خصوصیات عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ

salma

Politcal Worker (100+ posts)
th

Yom-e-Shahadat 18 zil-hajjah.....4 Nov
.
.
mag-04.gif

mag-04-2.gif

mag-04-3.gif
 

Kahlown

Senator (1k+ posts)
311_68581414.jpg




[h=2]تازہ خبریں[/h]

  • اعصام الحق کی جوڑی پیرس ماسٹرز ٹورنامنٹ کے فائنل میں بھارتی جوڑی سے ہار گئی
  • پشاور میں پولیس چوکی کے قریب دھماکا، دو افراد زخمی، علاقے میں خوف وہراس
  • الیکشن کمیشن نے پیپلز پارٹی رہنما وحیدہ شاہ کی اپیل مسترد کر دی، دو سال کی نااہلی برقرار
  • امریکی صدارتی الیکشن میں دو روز باقی، پاکستانیوں کی بڑی تعداد کی ہمدردیاں براک اوباما کے ساتھ، واشنگٹن میں مٹ رومنی کیخلاف احتجاج
  • راولپنڈی اور اسلام آباد میں سی این جی مالکان کی ہٹ دھرمی، سٹیشن بند، پشاور میں انتظامیہ اور سی این جی ایسوسی ایشن میں مذاکرات ناکام، کراچی میں بس کرایوں میں تین روپے کمی
  • تحریک انصاف کا لاہور میں یوتھ کنونشن، عمران خان پالیسی کا اعلان کریں گے، رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مایوسی کے عالم میں نوجوان ہی اُمید کی کرن ہیں
  • فاروق ستار کا کہنا ہے کہ طالبان اسلام کی آڑ میں دہشت گردی کر رہے ہیں، عوام 8 نومبر کو فیصلہ کریں گے کہ قائد کا پاکستان چاہتے ہیں یا طالبان کا
  • ایوان صدر میں سارک سپیکر کانفرنس، صدر زرداری کا کہنا ہے کہ دہشتگردوں کے خلاف کامیابی کے لئے عوام کے دل جتینا ہوں گے




[h=2]آج کے کالم اور مضامین[/h]

























gallery_head.jpg

  • 03-11-2012


[h=3]اسپیشل فیچرز[/h]
312_66207329.jpg


311_68581414.jpg


310_58581252.jpg


309_27924175.jpg


308_21989408.jpg



[h=3][/h][h=2]گولڈ فش[/h]
تصویر میں دی گئی گولڈن فش ربڑ پلاسٹک یا کسی فلم میں استعمال کیلئے مصنوعی مچھلی نہیں بلکہ زندہ اور اصلی مچھلی ہے جسے ایک فرانسیسی مچھیرے نے پکڑا ہے۔ گولڈن فش پر کی گئی اب تک کی تحقیق کے مطابق انہیں نہ صرف اچھی مقدار میں...

[h=2]تصویر پر غور کریں[/h]
یہ ایک ساکت تصویر ہے جس میں ایک شخص پانی کے متوازی کھڑا ہے۔ لیکن یہ اصلی تصویرکی بجائے ایک پورٹریٹ ہے جسے فرانسیسی آرٹسٹ فیلیے رامیٹی نے تخلیق کیا۔ اس تصویر کی قیمت 150 ملین امریکی ڈالر طے پائی۔ نیلیے کا خیال ہے کہ ہر چیز کو...

[h=2]قدرت کا کرشمہ[/h]
میامی اخبار میں چھپنے والی یہ تصویر ایک ایسے شخص کی ہے جس کا سر قدرتی طور پر پچکا ہوا ہے۔ یہ شخص قطعی ایک نارمل زندگی گزار رہا ہے۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق اس شخص کا 80 فیصد دماغ نہیں ہے اور ہو سکتا ہے کہ اپنی اس قدرتی معذوری پر...

[h=2]یہ کھمبا ہے[/h]
دیمک ہر چیز کو چاٹ جاتی ہے۔ روس کے جنگل میں لکڑی کا یہ کھمبا کئی سالوں سے بجلی کی تاروں کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھا کہ دیمک نے اسے کھوکھلا کر دیا۔ ایک طوفان نے اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا جبکہ اس کے اوپر والا حصہ اپنی جگہ بجلی کی...


