارایک شخص نے ان کوبتایاکہ حضورﷺتومکہ مکرمہ سے جاچکے ہیں مشرکین مکہ میں سے ایک شخص نے اندرداخل ہوکرسوئے ہوئے آدمی کے اوپرسے چادراتاری توحضرت سیدناعلی المرتضیٰ کودیکھ کرپریشان ہوگئے انہوں نے حضرت علی المرتضیٰ ؓ سے آقاﷺکے بارے میں پوچھاتوحضرت علی المرتضیٰ ؓ نے جواب دیاکہ آقاﷺکی نگرانی تم کررہے تھے اس لئے تمہیں معلوم ہوناچاہیے کہ وہ کہاں ہیں؟مشرکین مکہ یہ جواب سن کرشرمندہ ہوکرواپس چلے گئے ۔حضرت علی المرتضیٰؓ نے آقاﷺکے فرمان کے مطابق صبح ہوتے ہی لوگوں کوامانتیں واپس کرکے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی جانب سفرہجرت شروع کردیا۔آپؓ قباکے مقام پرآقاﷺ اورحضرت ابوبکرصدیقؓ سے جاملے تھے آقاﷺنے قباکے مقام پرایک مسجدکی بنیادرکھی تھی جس کی تعمیرمیں آپؓ نے بھی آقاﷺکے شانہ بشانہ حصہ لیاتھاوہ مسجدجمعہ کے روزمکمل ہوئی آقاﷺنے جمعہ کی نمازبھی اسی مسجدمیں اداکی تھی اس لئے تاریخ میں یہ مسجد"مسجدجمعہ"کے نام پرمشہورہوگئی ۔
حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت ہوئی تواس کے بعدتین دن مسندخلافت خالی رہی تھی ۔ حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے چوتھے دن مدینہ منورہ کے اکابرصحابہ کرام علہیم الرضوان مہاجرین اورانصارنے حضرت علی ؓکو خلفیہ بننے کا مشورہ دیاتھاکہ آپؓ مسندخلافت کی تمام ترذمہ داریاں سنبھال لیں آپؓ نے خلیفہ بننے سے یکسرانکارکردیاتھا۔اس دوران حضرت طلحہ بن عبیداﷲ ؓ حضرت زبیربن العوامؓ حضرت سعدابن وقاصؓ،حضرت عبداﷲ بن عمرؓکوبھی خلیفہ بننے کی پیش کش کی گئی تھی۔لیکن ان تمام صحابہ کرام علہیم الرضوان نے خلیفہ بننے سے انکارکردیاتھا۔باغیوں نے اہل مدینہ کومخاطب کرکے یہ اعلان کیاکہ تم دودن کے اندراپناخلفیہ نامزدکرلو کیونکہ تمہاراحکم امت محمدیہﷺپرنافذالعمل ہے ہم اس خلیفہ کی بیت کرکے واپس چلے جائیں گے ورنہ ہم تمام اکابرکوقتل کردیں گے اہل مدینہ نے باغیوں کایہ اعلان سناتوحضرت علی المرتضیٰؓ کی خدمت میں دوبارہ حاضرہوئے تھے اورآپؓکوخلافت کرنے کے لئے قائل کرناشروع کردیایہاں تک کہ آپؓ نے منصب خلافت قبول کرلیا۔منصب خلافت سنبھالنے کے بعدآپؓ مسجدنبوی ﷺمیں تشریف لے گئے تھے اورمنبررسول ﷺپرکھڑے ہوکرخطبہ دیاتھا۔خطبہ خلافت سے فارغ ہونے کے بعدآپؓکے سامنے سب سے اہم مسئلہ حضرت عثمان غنیؓ کے قاتلوں کوتلاش کرکے ان کوسزادیناتھا آپؓ نے حضرت عثمان غنیؓ کے قاتلوں کی پہچان کے لئے حضرت عثمان غنیؓ کی زوجہ حضرت نائلہ ؓ سے ملاقات کی اوران سے قاتلوں کے بارے میں دریافت کیا۔