حضرت علیؑ کا ایک تعارف

Status
Not open for further replies.

WatanDost

Chief Minister (5k+ posts)
How ALLAH SWT Honoured Hazrat ABU Bakr Siddique RA with KHILAFA ???


Re: Khilafat


quote_icon.png
Originally Posted by sajhassan
My Dear Friend, first of all I must appreciate that how nicely you are presenting your arguments without getting flared up and imposing personal allegations on the opponent. If we Pakistanis can only learn that our society will become a much better place to live. I will try to follow your steps in this regard.




دوست
آپ کی عزت افزائی کا شکریہ ، اختلاف اگر دلیل کے ساتھ ہو تو چاہے فریق آخر میں متفق نہ بھی
ہو پائیں پھر بھی نئی جہتیں ہر دو فریق پر وا ہوتیں ہیں گویہ کے کچھ سیکھنے کو ہی ملتا ہے اور
علم میں اضافہ ہی ہوتا ہے یعنی سیکھنے کا عمل جاری رہتا ہے





quote_icon.png
Originally Posted by sajhassan
Sir, earlier you said, Allah's will (raza) is Mohammad (S.A.W), and Muhammad's (S.A.W) will is Abu Bakar (may Allah be pleased with him). And now you are saying, Khilafat is a burden not honorabillity. I beg to differ here. If Khilafat was supposed to be by the will of Prophet (S.A.W) (indirectly by the will of Allah) (and I am sure it was so) then it was surly an honorabillity and not burden. Because Allah does not burden any one beyond one's capacity. By your logic Hazrat Abu Bakar (may Allah be pleased with him) came out of Saqifa with a burden instead of the honorabillity. Whereas, he (may Allah be pleased with him) could have easily converted that burden into honorabillity by saying, I am will of the Prophet (S.A.W), or at least that burden could have easily been avoided till the burial of the Prophet (S.A.W).





إِنَّ ٱللَّهَ يَأْمُرُ*كُمْ أَن تُؤَدُّوا ٱلْأَمَـٰنَـٰتِ إِلَىٰٓ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ ٱلنَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِٱلْعَدْلِ ۚ...﴿٥٨﴾...سورة النساء
''اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ وہ اجتماعی ذمہ داریوں کو ان کے اہل افراد کو ادا کریں اور لوگوں میں انصاف کا مرحلہ درپیش ہو تو شریعت ِاسلامیہ سے ہی فیصلہ کریں ۔''

حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: میں اورمیرے دو عم زاد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ان دونوں میں سے ایک نے کہا:اے اللہ کے رسول اللہ نے آپ کو جو ولایت عطا کی ہے اس میں کچھ حصہ ہمیں بھی دے دیں اور دوسرے شخص نے بھی ایسی ہی بات کہی، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ کی قسم ہم یہ کام کسی ایسے شخص کو نہیں سونپ سکتے جو اس کا طلب گار ہو یا اس کی خواہش رکھتا ہو ( صحیح مسلم حدیث نمبر ۱۷۳۳)


یہ آیت اسلام کے نظامِ سیاسی کا مرکز و محور ہے جس میں کئی بنیادی تصورات کی نشاندہی کی گئی ہے، مثلاً
اللہ تعالیٰ نے مناصب یعنی ذمہ داریاں اہل افراد کے سپرد کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور اہل افراد کو ذمہ داری تفویض (ادا)کرنا ایک فرض ہے، نہ کہ حق۔ اس فرض کے مخاطب ومکلف متعدد مفسرصحابہؓ وتابعین رحمة اللہ علیہ کے نزدیک عوام الناس کی بجائے مسلمانوں کے اہل حل وعقد یا ذمہ دار لوگ (مسلمانوں کے اولیا واُمرا) ہیں ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی عبد الرحمن بن سمرہ ؓ سے فرمایا: اے عبدالرحمن بن سمرہ امارت کے طالب نہ بنو، کیوں کہ اگر یہ تم کو مانگنے سے ملے گی تو تم پر بوجھ بن جائے گی اور اگر بے طلب ملے گی تو تم کو ہمہ جہت تعاون حاصل ہوگا بخاری: حدیث نمبر۷۱۴۶، مسلم : حدیث نمبر ۱۶۵۲)


جو شخص اس ذمہ داری کو صحیح طورپر انجام نہیں دیتا، اس کے بارے میں زبانِ نبویؐ سے شدید وعید آئی ہے:
قال رسول اﷲ ﷺ: إذا ضُیِّعَتِ الأمانة فانتظر الساعة قال: کیف إضاعتها؟ قال : إذا وُسِّد الأمر إلی غیر أھله فانتظر الساعة
''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب امانت ضائع کی جانے لگے تو پھر قیامت کا انتظارکرو۔ صحابہ نے پوچھا: یارسول اللہ! امانت کے ضیاع سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا کہ جب ذمہ داریوں کو نااہل افراد کے سپرد کیا جانے لگے تو پھر قیامت کا انتظار کرو۔''
[SUB].[/SUB] صحیح بخاری: 59


سلام کی نظر میں یہ منصب اور ذمہ داری ایک اعزاز کی بجائے ایسی ذمہ داری اور امانت ہے جس کا محاسبہ بڑا شدید ہوگا۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
إنها أمانة وإنها یوم القیامة خزي وندامة، إلا من أخَذَها بحقها وأدّٰی الذي علیه فیها
''یہ منصب ایک ذمہ داری ہے جو روزِ قیامت رسوائی اور ندامت کا موجب ٹھہرے گی۔ ماسوا اس شخص کے جو اس حالت میں اس پر فائز ہوا کہ وہ اس کا حق رکھتا تھا او راس نے اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی پوری کوشش کی۔''
صحیح مسلم:1825










quote_icon.png
Originally Posted by sajhassan

You have pointed towards a very famous incident named in history as Waiqa-e- Qalam-o-Qirtas. And you seem to suggest here that it was Ali (Banu Hasim) who was hoping to be honored with Khilafat and it was Hazrat Abbass (may Allah be pleased with him) who did not let the Prophet (S.A.W) to write his will. Then who was that person who said, Humaray liey Quran hi kafi hai, when Prophet (S.A.W) asked pen and paper to write his (S.A.W) will, with the ultimate goal to refrain his (S.A.W) Ummat from aberration (deviance).






عن ابن عباس أنَّ علي ابن أبي طالبٍ خَرَجَ من عند رسول اللّٰه ﷺ في وجعه الذي تُوَفِّي به فقال الناس: یا أبَا حسنً! کیف أصبح رسول اللّٰه ﷺ؟'' فقال: ''أصبح بحمد اللّٰه بارئاً۔'' فَأخَذ بیده عباس بن عبد المطلب فقال له: ''أنت واللّٰه بعد ثلاثٍ عبد العصا، وإني واللّٰه لَا أریٰ رسول اللّٰه ﷺ سوف یتوفّٰی في وجعه ھذا إنّي لَأعْرف وجوہَ بني عبد المطلب عند الموتِ، اذھب بنا إلی رسول اللّٰه ﷺ فَلْنَسْأله فیمن ھذا الأمر إن کان فینا عَلِمْنَا وإن کان في غیرنا علمناہ فأوصٰی بنا۔'' فقال علِیٌّ أنا واللّٰه لإن سئلناھا فمنعناھا لا یعطیناھا الناس بعده واِنّي واللّٰه لا أسئلھا رسول اللّٰه ﷺ۔ (بخاری، باب مرض النبی)

حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی بیماری کے دوران جس میں آپ ﷺ کی وفات ہوئی۔ حضرت علیؓ آپ کے پاس سے باہر نکلے۔ لوگوں نے پوچھا: ''اے ابو الحسن! آج آپ ﷺ کا مزاج کیسا ہے؟'' حضرت علیؓ نے کہا۔ ''بحمد اللہ تندرست ہیں'' یہ سُن کر عباسؓ نے حضرت علیؓ کا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگے۔ ''خدا کی قسم۔ تین دن کے بعد تم غلام بن جاؤ گے۔ اور میں بخدا آنحضرت ﷺ کے چہرہ پردہ آثار دیکھ رہا ہوں جو بنی عبد المطلب کے خاندان کے لوگوں کے منہ پر بوقت وفات ظاہر ہوتے ہیں۔ سو آؤ حضور اکرم ﷺ کے پاس چلیں اور امر خلافت کے متعلق پوچھ لیں۔ اگر ہمیں ملتی ہے تو بھی معلوم ہو جائے گا اور دوسروں کو ملتی ہے تو پتہ چل جائے گا۔ تاکہ حضورؐ ہمارے متعلق (حسنِ سلوک کی) وصیت ہی کر جائیں۔'' حضرت علیؓ نے کہا: ''خدا کی قسم! اگر ہم نے حضور ﷺ سے یہ سوال کیا اور انہوں نے انکار کر دیا تو پھر لوگ آئندہ کبھی خلافت نہ دیں گے۔ لہٰذا بخدا میں حضور اکرم ﷺ سے کبھی یہ سوال نہیں کروں گا۔''

اس واقعہ سے چند دن پہلے (وفات النبیﷺ سے چار دن قبل) مشہور واقعہ قرطاس بھی پیش آیا تھا۔ اس کے راوی عبد اللہ بن عباس ہیں۔


quote_icon.png
Originally Posted by sajhassan

Then Ali was supposed to be there in Saqifa to carry that Burden and other Companions were supposed to be Honored with the chance to bury their beloved Prophet (S.A.W).






ادھر صحابہؓ کبار رسول اللہ ﷺ کی تجہیز و تکفین میں مصروف تھے۔ ادھر انصار کے کچھ لوگ سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے۔ یہ انصار بھی خلافت کے امیدوار تھے۔ بلحاظ آبادی یہ مدینہ میں اکثریت میں تھے۔ اور دو قبیلوں اوس اور خزرج پر مشتمل تھے۔ ان کے سردار سعد بن عبادہ۔ جو خزرج سے تعلق رکھتے تھے۔ خلافت کے امیدوار تھے۔ انہوں نے ہی اپنے ساتھیوں کو یہاں امر خلافت طے کرنے کے لئے اکٹھا کیا تھا۔ انہیں حضور اکرمؐ کا یہ ارشاد إذا بویع للخليفتین فاقتلوا آخرھما (مسلم کتاب الامارۃ) (جب دو خلیفوں کی بیعت ہونے لگے تو پچھلے کو قتل کر دو) خوب یاد تھا۔ اس لئے وہ چاہتے تھے کہ اس موقع کو غنیمت جان کر فوری طور پر امیر کا انتخاب کر لیا جائے۔ انہیں یہ بھی علم تھا کہ اگر مہاجر بھی یہاں پہنچ گئے تو پھر ان کی دال نہیں گلے گی۔ لہٰذا وہ اس معاملہ کو جلد از جلد طے کرنے پر تلے ہوئے تھے اور یہ بات چیت شروع کر دی تھی۔ اس واقعہ کی اطلاع جس طرح مہاجرین کو ہوئی وہ حضرت عمرؓ کی زبانی سنیے :

بینما نحن في منزل رسول اللّٰه ﷺ إذا رجل ینادي من وراء الجدار أن اخرج اِلیَّ یا ابن الخطاب۔ فقلت: إلیك عَنِّي فإنا عنك مشاغیل۔ یعني بأمرِ رسول اللّٰه ﷺ فقال له: قد حَدَثَ أمْرٌ فإن الأنصار اجتمعوا في سقیفة بني ساعدة فأدرکوھم أن یُحدِّثُوا أمرًا أن یکون فیه حَزبٌ. فقلت لأبي بکرٍ اِنْطَلِقْ.

ہم رسول اللہ ﷺ کے خانہ مبارک میں بیٹھے ہوئے تھے کہ دفعۃً دیوار کے پیچھے سے ایک آدمی (مغیرہ بن شعبہ) نے آواز دی۔ اے ابن الخطاب ذرا باہر آؤ۔ میں نے کہا۔ چلو ہٹو! ہم لوگ آنحضرت ﷺ کے بندو بست میں مشغول ہیں۔'' اس نے کہا کہ ایک حادثہ پیش میں آیا ہے یعنی انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں اکٹھے ہوئے ہیں۔ اس لئے جلد پہنچ کر ان کی خبر لو۔ ایسا نہ ہو کہ انصار کچھ ایسی باتیں کر بیٹھیں جس سے لڑائی چھڑ جائے۔ اس وقت میں نے ابو بکرؓ سے کہا کہ چلو۔

سقیفہ بنی ساعدہ میں پہنچنے کے متعلق بخاری کی درج ذیل روایت ملاحظہ فرمائیے:-

عن عمر قال حین توفّی اللّٰه نبیَّه ﷺ أن الأنصار اجتمعوا في سقیفة بني ساعدة فقلت لأبي بکر انطلق بنا فجئْنَاھم في سقیفة بني ساعدة (بخاري کتاب المظالم باب ما جاء في السقائف)

حضرت عمرؓ فرماتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر ﷺ کو اُٹھا لیا تو انصار بنی ساعدہ کے منڈوے میں جمع ہوئے۔ میں نے ابو بکرؓ سے کہا۔ آپ ہمارے ساتھ چلیں۔ پھر ہم اس سقیفہ میں انصارکے پاس پہنچے۔

اس حدیث میں لفظ بنا (ہمارے ساتھ) سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سقیفہ جانے والے بزرگ قریش دو سے زیادہ تھے۔ آئندہ بخاری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو عبیدہ بن الجراحؓ بھی ان کے ہمراہ تھے اور بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سقیفہ مذکورہ میں قریش سے کل چار یا زیادہ سے زیادہ پانچ آدمی پہنچے تھے۔ درج ذیل روایت حضرت عمرؓ کے اس طویل خطبہ کا آخری حصہ ہے جو انہوں نے اپنی خلافت کے آخری سال مسجد نبوی میں دیا تھا۔ یہ انتخاب ابو بکرؓ کے بہت سے پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے۔

ثم أنه بلغني أن قائلاً منکم یقول واللّٰه لومات عمر بایعت فلانا فلا یغترن المرؤ إنما کانت بیعة أبو بکر فَلْتَة وتمَمَّت ألا وإنما کانت کذلك ولٰکِنّ اللّٰه قد وقٰی شرھا ولیس فیکم من تقطع الأ عناق إلیه مثل أبي بکر من بایع رجلا من غیر مشورة من المسلمین فلا یبائع ھو وَلَا والذي بایعه تغرّة أن یُقْتَلَا۔

