جس نے تعویذ لٹکایا اللہ اس کی مراد پوری نہ کرے، رسول اللہ ﷺ کی بدعا

Amal

Chief Minister (5k+ posts)


تعویذ دھاگے کی شرعی حیثیت

دھاگے، گنڈے اور تیر کے تانت ہیں جنھیں اہل عرب جاہلیت میں انسانوں ، جانوروں یا گھروں وغیرہ پر کسی متوقع یا بالفعل واقع شر مثلاً، مرض، نظربد، بخار ، جادو، ٹونے اور ٹوٹکے یا دیگر آفات ومصائب وغیرہ سے حفاظت کی خاطر لٹکایا کرتے تھے ، جسے اسلام نے حرام قرار دیاہے۔(فتح الباری،10/166، والنھایة، 1/19۔

قرآن کریم میں اللہ کا ارشاد ہے: ﴿وان یمسسک اللہ بضرٍ فلا کاشف لہ الا ھو، وان یمسسک بخیر فھو علی کل شی ء قدیر﴾۔
”اور اگرتمھیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کا دور کرنے والا اللہ کے سوا اور کوئی نہیں، اور اگر تمھیں اللہ کوئی نفع پہنچائے تو وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے“
(الأنعام:17)

نیز ارشاد ہے: ﴿وان یمسسک اللہ بضرٍ فلا کاشف لہ الا ھو،وان یردک بخیرٍ فلا رادّ لفضلہ یصیب بہ من یشاء من عبادہ وھو الغفور الرحیم﴾۔
”اور اگر اللہ تمھیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کا دور کرنے والا اللہ کے سوا اور کوئی نہیں، اور اگروہ تمھیں کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کو روکنے والاکوئی نہیں، وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے نچھاور کردے اور وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے“ (یونس:107)۔

ان آیا ت کریمہ سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ ہر طرح کے شر اور مصائب و بلیات کا دور کرنے والا صرف اور صرف اللہ ہی ہے ، لہٰذا ان تعویذوں کا لٹکانا اور انھیں ان مصائب وبلیات کے دور کرنے میں موٴثر سمجھنا اللہ کے حکم کی سراسر خلاف ورزی ہے ۔

احادیث رسول ﷺ
میں تعویذ اور گنڈے کی حرمت کی دلیلیں

”حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جس کے ہاتھ میں پیتل کا ایک کڑا تھا ، تو آپ نے پوچھا یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: واھنہ(ایک بیماری جس سے کندھے یا بازو کی رگیں پھول جاتی ہیں)کے سبب ، آپ نے فرمایا: اسے نکال دے کیونکہ اس سے تیری بیماری میں اضافہ ہی ہوگا، اور اگراسی حالت میں تیری موت واقع ہو گئی تو تو کبھی کامیاب نہ ہوگا“۔
(احمد،4/445، والحاکم، 4/216، وصححہ ووافقہ الذھبی)۔

قال النبيﷺ :”من تعلق تمیمة فلا أتم اللہ لہ، ومن تعلق ودعة فلا ودع اللہ لہ“ (مسند احمد: 4/154۔ والحاکم: 4/216 وصححہ ووافقہ الذھبی)۔
”جس نے تعویذ لٹکایا اللہ اس کی مراد پوری نہ کرے، اور جس نے سیپ لٹکائی اللہ اسے آرام نہ دے“۔

حضرت عقبہ بن عامر جہنی سسے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دس آدمیوں کا ایک وفد آیا، آپ نے ان میں سے نو(۹) افراد سے بیعت کی اور ایک سے نہ کی، انھوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ آپ نے نو سے بیعت کی اور ایک کو چھوڑ دیا ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس لیے کہ اس نے تعویذ لٹکا رکھی ہے، اس شخص نے ہاتھ ڈال کر تعویذ کاٹ کر پھینک دی ، پھرآپ ﷺ نے اس سے بیعت کی اور فرمایا:”
جس نے تعویذ لٹکائی اس نے شرک کیا“ ۔
(احمد:4/156۔ والصحیحہ للألبانی، رقم/492)

حضرت حذیفہ رض ایک مریض کے پاس آئے تو دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک دھاگا بندھا ہوا ہے، چنانچہ آپ ﷺ نے اسے کاٹ کر پھینک دیا اور فرمایا:﴿وما یوٴمن أکثرھم باللہ الا وھم مشرکون﴾، ” اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان لا نے کے باوجود بھی مشرک ہیں“(یوسف:106)۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رض فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:”ان الرقیٰ والتمائم والتولة شرک“ ۔”جھاڑ پھونک، (نظر بد یا کسی بھی مرض سے حفاظت کے لیے) تعویذ ، گنڈے لٹکانا، اور میاں بیوی میں محبت وغیرہ کی خاطر کیا جانے والا عمل شرک ہیں“ (صحیح ابن ماجہ للألبانی:2/269۔ ومسند احمد،1/381)۔

