یوں تو کسی بھی معاشرے کی معاشی حالت کو بہتر کرنے میں ریاست کا بہت اہم کردار ہوتا ہے، مگر اولاد کے معاملے میں ریاست سے زیادہ والدین ذمہ دار ہوتے ہیں اور پاکستان جیسے پدرسری معاشرے میں چونکہ بچہ پیدا کرنے کا فیصلہ کلی طور پر والد کا ہوتا ہے اس لئے بچے کی تمام تر ذمہ داری والد پر عائد ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ بچے کے دنیا میں آمد سے قبل ہی جانتا ہوتا ہے وہ کیسے معاشرے میں رہ رہا ہے اور جس معاشرے میں رہ رہا ہے، اس میں آیاکہ صحت کی سہولیات ہیں یا نہیں، زندگی کو کوئی تحفظ حاصل ہے یا نہیں، فضا آلودگی سے پاک ہے یا نہیں، معاشرہ رہنے لائق ہے یا نہیں۔ اس سب سے بڑھ کر بچہ پیدا کرنے سے پہلے باپ کو یہ علم ہوتا ہے کہ اس کے پاس وسائل کتنے ہیں اور جس بچے کو وہ پیدا کرنے جارہا ہے، اس کی پرورش، اچھی تعلیم، اچھی زندگی، اچھی خوراک مہیا کرنے کی اس کی استطاعت ہے یا نہیں۔
اگر ایک شخص کو علم ہے کہ اس کی اتنی پسلی نہیں کہ وہ بچہ پیدا کرکے اس کا خرچ اٹھا سکے تو اسے قطعی طور پر بچہ پیدا نہیں کرنا چاہئے۔ یہ سراسر اس بچے پر ظلم ہوگا اگر وہ اپنی معاشی حالت جانتے ہوئے بھی محض خدا کے آسرے پر بچہ پیدا کردیتا ہے۔ یہاں مولوی کا ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا کیونکہ یہ مولوی ہی ہے جو عوام کو گمراہ کرتا ہے، عوام کو یہ باور کراتا ہے کہ بچے پیدا کرتے جاؤ، رزق تو خدا نے دینا ہے۔ حالانکہ مولوی آج تک اپنا رزق لوگوں سے بھیک مانگ کر پورا کرتا ہے۔اس مولوی سے پوچھو بھئی تم پہلے اپنا رزق تو خدا سے وصول کرو، تم تو ہر وقت ہمارے سامنے جھولی پھیلائے کھڑے رہتے ہو۔ مولوی پورے جمعے کا وعظ کرے گا کہ مانگو تو صرف خدا سے مانگو، وہی سب کو رزق دیتا ہے اور تقریر کے بعد لوگوں سے مسجد کیلئے اور اپنے لئے چندہ مانگنا شروع کردیتا ہے۔ کتنا بڑا تضاد ہے کہ جو مولوی خود آپ لوگوں سے بھیک مانگ کر اپنا پیٹ پالتا ہے، وہ آپ کو لارا دیتا ہے کہ خدا کے آسرے پر بنا سوچے سمجھے بچے پیدا کرتے جاؤ۔۔
میری نظر میں ہر وہ باپ جو اپنی معاشی حیثیت اور اپنے معاشرے کی صورتحال سے واقف ہوتے ہوئے اپنی استعداد سے بڑھ کر بچے پیدا کرتا ہے اور ان کو اچھی تعلیم، اچھا ماحول ، اچھی خوراک اور زندگی کی دیگر ضروریات و آسائشات مہیا نہیں کرپاتا، وہ اپنے بچوں کا مجرم ہے۔ ایسے باپ کو سزا ملنی چاہئے۔ وہ اپنے بچوں کا مستقبل ان کی زندگی تباہ کرنے کا واحد ذمے دار ہے۔ پاکستان میں کئی بار ایسی خبریں نظر سے گزرتی ہیں کہ فلاں شخص اپنے بچوں کو سڑک پر بیچنے کیلئے کھڑا ہے، ایسے شخص کو پکڑ کر جیل میں ڈالنا چاہئے کہ اگر تمہارے وسائل نہیں تھے تو تم نے بچے پیدا کیوں کئے؟ اور اگر مولوی کے کہنے پر خدا کے آسرے پر بچے پیدا کئے تھے تو جاؤ اس مولوی کا دروازہ کھٹکھٹا ؤ اور اس سے اپنا اور اپنے بچوں کا رزق وصول کرو۔۔
