وزیراعظم عمران خان العمروف جَھنڈو خان نے وزیراعظم منتخب ہونے سے لے کر اب تک اپنے تمام تر ایکشنز سے یہ ثابت کیا ہے کہ حکمرانی کیلئے جس سمجھ بوجھ اور وزڈم کی ضرورت ہے وہ جَھنڈو خان میں عنقا ہے۔ حکمران کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ عوام کے رجحان کو سمجھتا ہو، بہ الفاظ دیگر اس کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہونا چاہئے۔ کثرتِ جہالت اور ایک مخصوص مذہبی نظریے کی وجہ سے پاکستانی قوم کی اکثریت مذہبی معاملات میں جنونیت کی حامل ہے، جَھنڈو خان کو یہ ادراک ہونا چاہئے تھا کہ ایسی عوام کو بطور حکمران کس طرح ڈیل کرنا ہے۔ایسی عوام جو توہینِ رسالت اور ختمِ نبوت وغیرہ کے نام پر بلاوجہ مرنے مارنے پر اتر آتی ہو، اس کو ہر وقت یہ باور کرانے کی کیا ضرورت ہے کہ دنیا بھر میں ہر جگہ ان کے پیغمبر کی توہین ہورہی ہے۔ یہ تو بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ دینے کے مترادف ہے۔ جَھنڈو خان مگر اس بات کو سمجھ نہ پایا اور پچھلے کئی مہینوں سے مسلسل بلاسفیمی ، بلاسفیمی کی تکرار کرتاآرہا ہے۔ ایک مولوی کی آواز اتنی دور نہیں جاتی، جتنی ملک کے وزیراعظم کی جاتی ہے۔ مولوی کو ٹی وی پر اتنی کوریج نہیں ملتی، وزیراعظم تقریر کرے تو تمام چینلز نشر کرتے ہیں۔
جَھنڈو خان آج خطاب کرکے بتارہا ہے کہ اگر فرانس کے ساتھ تعلقات توڑے تو پاکستان کو کس قدر نقصان ہوسکتا ہے، میں اس جَھنڈو خان سے پوچھتا ہوں کہ یہ بات تمہیں تب معلوم نہیں تھی جب تم نے بلاوجہ ہر تقریر میں فرانس کے خلاف بیان بازی شروع کی ہوئی تھی، ہر صبح اٹھتے ہی تم فرانس کے خلاف ٹویٹ داغ دیتے تھے۔۔ جَھنڈو خان کے رجحان کو دیکھتے ہوئے اس کو خوش کرنے کیلئے اس کے وزراء نے بھی فرانس کے خلاف بیان بازی شروع کردی، شیریں مزاری فرانس کے خلاف غلط ٹویٹیں کرتی پکڑی گئی اور فرانس کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل سے شیریں مزاری کی خوب کلاس لی گئی، جس کے بعد اس نے اپنی ٹویٹ ڈیلیٹ کردی ۔ حکومتی سرپرستی میں ملک بھر میں فرانس کے خلاف ایک فضا تیار کی گئی اور ایک گھمبیر فضا تیار کرنے کے بعد جب ملک بھر میں آگ کے شعلے لپک پڑے ہیں، جنونی مارنے مارنے پر تل آئے ہیں، تو اب جا کر جَھنڈو خان کو ادراک ہوا ہے کہ پاکستان تو فرانس کے خلاف جا ہی نہیں سکتا، اب جَھنڈو خان سے کچھ کنٹرول نہیں ہورہا، کبھی جیل سے مولوی خادم رضوی کے لونڈے سے خط لکھوا لکھوا کر جاری کئے جارہے ہیں اور کبھی کالعدم تنظیم کے دہشتگردوں سے مذاکرات کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