ان تمام احادیث سے قطعی طور پر اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ تعویذ ، گنڈے، چھلے اور کڑے وغیرہ کسی بھی غرض سے لٹکانا شر ک ہے اور حرام ہے۔

۲- قرآن کریم اور ادعیہٴ ماثورہ سے بھی تعویذ لٹکانا جائز نہیں، یہ رائے حضرت ابن عباس ، ابن مسعود، حذیفہ، عقبہ بن عامر، ابن عکیمث، ابراہیم نخعی، ابن العربی ، امام محمد بن عبد الوہاب نجدی ، شیخ عبد الرحمن السعدی ،حافظ حکمی، شیخ محمد حامد الفقی، اور معاصرین میں سے محدث عصر علامہ البانی اور مفتی عصر علامہ ابن بازرحمہ اللہ ہے۔

احادیث رسول میں شرعی جھاڑ پھونک ،اورقرآن پڑھ کرمریض پر دم کرنے کی شکل میں موجودہے، جس میں تعویذ بنانے کا کہیں ذکر نہیں، اور نہ ہی صحابہ کرام سے اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔


اگر قرآنی تعویذیں لٹکانا جائز ہوتا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے ضرور بیان کیا ہوتا

جیسا کہ آپ ﷺ نے قرآنی آیات وغیرہ سے جھاڑ پھونک کے جواز کی وضاحت فرمائی ہے، بشرطیکہ شرکیات پر مشتمل نہ ہوں، ارشاد نبوی ﷺ ہے:”اعرضوا علي رقاکم، لا بأس بالرقیٰ مالم تکن شرکا“ ،”مجھ پر اپنے رقیے (دم کے الفاظ) پیش کرو ، ایسے رقیوں میں کوئی حرج نہیں جو شرکیات پر مشتمل نہ ہوں“ (مسلم)۔

صحابہ کرام کے اقوال تعویذوں کی حرمت کے سلسلے میں منقول ہیں، اور جن بعض صحابہ سے جواز کی بات منقول ہے وہ روایتیں صحیح نہیں ہیں، اور صحابہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کو غیروں سے زیادہ جاننے والے تھے، اسی طرح تابعین کے اقوال بھی معروف ہیں، ابراہیم نخعی صحابہ کرام کے بارے میں فرماتے ہیں:”کانوا یکرہون التمائم کلہا من القرآن وغیر القرآن“، ”صحابہ تعویذوں کو ناپسند کرتے تھے“ (مصنف ابن ابی شیبہ: 7/374)۔

قرآنی تعویذوں کا لٹکانا قرآن کی بے ادبی اور اس کی حرمت کی پامالی کا سبب ہے ، مثلاً اسے لٹکاکر ٹوئیلٹ ، باتھ روم اور دیگر غیر مناسب جگہوں پر جانا، اسی طرح ہمبستری، حالت احتلام اور حیض ونفاس کی حالت میں اسے لٹکانا وغیرہ قرآن کی بے ادبی ہے اور یہ حرام ہے۔

قرآنی تعویذوں کے جائز قرار دینے سے قرآن کے شرعی علاج (دم وغیرہ)کوجو کہ جائز ہے روک دینا لازم آتا ہے۔

عہد جاہلیت کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ تعویذ لٹکانا اور غیر اللہ سے مدد طلبی کفار ومشرکین کا شیوہ وشعار تھا، ارشاد باری ہے : وأنہ کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن فزادوہم رھقاً
”اور انسانوں میں سے بعض لوگ جنوں کی پناہ لیتے تھے، تو انہوں نے ان لوگوں کی سر کشی میں اور اضافہ کر دیا“(الجن:6)۔
یعنی لوگ فائدے کے بجائے ھلاکت میں پڑے

عہد جاہلیت میں کثرت سے تعویذوں کا رواج تھا، جنھیں وہ بچوں پر جن شیاطین، نظر بد وغیرہ سے حفاظت کے لیے، میاں بیوی میں محبت کے لیے ، اسی طرح اونٹوں، گھوڑوں، اور دیگر جانوروں پر نظر بد وغیرہ سے حفاظت کے لیے لٹکایا کرتے تھے، جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہی مقاصد کے لیے آج بھی بہت سارے مسلمان اپنی گاڑیوں کے آگے یا پیچھے جوتے یا چپل، آئینوں پر بعض دھاگے اور گنڈے لٹکاتے ہیں، اسی طرح بعض مسلمان اپنے گھروں اور دوکانوں کے دروازوں پر گھوڑے کے نعل وغیرہ لٹکاتے ہیں، یا مکانوں پر کالے کپڑے لہراتے ہیں،غور کریں کیا جاہلیت میں کیے جانے والے اعمال اورموجودہ مسلمانوں کے اعمال میں کوئی فرق ہے؟
اسی طرح بعض لوگ بالخصوص عورتیں نظر بد وغیرہ سے بچاوٴ کے لیے بچوں کے تکیے کے نیچے چھری ،لوہا، ہرن کی کھال ، خرگوش کی کھال، اور تعویذیں وغیرہ رکھتی ہیں یا دیواروں پر لٹکاتی ہیں، یہ ساری چیزیں زمانہ جاہلیت کی ہیں، جن سے اجتناب کرنا بے حد ضروری ہے،