وَإِنَّهُ قَدْ كَانَ مِنْ خَبَرِنَا حِينَ تَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الأَنْصَارَ خَالَفُونَا، وَاجْتَمَعُوا بِأَسْرِهِمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ، وَخَالَفَ عَنَّا عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ وَمَنْ مَعَهُمَا، وَاجْتَمَعَ المُهَاجِرُونَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقُلْتُ لِأَبِي بَكْرٍ: يَا أَبَا بَكْرٍ انْطَلِقْ بِنَا إِلَى إِخْوَانِنَا هَؤُلاَءِ مِنَ الأَنْصَارِ، فَانْطَلَقْنَا نُرِيدُهُمْ، فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْهُمْ، لَقِيَنَا مِنْهُمْ رَجُلاَنِ صَالِحَانِ، فَذَكَرَا مَا تَمَالَأَ عَلَيْهِ القَوْمُ، فَقَالاَ: أَيْنَ تُرِيدُونَ يَا مَعْشَرَ المُهَاجِرِينَ؟ فَقُلْنَا: نُرِيدُ إِخْوَانَنَا هَؤُلاَءِ مِنَ الأَنْصَارِ، فَقَالاَ: لاَ عَلَيْكُمْ أَنْ لاَ تَقْرَبُوهُمْ، اقْضُوا أَمْرَكُمْ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَنَأْتِيَنَّهُمْ، فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَاهُمْ فِي [ص:170] سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ، فَإِذَا رَجُلٌ مُزَمَّلٌ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالُوا: هَذَا سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، فَقُلْتُ: مَا لَهُ؟ قَالُوا: يُوعَكُ، فَلَمَّا جَلَسْنَا قَلِيلًا تَشَهَّدَ خَطِيبُهُمْ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَنَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ وَكَتِيبَةُ الإِسْلاَمِ، وَأَنْتُمْ مَعْشَرَ المُهَاجِرِينَ رَهْطٌ، وَقَدْ دَفَّتْ دَافَّةٌ مِنْ قَوْمِكُمْ، فَإِذَا هُمْ يُرِيدُونَ أَنْ يَخْتَزِلُونَا مِنْ أَصْلِنَا، وَأَنْ يَحْضُنُونَا مِنَ الأَمْرِ. فَلَمَّا سَكَتَ أَرَدْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ، وَكُنْتُ قَدْ زَوَّرْتُ مَقَالَةً أَعْجَبَتْنِي أُرِيدُ أَنْ أُقَدِّمَهَا بَيْنَ يَدَيْ أَبِي بَكْرٍ، وَكُنْتُ أُدَارِي مِنْهُ بَعْضَ الحَدِّ، فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: عَلَى رِسْلِكَ، فَكَرِهْتُ أَنْ أُغْضِبَهُ، فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَكَانَ هُوَ أَحْلَمَ مِنِّي وَأَوْقَرَ، وَاللَّهِ مَا تَرَكَ مِنْ كَلِمَةٍ أَعْجَبَتْنِي فِي تَزْوِيرِي، إِلَّا قَالَ فِي بَدِيهَتِهِ مِثْلَهَا أَوْ أَفْضَلَ مِنْهَا حَتَّى سَكَتَ، فَقَالَ: مَا ذَكَرْتُمْ فِيكُمْ مِنْ خَيْرٍ فَأَنْتُمْ لَهُ أَهْلٌ، وَلَنْ يُعْرَفَ هَذَا الأَمْرُ إِلَّا لِهَذَا الحَيِّ مِنْ قُرَيْشٍ، هُمْ أَوْسَطُ العَرَبِ نَسَبًا وَدَارًا، وَقَدْ رَضِيتُ لَكُمْ أَحَدَ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ، فَبَايِعُوا أَيَّهُمَا شِئْتُمْ، فَأَخَذَ بِيَدِي وَبِيَدِ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الجَرَّاحِ، وَهُوَ جَالِسٌ بَيْنَنَا، فَلَمْ أَكْرَهْ مِمَّا قَالَ غَيْرَهَا، كَانَ وَاللَّهِ أَنْ أُقَدَّمَ فَتُضْرَبَ عُنُقِي، لاَ يُقَرِّبُنِي ذَلِكَ مِنْ إِثْمٍ، أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَأَمَّرَ عَلَى قَوْمٍ فِيهِمْ أَبُو بَكْرٍ، اللَّهُمَّ إِلَّا أَنْ تُسَوِّلَ إِلَيَّ نَفْسِي عِنْدَ المَوْتِ شَيْئًا لاَ أَجِدُهُ الآنَ. فَقَالَ قَائِلٌ مِنَ الأَنْصَارِ: أَنَا جُذَيْلُهَا المُحَكَّكُ، وَعُذَيْقُهَا المُرَجَّبُ، مِنَّا أَمِيرٌ، وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ، يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ. فَكَثُرَ اللَّغَطُ، وَارْتَفَعَتِ الأَصْوَاتُ، حَتَّى فَرِقْتُ مِنَ الِاخْتِلاَفِ، فَقُلْتُ: ابْسُطْ يَدَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ، فَبَسَطَ يَدَهُ فَبَايَعْتُهُ، وَبَايَعَهُ المُهَاجِرُونَ ثُمَّ بَايَعَتْهُ الأَنْصَارُ. وَنَزَوْنَا عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ: قَتَلْتُمْ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، فَقُلْتُ: قَتَلَ اللَّهُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، قَالَ عُمَرُ: وَإِنَّا وَاللَّهِ مَا وَجَدْنَا فِيمَا حَضَرْنَا مِنْ أَمْرٍ أَقْوَى مِنْ مُبَايَعَةِ أَبِي بَكْرٍ، خَشِينَا إِنْ فَارَقْنَا القَوْمَ وَلَمْ تَكُنْ بَيْعَةٌ: أَنْ يُبَايِعُوا رَجُلًا مِنْهُمْ بَعْدَنَا، فَإِمَّا بَايَعْنَاهُمْ عَلَى مَا لاَ نَرْضَى، وَإِمَّا نُخَالِفُهُمْ فَيَكُونُ فَسَادٌ، فَمَنْ بَايَعَ رَجُلًا عَلَى غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنَ المُسْلِمِينَ، فَلاَ يُتَابَعُ هُوَ وَلاَ الَّذِي بَايَعَهُ، تَغِرَّةً أَنْ يُقْتَلاَ (بخاري۔ کتاب المحاربین، باب رجم الحبلی)

پھر مجھے یہ خبر بھی ملی ہے۔ تم میں سے کسی نے یوں کہا: ''اگر عمرؓ مر گیا تو فلاں شخص سے بیعت کر لوں گا۔'' دیکھو! تم میں سے کسی کو یہ دھوکا نہ ہو کہ وہ ایسا کہنے لگے۔ حضرت ابو بکرؓ کی بیعت ہنگامی حالات میں ہوئی اور پایۂ تکمیل کو پہنچی۔ بے شک حضرت ابو بکرؓ کی بیعت ناگہانی ہوئی تھی تاہم اللہ تعالیٰ نے اس (طرح کی) بیعت کی برائی سے (اُمّت) کو) بچا لیا۔ پھر تم میں سے (آج) حضرت ابو بکرؓ کی طرح (متقی اور پرہیزگار) کون ہے؟ جس سے ملنے کے لئے لوگ سفر کرتے ہوں۔ تو اب جس کسی نے مسلمانوں سے مشورے کے بغیر کسی کی تو بیعت کرنے والا اور جس کی بیعت کی گئی ہو دونوں اپنی جانیں گنوا بیٹھیں گے۔

پھر ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو اُٹھا لیا تو انصار نے ہماری مخالفت کی۔ اور اپنے حمائیتوں سمیت بنو ساعدہ کے منڈوے میں اکٹھے ہوئے۔ ادھر حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ اور ان کے ساتھی بھی ہمارے مخالف تھے۔ باقی مہاجرین حضرت ابو بکرؓ کے پاس جمع ہوئے۔ میں نے حضرت ابو بکرؓ سے کہا: ''اے ابو بکرؓ! اپنے انصار بھائیوں کے پاس ہمارے ساتھ چلیے۔ سو ہم ان کے پاس آنے کے ارادہ سے روانہ ہوئے۔ جب ہم ان کے قریب پہنچے تو دو نیک بخت انصاری آدمی (عویم بن ساعدہ اور عاصم بن عدی) ہم سے ملے انہوں نے وہ سب کچھ بتلایا جس پر (سقیفہ میں جمع انصار) تلے ہوئے تھے (یعنی سعد بن عبادہ کو خلیفہ بنانے پر) پھر انہوں نے کہا۔ ''اے مہاجر بھائیو! تم کہاں جا رہے ہو؟'' ہم نے کہا ان انصاری بھائیوں کے پاس جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا۔ وہاں مت جاؤ۔ تمہیں جو کرنا ہے کر ڈالو (خلیفہ منتخب کر لو)'' میں نے کہا۔ خدا کی قسم! ہم ان کے پاس ضرور جائیں گے۔

آخر ہم سقیفہ بنی ساعدہ پہنچ گئے۔ ہم نے دیکھا کہ ان میں سے ایک آدمی کپڑا اوڑھے بیٹھا ہے۔ میں نے پوچھا کون ہے؟ لوگوں نے کہا۔ ''یہ سعد بن عبادہ ہیں۔'' میں نے پوچھا۔ ''اسے کیا تکلیف ہے؟' کہا گیا۔ ''انہیں بخار آرہا ہے۔'' ہم تھوڑی دیر ہی بیٹھے تھے کہ ان کے خطیب (ثابت بن قیس یا اور کسی نے) تشہدّ پڑھا۔ پھر اللہ کی ثناء بیان کی۔ جیسی کہ اسے سزاوار ہے۔ پھر کہنے لگے۔ ہم اللہ (کے دین) کے مددگار اور اسلام کی فوج ہیں اور اے مہاجرین تم تھوڑی سی جماعت ہو۔ تم میں سے ایک چھوٹی سی جماعت اپنی قوم (قریش) سے نکل کر ہم میں آرہی۔ تو اب تم یہ چاہتے ہو کہ ہماری بیخ کنی کرو اور ہمیں خلافت سے محروم کر دو۔'' خطیب جب چُپ ہوا تو میں نے گفتگو کرناچاہی۔ میں نے ایک عمدہ تقریر اپنے ذہن میں سوچ رکھی تھی اور چاہتا تھا کہ حضرت ابو بکرؓ کے بات کرنے سے پہلے شروع کر دوں اور میں اس تقریر سے وہ تلخی دور کرنا چاہتا تھا جو اس خطیب کی تقریر سے پیدا ہوئی۔ پھر جب میں نے بولنے کا ارادہ کیا تو حضرت ابو بکرؓنے کہا۔ ذرا ٹھہر جاؤ۔ میں نے حضرت ابو بکرؓ کو خفا کرنا مناسب نہ سمجھا۔ سو حضرت ابو بکرؓ نے تقریر شروع کی۔ اور خدا کی قسم! وہ مجھ سے زیادہ عقلمند اور متین تھے۔ اور جو عمدہ تقریر میں نے اپنے ذہن میں سوچ رکھی تھی اس میں سے کوئی بات نہ چھوڑی اور سب کچھ فی البدیہہ کہہ دیا۔ بلکہ میری سوچی ہوئی تقریر سے بہتر تقریر فرمائی۔ پھر خاموش ہو گئے۔ ان کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا۔ ''انصاری بھائیو! تم نے جو اپنی فضیلت اور بزرگی بیان کی وہ سب درست ہے اور تم بے شک اس کے سزاوار ہو مگر خلافت قریش کے سوا کسی اور قبیلہ کے لئے نہیں ہو سکتی کیونکہ قریش ازروئے نسب اور خاندان تمام عرب قبائل سے بڑھ کر ہیں اور میں یہ چاہتا ہوں کہ تم ان دو آدمیوں میں سے کسی ایک کی بیعت کر لو جسے تم چاہو۔ پھر میرا اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح۔ جو لوگوں میں بیٹھے ہوئے تھے کا ہاتھ تھاما۔

(حضرت عمرؓ کہتے ہیں) کہ مجھے حضرت ابو بکرؓ کی کوئی بات بھی اتنی ناپسندیدہ معلوم نہ ہوئی جتنی یہ بات۔ خدا کی قسم! اگر مجھے آگے لا کر میری گردن مار دیں در آنحالیکہ میں کسی گناہ میں ملوّث بھی نہ ہوں تو یہ مجھے اس سے زیادہ پسند تھا کہ میں ان لوگوں کی سرداری کروں جن میں ابو بکر موجود ہوں۔ میرا اب تک بھی یہی خیال ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مرتے وقت میرا نفس مجھے بہکا دے اور میں کوئی دوسرا خیال کروں جو اب نہیں کرتا۔

پھر انصار میں کا ایک خطیب (حجاب بن منذر) کہنے لگے۔ ''میں وہ لکڑی ہوں جس سے اونٹ رگڑ کر اپنی کھجلی کی تکلیف رفع کرتے ہیں اور وہ باڑ ہوں جو درخت کے گرد لگائی جاتی ہے (یعنی لوگوں کا متعمد علیہ، مدبّر اور محافظ ہوں) میری تجویز یہ ہے کہ) ایک امیر ہم میں سے ہو اور اے قریش! ایک امیر تم میں سے ہو۔'' اس تجویز پر غُل مچ گیا۔ اور کئی طرح کی آوازیں بلند ہونے لگیں (حضرت عمرؓ کہتے ہیں) کہ میں ڈر گیا کہ امت انتشار و اختلاف کا شکار نہ ہو جائے۔ سو میں نے حضرت ابو بکرؓ سے کہا۔ اپنا ہاتھ بڑھائیے۔ انہوں نے ہاتھ بڑھایا تو میں نے بیعت کی اور مہاجرین نے بیعت کی۔ پھر انصار نے بیعت کی۔ پھر ہم سعد بن عبادہ کی طرف بڑھے۔ کسی نے کہا۔ ''تم نے سعد بن عبادہ کو ہلاک کر ڈالا۔'' تو میں نے کہا اسے اللہ نے ہلاک کیا ہے۔ (راوی کہتا ہے) حضرت عمرؓ نے اس خطبہ میں یہ بھی فرمایا۔ اس وقت ہمیں حضرت ابو بکرؓ کی خلافت کے علاوہ کوئی چیز ضروری معلوم نہیں ہوئی۔ ہمیں یہ خطرہ تھا کہ اگرہم لوگوں سے جدا رہے جب تک ابھی تک بیعت نہ ہوئی تھی وہ کسی اور شخص کی بیعت کر بیٹھے۔ تو پھر دو ہی صورتیں تھیں) یا تو ہم اس شخص کی بیعت پر مجبور ہو جاتے یا مخالفت کرتے تو آپس میں فساد (پھوٹ) پڑ جاتا۔ دیکھو! میں پھر یہی کہتا ہوں کہ جو شخص بغیر مسلمانوں کے صلاح مشورہ کے کسی کی بیعت کرلے۔ تو دوسرے لوگ اس کی (بیعت کرنے میں) پیروی نہ کریں۔ نہ اس کی جس سے بیعت کی گئی۔ کیونکہ دونوں اپنی جانیں گنوا بیٹھیں گے۔''

حافظ ابن کثیر سیرۃ النبویہ ج ۴ صفحہ ۴۹۱ کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو بکر صدیقؓ نے حضرت سعد بن عبادہؓ کو رسول اکرم ﷺ کا ارشاد سنایا تو انہوں نے اس کا اعتراف بھی کیا تھا۔

ولقد علِمتَ یا سعد! أن رسول اللّٰه ﷺ قال۔ وأنت قاعد۔ قریشٌ ولاة ھذا الأمر، فبَرُّا الناس تیع لَبرِّھم وفاجرھم لفاجرھم۔ فقال له سعد: صدَقتَ، نحن الوزراء وأنتم الأمراء''

''اے سعد! تم خوب جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا۔ اس وقت تم موجود تھے۔ ''قریش امرِ خلافت کے والی ہیں۔ ان کے نیک نیکوں کا اور فاجر فاجروں کا اتباع کرتے ہیں۔'' تو سعدؓ نے جواب دیا: ''آپ نے سچ کہا۔ ہم وزیر ہوں گے اور تم امیر۔''







quote_icon.png
Originally Posted by sajhassan

If it was Banu Hashim (Ali R.A) who did not allow Prophet Muhammad (S.A.W) to write his will (in anticipation that he will not be able to be burdened with Khilafat) then on that famous day the things would have been the other way around.






جب انصار نے سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت کے متعلق مسئلہ چھیڑ ہی دیا۔ تو اس مسئلہ کی اہمیت اس بات کی متقاضی تھی کہ سب سے پہلے اب ادھر توجہ کی جائے۔ حضرت ابو بکرؓ اور ان کے چند ساتھی تو سقیفہ بنی ساعدہ پہنچ گئے۔ لیکن بنو ہاشم وہاں عمداً نہیں گئے۔ کیونکہ سقیفہ مذکورہ میں موجود انصار و مہاجرین میں سے کوئی گروہ بھی حضرت علیؓ کے دعویٰ کی تائید کو تیار نہ تھا۔ لہٰذا انہوں نے حضرت فاطمہؓ بنت رسول ﷺ کے گھر کا رخ کیا۔ بخاری شریف کی مذکورہ طویل حدیث کی شرح میں فتح الباری میں امام مالکؒ سے یہ روایت درج ہے۔ از سیرۃ النبویہ ابن کثیر جلد ۴ صفحہ ۴۸۸)

وإن علیّاً والزبیر ومن کان معھُما تخلَّفُوا في بیت فاطمة بنت رسول اللّٰہ۔

اور علیؓ اور زبیرؓ اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے۔ وہ حضرت فاطمہ الزہراؓ کے گھر میں الگ جمع ہوئے۔

یہ بنو ہاشم گو تعداد میں گم تھے مگر اپنے دعوے میں متشدد تھے۔ طبری جلد ۳ کی یہ روایت اس معاملہ پر روشنی ڈالتی ہے:

وتخلّف علي والزبیر واخترط الزبیر سیفه وقال: لا أغمده حتی یبایع علي

اور حضرت علیؓ اور حضرت زبیرؓ نے علیحدگی اختیار کی اور حضرت زبیرؓ نے تلوار میان سے کھینچ لی اور کہا: جب تک حضرت علیؓ کے ہاتھ پر بیعت نہ کی جائے میں تلوار کو میان میں نہ ڈالوں گا۔'









quote_icon.png
Originally Posted by sajhassan

In the end you have again reverted back to same old school of though which suggests the Consensus of Companions for Khilafat instead of Allah's will. Or are you suggesting that Consensus of Companions can over through the Allah's will or Allah's will needs Companions validation?






رہے حضرت ابو بکرؓ جن کی افضلیت کے سب قائل تھے ان کا امارت کی طلب کرنا ہرگز ثابت نہیں۔ جب حضور ﷺ نے وفات پائی تو مدینہ میں موجود ہی نہ تھے۔ یہ اطلاع ملنے پر مدینہ آئے تو ایسا کوئی ذکر نہیں کیا۔ بلکہ ان کے ساتھی حضرت عمرؓ تو یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہ تھے کہ حضور وفات پا چکے ہیں۔ تجہیز و تکفین میں مشغول ہوئے تو وہاں سے سقیفہ بنی ساعدہ کے سلسلہ میں بلایا گیا۔ آئے، تقریر فرمائی تو صرف اس طرف توجہ دلائی کہ بموجب فرمانِ نبوی خلافت قریش میں ہو گی۔ خود قطعاً دعویٰ نہیں کیا۔ بلکہ حضرت عمرؓ اور ابو عبیدہؓ بن الجراح کا نام لیا تو جس طرح حضرت عمرؓ نے یہ جواب دیا کہ آپ کی موجودگی میں خلیفہ بننا ہمیں سخت ناگوار ہے۔ آپ نماز میں آپ کے خلیفہ، سب سے افضل اور ثانیثین فی الغار ہیں۔ بالکل اسی طرح کا جواب حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے بھی دیا (طبری جلد ۳ ص ۲۲۱) آخر حضرت عمرؓ نے ان کا ہاتھ اٹھا کر بیعت کی۔ تو سب لوگوں نے بیعت کر لی۔

وہ اپنے خلیفہ بن جانے پر بھی چنداں خوش نہ تھے۔ جیسا کہ خلافت کے بعد ان کی پہلی تقریر سے ثابت ہوتا ہے (ملاحظہ ہو طلب امارت اور اس کی آرزو ص ۱۰۸) نیز آپ نے اپنی وفات کے وقت بھی یوں فرمایا تھا۔

وَوَدِدْتُ إلی یوم سقبقه بنی ساعدة فکنتُ قَذَفتُ الْاَمْر فِی عُنُقِ أحد الرجلین۔ یرید عمرو أبا عبید، فکان أحدھما أمیرًاوکنت وزیرًا (طبری ج ۳، ص ۴۳۰)

سقیفہ بنی ساعدہ کے دن چاہتا تھا کہ امرِ خلافت کا بار عمرؓ اور ابو عبیدہؓ میں سے کسی ایک کے سر پر ڈال دوں تاکہ ان میں سے کوئی ایک امیر بن جاتا اور میں وزیر ہوتا۔

اسی طرح حضرت عمرؓ اپنے خلیفہ نامزد ہونے پر چنداں خوش نہ تھے اور اس کا اظہار حضرت عمرؓ نے ایک تو اپنی وفات کے وقت کیا (دیکھیے انتخاب عثمانؓ) اور دوسرے اس بے رغبتی کا اظہار حضرت عمرؓ کے اس قول سے بھی ہوتا ہے جب غزوۂ خیبر کے متعلق حضور اکرم ﷺ نے یہ فرمایا کہ میں کل جھنڈا اس شخص کے ہاتھ میں دوں گا جو خیبر فتح کرے گا۔ حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے۔

ما أحببت الإمارة إلا یومئذٍ (مسلم۔ فضائل علي ابن أبي طالب)

مجھے اس دن کے علاوہ کبھی امارت کی خوشی نہ ہوئی۔




حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد جب چند لوگوں نے حضرت علیؓ کے پاس اکٹھے ہوکر ان سے خلافت قبول کرنے کی درخواست کی توآپؓ نے فرمایا تھا کہ


''یہ معاملہ تمہارے فیصلہ کرنے کا نہیں ، یہ تو اہل شوریٰ اوراہل بدر کا کام ہے۔ جس کو وہ پسند کریں گے، وہی خلیفہ ہوگا۔ شوریٰ تو صرف مہاجرین وانصار(سابقین)کیلئے ہے۔ اگر اُنہوں نے کسی کو امام قرار دینے پر اتفاق کرلیا تویہ اللہ اور پوری اُمت کی رضامندی کیلئے کافی ہے۔ سو ہم جمع ہوں گے اور اس معاملے پر غور کریں گے۔
''الإمامة والسیاسةلابن قتیبة : 1؍41
 

RastGo

Banned

جہاں پے حضرت ابوبکر کے جان نشین ہونے کا لکھا ہے وہاں ہی یہ بھی لکھا ہوگا



بچو اب اپنی خیر منانا میرے مرشد پاک پیرکامل سید الکاملین سلطان الاولیا پیر طریقت مہتاب شریعت آفتاب ولایت سراج معرفت شیخ المشائخ جناب اعلی' حضرت پیرجیوجی آف لندن کے علم وعرفان کی معرفت سے تم نادانوں اور کم فہموں کومعرفت نہیں اعلی' حضرت قران وحدیت کےمفسر اورمحقق بھی ہیں ابھی تو انہوں نے اپنے علمی خزانے کے صرف تین فیصد حصے سے استدلال کیا ہے اورآپ کی پوری جماعت کو لاجواب کردیا کمبختو ذرا سوچو اگر اعلی' حضرت مرشد کامل نے اپنا ایک چوتھائی علم بھی یہاں ظاہر کیا تو تمہیں حضرت لقمان یاد نہ آجائیں تو میرا نام نہیں
 

WatanDost

Chief Minister (5k+ posts)

کتاب کیوں چھوڑوں؟
بتا کہاں لکھا ہے کہ حضرت فاطمہ افضل ہیں رسول پاک اور حضرت علی سے؟
ویڈیو دیکھ کر خود ہی نتیجہ نکال لیتے ہو کہ ہمارا عقیدہ کیا ہے
اس ویڈیو میں
Because
کہہ کر تم نے بہتان باندھا ہے

ہمارے عقیدے کے مطابق شب قدر میں رسول پاک کو قران دے دیا گیا تہا پھر تم کیسے ہم پر الزام لگا رہے ہو کہ ہم حضرت فاطمہ کو رسول سے پہلے قرآن کا خافظ قرار دے رہے ہیں؟


جناب بہت آسان حل ہے آپ لکھ دو کہ

یہ ہمارا عقیدہ نہیں جیسا کی ویڈیو میں ایک لعنتی بیان کر رہا ہے
اور
ہم اس عقیدہ سے برأت کا اعلان کرتے ہیں
نیز
الله کی ، اس کے فرشتوں کی اور تمام مومن مسلمانوں کی لعنت ہو
اس پر جو اس عقیدہ پر ہے

بسم الله

پھر یہ بحث ہی ختم
ویڈیو ثبوت @کراچی والا نے دے دیا ہے
لہذا اگر آپ کا یہ عقیدہ نہیں ہے تو برأت کا اعلان فرمائیں
اور آگے دیگر متعلقہ موضوعات پر بحث جاری رکھیں
 

GeoG

Chief Minister (5k+ posts)



بچو اب اپنی خیر منانا میرے مرشد پاک پیرکامل سید الکاملین سلطان الاولیا پیر طریقت مہتاب شریعت آفتاب ولایت سراج معرفت شیخ المشائخ جناب اعلی' حضرت پیرجیوجی آف لندن کے علم وعرفان کی معرفت سے تم نادانوں اور کم فہموں کومعرفت نہیں اعلی' حضرت قران وحدیت کےمفسر اورمحقق بھی ہیں ابھی تو انہوں نے اپنے علمی خزانے کے صرف تین فیصد حصے سے استدلال کیا ہے اورآپ کی پوری جماعت کو لاجواب کردیا کمبختو ذرا سوچو اگر اعلی' حضرت مرشد کامل نے اپنا ایک چوتھائی علم بھی یہاں ظاہر کیا تو تمہیں حضرت لقمان یاد نہ آجائیں تو میرا نام نہیں

ماشااللہ جناب تحریر تو بہت اچھی ہے
امید ہے یہ کوئی گندی سوچ والا نیے کپڑے پہن کر نہیں آیا ہے
کیونکہ ان گندی سوچ والوں کے کپڑے اترتے دو چار پوسٹیں ہی لگتی ہیں
یہ پہلی پوسٹ تھی اور پھر وہی اصل اوقات



 

alibaba007

Banned


جناب بہت آسان حل ہے آپ لکھ دو کہ

یہ ہمارا عقیدہ نہیں جیسا کی ویڈیو میں ایک لعنتی بیان کر رہا ہے
اور
ہم اس عقیدہ سے برأت کا اعلان کرتے ہیں
نیز
الله کی ، اس کے فرشتوں کی اور تمام مومن مسلمانوں کی لعنت ہو
اس پر جو اس عقیدہ پر ہے

بسم الله

پھر یہ بحث ہی ختم
ویڈیو ثبوت @کراچی والا نے دے دیا ہے
لہذا اگر آپ کا یہ عقیدہ نہیں ہے تو برأت کا اعلان فرمائیں
اور آگے دیگر متعلقہ موضوعات پر بحث جاری رکھیں
کیا کہتے ہیں آپ اورمفتیان دین بیچ "کراچی والے" کے اس عقیدے اور ثبوت کےمسئلہ پر

fc6ovAE.png


Originally Posted by karachiwala

تم کو یہ بات کس نے بتائی کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو خواب میں نہیں دیکھ سکتے؟ صرف امام ابو حنیفہ ہی نے نہیں امام احمد بن حنبل نے بھی دیکھا اسکے علاوہ اور بھی لوگوں نے دیکھا۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو زندہ انکھوں سے دیکھنا ممکن نہیں مگر خواب میں بہت لوگ دیکھ سکتے ہیں۔ اسی لیئے کہتے ہیں کہ علم صرف کتابیں پڑھنے سے نہیں آتا۔ علم حاصل کرنے کیلیئے محنت ضروری ہے۔ زمیندار کا بیٹا زمیندار ہو سکتا ہے مگر عالم کا بیٹا عالم اور ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹر بغیر علم حاصل کئے نہیں ہو سکتا۔ کسی عالم سے پوچھو کیا یہ غلط لکھا ہے؟


 

RastGo

Banned

ماشااللہ جناب تحریر تو بہت اچھی ہے
امید ہے یہ کوئی گندی سوچ والا نیے کپڑے پہن کر نہیں آیا ہے
کیونکہ ان گندی سوچ والوں کے کپڑے اترتے دو چار پوسٹیں ہی لگتی ہیں
یہ پہلی پوسٹ تھی اور پھر وہی اصل اوقات






توبہ توبہ پیر مرشد ایسا تو خیال بھی دماغ عالیہ شریف میں نہ لائیے میں نعوذ با اللہ گندی سوچ اور آپ جیسے سخی سلطان مفکر قران خطیب الاسلام کے بارے میں تصور ہی گناہ ہے اگر مرتکب ہوں تو مسجد سے نماز کے بعد میرا نیا جوتا چوری ہو جائے
سخی داتا پیر ومرشد شکریہ صد بار شکریہ آپ نے اس گناہ گار کی عرضی کو شرف قبولیت بخشی اور اردو میں جواب دے کر مجھے اپنے احسان سے سرفراز کیا کیا کہنے آپ کی جود وسخا کے
 

GeoG

Chief Minister (5k+ posts)



توبہ توبہ پیر مرشد ایسا تو خیال بھی دماغ عالیہ شریف میں نہ لائیے میں نعوذ با اللہ گندی سوچ اور آپ جیسے سخی سلطان مفکر قران خطیب الاسلام کے بارے میں تصور ہی گناہ ہے اگر مرتکب ہوں تو مسجد سے نماز کے بعد میرا نیا جوتا چوری ہو جائے
سخی داتا پیر ومرشد شکریہ صد بار شکریہ آپ نے اس گناہ گار کی عرضی کو شرف قبولیت بخشی اور اردو میں جواب دے کر مجھے اپنے احسان سے سرفراز کیا کیا کہنے آپ کی جود وسخا کے


LOLZ
Why did you take it all on yourself?
Don't pleeeeesseeeee ...
 

Abdul Allah

Minister (2k+ posts)

آپ نے میرا سوال غور سے نہیں پڑھا
میں نے سوال کیا ہے کہ الله نے یہ کیوں کہا کہ میں تمھیں لوگوں سے بچا لوں گا . الناس میں سارے انسان بشمول مسلمان ، کافر آتے ہیں . جیسا کہ الله نے خود کو رب الناس کہا ہے مطلب سب انسانوں کا رب
آپ نے جو مثالیں دیں ان میں کافروں کا دکھ پوھنچانا ثابت ہو رہا ہے . لیکن مسلمانوں کا نہیں
میرا سوال یہ ہے کہ قرآن کا وہ حصہ دیکھائیں جس کی وجہ سے مسلمان بھی نبی پاک کے دشمن بن گئے تا کہ اس آیت کا مطلب واضح ہو جائے
آپ کی آسانی کے لئے آیت کا وہ حصہ دوبارہ لکھ رہا ہوں
وَاللَّـهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ

آپ کو عید کے بعد یا دوران جب بھی وقت ملے جواب لکھ دیجیے گا


آپکی اور میری بحث ایک اور آیات پر چل رہی ہے مگر آپکے دلائل دیکھ کر مجھے حیرت ہوتی ہے کے اپ ان دلائل کی بنیاد پر اپنا عقیدہ قائم کے ہوے ہیں ؟؟



اس لئے اس پر بھی بات کرنے لگا ہوں

جس لحاظ سے اپ اناس لفظ کو لے رہے ہیں تو جناب پھر تو
اناس لفظ میں تو تمام انسان آجاتے ہیں میں دہراؤ گا کے تمام انسان ہر کوئی
رسول اللهpbuh کے علاوہ سب کیوں کے رسول الله کو بچانے کی بات ہو رہی تو اس آیات میں رسول اللهpbuh تو اس اناس لفظ میں شامل نہیں ہیں مگر انکے علاوہ باقی تمام انسان شامل ہیں آپ کے ترجمے کے لحاظ سے


کیا ایسا ہی ہے ؟؟؟


اگر نہیں یعنی آپ کچھ انسانو کو اس میں شامل نہیں مانتے تو کیوں نہیں ؟؟ جس دلیل کے تحت وہ شامل نہیں تو اسی دلیل کے تحت باقی مسلم بھی نہیں ہیں





 

Abdul Allah

Minister (2k+ posts)


میں نے کہا کہ حضرت علی کے علاوہ کوئی اور اگر ملتا ہے جو ولی ہو تو بتاؤ
میں نے یہ نہیں کہا کہ کوئی اور ایمان والا ملتا ہے تو بتاؤ


چلو اگر تم قرآن کے اتنے ہی قریب ہو تو ایک سوال پوچھتا ہوں
قرآن میں لکھا ہے کہ نماز کعبہ کی طرف رح کر کے پڑھو
اب تم مجھے قرآن سے دکھاؤ کہ تم جو سلام پھرتے وقت اپنا رح پھیرتے ہو وہ کہاں آیا ہے


آپ نماز میں رکوع کرتے ہو ؟؟؟


سجدہ کرتے ہو ؟؟؟


اس میں بھی منہ قبلہ سے ہٹ جاتا ہے
 

Abdul Allah

Minister (2k+ posts)
اچھا پہلے تو ایک کام کریں نا ...وہ آیت بتا دیں ..

ایک بات بتا دوں ..مجھے دونوں طرف غلط فہمیاں زیادہ لگتی ہیں ..جن صاحب سے میں نے آپ کے عقیدے کے بارے میں جانا ،سمجھا ،،اس بات کے بعد ہی میں ایسا کہہ رہی ہوں ..میں نے ان سے وہ تمام سوال اٹھائے جو اہل سنت شیعہ حضرات کے عقیدے کے بارے میں رکھتے ہیں ،،کھل کر بات ہوئی ..بہت سی غلط فہمیاں دور ہوئیں ..معلوم یہ ہوا کہ بلا وجہ کی نفرت پھیلائی ہوئی ہے ..دونوں طرف ..یہاں آپ سے بے تکلفی نہیں ہے ورنہ میں اپنی بے تکلفانہ رائے ضرور دیتی جو میں نے ان صاحب کو دی ہے ..تبھی میرا مسلسل اصرار تھا کہ تحمل سے بات سنیں اور کریں ...لیکن لگتا ہے سب کے مزاج میں تنک مزاجی بہت ہے ..جو میں چاہتی تھی وہ مجھے حاصل نہ ہو سکا تبھی کہا تھا کہ بحث سٹک کر گئی ہے ..کش آپ دونوں پارٹیوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھایا ہوتا ....اے کاش


kuch posts daikh kar apko andaza ho gaya hoga k sirf ghaltfahmi hi nahi hay haqiqat bhi hy
 

GeoG

Chief Minister (5k+ posts)


آپ نماز میں رکوع کرتے ہو ؟؟؟


سجدہ کرتے ہو ؟؟؟


اس میں بھی منہ قبلہ سے ہٹ جاتا ہے

سبحان الله
آپ کا جواب بہت تسلی بخش ہے مگر
کیا میں ایک سوال پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں
کیا اس کو ایسے بھی کہا جا سکتا ہے کہ حکم نماز شروع کرنے کے بارے میں ہے
کہ نماز کی ادائیگی کی شروعات برخ کعبہ شریف ہو



 

RastGo

Banned

سبحان الله
آپ کا جواب بہت تسلی بخش ہے مگر
کیا میں ایک سوال پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں
کیا اس کو ایسے بھی کہا جا سکتا ہے کہ حکم نماز شروع کرنے کے بارے میں ہے
کہ نماز کی ادائیگی کی شروعات برخ کعبہ شریف ہو




ارےارے مرشد پاک کیا غضب کرتے ہیں دست سوال؟ آپ کو تومعبوث کیا گیا ہے مخلوق خدا کی عقدہ کشائی کے لئے اگر آپ ہی سوالی بن جائیں گے تو اس دنیا کا نظام تہہ وبالا ہو جائے گا کیوں بدبخت فریق مخالف کو جگ ہنسائی کا موقع فراہم اورہم جیسے مقلدین کو شرمندہ کرواتے ہیں

 

GeoG

Chief Minister (5k+ posts)



توبہ توبہ پیر مرشد ایسا تو خیال بھی دماغ عالیہ شریف میں نہ لائیے میں نعوذ با اللہ گندی سوچ اور آپ جیسے سخی سلطان مفکر قران خطیب الاسلام کے بارے میں تصور ہی گناہ ہے اگر مرتکب ہوں تو مسجد سے نماز کے بعد میرا نیا جوتا چوری ہو جائے
سخی داتا پیر ومرشد شکریہ صد بار شکریہ آپ نے اس گناہ گار کی عرضی کو شرف قبولیت بخشی اور اردو میں جواب دے کر مجھے اپنے احسان سے سرفراز کیا کیا کہنے آپ کی جود وسخا کے




فکر نہ کرو ملنگ جی او کیرا تواڈا اپنا سی
تواڈا تے ہر نماز بعد نوا ای ہوندا اے
باقی تواڈا سر سلامت روے جتیاں بریاں

سوچیا سی کہ تھریڈ سریس ہو گیا ہے نوے پرونے نوں حالے جواب نہ دتا جایے
پر نوے پرونے دے چمونے اونوں بین ںیی دے ڈے رے



 

GeoG

Chief Minister (5k+ posts)

ارےارے مرشد پاک کیا غضب کرتے ہیں دست سوال؟ آپ کو تومعبوث کیا گیا ہے مخلوق خدا کی عقدہ کشائی کے لئے اگر آپ ہی سوالی بن جائیں گے تو اس دنیا کا نظام تہہ وبالا ہو جائے گا کیوں بدبخت فریق مخالف کو جگ ہنسائی کا موقع فراہم اورہم جیسے مقلدین کو شرمندہ کرواتے ہیں


ارے کیوں شرمندہ ہو رہے ہیں آپ
چلو ہو لوو رب کول جا کے وی ہونا جے نا


 
Last edited:

RastGo

Banned

ارے کیوں شرمندہ ہو رہے ہیں آپ
چلو ہو لوو رب کول جا کے وی ہونا جے نا




اب تو نقاب منہّ پہ لے ظالم کہ شب ہوئی
شرمندہ سارے دن تو کیا آفتاب کو

پہلے مصرعہ میں مرشد پاک ظالم کی جگہ لفظ عالم آپ کے منسب کے عین مطابق
 

RastGo

Banned

فکر نہ کرو ملنگ جی او کیرا تواڈا اپنا سی
تواڈا تے ہر نماز بعد نوا ای ہوندا اے
باقی تواڈا سر سلامت روے جتیاں بریاں

سوچیا سی کہ تھریڈ سریس ہو گیا ہے نوے پرونے نوں حالے جواب نہ دتا جایے
پر نوے پرونے دے چمونے اونوں بین ںیی دے ڈے رے




سبحان اللہ
قسمت والے ہیں وہ جنہیں سچل مرشد مل جائے مرشد پاک کے مجزوبی کیفیت میں بیان کئیے گئے خطبہ کا ایک ایک لفظ موتیوں میں تلنے کے قابل ہے
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
Lihaza SABIT nahi howa ka
HIZN e ABU Bakr siddique RA
APNI ZAAT kay lieay tha






Lain AAP ki TASSALI AAP ki RIWAAYAT say ka Hazrat ABU Bakr RA koon hain

امام حس عسکری کے شاگرد اور کلینی کے استاد شیعہ کے مشہور مفسر شیخ علی بن ابراہیم القم نے اپنی تفسیر قُمی میں آیت غار کے تحت امام جعفر صادق کی ایک روایت ذکر کی ہے کہ
لام کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الغار قال لابی بکر کا ن انظر الی سفینہ جعفر واصحابہ تقوم فی البحر وانظر الی الانصار مختبین فی افنیتھم فقال ابوبکر تراھم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ قال نعم ۔ قال فارنیھم فمسح علی عینیہ فراھم فقال لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انت الصدیق ۔ ۔ ۔ الخ
یعنی جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم غار میں تشریف فرما تھے تو آپ نے ابوبکر کو فرمایا : گویا کہ میں جعفر بن ابی طالب اور اس کے ساتھیوں کی کشتی کو سمندر میں کھڑے دیکھ رہا ہوں اور انصار کی طرف نظر کر رہا ہوں جو اپنے مکانوں کے صحنوں میں چھپے بیٹھے ہیں ۔ تو ابوبکررض نے عرض کی یا رسول اللہ آپ ان کو دیکھ رہے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا ہاں دیکھ رہا ہوں ۔ اس کے بعد ابو بکر رض نے کہا کہ مجھے بھی یہ منظر دکھائیں ، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رض کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا پس ابو بکر رض نے ان کو دیکھ لیا ۔ تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ اے ابوبکر تم صدیق ہو ( تم نبوت کے معجزات کی تصدیق کرنے والے ہو)

تفسیر قمی تحت آیت غار پ 10 سورۃ توبہ طبع قدیم ایران

اس روایت سے مندرجہ ذیل چیزیں معلوم ہوئیں

(1) حضرت ابوبکر رض کو غار ثور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت حاصل ہے
(2) معجزہ نبوی کی حضرت ابوبکر صدیق نے تصدیق کی
(3) اس موقعہ پر حضرت ابوبکر کو صیق کا لقب زبان نبوت سے حاصل ہوا

تنبیہ​



ایک بات یہاں قابل ذکر ہے کہ تفسیر قمی کی مندرجہ بالا روایت کو تفسیر قمی کی حالیہ طبع ( طبع جدید ایران) سے طابعین اور ناشرین نے خارج کر دیا ہے ۔ اس کی وجہ اور کوئی نظر نہیں آتی سوائے اس کے کہ اس میں فضیلت صدیق اور آپ کا ثانی اثنین ہونا بطریق اتم ثابت ہوتا ہے
(2) دوسری بات یہ ہے کہ مذکورہ سفینہ والی روایت جو آیت غار کے تحت ان کے آئمہ سے مروی ہےوہ شیعہ کے متعدد مصنفین نے ذکر کی ہے ۔ ان میں یہاں صرف 2 حوالہ جات پیش کیے جاتے ہیں
(الف) روضہ کافی ص 123 ۔ طبع قدیم نولکشو لکھنئو
(ب) تفسیر صافی لمحمد بن مرتضیٰ ملقب بہ فیض کا شانی سورۃ توبہ تحت آیت غار ص 702
ان مقامات میں حضرت جعفر کی سفینہ والی روایت ان کے آئمہ سے مفصل منقول ہے جو حضرات تسلی کرنا چاہیں ان کی طرف رجوع کرلیں

قارئین کرام !

اس تمام بحث سے ثابت ہوتا ہے ثانی اثنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کا لقب ہے ۔ اور ہجرت میں آپ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔
اور صحابہ کرام کے جو اقوال میں نے یہاں نقل کیے ہیں وہ بھی اس بات کے شاہد ہیں کہ ثانی اثنین کا مصداق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہیں نہ کہ کوئی اور ۔ ۔

باقی بغض ، حسد ، عناد اور نا ماننے کا علاج نہ تو میرے بس میں ہے اور نہ ہی آپ کے ۔ ۔

دعاؤں کی درخواست کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں

والسلام علیکم
خاکپائے اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ سیفی خان ۔ ۔ ۔ ۔


محترم وطن دوست صاحب
مجھے لگتا ہے کہ آپ اعتکاف بیٹھ گئے تھے اس لئے آپ دیر سے تشریف لاے ۔ اگر ایسا ہے تو آپ کو عید مبارک اور اعتکاف کی بھی مبارک باد

اب آپ کے سوال کے جواب میں میں صرف اتنا کہوں گا کہ میری عبدلالله بھائی کے ساتھ اس موضوع پر صرف قرآن سے بحث ہو رہی ہے
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)


جناب بہت آسان حل ہے آپ لکھ دو کہ

یہ ہمارا عقیدہ نہیں جیسا کی ویڈیو میں ایک لعنتی بیان کر رہا ہے
اور
ہم اس عقیدہ سے برأت کا اعلان کرتے ہیں
نیز
الله کی ، اس کے فرشتوں کی اور تمام مومن مسلمانوں کی لعنت ہو
اس پر جو اس عقیدہ پر ہے

بسم الله

پھر یہ بحث ہی ختم
ویڈیو ثبوت @کراچی والا نے دے دیا ہے
لہذا اگر آپ کا یہ عقیدہ نہیں ہے تو برأت کا اعلان فرمائیں
اور آگے دیگر متعلقہ موضوعات پر بحث جاری رکھیں

آپ آدھا سچ بتا کر بد دیانتی کے مرتکب ہو رہے ہیں

ہمارے عقیدے کے مطابق ہمارے نبی کو قرآن کا علم بہت پہلے دیا گیا تھا اور بغیر کسی واسطے کے سیدھا الله سے حاصل کیا
تو اگر حضرت علی نے یا حضرت فاطمہ نے کسی موقے پر قرآن سنا دیا تو اس سے نبی کی توہین کا پہلو کہاں سے نکلتا ہے؟

ذرا وضاحت فرما دیں
 

WatanDost

Chief Minister (5k+ posts)

ارے کیوں شرمندہ ہو رہے ہیں آپ
چلو ہو لوو رب کول جا کے وی ہونا جے نا




یہ بیچارہ ١٢ آئی ڈی کے ساتھ آیا ہے
کہ
کسی طرح جان چھوٹے پر ابھی کدھر


کھیسے گند بھریا ہووے
خوشبو لایوں بدبو نہ جاوے

 

Abdul Allah

Minister (2k+ posts)

سبحان الله
آپ کا جواب بہت تسلی بخش ہے مگر
کیا میں ایک سوال پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں
کیا اس کو ایسے بھی کہا جا سکتا ہے کہ حکم نماز شروع کرنے کے بارے میں ہے
کہ نماز کی ادائیگی کی شروعات برخ کعبہ شریف ہو




قبلہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ہے


منہ کرنے کا ہوتا تو رکوع و سجود دونو نہ ممکن ہو جائیں گے


ہم جو سلام پھرتے ہیں وہ نماز کی حالت سے باہر نکلنے کے لئے ہوتا ہے دوسرے الفاظ میں نماز کا اختتام کرنے کے لئے
 
Status
Not open for further replies.

Back
Top