جَھنڈو خان نے اپنے خطاب میں مزید فرمایا کہ میں ایک ایسا مشن لانچ کرنے لگا ہوں جس کے بعد مغربی دنیا بلاسفیمی کرتے ہوئے ڈرے گی، میرے خیال میں ایک ہی طریقہ ہوسکتا ہے مغربی دنیا کو ڈرانے کا کہ جَھنڈو خان اپنے سینے کے ساتھ بم باندھ لے اور جاکر فرانس کے صدر پر پھٹ جائے، تب ہی مغربی دنیا خوفزدہ ہوسکتی ہے کہ بھئی مسلمانوں کے تو وزیراعظم بھی خود کش حملے کرسکتے ہیں، عام جنتا تو کرتی ہی ہے۔
جَھنڈو خان کو نہ جانے کس احمق نے مشورہ دیا کہ تم جا کر خطاب کرو اور جنونیوں کو ایکسپلین کرو کہ کیوں پاکستان فرانس کے ساتھ تعلقات نہیں توڑ سکتا، جَھنڈو خان کو علم ہونا چاہئے کہ پاکستان میں محض آٹھ سے دس فیصد طبقہ ہے جو عقل کی بات سنتا ہے اور سمجھتا ہے، باقی سب جنونی ہیں، ان کیلئے بات کی کوئی اہمیت نہیں، صرف لات کی اہمیت ہے، تم کو اپنا منہ کھولنے کی زیادہ ضرورت ہی نہیں ہے، چپ کرکے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے ریاستی عملداری نافذ کرو۔ نوازشریف نے ایک بیان نہیں دیا، ایک وضاحت نہیں دی اور خاموشی سے ممتاز قادری کو پھانسی پر ٹانگ دیا۔مذہبی معاملے میں قوم پہلے ہی جنونی ہے اوپر سے تم ہر وقت اپنا بڑا سا منہ کھول کر کچھ نہ کچھ اگلتے رہتے ہو، یقین مانو یہ باتیں جو آج تم بطور وضاحت کررہے ہو یہ کل تمہارے ہی گلے پڑیں گی، قوم کا جنونی طبقہ فرانس کا حامی کہہ کر تمہاری جان کو آجائے گا، اس جنونیت زدہ قوم کو اگر یہ فکر ہوتی کہ ملک کا نقصان ہوجائے گا تو آج ملک کا یہ حال نہ ہوتا، ان کو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا،۔۔
آخر میں ایک اور بات میں جَھنڈو خان سے کہنا چاہتا ہوں کہ یہ جو تم نے لنگر خانے، پناہ گاہیں اور احساس پروگرام کے ذریعے قوم کو مزید فارغ کرنے کی پالیسی بنا رکھی ہے، اس کو ختم کرو۔ اس قوم کو زیادہ سے زیادہ مصروف کرنے کی ضرورت ہے، یہ لنگر خانے ختم کرو، اسلامی مدارس بھی ختم کرو، لوگوں کو کام کاج پر لگاؤ، تاکہ وہ خود کمائیں۔ سلسلہ روزگار میں مصروف شخص کے پاس تو اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ ان مذہبی فضولیات کیلئے سڑکوں پر آسکے، تم قوم کو فارغ رکھوگے تو وہ فساد پر فساد برپا کریں گے۔۔۔
جَھنڈو خان آج خطاب کرکے بتارہا ہے کہ اگر فرانس کے ساتھ تعلقات توڑے تو پاکستان کو کس قدر نقصان ہوسکتا ہے، میں اس جَھنڈو خان سے پوچھتا ہوں کہ یہ بات تمہیں تب معلوم نہیں تھی جب تم نے بلاوجہ ہر تقریر میں فرانس کے خلاف بیان بازی شروع کی ہوئی تھی، ہر صبح اٹھتے ہی تم فرانس کے خلاف ٹویٹ داغ دیتے تھے۔۔ جَھنڈو خان کے رجحان کو دیکھتے ہوئے اس کو خوش کرنے کیلئے اس کے وزراء نے بھی فرانس کے خلاف بیان بازی شروع کردی، شیریں مزاری فرانس کے خلاف غلط ٹویٹیں کرتی پکڑی گئی اور فرانس کے آفیشل ٹویٹر ہینڈل سے شیریں مزاری کی خوب کلاس لی گئی، جس کے بعد اس نے اپنی ٹویٹ ڈیلیٹ کردی ۔ حکومتی سرپرستی میں ملک بھر میں فرانس کے خلاف ایک فضا تیار کی گئی اور ایک گھمبیر فضا تیار کرنے کے بعد جب ملک بھر میں آگ کے شعلے لپک پڑے ہیں، جنونی مارنے مارنے پر تل آئے ہیں، تو اب جا کر جَھنڈو خان کو ادراک ہوا ہے کہ پاکستان تو فرانس کے خلاف جا ہی نہیں سکتا، اب جَھنڈو خان سے کچھ کنٹرول نہیں ہورہا، کبھی جیل سے مولوی خادم رضوی کے لونڈے سے خط لکھوا لکھوا کر جاری کئے جارہے ہیں اور کبھی کالعدم تنظیم کے دہشتگردوں سے مذاکرات کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
جَھنڈو خان نے اپنے خطاب میں مزید فرمایا کہ میں ایک ایسا مشن لانچ کرنے لگا ہوں جس کے بعد مغربی دنیا بلاسفیمی کرتے ہوئے ڈرے گی، میرے خیال میں ایک ہی طریقہ ہوسکتا ہے مغربی دنیا کو ڈرانے کا کہ جَھنڈو خان اپنے سینے کے ساتھ بم باندھ لے اور جاکر فرانس کے صدر پر پھٹ جائے، تب ہی مغربی دنیا خوفزدہ ہوسکتی ہے کہ بھئی مسلمانوں کے تو وزیراعظم بھی خود کش حملے کرسکتے ہیں، عام جنتا تو کرتی ہی ہے۔
جَھنڈو خان کو نہ جانے کس احمق نے مشورہ دیا کہ تم جا کر خطاب کرو اور جنونیوں کو ایکسپلین کرو کہ کیوں پاکستان فرانس کے ساتھ تعلقات نہیں توڑ سکتا، جَھنڈو خان کو علم ہونا چاہئے کہ پاکستان میں محض آٹھ سے دس فیصد طبقہ ہے جو عقل کی بات سنتا ہے اور سمجھتا ہے، باقی سب جنونی ہیں، ان کیلئے بات کی کوئی اہمیت نہیں، صرف لات کی اہمیت ہے، تم کو اپنا منہ کھولنے کی زیادہ ضرورت ہی نہیں ہے، چپ کرکے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے ریاستی عملداری نافذ کرو۔ نوازشریف نے ایک بیان نہیں دیا، ایک وضاحت نہیں دی اور خاموشی سے ممتاز قادری کو پھانسی پر ٹانگ دیا۔مذہبی معاملے میں قوم پہلے ہی جنونی ہے اوپر سے تم ہر وقت اپنا بڑا سا منہ کھول کر کچھ نہ کچھ اگلتے رہتے ہو، یقین مانو یہ باتیں جو آج تم بطور وضاحت کررہے ہو یہ کل تمہارے ہی گلے پڑیں گی، قوم کا جنونی طبقہ فرانس کا حامی کہہ کر تمہاری جان کو آجائے گا، اس جنونیت زدہ قوم کو اگر یہ فکر ہوتی کہ ملک کا نقصان ہوجائے گا تو آج ملک کا یہ حال نہ ہوتا، ان کو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا،۔۔
آخر میں ایک اور بات میں جَھنڈو خان سے کہنا چاہتا ہوں کہ یہ جو تم نے لنگر خانے، پناہ گاہیں اور احساس پروگرام کے ذریعے قوم کو مزید فارغ کرنے کی پالیسی بنا رکھی ہے، اس کو ختم کرو۔ اس قوم کو زیادہ سے زیادہ مصروف کرنے کی ضرورت ہے، یہ لنگر خانے ختم کرو، اسلامی مدارس بھی ختم کرو، لوگوں کو کام کاج پر لگاؤ، تاکہ وہ خود کمائیں۔ سلسلہ روزگار میں مصروف شخص کے پاس تو اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ ان مذہبی فضولیات کیلئے سڑکوں پر آسکے، تم قوم کو فارغ رکھوگے تو وہ فساد پر فساد برپا کریں گے۔۔۔