جس گروہ سے قاتلوں کاتعلق تھاان پرکسی کاقابونہ تھا۔وہ جماعت جس میں حضرت عثمان غنیؓ کے قاتل شامل تھے انہوں نے حضرت علیؓ کے ہاتھ پربیعت کرلی اوراپنے آپ کوحضرت علیؓ کازبردست حامی ظاہرکرنا شروع کردیاتھاان حالات میں قصاص لیناآسان نہیں تھا۔آپؓ کاسارازمانہ خلافت جنگوں اورفتنوں فسادکی نذر ہوگیاتھاجس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ آپؓ لوگوں کوحضرت ابوبکرصدیقؓ اورحضرت عمرفاروقؓ کے دورکے مطابق چلاناچاہتے تھے جب کی دولت کی فراوانی اورخوشحالی نیزاعمال کی بداعتدالیوں نے لوگوں کوایک مختلف طرززندگی کاعادی بنادیاتھا۔آپؓ کی دانش مشورے اوررائے پرحضرت عمرفاروقؓ جیساشخص اعتمادکرتاتھا۔آپؓ کی خلافت چارسال نوماہ اورچنددن رہی ۔
سترہ رمضان المبارک 40ہجری بروزجمعہ فجرکے وقت خارجی عبدالرحمن ابن ملجم مرادی اپنے دوساتھی شبیب اوروردان کے ہمراہ جامع مسجدکوفہ میں پہنچے اورتینوں مسجدکے ایک کونے میں چھپ گئے ۔جس وقت آپؓ نمازفجرکے لئے تشریف آئے تھے اس وقت شبیب نے آپؓ پرپہلاوار کیااوراس کے بعدعبدالرحمٰن ابن ملجم نے دوسراوارکیاواردن یہ دیکھ کربھاگ کھڑاہواتھاشبیب بھی وارکرنے کے بعدبھاگ نکلاتھااورخارجی عبدالرحمن ابن ملجم مرادی پکڑاگیاتھا۔حضرت علی ؓ نے اپنے بھانجے حضرت ام ہانیؓ کے بیٹے حضرت جعدہ ؓکونمازپڑھانے کاحکم دیاتھااس دوران سورج طلوع ہوچکاتھالوگ آپؓ کوزخمی حالت میں گھرلے گئے تھے اورخارجی عبدالرحمن ابن ملجم مرادی کوآپؓ کی خدمت میں پیش کیاتوآپؓ نے اس بدبخت سے پوچھاکہ تجھے کس چیزنے مجھے مارنے پرآمادہ کیا؟خارجی عبدالرحمن ابن ملجم مرادی نے آپؓ کے سوال کونظراندازکرتے ہوئے کہاکہ میں نے اس تلوارکوچالیس روزتک تیزکیااوراﷲ تعالیٰ سے دعاکی کہ اس سے وہ شخص مارا جائے جوخلق کے لئے شرکاباعث ہوآپؓ نے فرمایامیں دیکھ رہاہوں تواس تلوارسے ماراجائے گا۔اس کے بعدآپؓ نے حاضرین محفل بالخصوص حضرت امام حسن ؓ کومخاطب کرتے ہوئے فرمایااگرمیں جانبرنہ ہوسکاتوتم اسے قصاص کے طورپراسی تلوارکے ایک ہی وارسے قتل کر ڈالنا۔آپؓ نے حالت زخمی میں اپنے بچوں کوچندنصیحتیں اوروصیت کی ۔آپؓ نے بچوں کونصیحتیں اوروصیت کرنے بعدکلمہ توحیدپڑھااوراپنی جان اﷲ کے سپردکردی ۔آپ ؓنے 21رمضان المبارک ۶۳ہجری کواس جہان فانی سے کوچ فرمایاآپؓ کوحضرت سیدناامام حسن ؓ حضرت سیدناامام حسین ؓ اورحضرت عبداﷲ بن جعفرؓ نے غسل دیا۔حضرت سیدناامام حسن ؓ نے نمازہ جنازہ پڑھائی اورآپؓ نجف شریف میں مدفون ہیں۔
اناللّٰہ واناالیہ راجعون۔اﷲ