نظر بد سے بچنے کے لئے اور اللہ سبحانہ وتعالی کی حفاظت میں آنے کیلئے نبی ﷺ نے تمام اعمال اور دعائیں بتا دی ہیں ان کو اختیار کریں اور مصیبتوں سے محفوظ رہیں ، اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے(آمین)۔










53905720_2543908355622501_7712210600033517568_n.jpg
 
Last edited:

Xiggs

Chief Minister (5k+ posts)
Shaikh madani ki baizari asal mai dhagay se nahi Imam Hussain se hai...simple! Kahin na kahin yazidiyat ubal ubal ke nikalti hai...madani babay ko naam change kerke ummvi baba rakh lena chahiye.
 

Shah Shatranj

Chief Minister (5k+ posts)


مجرباتِ محسن
از محی السنۃ پیر طریقت الشیخ محمد محسن منور یوسفی

صحیح بخاری میں حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ایک سفر کے دوران ہمارا قافلہ ایک جگہ رکا ہوا تھا۔قریب ہی ایک بستی میں سے ایک لڑکی آئی اور کہنے لگی کہ ہمارے سردار کو سانپ ڈس گیا ہے تم میں سے کسی کو منتر وغیرہ پڑھنا آتا ہے ہم میں سے ابو سعید خدری اُس لڑکی کے ساتھ گئے اور سردار پر سورہء فاتحہ پڑھ کرتھوک سے دم کیا خدا نے اُس کو اچھا کر دیا ۔اُس سردار نے اس صلہ میں اُن کو کچھ بکریاں (ایک روایت میں ہے کہ تین بکریاں دیں) ایک روایت میں ہے کہ 30بکریاں دیں جبکہ ایک روایت میں ہے کہ بکریوں کا ریوڑ دیا۔ صحابہ کرام نے مدینہ منورہ پہنچنے تک ان بکریوں کا گوشت کھانے سے پرہیز کیا تاکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مسئلہ دریافت کرلیں کہ ان بکریوں کا ہمارے لیے گوشت کھانا حلال ہے یا حرام ۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پوچھا تم نے کیا پڑھ کر دم کیا تھا اُنہوں نے کہا سورہء فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا۔ آپ مسکرائے اور پوچھا تمہیں کیسے پتہ چلا کہ اس میں شفاء ہے اُنہوں نے عرض کی کہ ہم جانتے تھے کہ سورہء فاتحہ کوسورۃٔ شفاء بھی کہتے ہیں ۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ تمہارے لیے یہ بکریاں حلال ہیں اور تم ان کا گوشت کھا سکتے ہوبلکہ اس میں سے میرا حصّہ بھی الگ کر دو۔ یہ تو بخاری شریف کی روایت سے ثابت ہوا خود قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ھُوَشِفَآءُ‘ وَّرَحْمَۃُ‘ لِّلْمُؤْمِنِیْنَo
اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز جو ایمان والوں کے لئے شفاء اور رحمت ہے۔
(بنی اسرائیل آیت نمبر ۸۲)
حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے ابن ماجہ میں مرفوعاً روایت ہے کہ بہترین علاج قرآن ہے ۔حضور علیہ الصلواۃ والسلا م نے فرمایا ۔
فِیْ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ ِشفَآءُ ‘ مِّنْ کُلِّ دَآءٍo
سورہ فاتحہ میں ہر بیماری کی شفاء ہے۔ (مشکوۃ شریف)
رہی بات تعویز دھاگے کی تو
حدیث شریف میں ہے کہ حضور سرور عالمﷺ نے شہزادگان یعنی حسنین کے لیے تعویز بنایا اور اُن کے گلے میں ڈال کر فرمایا کہ حضرت ابراھیم نے حضرت اسماعیل و حضرت اسحاق کے لیے بھی تعویز بنایا تھا۔ (رواہ مسلم وغیرہ)۔
اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ دم درود، دعائیں اور اورادؤ وظائف سے کیا اللہ تعالیٰ کی تقدیر بدل جاتی ہے تو حدیث شریف میں آیا ہے کہ کسی نے حضورﷺسے پوچھا یہ دعائیں اور اورادو ء وظائف اور دیگر وہ اساب جو ہم کرتے ہیں کیا اللہ تبارک وتعالیٰ کی تقدیر کو بدل دیتے ہیں ؟ فرمایا یہ بھی تقدیر الہٰی سے ہی تو ہے۔
عقلی دلائل: اب اگر کوئی شخص یہ سوال کرئے کہ منہ کی سانس طبی قاعدے سے زہریلی ہوتی ہے اس پر پانی سے دم کرنا بیماری کا باعث ہوگا ۔
جواب :جب آپ نے اتنا مان لیا جو باہر کی ہوا جسم کے اندرونی حصّے سے مل کر آئے اُس میں بیمار کرنے کی تاثیر پیدا ہوجاتی ہے تو اتنا اور بھی مان لو کہ جو ہوا اُس زبان سے مل کر آئے جس نے ابھی ابھی قرآن پڑھا ہے اُس میں تندرست کرنے کی تاثیر پیدا ہو جاتی ہے جیسے اگر ہوا باغ اور چمن سے گزر کر آئے تو دماغ کو معطر اور تروتازہ کر دیتی ہے اور اگر گندگی کے ڈھیر سے اُٹھ کر آئے تو دماغ کو سڑا کر جھلسا کر رکھ دیتی ہے اور برف سے مس ہو کر آئے تو ٹھنڈک پہنچاتی ہے ۔کوہ مری کی ہوا بخار والوں کو شفاء دیتی ہے ۔کیونکہ چیڑ کے درختوں سے ٹکرا کر مریض کو لگتی ہے ایسے ہی جس زبان سے ذکر اللہ کا کیا گیا ہو اُس سے چھو کر جو ہوا نکلے وہ بیمار کو شفاء دیتی ہے ۔(رسائلِ نعیمیہ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ صفحہ نمبر ۳۳۱)جاپان کے مایہ ناز سائنسدان ڈاکٹر ساروایموٹو نے انکشاف کیا ہے کہ آبِ زمزم میں ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو اِس کے سوا دنیا کے کسی بھی پانی میں نہیں۔ انہوں نے ٹیکنالوجی کی مدد سے آب ِزمزم پر متعدد تحقیقات کیں، جن کی مدد سے انہیں معلوم ہو ا کہ آبِ زمزم کا ایک قطرہ عام پانی کے ایک ہزار قطروں میں شامل کیا جائے تو عام پانی میں بھی وہی خصوصیات پیدا ہو جاتی ہیں جو آبِ زمزم میں ہیں ۔ ڈاکٹر ایموٹو جاپان میں ہیڈوانسٹیٹیوٹ برائے تحقیق کے سربراہ ہیں ۔ نہوں نے اپنے ایک لیکچر میں کہا کہ جاپان میں انہیں ایک عرب باشندے سے آب ِزمزم ملا، جس پرانہوں نے مزید تحقیق کی تو تحقیق سے معلوم ہوا کہ آبِ زمزم کے ایک قطرہ کا بلور (ایک چمکدار معدنی جوہر) ایک ایسی خاص انفرادیت رکھتا ہے جو دیگر کسی پانی کے قطرے کے بلور سے مشابہت نہیں رکھتا۔ کرّہ ارضی کے کسی خطے سے لیے گئے پانی کے خواص آبِ زمزم سے کسی طرح بھی مشابہت نہیں رکھتے انہوں نے لیبارٹری ٹیسٹ کے ذریعے معلوم کیا کہ آب زمزم کے خواص کو کسی طرح بھی تبدیل کرنا ممکن نہیں اس کی اصل وجہ جاننے سے سائنس قاصر ہے آب ِزمزم کی ری سائیکلنگ کرنے کے بعد بھی اس کے بلور میں تبدیلی نہیں پائی گئی۔ جاپانی سائنسدان نے مزید انکشاف کیا کہ مسلمان کھانے پینے اور ہر کام کرنے سے پہلے بسم اللّٰہ شریف پڑھتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ جس پانی پربسم اللہ شریف پڑھی جائے اس میں عجیب قسم کی تبدیلی وقوع پزیر ہوتی ہے۔ لیبارٹری ٹیسٹ کے ذریعے عام پانی کو طاقتورخوردبین کے ذریعے دیکھا گیا اور پھرا س پر بسم اللہ پڑھنے کے بعد دیکھا گیا تو اس کے ذرّات میں تبدیلی واقع ہو گئی تھی۔ بسم اللہ پڑھنے کے بعد پانی کے قطرے میں خوبصورت بلور بن گئے تھے۔ انہوں نے کہا ،انہوں نے پانی پر قرآن مجید کی آیت پڑھی تو اس میں بھی عجیب قسم کا تغیر واقع ہوا۔ اس نے کہا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے پانی میں عجیب قسم کی صلاحیتیں رکھی ہیں۔ پانی میں قوت ِ سماعت، احساس، یادداشت اور ماحول سے متاثرہونے کی صلاحیت ہے۔ اگر پانی پر قرآنِ کریم کی آیات کی تلاوت کی جائے تو اس میں مختلف امراض سے علاج کی صلاحیت بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ پانی ماحول کے مثبت اور منفی حالات کا اثر قبول کرتا ہے۔ ڈاکٹر ایموٹونے کہا کہ کرّہ ارض کی تمام مخلوقات خواہ وہ بظاہر جمادات ہی کیوں نہ ہو ان میں ماحول کا اثر قبول کرنے کی صلاحیت ہے۔ کائنات کو ہر ذرہ شعور رکھتا ہے اور اسی شعور کے نتیجے میں وہ اپنے خالق کی تسبیح میں مصروف ہے۔ (مجلہ حضرت کرماں والا شریف، مارچ ۲۰۰۹ء)
نوٹ: امریکہ کے ڈاکٹروں نے بھی سورہ فاتحہ کو سورہ شفاء ہونا تسلیم کرلیا تفصیل صفحہ نمبر۲۹۳ پرموجود ہے۔
صحابہ کرام حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے بال شریف اور لباس شریف دھو کر بیماروں کو پلاتے تھے ۔خود نبی کریمﷺ بیماروں کے لیے پانی میں اپنی انگلیاں شریف ڈبو دیا کرتے تھے۔حضرت عیسیٰ دم کے ذریعے مردے زندہ کردیا کرتے تھے۔کیونکہ وہ خود حضرت جبرائیل علیہ السلام کے دم سے پیدا ہوئے تھے ۔ (رسائل نعیمیہ)
سوال:تعویز کیوں لکھا جاتا ہے اور اس کا کیافائدہ ہے؟
جواب:جیسے بعض مخلوق کے ناموں میں تاثیر ہے کہ کسی کو اُلّو، گدھا کہہ دو تو وہ رنجیدہ ہو جاتا ہے اور حضرت قبلہ و کعبہ کہہ دو توخوش ہو جاتا ہے ۔حالانکہ اُلّو، گدھا بھی مخلوق ہیں اور قبلہ و کعبہ بھی مخلوق۔ ایسے ہی خالق کے مختلف ناموں میں مختلف تاثیریں ہیں۔شافی میں شفاء کی غفار میں بخشش کی۔ پھر خواہ یہ اسماء الہیہ لکھ کر پاس رکھو یا پڑھ کر دم کرو ضرور اثر کریں گے۔ اگر پیاز کی گانٹھ پا س ہو تو بُو اثر نہیں کرتی ایسے ہی رب کا نام ساتھ ہو تو بلائیں اثر نہیں کرتیں جو ہم پر گناہوں کی شامت سے آتی ہیں اور رب کے نام گناہ دور کرتے ہیں جیسے پانی نجاست کو۔ لہذا ان سے شفاء ہوتی ہے۔
(رسائلِ نعیمیہ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ صفحہ نمبر ۳۳۱)
http://meraymohsin.com/اللہ-والوں‌کے-دم-اور-تعویذ-دھاگے/
 