اس ویڈیو میں بھی ایک ایسا ہی شخص ہے جس کی اوقات ایک بچہ پالنے کی بھی نہیں تھی اور اس نے سات بیٹیاں پیدا کردیں، اب یہ لوگوں کے سامنے رو رہا ہے اور بھیک مانگ رہا ہے۔ مجھے اس شخص سے ذرا برابر ہمدردی نہیں۔ یہ شخص اپنے مسائل کا تو ذمے دار ہے ہی ، ان سات لڑکیوں کا بھی مجرم ہے۔ اس نے ان سات لڑکیوں کی زندگی تباہ کردی، ان کو بھوک اور بیماری کے حوالے کردیا۔ اس کی ایک لڑکی کینسر کا شکار ہے، یہ بھکاری اس کا علاج نہیں کرواسکتا اور لوگوں سے بھیک مانگ رہا ہے۔ اس کی اولاد جتنی بھی مشکلات اور مصائب جھیل رہی ہے، اس کی بیوی جو اذیتیں سہہ رہی ہے اس کا ذمہ دار صرف اور صرف یہ شخص ہے۔ اگر یہ شخص ایک لڑکی پر ہی اکتفا کرلیتا ، اس کی اچھی پرورش کرتا، اس کو اچھی زندگی دیتا تو یہ ان باقی چھ لڑکیوں پر احسان کرتا جن کو یہ دنیا میں نہ لاتا۔ مگر اس نے اتنا بھی سوچنا گوارا نہ کیا اور سب کو جہنم کی نظر کردیا۔۔
اگر ایک شخص کو علم ہے کہ اس کی اتنی پسلی نہیں کہ وہ بچہ پیدا کرکے اس کا خرچ اٹھا سکے تو اسے قطعی طور پر بچہ پیدا نہیں کرنا چاہئے۔ یہ سراسر اس بچے پر ظلم ہوگا اگر وہ اپنی معاشی حالت جانتے ہوئے بھی محض خدا کے آسرے پر بچہ پیدا کردیتا ہے۔ یہاں مولوی کا ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا کیونکہ یہ مولوی ہی ہے جو عوام کو گمراہ کرتا ہے، عوام کو یہ باور کراتا ہے کہ بچے پیدا کرتے جاؤ، رزق تو خدا نے دینا ہے۔ حالانکہ مولوی آج تک اپنا رزق لوگوں سے بھیک مانگ کر پورا کرتا ہے۔اس مولوی سے پوچھو بھئی تم پہلے اپنا رزق تو خدا سے وصول کرو، تم تو ہر وقت ہمارے سامنے جھولی پھیلائے کھڑے رہتے ہو۔ مولوی پورے جمعے کا وعظ کرے گا کہ مانگو تو صرف خدا سے مانگو، وہی سب کو رزق دیتا ہے اور تقریر کے بعد لوگوں سے مسجد کیلئے اور اپنے لئے چندہ مانگنا شروع کردیتا ہے۔ کتنا بڑا تضاد ہے کہ جو مولوی خود آپ لوگوں سے بھیک مانگ کر اپنا پیٹ پالتا ہے، وہ آپ کو لارا دیتا ہے کہ خدا کے آسرے پر بنا سوچے سمجھے بچے پیدا کرتے جاؤ۔۔
میری نظر میں ہر وہ باپ جو اپنی معاشی حیثیت اور اپنے معاشرے کی صورتحال سے واقف ہوتے ہوئے اپنی استعداد سے بڑھ کر بچے پیدا کرتا ہے اور ان کو اچھی تعلیم، اچھا ماحول ، اچھی خوراک اور زندگی کی دیگر ضروریات و آسائشات مہیا نہیں کرپاتا، وہ اپنے بچوں کا مجرم ہے۔ ایسے باپ کو سزا ملنی چاہئے۔ وہ اپنے بچوں کا مستقبل ان کی زندگی تباہ کرنے کا واحد ذمے دار ہے۔ پاکستان میں کئی بار ایسی خبریں نظر سے گزرتی ہیں کہ فلاں شخص اپنے بچوں کو سڑک پر بیچنے کیلئے کھڑا ہے، ایسے شخص کو پکڑ کر جیل میں ڈالنا چاہئے کہ اگر تمہارے وسائل نہیں تھے تو تم نے بچے پیدا کیوں کئے؟ اور اگر مولوی کے کہنے پر خدا کے آسرے پر بچے پیدا کئے تھے تو جاؤ اس مولوی کا دروازہ کھٹکھٹا ؤ اور اس سے اپنا اور اپنے بچوں کا رزق وصول کرو۔۔
اس ویڈیو میں بھی ایک ایسا ہی شخص ہے جس کی اوقات ایک بچہ پالنے کی بھی نہیں تھی اور اس نے سات بیٹیاں پیدا کردیں، اب یہ لوگوں کے سامنے رو رہا ہے اور بھیک مانگ رہا ہے۔ مجھے اس شخص سے ذرا برابر ہمدردی نہیں۔ یہ شخص اپنے مسائل کا تو ذمے دار ہے ہی ، ان سات لڑکیوں کا بھی مجرم ہے۔ اس نے ان سات لڑکیوں کی زندگی تباہ کردی، ان کو بھوک اور بیماری کے حوالے کردیا۔ اس کی ایک لڑکی کینسر کا شکار ہے، یہ بھکاری اس کا علاج نہیں کرواسکتا اور لوگوں سے بھیک مانگ رہا ہے۔ اس کی اولاد جتنی بھی مشکلات اور مصائب جھیل رہی ہے، اس کی بیوی جو اذیتیں سہہ رہی ہے اس کا ذمہ دار صرف اور صرف یہ شخص ہے۔ اگر یہ شخص ایک لڑکی پر ہی اکتفا کرلیتا ، اس کی اچھی پرورش کرتا، اس کو اچھی زندگی دیتا تو یہ ان باقی چھ لڑکیوں پر احسان کرتا جن کو یہ دنیا میں نہ لاتا۔ مگر اس نے اتنا بھی سوچنا گوارا نہ کیا اور سب کو جہنم کی نظر کردیا۔۔