[h=3][/h]4نومبر اشتعال انگیزی سے منسوب



fb_top_roznama.jpg



Advertisment


[h=1]شہید مظلوم حضرت عثمان ذوالنورین[/h]
311_68581414.jpg

ڈاکٹر اسراراحمد
ہر واقعہ کے کچھ اسباب ظاہری ہوتے ہیں اور کچھ باطنی اور مخفی۔ دراصل موثر کردار یہ باطنی و مخفی اسباب ہی ادا کرتے ہیں۔ چونکہ عام طور پر ظاہری اسباب نظروں کے سامنے ہوتے ہیں لہٰذا ان مخفی اسباب کی طرف توجہ بہت کم مبذول ہوتی ہے بلکہ وہ نظر ہی نہیں آتے۔ آپ تاریخی اعتبار سے اس پر غور کیجیے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کو جو کامیاب فرمایا، آپ کو غلبہ عنایت کیا اور آپ کے مشن کی جزیرہ نمائے عرب کی حد تک آنحضورﷺ کی حیات طیبہ میں تکمیل ہوگئی اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کے مشن اور اسلام کے پیغام کو لے کو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین باہر نکلے تو جو لوگ مفتوح ہوئے اور جن لوگوں نے شکست کھائی، غور کیجیے کہ وہ کون کون لوگ تھے۔ یہ دو بڑے بڑے گروہ تھے۔ پہلا وہ جس نے مذہبی طور پر اور دوسرا وہ جس نے سیاسی طور پر شکست کھائی۔ مذہبی گروہ میں سے مشرکین عرب کا تو تیا پانچا کردیا گیا۔ ان کے حق میں تو سورة التوبہ کی وہ آیات نازل ہوگئیں کہ ان مشرکوں کو چار مہینے کی مہلت ہے، اگر اس کے اندر یہ ایمان لے آئےں تو اس سرزمین میں رہ سکتے ہیں۔ مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ اگر یہ مشرکین اس چار ماہ کی مہلت سے فائدہ نہ اٹھائیں، یعنی نہ ایمان لے آئیں، نہ ترک وطن کریں تو تم ان کو جہاں بھی پاﺅ قتل کرو: ”پس جب محترم مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاﺅ، اور انہیںپکڑو اور گھیرو، اور ہر گھات میں ان کی خبر لینے کیلئے بیٹھو!“(القرآن)۔ ان آیات نے فیصلہ کر دیا کہ مشرکین عرب کے ساتھ کوئی رو رعایت اور کوئی نرمی کا معاملہ نہیں ہوگا۔ اب شرک پر ڈٹے رہنے کے سبب سے ان کو تہ تیغ کر دیا جائے گا اور ان پر عذاب استیصال کی سنت اللہ پوری ہوگی، جو ان قوموں کیلئے مقرر ہے جن کی طرف رسول براہ راست مبعوث کئے جاتے ہیں۔ اور حضور ﷺ ان ہی میں سے اٹھائے گئے تھے اور حضورﷺ کی دعوت کے اولین مخاطب یہی لوگ تھے.... لیکن یہودو نصاریٰ کو ایک رخصت دی گئی کہ تم اپنے دین پر قائم رہ سکتے ہو، البتہ تمہیں چھوٹا بن کر اور مغلوب بن کر رہنا ہوگا اور جزیہ ادا کرنا ہوگا: ”جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حرام قرار دیا ہے۔ اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جز یہ دیں اور چھوٹے ہو کر رہیں“(القرآن)۔ یہ رعایت تھی جو اہل کتاب کے ساتھ اسلام نے کی۔ اس رعایت سے اہل کتاب بالخصوص یہود نے غلط فائدہ اٹھایا۔ ان میں جوش انتقام پہلے ہی سے موجود تھا، ان کی مذہبی سیادت ختم ہو چکی تھی اور ان کے نام نہاد تقویٰ کا بھرم کھل چکا تھا۔ ان کی حیثیت عرب میں بالکلیہ مغلوب اور ذمی کی ہوگئی تھی، جس پر جزیہ کی ادائیگی ان کیلئے بڑی شاق تھی۔ اہل کتاب کے ساتھ قرآن مجید میں جو معاملہ کیا گیا ہے، اس کے بھی دو رخ ہیں۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبوت میں جزیرہ نمائے عرب میں جو نصاریٰ تھے، ان کی قرآن نے کہیں کہیں تعریف و توصیف بھی کی ہے۔ ان میں خدا ترس لوگ موجود تھے، ان میں قبول حق کی استعداد تھی۔ پھر نبی اکرمﷺ کی حیات طیبہ میں نصاریٰ سے کوئی مسلح تصادم اور معرکہ بھی پیش نہیں آیا۔ جبکہ یہود کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ان پر قرآن میں بڑی شدید تنقیدیں ہوئی ہیں۔ سورة البقرہ کے دس رکوعات میں (چوتھے رکوع سے چودھویں رکوع تک) مسلسل ایک قرارداد جرم ہے جو یہودیوں پر عائد کی گئی ہے۔ پھر ان کے تین قبیلوں کو مدینہ سے نکالا گیا۔ ایک قبیلے کی تعدی و سرکشی اور بدعہدی کی وجہ سے خود ان کے مقررکردہ حکم کے فیصلے کے مطابق ان کے جنگ کے قابل تمام مردوں کو تہ تیغ کیا گیا۔ پھر خیبر، جو ان کا مضبوط ترین گڑھ تھا، جہاں مستحکم قلعہ بندیاں تھیں ، اور جہاں مدینہ سے نکلے ہوئے تمام یہودی جمع تھے اور وہ ہر طرح کیل کانٹے سے لیس تھے، وہ بھی مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا۔ لہٰذا سب سے زیادہ زخم خوردہ یہود تھے۔ عیسائی بھی زخم خوردہ تھے لیکن ان کا معاملہ اتنا شدید نہیں تھا جتنا یہودیوں کا تھا۔ لہٰذا انتقام کیلئے سب سے پہلے یہودیوں نے ریشہ دوانیاں اور سازشیں کیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جتنا عظیم سازشی ذہن اس قوم کا ہے اور اس میں اس کو جو مہارت تامہ حاصل ہے اس کا کوئی دوسری قوم مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اسی سازشی ذہن کا پیکر کامل یمن کا ایک یہودی عبداللہ بن سبا تھا، جو بظاہر مسلمان ہوا اور اس نے مسلمانوں میں شامل ہو کر سازشی ریشہ دوانیاں شروع کیں۔ اس شخص نے مفتوحہ علاقوں کے نومسلموں میں اپنے کارکنوں کے ذریعے حضرت عثمانؓ کے خلاف مہم شروع کردی اور ان سیدھے سادے نومسلم عوام کی عقیدتوں کا رخ شخصیت پرستی کی طرف موڑ دیا۔ دوسری جانب سیاسی اعتبار سے دیکھئے، جب اسلام کو عروج حاصل ہوا تو دنیا میں دو عظیم مملکتیں تھیں، ایک سلطنت روما، جو تین براعظموں تک وسیع تھی اور یورپ کے اکثر ممالک، مغربی ایشیا کے چند علاقے اور شمالی افریقہ کے تقریباً تمام ممالک قیصر روم کے زیرنگین یا باج گزار تھے۔ دوسری عظیم سلطنت کسریٰ کی تھی، یعنی ایران، خلافت راشدہ خصوصاً دور فاروقی میں سلطنت کسریٰ کی دھجیاںاڑ گئیں، بلکہ اس کا تو وجود ہی صفحہ ہستی سے محو ہوگیا۔ یہ نتیجہ تھا اس گستاخی کا جو خسرو پرویز نے نبی اکرم ﷺ کے نامہ مبارک کے ساتھ کی تھی، جس کے ذریعے اس کو اسلام کی دعوت دی گئی تھی۔ حضورﷺ نے تو اسی وقت فرما دیا تھا کہ کسریٰ نے میرا نامہ چاک نہیںکیا بلکہ اپنی سلطنت کے پرخچے اڑا دیئے۔ اس گستاخی کی اسے نقد سزا تو یہ ملی کہ اسی وقت سے ایران میں محلاتی سازشوں نے سر اٹھایا جن کے نتیجے میں خسرو پرویز قتل ہوا اور یکے بعد دیگرے مختلف افراد تخت کسریٰ پر متمکن ہوئے۔ جبکہ سلطنت روما کی تو صرف ایک ٹانگ ٹوٹی۔ اس کے صرف مغربی ایشیا کے مقبوضات اور شمالی افریقہ میں سے صرف مصر حضرت عمر فاروقؓ کے دور میںاسلام کے پرچم تلے آئے۔ یورپ کے جو ممالک قیصر روم کے قبضے میں تھے وہ جوں کے توں باقی رہے اور سلطنت روما کی سطوت کافی بڑی حد تک باقی رہی۔ شمالی افریقہ کے دوسرے مقبوضات دور عثمانی میں اسلامی مملکت کے زیرنگیں آئے۔ لیکن جیساکہ میں نے عرض کیا کہ سلطنت کسریٰ کی دور فاروقی میں دھجیاں اڑ گئیں، اس کا تو وجود ہی باقی نہیں رہا....لہٰذا جہاں تک انتقامی جذبات کا معاملہ ہے تو وہ سب سے زیادہ شدید کسریٰ کے اندر موجزن تھے۔ اب آپ غور کیجیے کہ اسلام کے خلاف دو طرفہ سازشیں شروع ہوئیں۔ ایک جانب یہودیوں کی طرف سے جو مذہبی سیادت کے لحاظ سے زخم خوردہ تھے اور دوسری جانب ان مجوسیوںکی طرف سے جو چاہے بظاہر مسلمان ہوگئے ہوں لیکن جو سلطنت کسریٰ کے پرخچے اڑ جانے کی وجہ سے شکست خوردہ تھے اور آتش انتقام میں جل رہے تھے۔ نتیجتاً مذہبی اعتبار سے انتقام کے سب سے زیادہ شدید جذبات یہودیوں میں تھے اور سیاسی اعتبار سے سب سے زیادہ انتقام کے جذبات ان مجوسیوں میں تھے۔ یہ دونوں ہی چاہتے تھے کہ اللہ کے دین کے چراغ کو اپنی ریشہ دوانیوں، سازشوں اور افواہوں سے بجھا دیں۔ اس انتقام کی پہلی کڑی حضرت عمر فاروقؓ کی شہادت تھی، اور اس کے ذریعے خلافت اسلامی کو سبوتاژ کرنا مقصود تھا، لیکن اسلام کے دشمنوں کو اپنے اس مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ حضرت عثمانؓ نے تخت خلافت پر متمکن ہونے کے بعد حالات پر پوری طرح قابو پالیا، بلکہ داخلی امن و امان اور استحکام کے ساتھ تمام شورشیں اور بغاوتیں نہ صرف فرو کر ڈالیں بلکہ فتوحات کادائرہ وسیع تر ہونے لگا تو اب یہودی سازشی ذہن اور آگے بڑھا۔ اس نے اپنی وہ خفیہ کارروائیاں تیز کردیں جن کی داغ بیل عبداللہ بن سبا دور صدیقی میں ڈال چکا تھا۔ اس سازشی کام کیلئے اس کو ایران کی زمین سب سے زیادہ سازگار نظر آئی۔ یہاں وہ عنصر بھی اچھی خاصی تعداد میں موجود تھا جو بظاہر مسلمان لیکن ذہناً مجوسی اور شاہ پرست تھا اور انتقام کی آگ میں جل رہا تھا، اور وہ سیدھے سادے عوام بھی موجود تھے جن کی گھٹی میں شخصیت پرستی اور ہیرو ورشپ (Heroworship) پڑی ہوئی تھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ عبداللہ بن سباکی سازش کم نہیں تھی۔ لیکن اسلام اللہ کا آخری دین ہے، نبی اکرم ﷺ آخری نبی رسول ہیں، اور قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہدایت ہے، جسے اللہ نے محفوظ رکھنے کی خود ذمہ داری لی ہوئی ہے۔ اللہ کی طرف سے اٹل فیصلہ ہوچکا تھا۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی شخصیت کو مسخ کیاگیااور دین کا حلیہ بگاڑ دیا گیا تو قرآن نے آ کر تصحیح کردی اور دین حق مبرہن ہوگیا۔ اگر حضورﷺ کی شخصیت کو اور آپ کے لائے ہوئے دین کو مسخ کر دیا جاتا تو پھر کون تھا جو اس کی تصحیح کرتا؟ چونکہ نبی اکرمﷺ خاتم النبین اور ختم المرسلین ہیں۔ لہٰذا حضور کی شخصیت، دین اسلام اورقرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی تحفظ عطا ہوا۔ نیز امت مسلمہ کو یہ فضیلت بھی عطا ہوئی کہ امت کے علماءحق کا مقام حضورﷺ کے ارشاد گرامی کے مطابق انبیائے بنی اسرائیل کے مطابق قرار پایا۔ مزید برآں حضور ﷺ نے یہ خوشخبری بھی سنائی کہ میری امت کا ایک گروہ ہر دور میں حق پر قائم رہے گا.... لہٰذا یہ سازش بالکل کامیاب نہیں ہوئی اور نہ ہو سکتی تھی۔ لیکن اس سازش کے وہ گندے اور نجس انڈے بچے تھے جن کے ہاتھوں خلیفہ ثالث عثمان غنی ؓ شہید ہوئے اور علوی خلافت کا پورا دور فتنہ و فساد اور خانہ جنگی کی نذر ہوگیا اور اس دور میں چوراسی ہزار مسلمان ایک دوسرے کی تلواروں سے شہید ہوئے ۔ یہ درحقیقت حضرت عثمان ؓکی مظلومانہ شہادت کا خمیازہ تھا۔ جب کسی حقیقی بندہ مومن کو ستایا جاتا ہے، جب کسی مومن صادق کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایاجاتا ہے، جب کسی اللہ والے کے دل کو دکھایا جاتا ہے، جب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے کسی محبوب کا ناحق خون بہایا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا غیظ و غضب بھڑکتا ہے اور مختلف صورتوں میں عذاب الٰہی ظہور ہوتا ہے، جس کی ایک بڑی المناک صورت آپس کی خانہ جنگی اور خون ریزی ہوتی ہے۔ جو ہمیں دور علوی میں نظر آتی ہے۔ مظلوم ترین شہادت اسلام کی تاریخ قربانیوں اور شہادتوں سے بھری پڑی ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ”شہید مظلوم“ حضرت عثمان غنی ؓ ہیں۔ اس سے قبل مسلمان کفار کے ہاتھوں شہید ہوئے، انفرادی طور پر بھی اور میدان قتال میں بھی، جہاں انہوں نے کفار کو قتل بھی کیا اور خود شہادت کے مرتبہ عالیہ سے سرفراز بھی ہوئے۔ لیکن حضرت عثمانؓ وہ پہلے مردصالح ہیں جو امام وقت، خلیفہ راشد اور امیرالمومنین ہوتے ہوئے خودمسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ آپ ؓ محبوب رسول خداہیں، اور محبوب بھی کیسے کہ جن کے حبالہ نکاح میں یکے بعد دیگرے حضورﷺ کی دو صاحبزادیاں آئیں۔ جن کے حسن سلوک سے نبی اکرم ﷺ اتنے خوش تھے کہ یکے بعددیگرے اپنی چالیس بیٹیاں آپؓ کے نکاح میں دینے کیلئے راضی تھے اور جن کے متعلق حضورﷺ نے یہ بشارت دی تھی کہ یعنی(جنت میں ہر نبی کے ساتھ اس کی امت سے ایک رفیق ہوگا اور عثمانؓ میرے رفیق ہیں، وہ جنت میں میرے ساتھ ہوں گے)(ترمذی)۔ وہ بزرگ ہستی انتہائی مظلومیت کی حالت میں قتل ہوئی جو کاتب وحی تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ ”بخدا حضرت عثمانؓ نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوتے اور حضورﷺ پر اس حال میں وحی نازل ہوتی کہ حضور اپنی پشت سے مجھ پر سہارا لگائے ہوئے ہوتے اور حضرت عثمانؓ سے فرماتے کہ لکھو۔ چنانچہ کتب سیر میں منقول ہے کہ جب باغیوںکے حملہ میں حضرت عثمانؓ کا داہنا ہاتھ کاٹا گیا تو آپؓ نے فرمایا” یہ وہی ہاتھ ہے جس نے سور مفصل کو لکھا تھا“.... وہ مبارک شخصیت حالت محصوری میں شہید کی گئی جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے امت پر یہ احسان فرمایا کہ پوری امت کو ایک مصحف پر مجتمع اور متفق کردیا۔ آج ہم جس قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں وہ امت تک بہ کمال و تمام صحت کے ساتھ حضرت عثمانؓ ہی کی بدولت منتقل ہوا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضرت حذیفہؓ آرمینیا اور آذربائیجان کی فتح کے بعد (جو دور عثمانی میں ہوئی تھی) مدینہ تشریف لائے تو انہوں نے حضرت عثمانؓ سے عراق و شام میں قرات قرآن کے اندر مسلمانوںکے اختلاف کا ذکر بڑی تشویش کے ساتھ کیا اور کہا ”یا امیرالمومنین! یہودو نصاریٰ کی طرح کتاب اللہ میں اختلاف ہونے سے پہلے اس کا تدارک کر لیجیے۔ حضرت عثمانؓ نے ام المومنین حضرت حفصہ بنت عمر فاروقؓ سے صدیق اکبرؓ کے دور میں جمع کیا ہوا مصحف منگوا بھیجا اور آپ ؓ نے اس مصحف کو قریش کی زبان کے موافق لکھوایا، اس لئے کہ قریش کی زبان ہی میںقرآن حکیم نازل ہوا تھا، اور اس مصحف کی نقول تمام بلاد اسلامیہ میں بھیج دیں۔ وہ معتمد شخصیت مظلومانہ طور پر شہید کی گئی جس پر رسول اللہ ﷺ کو، صدیق اکبر ؓ کو اور عمرفاروقؓ کو کامل اعتماد تھا اور جو ہر نازک موقع پر مشوروں میں شریک رہے۔ یہ واقعہ تو بہت مشہور ہے کہ مرض الموت میں جب حضرت ابوبکرؓ اپنے جانشین کیلئے حضرت عثمانؓ سے وصیت لکھوا رہے تھے تو حضرت عمرؓ کا نام لکھوانے سے قبل آپؓ پر غشی طاری ہو گئی، لیکن حضرت عثمانؓ نے حضرت عمرؓ کا نام لکھ دیا۔ جب غشی دور ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کہا ”پڑھئے! کیا لکھا ہے“ جب حضرت عمرؓکا نام سنا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ بہت خوش ہوئے اور بہت دعائیں دیں اور کہا” آپ نے عمرؓ کا نام اس لئے لکھ دیا کہ مبادا اس غشی میں میری جان چلی جائے“۔ جنت کے بشارت یافتہ اس امام وقت کا خون ناحق بہایا گیا جن سے احادیث کی معتبر کتابوں میں ایک سو چالیس حدیثیں مروی ہیں، جن میں وہ مشہور حدیث بھی ہے جو صحیح بخاری میں موجود ہے اور ہماری دعوت رجوع الی القرآن میں رہنما اصول کے طور پر شامل ہے کہ”تم میں بہترین وہ ہے جس نے خود قرآن سیکھا اور اسے دوسروں کو سکھایا“۔ آپ کو معلوم ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے خوشخبری دی ہے کہ جس مومن صالح نے چالیس حدیثیں یادکرلیں تو وہ قیامت کے روز علماءکے زمرے میں اٹھایا جائے گا، تو جن کو ایک سو چالیس احادیث نہ صرف یاد ہوں بلکہ انہوں نے آنحضورﷺ سے سن کر روایت کی ہوں، ان کے مرتبے اور مقام علو کا کیا کہنا! اس عالی مقام بزرگ کو شہید کیا گیا جس سے خدا بھی راضی تھا اور رسول اللہﷺ بھی راضی تھے ، چنانچہ مستدرک حاکم میں ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے اپنی صاحبزادی اُمِ کلثوم ؓ سے فرمایا : ”تمہارا شوہر ان لوگوں میں سے ہے جو خدا اور رسول کو دوست رکھتے ہیں اور خدا اور رسول ان کو دوست رکھتا ہے“.... پھر حضورﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ” میں تم سے اس سے بھی زیادہ بیان کرتا ہوں، وہ یہ کہ میں(معراج میں) جب جنت میں داخل ہوا اور عثمان کا مکان دیکھا تو اپنے صحابہ میں سے کسی کا ایسا نہیں دیکھا، ان کا مکان سب سے بلند تھا۔ اس روایت کے ساتھ ہی ابن عباسؓ اپنے اس خیال کا اظہار کرتے ہیں۔”میں کہتا ہوں کہ یہ صبر کرنے کا ثواب ہے“۔ شہادت سے قبل حضرت عثمانؓ تقریباً پچاس دن محاصرے کی حالت میں رہے اور اس دوران بلوائیوں نے پانی کا ایک مشکیزہ تک امام وقت کے گھر میں پہنچنے نہیں دیا۔ ان مفسدین کی شقاوت قلبی دیکھئے کہ اس شخص پر پانی بند کر دیا گیا جس نے اپنی جیب خاص سے بئررومہ خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کیا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ دگرگوں حالات کے باعث ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ حضرت عثمانؓ کے پاس لوگوں کی وہ امانتیں لینے جانا چاہتی تھیں جو آپؓ کے پاس محفوظ تھیں اور ام المومنینؓ نے پانی کا ایک مشکیزہ بھی ساتھ لے لیا، لیکن باغیوں نے نیزوں کے پھلوں سے مشکیزے میںچھیدکردیئے۔ ام المومنینؓ کی شان میں گستاخی کی اور ان کو اندر نہیں جانے دیا۔ یہی واقعہ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے ساتھ پیش آیا۔ حضرت علیؓ نے اپنے ان دونوں صاحبزادوں کے ہاتھ حضرت عثمانؓ کو پانی کی ایک مشک بھیجی۔ ان کا خیال تھا کہ بلوائی کم از کم حسینؓ کا تولحاظ کریں گے۔ لیکن ظالموں نے ان کی بھی پروا نہیں کی اور مشک کو نیزوں سے چھید دیا۔ وقت کی عظیم ترین سلطنت کا فرمانروا، جس کی حدود مملکت کا یہ عالم ہو کہ حضرت ذوالقرنین جیسے عظیم بادشاہ کی سلطنت سے بھی سہ چند.... وہ اگر ذرا اشارہ کردے تو اتنی فوجیں جمع ہو سکتی ہیں جن کا شمار ممکن نہیں۔ مصر، شمالی افریقہ، شام و فلسطین، یمن ، نجد، حجاز، عراق اور ایران کے جان نثار گورنرز، سب ان کے ایک حکم پر لشکر جرارکے ساتھ حاضر ہو سکتے تھے۔ حضرت امیر معاویہؓ انتہائی اصرار کرتے رہے کہ ہم کو اجازت دیجیے کہ ہم ان بلوائیوں، شورش پسندوں، فتنہ گروں اور باغیوں سے نمٹ لیں۔ لیکن حضرت عثمانؓ کی زبان پر ایک حکم تھا:”نہیں۔“ اگر اس پیکر صبرورضا کی زبان سے ایک لفظ بھی اجازت کا نکل جاتا تو بلوائیوں اور باغیوں کی تکہ بوٹی ہو جاتی اور ان کا نام و نشان ڈھونڈے سے بھی نہ ملتا.... صبروتحمل کی عظیم مثال صحابہؓ کہتے ہیں کہ عثمانؓ نے تو ہمارے ہاتھ باندھ دیئے ہیں ، ہم کریں تو کیا کریں۔ بلوائیوں کی کل تعداد اٹھارہ سو تھی۔ بعض لوگ تعجب کرتے ہیں کہ عین دارالخلافہ میں اٹھارہ سو نفوس کس طرح پچاس دن محاصرہ کے بعد خلیفہ وقت کوقتل کرگئے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ حضرت عثمانؓ نے صحابہؓ کو پابندکر دیا تھا کہ میری مدافعت کیلئے تلوار نہیں اٹھائی جائے گی، میں کسی کلمہ گو کے خون کی چھینٹ اپنے دامن پر برداشت نہیں کر سکتا۔ یہ بلوائی بلاشبہ باغی تھے۔ منافق تھے، لیکن تھے تو کلمہ گو۔ یاد کیجیے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے گستاخانہ رویہ پر عمر فاروقؓ نے نبی اکرم سے عرض کیا تھا کہ مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ لیکن حضور نے فرمایا تھا کہ نہیں عمر! وہ کچھ بھی ہو، اس کو کلمہ کا تحفظ حاصل ہے۔عین حالت جنگ میں ایک شخص نے اس وقت جبکہ وہ حضرت اسامہ ؓ کی تلوار کی زد میں آ گیا تھا، کلمہ پڑھ دیا، لیکن انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ انہوں نے وہی کچھ سمجھا جو ایسے موقع پر ہر شخص سمجھتا ہے کہ یہ جان بچانے کیلئے کلمہ پڑھ رہا ہے۔ جب حضور کے علم میں یہ بات آئی تو حضورﷺ نے حضرت اسامہؓ سے اس کے بارے میں دریافت کیاتو انہوں نے بھی کہا کہ حضور! اس نے تو جان بچانے کیلئے کلمہ پڑھا تھا۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: اے اسامہ! قیامت کے دن کیا کرو گے جب وہ کلمہ تمہارے خلاف استغاثہ لے کر آئے گا، جس کی ڈھال ہوتے ہوئے تمہاری تلوار اس شخص کی گردن پر پڑی.... ادھر یہ بلوائی کلمہ کی ڈھال لئے ہوئے تھے، ادھر معاملہ تھا عثمان بن عفانؓ سے، جو ایک طرف”کامل الحیاءوالایمان“ تھے تو دوسری طرف صبروثبات اور حلم و تحمل کی آہنی چٹان تھے۔ ورنہ واقعہ یہ ہے کہ ان بلوائیوں کے خون کا ایک چھینٹا تک ڈھونڈے سے کہیں نظر نہیں آتا۔ اس ضمن میں مغیرہ بن شعبہؓ کی ایک روایت امام احمد بن حنبلؒ نے اپنی مسند میں درج کی ہے۔ حضرت مغیرہؓ بیان کرتے ہیں کہ وہ محاصرہ کی حالت میں حضرت عثمان ؓ کے پاس گئے اور کہا کہ امیرالمومنین! میں آپ کے سامنے تین باتیں پیش کرتا ہوں، ان میں سے کوئی ایک اختیار فرمالیجیے، ورنہ یہ بلوائی آپ کو ناحق قتل کر دیں گے۔ آپؓ نے ان تینوںتجویزوں کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ لڑنے کے متعلق تو یہ ہے کہ میں نہیں چاہتاکہ میں رسول اللہﷺ کی امت میں پہلا خونریز خلیفہ بنوں اور اپنی مدافعت میں مسلمانوںکا خون مسلمانوں کے ہاتھوں بہانے کاسبب بنوں۔ مکہ اس لئے نہیں جاﺅں گا کہ میںنے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا کہ قریش کے جس شخص کی وجہ سے مکہ میں ظلم ہوگا اس پر نصف عالم کے برابر عذاب ہوگا۔ میں نہیں چاہتا کہ میں ہی وہ شخص بنوں جبکہ دارالہجرت اور نبی اکرمﷺ کا قرب چھوڑ کر شام چلے جانا مجھے کس طرح گوارا نہیں۔ابن سیرینؒ سے روایت ہے کہ حضرت زید بن ثابتؓ بلوائیوں کا محاصرہ توڑ کر حضرت عثمانؓ کے پاس آئے اورکہا:”انصار دروازے پر موجود ہیں اور کہتے ہیںکہاگر آپ چاہیں تو ہم دو مرتبہ انصار اللہ بن جائیں۔ حضرت عثمانؓ نے جواب دیا کہ میں قتال کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اسی قسم کی ایک روایت نواسہ  رسول ﷺ حضرت حسنؓ سے بھی مروی ہے”انصار حضرت عثمانؓ کے پاس آئے اور کہا، یا امیر المومنین ہم چاہتے ہیں کہ خدا کی دوسری مرتبہ مدد کریں۔ ایک مرتبہ تو ہم نے رسول اللہ ﷺ کی مدد کی تھی اب دوسری مرتبہ آپ کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت عثمانؓ نے جواب دیا مجھے اس کی ضرورت نہیں، میں اپنے لئے ہرگز خونریزی کی اجازت نہیں دوں گا۔ تم واپس چلے جاﺅ۔ حضرت حسنؓ مزید کہتے ہیں کہ بخدا اگر وہ لوگ صرف چادروں سے آپ ؓ کی حفاظت کرتے تو آپ کو بچا لیتے۔ مظلومیت کے لحاظ سے تاریخ اسلام میں انتہائی المناک، دردناک اور عظیم سانحہ فاجعہ امام برحق، خلیفہ راشد، امیرالمومنین حضرت عثمان غنی ذوالنورینؓ کی شہادت ہے۔ یہ حضرت عثمانؓکا خون ناحق ہی تھا جس کی وجہ سے اللہ کا غضب آیا اور پھر حضرت علیؓ کے دور خلافت میں چوراسی ہزار مسلمان ایک دوسرے کے ہاتھوں شہید ہوئے، خون کی ندیاں بہہ گئیں ، فتوحات کا سلسلہ رک گیا اور فتنہ و فساد بھڑک اٹھا.... مسلمانوں میں ایسا تفرقہ پڑاکہ چودہ سو سال بھی اس کو پاٹ نہ سکے بلکہ وہ ہر دور میں وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔امام مظلوم حضرت عثمانؓ کی شہادت کا واقعہ 18 ذوالحجہ 36 ہجری کوپیش آیا۔ (زیرنظر مضمون ممتاز اسکالر ڈاکٹر اسراراحمد مرحوم کی کتاب”شہید مظلوم حضرت عثمان ذوالنورینؓ“ کے بعض حصوں پر مشتمل ہے)۔ ٭٭٭




 

Kahlown

Senator (1k+ posts)
311_68581414.jpg



Advertisment


شہید مظلوم حضرت عثمان ذوالنورین


311_68581414.jpg

ڈاکٹر اسراراحمد
ہر واقعہ کے کچھ اسباب ظاہری ہوتے ہیں اور کچھ باطنی اور مخفی۔ دراصل موثر کردار یہ باطنی و مخفی اسباب ہی ادا کرتے ہیں۔ چونکہ عام طور پر ظاہری اسباب نظروں کے سامنے ہوتے ہیں لہٰذا ان مخفی اسباب کی طرف توجہ بہت کم مبذول ہوتی ہے بلکہ وہ نظر ہی نہیں آتے۔ آپ تاریخی اعتبار سے اس پر غور کیجیے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کو جو کامیاب فرمایا، آپ کو غلبہ عنایت کیا اور آپ کے مشن کی جزیرہ نمائے عرب کی حد تک آنحضورﷺ کی حیات طیبہ میں تکمیل ہوگئی اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کے مشن اور اسلام کے پیغام کو لے کو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین باہر نکلے تو جو لوگ مفتوح ہوئے اور جن لوگوں نے شکست کھائی، غور کیجیے کہ وہ کون کون لوگ تھے۔ یہ دو بڑے بڑے گروہ تھے۔ پہلا وہ جس نے مذہبی طور پر اور دوسرا وہ جس نے سیاسی طور پر شکست کھائی۔ مذہبی گروہ میں سے مشرکین عرب کا تو تیا پانچا کردیا گیا۔ ان کے حق میں تو سورة التوبہ کی وہ آیات نازل ہوگئیں کہ ان مشرکوں کو چار مہینے کی مہلت ہے، اگر اس کے اندر یہ ایمان لے آئےں تو اس سرزمین میں رہ سکتے ہیں۔ مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ اگر یہ مشرکین اس چار ماہ کی مہلت سے فائدہ نہ اٹھائیں، یعنی نہ ایمان لے آئیں، نہ ترک وطن کریں تو تم ان کو جہاں بھی پاﺅ قتل کرو: ”پس جب محترم مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاﺅ، اور انہیںپکڑو اور گھیرو، اور ہر گھات میں ان کی خبر لینے کیلئے بیٹھو!“(القرآن)۔ ان آیات نے فیصلہ کر دیا کہ مشرکین عرب کے ساتھ کوئی رو رعایت اور کوئی نرمی کا معاملہ نہیں ہوگا۔ اب شرک پر ڈٹے رہنے کے سبب سے ان کو تہ تیغ کر دیا جائے گا اور ان پر عذاب استیصال کی سنت اللہ پوری ہوگی، جو ان قوموں کیلئے مقرر ہے جن کی طرف رسول براہ راست مبعوث کئے جاتے ہیں۔ اور حضور ﷺ ان ہی میں سے اٹھائے گئے تھے اور حضورﷺ کی دعوت کے اولین مخاطب یہی لوگ تھے.... لیکن یہودو نصاریٰ کو ایک رخصت دی گئی کہ تم اپنے دین پر قائم رہ سکتے ہو، البتہ تمہیں چھوٹا بن کر اور مغلوب بن کر رہنا ہوگا اور جزیہ ادا کرنا ہوگا: ”جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حرام قرار دیا ہے۔ اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جز یہ دیں اور چھوٹے ہو کر رہیں“(القرآن)۔ یہ رعایت تھی جو اہل کتاب کے ساتھ اسلام نے کی۔ اس رعایت سے اہل کتاب بالخصوص یہود نے غلط فائدہ اٹھایا۔ ان میں جوش انتقام پہلے ہی سے موجود تھا، ان کی مذہبی سیادت ختم ہو چکی تھی اور ان کے نام نہاد تقویٰ کا بھرم کھل چکا تھا۔ ان کی حیثیت عرب میں بالکلیہ مغلوب اور ذمی کی ہوگئی تھی، جس پر جزیہ کی ادائیگی ان کیلئے بڑی شاق تھی۔ اہل کتاب کے ساتھ قرآن مجید میں جو معاملہ کیا گیا ہے، اس کے بھی دو رخ ہیں۔ قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبوت میں جزیرہ نمائے عرب میں جو نصاریٰ تھے، ان کی قرآن نے کہیں کہیں تعریف و توصیف بھی کی ہے۔ ان میں خدا ترس لوگ موجود تھے، ان میں قبول حق کی استعداد تھی۔ پھر نبی اکرمﷺ کی حیات طیبہ میں نصاریٰ سے کوئی مسلح تصادم اور معرکہ بھی پیش نہیں آیا۔ جبکہ یہود کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ان پر قرآن میں بڑی شدید تنقیدیں ہوئی ہیں۔ سورة البقرہ کے دس رکوعات میں (چوتھے رکوع سے چودھویں رکوع تک) مسلسل ایک قرارداد جرم ہے جو یہودیوں پر عائد کی گئی ہے۔ پھر ان کے تین قبیلوں کو مدینہ سے نکالا گیا۔ ایک قبیلے کی تعدی و سرکشی اور بدعہدی کی وجہ سے خود ان کے مقررکردہ حکم کے فیصلے کے مطابق ان کے جنگ کے قابل تمام مردوں کو تہ تیغ کیا گیا۔ پھر خیبر، جو ان کا مضبوط ترین گڑھ تھا، جہاں مستحکم قلعہ بندیاں تھیں ، اور جہاں مدینہ سے نکلے ہوئے تمام یہودی جمع تھے اور وہ ہر طرح کیل کانٹے سے لیس تھے، وہ بھی مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا۔ لہٰذا سب سے زیادہ زخم خوردہ یہود تھے۔ عیسائی بھی زخم خوردہ تھے لیکن ان کا معاملہ اتنا شدید نہیں تھا جتنا یہودیوں کا تھا۔ لہٰذا انتقام کیلئے سب سے پہلے یہودیوں نے ریشہ دوانیاں اور سازشیں کیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جتنا عظیم سازشی ذہن اس قوم کا ہے اور اس میں اس کو جو مہارت تامہ حاصل ہے اس کا کوئی دوسری قوم مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اسی سازشی ذہن کا پیکر کامل یمن کا ایک یہودی عبداللہ بن سبا تھا، جو بظاہر مسلمان ہوا اور اس نے مسلمانوں میں شامل ہو کر سازشی ریشہ دوانیاں شروع کیں۔ اس شخص نے مفتوحہ علاقوں کے نومسلموں میں اپنے کارکنوں کے ذریعے حضرت عثمانؓ کے خلاف مہم شروع کردی اور ان سیدھے سادے نومسلم عوام کی عقیدتوں کا رخ شخصیت پرستی کی طرف موڑ دیا۔ دوسری جانب سیاسی اعتبار سے دیکھئے، جب اسلام کو عروج حاصل ہوا تو دنیا میں دو عظیم مملکتیں تھیں، ایک سلطنت روما، جو تین براعظموں تک وسیع تھی اور یورپ کے اکثر ممالک، مغربی ایشیا کے چند علاقے اور شمالی افریقہ کے تقریباً تمام ممالک قیصر روم کے زیرنگین یا باج گزار تھے۔ دوسری عظیم سلطنت کسریٰ کی تھی، یعنی ایران، خلافت راشدہ خصوصاً دور فاروقی میں سلطنت کسریٰ کی دھجیاںاڑ گئیں، بلکہ اس کا تو وجود ہی صفحہ ہستی سے محو ہوگیا۔ یہ نتیجہ تھا اس گستاخی کا جو خسرو پرویز نے نبی اکرم ﷺ کے نامہ مبارک کے ساتھ کی تھی، جس کے ذریعے اس کو اسلام کی دعوت دی گئی تھی۔ حضورﷺ نے تو اسی وقت فرما دیا تھا کہ کسریٰ نے میرا نامہ چاک نہیںکیا بلکہ اپنی سلطنت کے پرخچے اڑا دیئے۔ اس گستاخی کی اسے نقد سزا تو یہ ملی کہ اسی وقت سے ایران میں محلاتی سازشوں نے سر اٹھایا جن کے نتیجے میں خسرو پرویز قتل ہوا اور یکے بعد دیگرے مختلف افراد تخت کسریٰ پر متمکن ہوئے۔ جبکہ سلطنت روما کی تو صرف ایک ٹانگ ٹوٹی۔ اس کے صرف مغربی ایشیا کے مقبوضات اور شمالی افریقہ میں سے صرف مصر حضرت عمر فاروقؓ کے دور میںاسلام کے پرچم تلے آئے۔ یورپ کے جو ممالک قیصر روم کے قبضے میں تھے وہ جوں کے توں باقی رہے اور سلطنت روما کی سطوت کافی بڑی حد تک باقی رہی۔ شمالی افریقہ کے دوسرے مقبوضات دور عثمانی میں اسلامی مملکت کے زیرنگیں آئے۔ لیکن جیساکہ میں نے عرض کیا کہ سلطنت کسریٰ کی دور فاروقی میں دھجیاں اڑ گئیں، اس کا تو وجود ہی باقی نہیں رہا....لہٰذا جہاں تک انتقامی جذبات کا معاملہ ہے تو وہ سب سے زیادہ شدید کسریٰ کے اندر موجزن تھے۔ اب آپ غور کیجیے کہ اسلام کے خلاف دو طرفہ سازشیں شروع ہوئیں۔ ایک جانب یہودیوں کی طرف سے جو مذہبی سیادت کے لحاظ سے زخم خوردہ تھے اور دوسری جانب ان مجوسیوںکی طرف سے جو چاہے بظاہر مسلمان ہوگئے ہوں لیکن جو سلطنت کسریٰ کے پرخچے اڑ جانے کی وجہ سے شکست خوردہ تھے اور آتش انتقام میں جل رہے تھے۔ نتیجتاً مذہبی اعتبار سے انتقام کے سب سے زیادہ شدید جذبات یہودیوں میں تھے اور سیاسی اعتبار سے سب سے زیادہ انتقام کے جذبات ان مجوسیوں میں تھے۔ یہ دونوں ہی چاہتے تھے کہ اللہ کے دین کے چراغ کو اپنی ریشہ دوانیوں، سازشوں اور افواہوں سے بجھا دیں۔ اس انتقام کی پہلی کڑی حضرت عمر فاروقؓ کی شہادت تھی، اور اس کے ذریعے خلافت اسلامی کو سبوتاژ کرنا مقصود تھا، لیکن اسلام کے دشمنوں کو اپنے اس مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ حضرت عثمانؓ نے تخت خلافت پر متمکن ہونے کے بعد حالات پر پوری طرح قابو پالیا، بلکہ داخلی امن و امان اور استحکام کے ساتھ تمام شورشیں اور بغاوتیں نہ صرف فرو کر ڈالیں بلکہ فتوحات کادائرہ وسیع تر ہونے لگا تو اب یہودی سازشی ذہن اور آگے بڑھا۔ اس نے اپنی وہ خفیہ کارروائیاں تیز کردیں جن کی داغ بیل عبداللہ بن سبا دور صدیقی میں ڈال چکا تھا۔ اس سازشی کام کیلئے اس کو ایران کی زمین سب سے زیادہ سازگار نظر آئی۔ یہاں وہ عنصر بھی اچھی خاصی تعداد میں موجود تھا جو بظاہر مسلمان لیکن ذہناً مجوسی اور شاہ پرست تھا اور انتقام کی آگ میں جل رہا تھا، اور وہ سیدھے سادے عوام بھی موجود تھے جن کی گھٹی میں شخصیت پرستی اور ہیرو ورشپ (Heroworship) پڑی ہوئی تھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ عبداللہ بن سباکی سازش کم نہیں تھی۔ لیکن اسلام اللہ کا آخری دین ہے، نبی اکرم ﷺ آخری نبی رسول ہیں، اور قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہدایت ہے، جسے اللہ نے محفوظ رکھنے کی خود ذمہ داری لی ہوئی ہے۔ اللہ کی طرف سے اٹل فیصلہ ہوچکا تھا۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی شخصیت کو مسخ کیاگیااور دین کا حلیہ بگاڑ دیا گیا تو قرآن نے آ کر تصحیح کردی اور دین حق مبرہن ہوگیا۔ اگر حضورﷺ کی شخصیت کو اور آپ کے لائے ہوئے دین کو مسخ کر دیا جاتا تو پھر کون تھا جو اس کی تصحیح کرتا؟ چونکہ نبی اکرمﷺ خاتم النبین اور ختم المرسلین ہیں۔ لہٰذا حضور کی شخصیت، دین اسلام اورقرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی تحفظ عطا ہوا۔ نیز امت مسلمہ کو یہ فضیلت بھی عطا ہوئی کہ امت کے علماءحق کا مقام حضورﷺ کے ارشاد گرامی کے مطابق انبیائے بنی اسرائیل کے مطابق قرار پایا۔ مزید برآں حضور ﷺ نے یہ خوشخبری بھی سنائی کہ میری امت کا ایک گروہ ہر دور میں حق پر قائم رہے گا.... لہٰذا یہ سازش بالکل کامیاب نہیں ہوئی اور نہ ہو سکتی تھی۔ لیکن اس سازش کے وہ گندے اور نجس انڈے بچے تھے جن کے ہاتھوں خلیفہ ثالث عثمان غنی ؓ شہید ہوئے اور علوی خلافت کا پورا دور فتنہ و فساد اور خانہ جنگی کی نذر ہوگیا اور اس دور میں چوراسی ہزار مسلمان ایک دوسرے کی تلواروں سے شہید ہوئے ۔ یہ درحقیقت حضرت عثمان ؓکی مظلومانہ شہادت کا خمیازہ تھا۔ جب کسی حقیقی بندہ مومن کو ستایا جاتا ہے، جب کسی مومن صادق کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایاجاتا ہے، جب کسی اللہ والے کے دل کو دکھایا جاتا ہے، جب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے کسی محبوب کا ناحق خون بہایا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا غیظ و غضب بھڑکتا ہے اور مختلف صورتوں میں عذاب الٰہی ظہور ہوتا ہے، جس کی ایک بڑی المناک صورت آپس کی خانہ جنگی اور خون ریزی ہوتی ہے۔ جو ہمیں دور علوی میں نظر آتی ہے۔ مظلوم ترین شہادت اسلام کی تاریخ قربانیوں اور شہادتوں سے بھری پڑی ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ”شہید مظلوم“ حضرت عثمان غنی ؓ ہیں۔ اس سے قبل مسلمان کفار کے ہاتھوں شہید ہوئے، انفرادی طور پر بھی اور میدان قتال میں بھی، جہاں انہوں نے کفار کو قتل بھی کیا اور خود شہادت کے مرتبہ عالیہ سے سرفراز بھی ہوئے۔ لیکن حضرت عثمانؓ وہ پہلے مردصالح ہیں جو امام وقت، خلیفہ راشد اور امیرالمومنین ہوتے ہوئے خودمسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ آپ ؓ محبوب رسول خداہیں، اور محبوب بھی کیسے کہ جن کے حبالہ نکاح میں یکے بعد دیگرے حضورﷺ کی دو صاحبزادیاں آئیں۔ جن کے حسن سلوک سے نبی اکرم ﷺ اتنے خوش تھے کہ یکے بعددیگرے اپنی چالیس بیٹیاں آپؓ کے نکاح میں دینے کیلئے راضی تھے اور جن کے متعلق حضورﷺ نے یہ بشارت دی تھی کہ یعنی(جنت میں ہر نبی کے ساتھ اس کی امت سے ایک رفیق ہوگا اور عثمانؓ میرے رفیق ہیں، وہ جنت میں میرے ساتھ ہوں گے)(ترمذی)۔ وہ بزرگ ہستی انتہائی مظلومیت کی حالت میں قتل ہوئی جو کاتب وحی تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ ”بخدا حضرت عثمانؓ نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوتے اور حضورﷺ پر اس حال میں وحی نازل ہوتی کہ حضور اپنی پشت سے مجھ پر سہارا لگائے ہوئے ہوتے اور حضرت عثمانؓ سے فرماتے کہ لکھو۔ چنانچہ کتب سیر میں منقول ہے کہ جب باغیوںکے حملہ میں حضرت عثمانؓ کا داہنا ہاتھ کاٹا گیا تو آپؓ نے فرمایا” یہ وہی ہاتھ ہے جس نے سور مفصل کو لکھا تھا“.... وہ مبارک شخصیت حالت محصوری میں شہید کی گئی جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے امت پر یہ احسان فرمایا کہ پوری امت کو ایک مصحف پر مجتمع اور متفق کردیا۔ آج ہم جس قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں وہ امت تک بہ کمال و تمام صحت کے ساتھ حضرت عثمانؓ ہی کی بدولت منتقل ہوا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضرت حذیفہؓ آرمینیا اور آذربائیجان کی فتح کے بعد (جو دور عثمانی میں ہوئی تھی) مدینہ تشریف لائے تو انہوں نے حضرت عثمانؓ سے عراق و شام میں قرات قرآن کے اندر مسلمانوںکے اختلاف کا ذکر بڑی تشویش کے ساتھ کیا اور کہا ”یا امیرالمومنین! یہودو نصاریٰ کی طرح کتاب اللہ میں اختلاف ہونے سے پہلے اس کا تدارک کر لیجیے۔ حضرت عثمانؓ نے ام المومنین حضرت حفصہ بنت عمر فاروقؓ سے صدیق اکبرؓ کے دور میں جمع کیا ہوا مصحف منگوا بھیجا اور آپ ؓ نے اس مصحف کو قریش کی زبان کے موافق لکھوایا، اس لئے کہ قریش کی زبان ہی میںقرآن حکیم نازل ہوا تھا، اور اس مصحف کی نقول تمام بلاد اسلامیہ میں بھیج دیں۔ وہ معتمد شخصیت مظلومانہ طور پر شہید کی گئی جس پر رسول اللہ ﷺ کو، صدیق اکبر ؓ کو اور عمرفاروقؓ کو کامل اعتماد تھا اور جو ہر نازک موقع پر مشوروں میں شریک رہے۔ یہ واقعہ تو بہت مشہور ہے کہ مرض الموت میں جب حضرت ابوبکرؓ اپنے جانشین کیلئے حضرت عثمانؓ سے وصیت لکھوا رہے تھے تو حضرت عمرؓ کا نام لکھوانے سے قبل آپؓ پر غشی طاری ہو گئی، لیکن حضرت عثمانؓ نے حضرت عمرؓ کا نام لکھ دیا۔ جب غشی دور ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کہا ”پڑھئے! کیا لکھا ہے“ جب حضرت عمرؓکا نام سنا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ بہت خوش ہوئے اور بہت دعائیں دیں اور کہا” آپ نے عمرؓ کا نام اس لئے لکھ دیا کہ مبادا اس غشی میں میری جان چلی جائے“۔ جنت کے بشارت یافتہ اس امام وقت کا خون ناحق بہایا گیا جن سے احادیث کی معتبر کتابوں میں ایک سو چالیس حدیثیں مروی ہیں، جن میں وہ مشہور حدیث بھی ہے جو صحیح بخاری میں موجود ہے اور ہماری دعوت رجوع الی القرآن میں رہنما اصول کے طور پر شامل ہے کہ”تم میں بہترین وہ ہے جس نے خود قرآن سیکھا اور اسے دوسروں کو سکھایا“۔ آپ کو معلوم ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے خوشخبری دی ہے کہ جس مومن صالح نے چالیس حدیثیں یادکرلیں تو وہ قیامت کے روز علماءکے زمرے میں اٹھایا جائے گا، تو جن کو ایک سو چالیس احادیث نہ صرف یاد ہوں بلکہ انہوں نے آنحضورﷺ سے سن کر روایت کی ہوں، ان کے مرتبے اور مقام علو کا کیا کہنا! اس عالی مقام بزرگ کو شہید کیا گیا جس سے خدا بھی راضی تھا اور رسول اللہﷺ بھی راضی تھے ، چنانچہ مستدرک حاکم میں ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے اپنی صاحبزادی اُمِ کلثوم ؓ سے فرمایا : ”تمہارا شوہر ان لوگوں میں سے ہے جو خدا اور رسول کو دوست رکھتے ہیں اور خدا اور رسول ان کو دوست رکھتا ہے“.... پھر حضورﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ” میں تم سے اس سے بھی زیادہ بیان کرتا ہوں، وہ یہ کہ میں(معراج میں) جب جنت میں داخل ہوا اور عثمان کا مکان دیکھا تو اپنے صحابہ میں سے کسی کا ایسا نہیں دیکھا، ان کا مکان سب سے بلند تھا۔ اس روایت کے ساتھ ہی ابن عباسؓ اپنے اس خیال کا اظہار کرتے ہیں۔”میں کہتا ہوں کہ یہ صبر کرنے کا ثواب ہے“۔ شہادت سے قبل حضرت عثمانؓ تقریباً پچاس دن محاصرے کی حالت میں رہے اور اس دوران بلوائیوں نے پانی کا ایک مشکیزہ تک امام وقت کے گھر میں پہنچنے نہیں دیا۔ ان مفسدین کی شقاوت قلبی دیکھئے کہ اس شخص پر پانی بند کر دیا گیا جس نے اپنی جیب خاص سے بئررومہ خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کیا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ دگرگوں حالات کے باعث ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ حضرت عثمانؓ کے پاس لوگوں کی وہ امانتیں لینے جانا چاہتی تھیں جو آپؓ کے پاس محفوظ تھیں اور ام المومنینؓ نے پانی کا ایک مشکیزہ بھی ساتھ لے لیا، لیکن باغیوں نے نیزوں کے پھلوں سے مشکیزے میںچھیدکردیئے۔ ام المومنینؓ کی شان میں گستاخی کی اور ان کو اندر نہیں جانے دیا۔ یہی واقعہ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے ساتھ پیش آیا۔ حضرت علیؓ نے اپنے ان دونوں صاحبزادوں کے ہاتھ حضرت عثمانؓ کو پانی کی ایک مشک بھیجی۔ ان کا خیال تھا کہ بلوائی کم از کم حسینؓ کا تولحاظ کریں گے۔ لیکن ظالموں نے ان کی بھی پروا نہیں کی اور مشک کو نیزوں سے چھید دیا۔ وقت کی عظیم ترین سلطنت کا فرمانروا، جس کی حدود مملکت کا یہ عالم ہو کہ حضرت ذوالقرنین جیسے عظیم بادشاہ کی سلطنت سے بھی سہ چند.... وہ اگر ذرا اشارہ کردے تو اتنی فوجیں جمع ہو سکتی ہیں جن کا شمار ممکن نہیں۔ مصر، شمالی افریقہ، شام و فلسطین، یمن ، نجد، حجاز، عراق اور ایران کے جان نثار گورنرز، سب ان کے ایک حکم پر لشکر جرارکے ساتھ حاضر ہو سکتے تھے۔ حضرت امیر معاویہؓ انتہائی اصرار کرتے رہے کہ ہم کو اجازت دیجیے کہ ہم ان بلوائیوں، شورش پسندوں، فتنہ گروں اور باغیوں سے نمٹ لیں۔ لیکن حضرت عثمانؓ کی زبان پر ایک حکم تھا:”نہیں۔“ اگر اس پیکر صبرورضا کی زبان سے ایک لفظ بھی اجازت کا نکل جاتا تو بلوائیوں اور باغیوں کی تکہ بوٹی ہو جاتی اور ان کا نام و نشان ڈھونڈے سے بھی نہ ملتا.... صبروتحمل کی عظیم مثال صحابہؓ کہتے ہیں کہ عثمانؓ نے تو ہمارے ہاتھ باندھ دیئے ہیں ، ہم کریں تو کیا کریں۔ بلوائیوں کی کل تعداد اٹھارہ سو تھی۔ بعض لوگ تعجب کرتے ہیں کہ عین دارالخلافہ میں اٹھارہ سو نفوس کس طرح پچاس دن محاصرہ کے بعد خلیفہ وقت کوقتل کرگئے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ حضرت عثمانؓ نے صحابہؓ کو پابندکر دیا تھا کہ میری مدافعت کیلئے تلوار نہیں اٹھائی جائے گی، میں کسی کلمہ گو کے خون کی چھینٹ اپنے دامن پر برداشت نہیں کر سکتا۔ یہ بلوائی بلاشبہ باغی تھے۔ منافق تھے، لیکن تھے تو کلمہ گو۔ یاد کیجیے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے گستاخانہ رویہ پر عمر فاروقؓ نے نبی اکرم سے عرض کیا تھا کہ مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ لیکن حضور نے فرمایا تھا کہ نہیں عمر! وہ کچھ بھی ہو، اس کو کلمہ کا تحفظ حاصل ہے۔عین حالت جنگ میں ایک شخص نے اس وقت جبکہ وہ حضرت اسامہ ؓ کی تلوار کی زد میں آ گیا تھا، کلمہ پڑھ دیا، لیکن انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ انہوں نے وہی کچھ سمجھا جو ایسے موقع پر ہر شخص سمجھتا ہے کہ یہ جان بچانے کیلئے کلمہ پڑھ رہا ہے۔ جب حضور کے علم میں یہ بات آئی تو حضورﷺ نے حضرت اسامہؓ سے اس کے بارے میں دریافت کیاتو انہوں نے بھی کہا کہ حضور! اس نے تو جان بچانے کیلئے کلمہ پڑھا تھا۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: اے اسامہ! قیامت کے دن کیا کرو گے جب وہ کلمہ تمہارے خلاف استغاثہ لے کر آئے گا، جس کی ڈھال ہوتے ہوئے تمہاری تلوار اس شخص کی گردن پر پڑی.... ادھر یہ بلوائی کلمہ کی ڈھال لئے ہوئے تھے، ادھر معاملہ تھا عثمان بن عفانؓ سے، جو ایک طرف”کامل الحیاءوالایمان“ تھے تو دوسری طرف صبروثبات اور حلم و تحمل کی آہنی چٹان تھے۔ ورنہ واقعہ یہ ہے کہ ان بلوائیوں کے خون کا ایک چھینٹا تک ڈھونڈے سے کہیں نظر نہیں آتا۔ اس ضمن میں مغیرہ بن شعبہؓ کی ایک روایت امام احمد بن حنبلؒ نے اپنی مسند میں درج کی ہے۔ حضرت مغیرہؓ بیان کرتے ہیں کہ وہ محاصرہ کی حالت میں حضرت عثمان ؓ کے پاس گئے اور کہا کہ امیرالمومنین! میں آپ کے سامنے تین باتیں پیش کرتا ہوں، ان میں سے کوئی ایک اختیار فرمالیجیے، ورنہ یہ بلوائی آپ کو ناحق قتل کر دیں گے۔ آپؓ نے ان تینوںتجویزوں کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ لڑنے کے متعلق تو یہ ہے کہ میں نہیں چاہتاکہ میں رسول اللہﷺ کی امت میں پہلا خونریز خلیفہ بنوں اور اپنی مدافعت میں مسلمانوںکا خون مسلمانوں کے ہاتھوں بہانے کاسبب بنوں۔ مکہ اس لئے نہیں جاﺅں گا کہ میںنے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا کہ قریش کے جس شخص کی وجہ سے مکہ میں ظلم ہوگا اس پر نصف عالم کے برابر عذاب ہوگا۔ میں نہیں چاہتا کہ میں ہی وہ شخص بنوں جبکہ دارالہجرت اور نبی اکرمﷺ کا قرب چھوڑ کر شام چلے جانا مجھے کس طرح گوارا نہیں۔ابن سیرینؒ سے روایت ہے کہ حضرت زید بن ثابتؓ بلوائیوں کا محاصرہ توڑ کر حضرت عثمانؓ کے پاس آئے اورکہا:”انصار دروازے پر موجود ہیں اور کہتے ہیںکہاگر آپ چاہیں تو ہم دو مرتبہ انصار اللہ بن جائیں۔ حضرت عثمانؓ نے جواب دیا کہ میں قتال کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اسی قسم کی ایک روایت نواسہ رسول ﷺ حضرت حسنؓ سے بھی مروی ہے”انصار حضرت عثمانؓ کے پاس آئے اور کہا، یا امیر المومنین ہم چاہتے ہیں کہ خدا کی دوسری مرتبہ مدد کریں۔ ایک مرتبہ تو ہم نے رسول اللہ ﷺ کی مدد کی تھی اب دوسری مرتبہ آپ کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت عثمانؓ نے جواب دیا مجھے اس کی ضرورت نہیں، میں اپنے لئے ہرگز خونریزی کی اجازت نہیں دوں گا۔ تم واپس چلے جاﺅ۔ حضرت حسنؓ مزید کہتے ہیں کہ بخدا اگر وہ لوگ صرف چادروں سے آپ ؓ کی حفاظت کرتے تو آپ کو بچا لیتے۔ مظلومیت کے لحاظ سے تاریخ اسلام میں انتہائی المناک، دردناک اور عظیم سانحہ فاجعہ امام برحق، خلیفہ راشد، امیرالمومنین حضرت عثمان غنی ذوالنورینؓ کی شہادت ہے۔ یہ حضرت عثمانؓکا خون ناحق ہی تھا جس کی وجہ سے اللہ کا غضب آیا اور پھر حضرت علیؓ کے دور خلافت میں چوراسی ہزار مسلمان ایک دوسرے کے ہاتھوں شہید ہوئے، خون کی ندیاں بہہ گئیں ، فتوحات کا سلسلہ رک گیا اور فتنہ و فساد بھڑک اٹھا.... مسلمانوں میں ایسا تفرقہ پڑاکہ چودہ سو سال بھی اس کو پاٹ نہ سکے بلکہ وہ ہر دور میں وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔امام مظلوم حضرت عثمانؓ کی شہادت کا واقعہ 18 ذوالحجہ 36 ہجری کوپیش آیا۔ (زیرنظر مضمون ممتاز اسکالر ڈاکٹر اسراراحمد مرحوم کی کتاب”شہید مظلوم حضرت عثمان ذوالنورینؓ“ کے بعض حصوں پر مشتمل ہے)۔ ٭٭٭


http://dunya.com.pk/?key=bklEPTMxMSZjYXRlSUQ9c3BlY2lhbF9hcmM=

 

amfah

MPA (400+ posts)
yani janab ney baqi sarey quran julwa diye aur hazrat abubakar wala quran aam kerwa diya.is liye tu quran ke asal tarteed he thek nahen.pehley ayat the iqra bey isme...aur yehan bimisllah key baad alhumd.
aur akhre ayat the alyoma akmulto aur yehan sora kausar.
woh hazrat ali ney jo quran juma ker key diya tha woh bhi sahab ney julwa diya tha why.
mumnohan singh ager 50 saal bad eman ley aye aur mien us ko kehon syedna manmohan tu log kahen gey ***** ho gaya hay woh syed nahen.jeb woh syedena nahen bun sekta tu baki log kaisey?
 

amfah

MPA (400+ posts)
why hazrat usman ka lasha hash e kokab jo key yahodiyon ka qabristan tha wehan 3 din pera reha koi musliman janaza perhney ko razi nahen tha.aur yehan tek key dead body ke ek tang ***** kha gaye teb sahaba akram ney tadfeen ke aur baad mien bunu umayah ney jana tu baqeh ko hashe kokob key sath mila diya .
kiya insaf hay.?
 

angryoldman

Minister (2k+ posts)
yani janab ney baqi sarey quran julwa diye aur hazrat abubakar wala quran aam kerwa diya.is liye tu quran ke asal tarteed he thek nahen.pehley ayat the iqra bey isme...aur yehan bimisllah key baad alhumd.
aur akhre ayat the alyoma akmulto aur yehan sora kausar.
woh hazrat ali ney jo quran juma ker key diya tha woh bhi sahab ney julwa diya tha why.
mumnohan singh ager 50 saal bad eman ley aye aur mien us ko kehon syedna manmohan tu log kahen gey ***** ho gaya hay woh syed nahen.jeb woh syedena nahen bun sekta tu baki log kaisey?

is main tumhara qasoor nahi hai tumhary baron ka qasoor hai.kiun keh jo tumhe batyaa gia hai wohi tum ny jana hai .khud se janany ki koshash karo to afaqa hoga..........
 

muntazir

Chief Minister (5k+ posts)
is main tumhara qasoor nahi hai tumhary baron ka qasoor hai.kiun keh jo tumhe batyaa gia hai wohi tum ny jana hai .khud se janany ki koshash karo to afaqa hoga..........


Mr angry old man why not you ask him to provide proof without that thing u cannot blame him debate with him and ask him to provide refrences im assure you will follow my advice then see wat was happend on that time.
 

tariisb

Chief Minister (5k+ posts)
yani janab ney baqi sarey quran julwa diye aur hazrat abubakar wala quran aam kerwa diya.is liye tu quran ke asal tarteed he thek nahen.pehley ayat the iqra bey isme...aur yehan bimisllah key baad alhumd.
aur akhre ayat the alyoma akmulto aur yehan sora kausar.
woh hazrat ali ney jo quran juma ker key diya tha woh bhi sahab ney julwa diya tha why.
mumnohan singh ager 50 saal bad eman ley aye aur mien us ko kehon syedna manmohan tu log kahen gey ***** ho gaya hay woh syed nahen.jeb woh syedena nahen bun sekta tu baki log kaisey?


معجزات قرانی ، بہت زیادہ ہیں ، مگر سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ یہ "غیر متبدل ، نا قابل تحریف" ہے ، یہ ہمارا اعزاز نہیں الله پاک کا "وعدہ" ہے ،


لہٰذہ بحیثیت مسلمان ، ہمیں اس "الکتاب" کے مقام و مرتبہ پر ایمان رکھنا چاہیے ،


کیا حضرت علی کا مرتب کردہ کوئی نسخہ موجود ہے ؟ اگر ہے تو ضرور بتائیے گا ،