Shah Shatranj

Chief Minister (5k+ posts)
لغوی تحقیق
قال ابن الأثير : الرُّقْيَةُ العُوذة الّتی يُرْقیٰ بها صاحبُ الآفةِ کالحُمَّی والصَّرَع وغير ذلک من الآفات، و قد جاء فی بعض الأَحاديث جوازُها و فی بعضِها النَّهْيُ عنها.

ابن اثیر الجوزی نے کہا’’رُقْيَۃُ‘‘وہ دُعا جس سے مصیبت زدہ کو جھاڑا جائے۔ مثلاً بخار، بے ہوشی وغیرہ، آفات۔ بعض احادیث میں اس کا جواز اور بعض میں ممانعت آئی ہے۔

فمنَ الجواز قوله : استَرْقُوا لَها فاِنَّ بها النَّظْرَة، أی اطْلبُوا لها من يَرْقِيها.

’’جواز کی ایک مثال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ہے : اسے جھاڑ پھونک کرو اس عورت کو نظربد لگ گئی ہے، مطلب یہ کہ اس کے کوئی جھاڑ پُھونک کرنیوالا تلاش کرو!‘‘ اور ممانعت کی ایک مثال یہ ہے :

لا يَسْتَرْقُون ولا يَکْتَوُون.

’’نیک لوگ نہ جھاڑ پھونک کریں نہ داغیں۔‘‘

احادیث کے مابین مطابقت
جھاڑ، پھونک اوردم درود کی تائید اور مخالفت میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں۔ دونوں اطرف کی ان احادیث میں مطابقت یوں کی جا سکتی ہے کہ وہ جھاڑ پھونک مکروہ ہے : (1)جو عربی زبان میں نہ ہو (2) اﷲ تعالیٰ کے مقدس ناموں سے اس کی صفات اور کلام سے نہ ہو، اس کی نازل کردہ کتابوں میں نہ ہو اور عقیدہ یہ رکھا جائے کہ دم درود لازمی فائدہ دیگا اور اسی پر توکل کر لیا جائے۔ یہی مطلب فرمان پاک کا ہے :

ماتوکّلم من استرقیٰ.

’’جس نے جھاڑ پھونک کیا اس نے توکل نہیں کیا‘‘

اس کے خلاف جو جھاڑ پھونک ہے وہ مکرہ نہیں :

کالتعوّذ بالقرآن وأَسمآء اﷲ تعالٰی والرَُّقَی المَرْوِيَةِ.

’’جیسے قرآن کریم اور اﷲ تعالیٰ کے اسمائے مقدسہ اور اس کی صفات اور اس کی نازل کی گئی کتابوں میں جو کلام پاک ہے اور جو دم جھاڑ حدیث پاک میں مروی ہے۔‘‘

اسی لیے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صحابی سے جنہوں نے قرآن کریم سے جھاڑ پھونک کی تھی اور اس پر اجرت بھی لی تھی، فرمایا : ’’وہ لوگ بھی تو ہیں جو باطل جھاڑ پھونک پر اجرت لیتے ہیں، تم نے تو برحق دم کر کے اجرت لی (مَنْ أخَذ برُقْية باطِلٍ فقد أَخَذْت بِرُقْية حَقٍّ)‘‘اور جیسے حضور کا یہ فرمان جو حدیث جابر میں ہے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

اعْرِضُو ْهَا عَلَيَ فعرَضْناها فقال لا باْس بها اِنما هی مواثِيقُ. کأَنّه خاف أَن يقع فيها شيی ممّا کانوا يتلفظون به و يعتقدونه من الشرک فی الجاهلية وما کان بغير اللسان العربی ممّا لا يعرف له ترجمته ولا يمکن الوقوف عليه فلا يجوز استعماله.

’’وہ دم جھاڑ میرے سامنے لاؤ ! ہم نے پیش کر دیا فرمایا کوئی حرج نہیں یہ تو وعدے معائدے ہیں۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈر تھا کہ کہیں دم میں کوئی ایسا حرف نہ ہو جسے وہ بولا کرتے اور جس شرک کا دورِ جاہلیت میں عقیدہ رکھتے تھے یا جو عربی زبان میں نہ ہو جس کا ترجمہ نہ آئے اور نہ اس کا مفہوم تک پہنچنا ممکن ہو ایسا دم جائز نہیں۔ رہا سرکار کا یہ فرمان کہ : ’’نظربد اور بخار کے علاوہ کسی اور مقصد کیلیے دم درود نہیں‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دم سے بڑھ کر کوئی دم بہتر اور نفع دینے والا نہیں۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سے زائد صحابہ کرام کو جھاڑ پھونک کا حکم دیا۔ اور ایک بڑی جماعت کے بارے میں سنا کہ وہ جھاڑ پھونک کرتے تھے اور آپ نے ان پر انکار نہیں فرمایا۔ الخ
  1. علامه ابن منظور افريقی، متوفی711ه، لسان العرب، 5 : 294، طبع بيروت
  2. علامه سيد مرتضي الحسينی الواسطی الزبيدی الحنفی، تاج العروس شرع القاموس، 10 : 154، طبع بيروت
احادیث مقدسہ کی روشنی میں
1۔ حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

ما أنزل اﷲ داء اِلَّا أنزلَ له شفاء.

’’اﷲ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں اتاری جس کے لیے شفاء نہ اتاری ہو۔‘‘
  1. بخاری، المتوفی 256ه، الصحيح، 5 : 2151، کتاب الطب، رقم : 5354، دار ابن کثيراليمامة. بيروت، سن اشاعت 1987ء
  2. ابن ماجه، المتوفی 275ه، السنن، 2 : 1138، کتاب الطب، باب لمريض يشتهی الشی، رقم : 3439، دارلفکر. بيروت
  3. بزار، المتوفی 292ه، المسند، 4 : 282، رقم : 1450، مؤسسة علوم القرآن، بيروت، سن اشاعت 1409ه
2۔ حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لِکُلِّ دائٍ دواءٌ، فاذا اُصِيْبَ دواءٌ برَأ باذن اﷲ عزوجل.

’’ہر بیماری کیلیے دواء ہے جب دواء بیماری کو پہنچتی ہے، بیماری اﷲ عزوجل کے حکم سے ٹھیک ہو جاتی ہے۔‘‘

https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/1822/
 

Shah Shatranj

Chief Minister (5k+ posts)
یہ وہابی جھوٹ جس کا پھل داعیش جیسی جماعتیں ہیں مسلمانوں کو گمراہ کرنے اور انبیا اور اولیا سے نفرت پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے . ایسے لوگ جو انبیا اور اولیا کے مقام و اختیار کے منکر ہوں انھیں مسلمان نہیں کہا جا سکتا
 

Amal

Chief Minister (5k+ posts)
Shaikh madani ki baizari asal mai dhagay se nahi Imam Hussain se hai...simple! Kahin na kahin yazidiyat ubal ubal ke nikalti hai...madani babay ko naam change kerke ummvi baba rakh lena chahiye.

shah shatranj
یہ وہابی جھوٹ جس کا پھل داعیش جیسی جماعتیں ہیں مسلمانوں کو گمراہ کرنے اور انبیا اور اولیا سے نفرت پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے . ایسے لوگ جو انبیا اور اولیا کے مقام و اختیار کے منکر ہوں انھیں مسلمان نہیں کہا جا سکتا


Allah swt ky ferman nabi saw ki hadees ky hoty hoiy koi musalman yeh kehny ki jasarat nahi ker sakta jo aap ney ki !
 
Last edited:

Amal

Chief Minister (5k+ posts)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پوچھا تم نے کیا پڑھ کر دم کیا تھا اُنہوں نے کہا سورہء فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا۔ آپ مسکرائے اور پوچھا تمہیں کیسے پتہ چلا کہ اس میں شفاء ہے اُنہوں نے عرض کی کہ ہم جانتے تھے کہ سورہء فاتحہ کوسورۃٔ شفاء بھی کہتے ہیں ۔روایت سے ثابت ہوا خود قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے۔
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ھُوَشِفَآءُ‘ وَّرَحْمَۃُ‘ لِّلْمُؤْمِنِیْنَo
اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز جو ایمان والوں کے لئے شفاء اور رحمت ہے۔
(بنی اسرائیل آیت نمبر ۸۲)
حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے ابن ماجہ میں مرفوعاً روایت ہے کہ بہترین علاج قرآن ہے ۔حضور علیہ الصلواۃ والسلا م نے فرمایا ۔
فِیْ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ ِشفَآءُ ‘ مِّنْ کُلِّ دَآءٍo
سورہ فاتحہ میں ہر بیماری کی شفاء ہے۔ (مشکوۃ شریف)




قرآنی دم جائز ہیں اور اس کا جواب پوسٹ میں جواب موجود ہے

جیسا کہ آپ ﷺ نے قرآنی آیات وغیرہ سے جھاڑ پھونک کے جواز کی وضاحت فرمائی ہے، بشرطیکہ شرکیات پر مشتمل نہ ہوں، ارشاد نبوی ﷺ ہے:”اعرضوا علي رقاکم، لا بأس بالرقیٰ مالم تکن شرکا“ ،”مجھ پر اپنے رقیے (دم کے الفاظ) پیش کرو ، ایسے رقیوں میں کوئی حرج نہیں جو شرکیات پر مشتمل نہ ہوں“ (مسلم)۔


دھاگے اور تعویذ جائز نہیں۔
 

Amal

Chief Minister (5k+ posts)

حدیث شریف میں ہے کہ حضور سرور عالمﷺ نے شہزادگان یعنی حسنین کے لیے تعویز بنایا اور اُن کے گلے میں ڈال کر فرمایا کہ حضرت ابراھیم نے حضرت اسماعیل و حضرت اسحاق کے لیے بھی تعویز بنایا تھا۔ (رواہ مسلم وغیرہ



اس حدیث کی کوئی سند نہیں
 

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
Surah 98 AL-BAIYINAH–The clearly obvious solid foundation for mankind to build their proper human community upon in a kingdom.

This surah is named AL-BAIYINAH from root BAA, YAA and NOON. Already explained but for reminder it means something that is manifestly clear to see as something distinct and different from anything else in some sense in some way for some reason or purpose. Something evident all by itself, clear, proof, distinctly obvious, something that is distinct from other things, something separate or different, limit, speech, lecture, talk etc etc.

This surah is named AL-BAIYINAH because the Quran talks about the solid foundation that is clear for people who have learned sense of making proper sense of things to see to live their lives properly by. Those who faithfully base themselves upon foundation revealed by Allah for the proper human community reap the benefits for doing so in form of blissful, dignified and secure life and those who oppose it fall in disputes and animosities and keep on fighting among themselves making life hell for each other because such people have nothing solid that works to base their sense of belonging upon. This will continue unless people see sense and change themselves for the better through carefully observing whatever is going on in their world and learn from it. One should have no difficulty in seeing the Quran approaches issues that are of vital importance for people in a very systematic and methodical way.

It should be very clear for anyone who has knowledge to see the Quran keeps talking about two opposing ways of life all the time. It tells people about God advised way of life and what it will bring them if they will live by it as a community in a kingdom and it also tells them what is going on in their world which is wrong because it is harmful and destructive for humanity and why or how as well as how it can be put right by people themselves by stop living by ways of life people have invented and adopted for whatever right or wrong reasons but it all ended up harming and even destroying them through hands of each other. The Quran explains to people reasons why people invented ways of life they invented and why they adopted them as well as why they should let go of them and turn to guidance provided by their creator and sustainer. Not only that the Quran also tells mankind no matter what one day mankind as a whole will start living by way of life advised by God once they have learned sufficiently about it. Till then things will continue improving bit by bit as they have been always right from the time it was all started by God. This world is dynamic not static so it will not stop till all things end up as destined by God for his purpose according to his plan including human beings. The Quran contains all this information for humanity to learn from it and take appropriate advantage of knowledge and things provided.

Proclaim! In the name of Allah, the provider of psychological, sociological and biological needs of mankind,

1] Saying some of those who opposed living by rule of law of Allah from among the people given the book before such as those who took for rulers other than Allah were not going to give up their way of life unless and until there came to them another guidance manifest

2] via a messenger from Allah proclaiming to them messages from the pages of His new revealed scripture

3] wherein are written permanent universal goals for mankind to accomplish according to stated guidelines therein.

4] However most of those who were given the book before the Quran, disputed after the clear evidence had come to them due to their sticking to their make beliefs and baseless practices by remaining ignorant.

5] In the scriptures they were given in the past they were advised nothing other than to abide by program, constitution and law of Allah as a proper human community in a kingdom committing themselves sincerely to His advised way of life and sticking to it faithfully by establishing the proper human community network in a kingdom to attain freedom from all ills to help the community grow and prosper because that is what they were told is the true establishment of Our advised way of life in this world for ensuring well being of mankind as a whole.

6] For this reason those who oppose set goals and guidelines of Allah from among the people of the book such as those who take for rulers other than Allah remain in terrible painful state of existence and they are to remain in that state for all their lives unless they stop living that way and adopt the way of life advised for them by Allah. Such people are most harmful and destructive of the creatures for humanity if they do not change themselves through learning and doing what is best for them as well as others.

7] Surely those who commit to cause of working for blissful, dignified and secure existence of humanity and take actions to remove obstacle from the way of people to unity, peace, progress and prosperity are most constructive and benevolent of the creatures.

8] The outcome of their thoughts and actions according to set-up systems and laws of their Creator and Sustainer will be blissful kingdoms throughout which flow rivers of all things of their need and desire and they are to dwell therein for as long as they remain committed to rule of law of Allah for ensuring well being of humanity. Allah will be found consistent in supporting them with His plan and they will be found consistent in implementing His plan with their thoughts and actions. That is the kind of life which awaits any human group or party in this world that is mindful of advised way of life of its Creator and Sustainer and needs of each other.

This surah is very clear as to what the guidance of God is basically about or why human beings need guidance of God to begin with. It is making clear that nothing can be done by people to fulfil program of God unless and until people become a proper human community in a kingdom and then work together whole heartedly for rest of program of Allah to fulfil it to satisfaction of God and themselves.
 
Last edited:

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
Wrong beliefs and practices by people are result of their ignorance and lack of knowledge about things. There is nothing wrong with being ignorant about something because that is natural human state at birth of a human.

The problem is human mindset, attitude and behaviour towards learning knowledge about things to become better aware of the world and things in it to fit in this world properly, so that people could see their problems about living in this world and take steps for their solutions the way they should be solved.

To stay alive and healthy people need fresh air, fresh water and good food not dam drood. Dam drood are invented by mullaans to take attention of people away from rulers and money lenders because otherwise people will clearly see who is causing them problems and why or how and how they can be solved by dealing with problematic people in an effective way.

While people get busy in discussing and debating make beliefs and useless practices rulers and money lender get free time to plan and act to take their harmful and destructive agendas based upon abusive use of masses yet further. They each use their tricks of trade and mechanisms to do so. That is how they make fool of masses in various ways.

The quran exposes their tricks and mechanisms as well as reasons which motivate them to do so for those who have learned sense of making proper sense of things. The quran is spot on. It is a book of political science as well as science about economics not just about other physical sciences.

One has to ask oneself what is political science and what is science behind economics? It is all about proper management of people and land based resources, means of production and distribution. This is why humanity must organise and regulate itself properly if it wishes to manage its human population properly as well as things of its need and wants.

This is why no dam drood can do the job that is supposed to be done by people themselves with help of knowledge given to them by God for using things in this world properly.
 

Back
Top