Amal
Chief Minister (5k+ posts)
تعویذ دھاگے کی شرعی حیثیت
دھاگے، گنڈے اور تیر کے تانت ہیں جنھیں اہل عرب جاہلیت میں انسانوں ، جانوروں یا گھروں وغیرہ پر کسی متوقع یا بالفعل واقع شر مثلاً، مرض، نظربد، بخار ، جادو، ٹونے اور ٹوٹکے یا دیگر آفات ومصائب وغیرہ سے حفاظت کی خاطر لٹکایا کرتے تھے ، جسے اسلام نے حرام قرار دیاہے۔(فتح الباری،10/166، والنھایة، 1/19۔
قرآن کریم میں اللہ کا ارشاد ہے: ﴿وان یمسسک اللہ بضرٍ فلا کاشف لہ الا ھو، وان یمسسک بخیر فھو علی کل شی ء قدیر﴾۔
”اور اگرتمھیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کا دور کرنے والا اللہ کے سوا اور کوئی نہیں، اور اگر تمھیں اللہ کوئی نفع پہنچائے تو وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے“
(الأنعام:17)
نیز ارشاد ہے: ﴿وان یمسسک اللہ بضرٍ فلا کاشف لہ الا ھو،وان یردک بخیرٍ فلا رادّ لفضلہ یصیب بہ من یشاء من عبادہ وھو الغفور الرحیم﴾۔
”اور اگر اللہ تمھیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کا دور کرنے والا اللہ کے سوا اور کوئی نہیں، اور اگروہ تمھیں کوئی خیر پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کو روکنے والاکوئی نہیں، وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے نچھاور کردے اور وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے“ (یونس:107)۔
ان آیا ت کریمہ سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ ہر طرح کے شر اور مصائب و بلیات کا دور کرنے والا صرف اور صرف اللہ ہی ہے ، لہٰذا ان تعویذوں کا لٹکانا اور انھیں ان مصائب وبلیات کے دور کرنے میں موٴثر سمجھنا اللہ کے حکم کی سراسر خلاف ورزی ہے ۔
احادیث رسول ﷺ میں تعویذ اور گنڈے کی حرمت کی دلیلیں
”حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جس کے ہاتھ میں پیتل کا ایک کڑا تھا ، تو آپ نے پوچھا یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: واھنہ(ایک بیماری جس سے کندھے یا بازو کی رگیں پھول جاتی ہیں)کے سبب ، آپ نے فرمایا: اسے نکال دے کیونکہ اس سے تیری بیماری میں اضافہ ہی ہوگا، اور اگراسی حالت میں تیری موت واقع ہو گئی تو تو کبھی کامیاب نہ ہوگا“۔
(احمد،4/445، والحاکم، 4/216، وصححہ ووافقہ الذھبی)۔
قال النبيﷺ :”من تعلق تمیمة فلا أتم اللہ لہ، ومن تعلق ودعة فلا ودع اللہ لہ“ (مسند احمد: 4/154۔ والحاکم: 4/216 وصححہ ووافقہ الذھبی)۔
”جس نے تعویذ لٹکایا اللہ اس کی مراد پوری نہ کرے، اور جس نے سیپ لٹکائی اللہ اسے آرام نہ دے“۔
حضرت عقبہ بن عامر جہنی سسے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دس آدمیوں کا ایک وفد آیا، آپ نے ان میں سے نو(۹) افراد سے بیعت کی اور ایک سے نہ کی، انھوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ آپ نے نو سے بیعت کی اور ایک کو چھوڑ دیا ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس لیے کہ اس نے تعویذ لٹکا رکھی ہے، اس شخص نے ہاتھ ڈال کر تعویذ کاٹ کر پھینک دی ، پھرآپ ﷺ نے اس سے بیعت کی اور فرمایا:” جس نے تعویذ لٹکائی اس نے شرک کیا“ ۔
(احمد:4/156۔ والصحیحہ للألبانی، رقم/492)
حضرت حذیفہ رض ایک مریض کے پاس آئے تو دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک دھاگا بندھا ہوا ہے، چنانچہ آپ ﷺ نے اسے کاٹ کر پھینک دیا اور فرمایا:﴿وما یوٴمن أکثرھم باللہ الا وھم مشرکون﴾، ” اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان لا نے کے باوجود بھی مشرک ہیں“(یوسف:106)۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رض فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:”ان الرقیٰ والتمائم والتولة شرک“ ۔”جھاڑ پھونک، (نظر بد یا کسی بھی مرض سے حفاظت کے لیے) تعویذ ، گنڈے لٹکانا، اور میاں بیوی میں محبت وغیرہ کی خاطر کیا جانے والا عمل شرک ہیں“ (صحیح ابن ماجہ للألبانی:2/269۔ ومسند احمد،1/381)۔
ان تمام احادیث سے قطعی طور پر اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ تعویذ ، گنڈے، چھلے اور کڑے وغیرہ کسی بھی غرض سے لٹکانا شر ک ہے اور حرام ہے۔
۲- قرآن کریم اور ادعیہٴ ماثورہ سے بھی تعویذ لٹکانا جائز نہیں، یہ رائے حضرت ابن عباس ، ابن مسعود، حذیفہ، عقبہ بن عامر، ابن عکیمث، ابراہیم نخعی، ابن العربی ، امام محمد بن عبد الوہاب نجدی ، شیخ عبد الرحمن السعدی ،حافظ حکمی، شیخ محمد حامد الفقی، اور معاصرین میں سے محدث عصر علامہ البانی اور مفتی عصر علامہ ابن بازرحمہ اللہ ہے۔
احادیث رسول میں شرعی جھاڑ پھونک ،اورقرآن پڑھ کرمریض پر دم کرنے کی شکل میں موجودہے، جس میں تعویذ بنانے کا کہیں ذکر نہیں، اور نہ ہی صحابہ کرام سے اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔
اگر قرآنی تعویذیں لٹکانا جائز ہوتا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے ضرور بیان کیا ہوتا
جیسا کہ آپ ﷺ نے قرآنی آیات وغیرہ سے جھاڑ پھونک کے جواز کی وضاحت فرمائی ہے، بشرطیکہ شرکیات پر مشتمل نہ ہوں، ارشاد نبوی ﷺ ہے:”اعرضوا علي رقاکم، لا بأس بالرقیٰ مالم تکن شرکا“ ،”مجھ پر اپنے رقیے (دم کے الفاظ) پیش کرو ، ایسے رقیوں میں کوئی حرج نہیں جو شرکیات پر مشتمل نہ ہوں“ (مسلم)۔
صحابہ کرام کے اقوال تعویذوں کی حرمت کے سلسلے میں منقول ہیں، اور جن بعض صحابہ سے جواز کی بات منقول ہے وہ روایتیں صحیح نہیں ہیں، اور صحابہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کو غیروں سے زیادہ جاننے والے تھے، اسی طرح تابعین کے اقوال بھی معروف ہیں، ابراہیم نخعی صحابہ کرام کے بارے میں فرماتے ہیں:”کانوا یکرہون التمائم کلہا من القرآن وغیر القرآن“، ”صحابہ تعویذوں کو ناپسند کرتے تھے“ (مصنف ابن ابی شیبہ: 7/374)۔
قرآنی تعویذوں کا لٹکانا قرآن کی بے ادبی اور اس کی حرمت کی پامالی کا سبب ہے ، مثلاً اسے لٹکاکر ٹوئیلٹ ، باتھ روم اور دیگر غیر مناسب جگہوں پر جانا، اسی طرح ہمبستری، حالت احتلام اور حیض ونفاس کی حالت میں اسے لٹکانا وغیرہ قرآن کی بے ادبی ہے اور یہ حرام ہے۔
قرآنی تعویذوں کے جائز قرار دینے سے قرآن کے شرعی علاج (دم وغیرہ)کوجو کہ جائز ہے روک دینا لازم آتا ہے۔
عہد جاہلیت کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ تعویذ لٹکانا اور غیر اللہ سے مدد طلبی کفار ومشرکین کا شیوہ وشعار تھا، ارشاد باری ہے : وأنہ کان رجال من الانس یعوذون برجال من الجن فزادوہم رھقاً
”اور انسانوں میں سے بعض لوگ جنوں کی پناہ لیتے تھے، تو انہوں نے ان لوگوں کی سر کشی میں اور اضافہ کر دیا“(الجن:6)۔
یعنی لوگ فائدے کے بجائے ھلاکت میں پڑے
عہد جاہلیت میں کثرت سے تعویذوں کا رواج تھا، جنھیں وہ بچوں پر جن شیاطین، نظر بد وغیرہ سے حفاظت کے لیے، میاں بیوی میں محبت کے لیے ، اسی طرح اونٹوں، گھوڑوں، اور دیگر جانوروں پر نظر بد وغیرہ سے حفاظت کے لیے لٹکایا کرتے تھے، جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہی مقاصد کے لیے آج بھی بہت سارے مسلمان اپنی گاڑیوں کے آگے یا پیچھے جوتے یا چپل، آئینوں پر بعض دھاگے اور گنڈے لٹکاتے ہیں، اسی طرح بعض مسلمان اپنے گھروں اور دوکانوں کے دروازوں پر گھوڑے کے نعل وغیرہ لٹکاتے ہیں، یا مکانوں پر کالے کپڑے لہراتے ہیں،غور کریں کیا جاہلیت میں کیے جانے والے اعمال اورموجودہ مسلمانوں کے اعمال میں کوئی فرق ہے؟
اسی طرح بعض لوگ بالخصوص عورتیں نظر بد وغیرہ سے بچاوٴ کے لیے بچوں کے تکیے کے نیچے چھری ،لوہا، ہرن کی کھال ، خرگوش کی کھال، اور تعویذیں وغیرہ رکھتی ہیں یا دیواروں پر لٹکاتی ہیں، یہ ساری چیزیں زمانہ جاہلیت کی ہیں، جن سے اجتناب کرنا بے حد ضروری ہے،
نظر بد سے بچنے کے لئے اور اللہ سبحانہ وتعالی کی حفاظت میں آنے کیلئے نبی ﷺ نے تمام اعمال اور دعائیں بتا دی ہیں ان کو اختیار کریں اور مصیبتوں سے محفوظ رہیں ، اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے(آمین)۔
Last edited: