جبری انتقال قومیت کی ہولناکی

saeedahmed

Voter (50+ posts)
جبری انتقال قومیت ! بروہی اور پوٹھواریوں کی جبری گمشدگی
اس مضمون کو لکھنے کا محرک وہ بلوچ اور پنجابی ہیں جو کہتے ہیں سرائیکی قوم نہیں ہے بلکہ زبان ہے پنجابی تو یہاں تک کہتے ہیں کہ سرائیکی زبان ھی نہیں ہے چلیں جناب قصہ ختم باقی اللہ اللہ خیر صلا ۔ میں عرصہ دراز سے ریاض سعودی عرب میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہوں ۔ مجھے عربی زبان اور اسکے رسم و رواج کے بارے میں باخوبی علم ہے ۔ عرب مہذب خطہ ہے اسکی اپنی روایت اور رسم و رواج ہیں ۔ میں اس مضمون کو چھیڑنے سے پہلے عربی لسان کے بارے میں بتا دو ۔ عربی سامی السان گروپ سے تعلق رکھتی ہے ۔ سامی السان میں دراوڑی ، ملتانی آوازیں شامل نہیں ہیں ۔ مشرق کی زبانیں مختلف لسانی گروپ میں منقسم دیکھائی دیتی ہیں

جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے عربی سامی السان گروپ سے تعلق رکھتی ہے اب ہميں ديکھنا ہو گا کہ عرب کس نسل سے ہيں اور اپنا تعلق کس گروہ سے بتلاتے ہيں . عرب خود کو سامي السان کہنا زيادہ پسند کرتے ہيں عربي زبان کے مطالعہ سے يہ بات ثابت شدہ ہے عرب خطہ کے لوگ " ٻ، ب ٰ، پ ، ٹ ، چ ،جٰ ، ڈ ، ڈٰ ، ڑ ، ژ ، گ ، ڈٰ ، ن‏‏‏‏‏‏ِِٰٰ ،نٰ " کي صوتي اوازيں نکالنے سے قاصر ہيں اسکا صاف مطلب ہے عرب قبائل ميں ان حروفوں سے شروع ہونے والي ذاتيں بھي نہيں ہو گي اور عرب لسان کے علاقے ميں ايسي قوميں يا قبائل آباد نہیں ہونگے جو سرائيکي ، سندھي ، بروہي يا مجموعي طو دراوڑي صوتي اوازيں نکال سکيں . کيونکہ ان ميں ميں دراوڑي صوتي اوازيں نکالنے کي صلاحيت نہيں ہے
.
لسان , ثقافت ، اور جغرافيے کو سمجھنے کيلئے ہم اس پورے خطے کو تين حصوں ميں تقسيم کر ديتے ہيں تاکہ سمجھنے اور سمجھانے کيلئے اساني رہے . ہم عربوں کو انکی پسند کے مطابق انھيں سامي السان کہہ ديتے ہيں سامی النسل کا مطلب غیر یہودی کے ہیں ۔ يہ سامي النسل کا انتخاب عربوں نے خود کيا ہے حالانکہ عبرانی لسان کا تعلق بھی سامی السان میں ہوتا ہے جو کہ یہودی نسلی گروہ ہے . دوسرے حصے ميں ہم ايران يا فارس کو رکھتے ہيں . تيسرے حصے میں ملتان کی اوازوں یعنی موجودہ يا ماضي کے ملتان کو رکھتے ہيں اپ ملتان کو سپت سندھو کہہ ليں يا ملتان کہہ ديں بات ايک ھي ہے ۔ جیسا میں نے اوپر عرض کیا ہے عربی ملتانی آوازیں نکالنے سے قاصر ہیں ہمارا فوکس ملتانی کی آوازیں ہیں ۔

اس بحث کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے ہمیں سب سے پہلے ہم عرب خطے اور عربی لسان کو سمجھنا ہو گا جيسا کہ ميں اوپر واضع کر چکا ہوں کہ. لسان کے لحاظ سے عربي ايک مفصل زبان ہے . عربي کے اندر " ٻ ، پ ، ٹ ، چ ، ڈ ، ڈٰ ، ڑ ، ژ ، گ ، ڈٰ ، ن‏‏‏‏‏‏ِِٰٰ " کي مخصوص صوتي آوازيں نہيں ہيں يہاں پر جو نقشہ بنتا ہے اگر عرب خطہ سے کوئي گروہ یا فرقہ ہمارے خطہ میں داخل ہوتا ہے تو وہ ہمارے رسم و رواج ، لسان سے مختلف ہو گا اب جيسا کہ ميں نے عرض کيا ہے کہ عربي کے اندر " ٻ ، پ ، ٹ ، چ ، ڈ ، ڈٰ ، ڑ ، ژ ، گ ، ڈٰ ، ن‏‏‏‏‏‏ِِٰٰ "حروف اور آوازیں نہيں ہيں تو داخل ہونے والے قبيلہ يا فرد واحد يا کوئي گروہ یہ اوازیں نکالنے سے کلی طور پر قاصر ہو گا اور وہ مخصوص عربي آوازيں يا لفظ بولتا ہو گا اور ايسي ذاتوں ، قومتوں پر مشتمل ہو گا جن ميں حامل ھذا " ٻ ، پ ، ٹ ، چ ، ڈ ، ڈٰ ، ڑ ، ژ ، گ ، ڈٰ ، ن‏‏‏‏‏‏ِِٰٰ " کي صوتي آوازيں نہيں ھونگي ھو بھي نہيں سکتي کيونکہ عربي کے اندر يہ آوازيں نہيں ہيں. يہاں پر يہ سوال بڑا اہم ہے کہ بلوچ محقق اور تاريخ دان دعوي کرتے ہيں بلکہ واشگاف الفاظ ميں دليليں ديتے ہيں وہ حلب سے آئے ہيں کچھ بلوچ لکھاری متضاد دعویٰ کرتے ہیں وہ کرد النسل ہیں کچھ بلوچ لکھاری اپنا تعلق فارسی النسل گروہ سے جوڑتے ہیں ان بلوچ لکھاریوں کی تحریروں میں جا بجا ابہام پھیلا ہوا ہے مغالطے پیدا کیئے گئے ہیں بلوچ بذات خود دعویٰ کرتے ہیں وہ نسلی گروہ ہیں لیکن عرب اور فارس لسانی ، اور قومتی گروہ ہیں فارس اور عرب نسلی گروہ نہیں ہیں جیسا کہ سرائیکی لسانی ، قومتی ، تہذیبی ، ڄغرافیائی گروہ ہے ۔ اگے چل کر بتانے کی کوشش کرونگا کہ مغالطہ کیوں پیدا کیا گیا ہے ۔ اب دیکھیں سيريا يعني شام کا ايک عربي السامی علاقہ ہے جہاں پر عربي آس پاس بولي اور سمجھي جاتي ہے ۔ جیسا کہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کچھ گروہ حلب سے درانداز یا ہجرت کی غرض سے نکلتے ہيں اور ايران ، اومان کے راستے ملتان میں داخل ہوتے ہيں کيا ان گروہوں کی بول چال اور رسم و رواج میں " ٻ ، پ ، ٹ ، چ ، ڈ ، ڈٰ ، ڑ ، ژ ، گ ، ڈٰ ، ن‏‏‏‏‏‏ِِٰٰ " کی اوازيں یا ایسے الفاظ بولنے کی صلاحیت ہو گی ؟ يا ذاتيں ، قومتيں ہونگي ؟ نہيں اس تصور کا سوال پيدا نہيں ہوتا کوئي ایسا قبيلہ يا گروہ " ٻ ، پ ، ٹ ، چ ، ڈ ، ڈٰ ، ڑ ، ژ ، گ ، ڈٰ ، ن‏‏‏‏‏‏ِِٰٰ "حروفوں کي ذات کا نہیں ھو گا کيونکہ وہ عرب خطہ سے داخل ہوا ہے جو ملتانی آوازیں نکالنے سے قاصر ہیں۔

جسیا کہ اوپر واضع ہوا ہے عرب خطہ سے داخل ہونے والے گروہ ملتانی لسانی آوازیں نکالنے سے قاصر ہونگے ۔ جب یہ گروہ ملتان کی حدود میں داخل ہوئے ہونگے تو یہاں کے لوگوں کے ساتھ میل میلاب ہونے کی وجہ سے اس گروہ میں ملتانی آوازیں اور ملتانی گروہ شامل ہوئے ھونگے یقیناً ایسا ھی ہے ۔ میں نے جس سے بحث کی ہے انھوں نے کہا ہے بلوچوں نے یہاں پر پر آ کر بروہی ، سندھی اور سرائیکی سیکھی ہے ۔ جن گروہ سے انھوں نے سرائیکی یا بروہی سیکھی ہے وہ کون تھے یا ہیں ؟ یا پھر سرائیکی سیکھانے والے فرشتے یا چرند پرند تھے جو سرائیکی سیکھا کر غائب ہو گئے ؟ انکی قومیت انجان ہوگی ؟ جو بلوچوں کو سرائیکی ، بروہی سیکھا کر اس سرزمین سے ہجرت کر گئے ؟ سرائیکی سائکی کے بارے میں مشہور ہے سرائیکی ہجرت نہیں کرتے بلکہ اپنے وطن میں رہنا پسند کرتے ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے وہ قومیں ، قبیلے کہاں ہیں جنھوں نے بلوچوں کو سرائیکی ، سندھی ، بروہی سیکھائی ؟ بقول بلوچوں کے سرائیکی زبان ہے قوم نہیں ہے ؟

بلوچوں کا یہ کہنا کہ سرائیکی زبان ہے قوم نہیں ہے خود ساختہ نظریہ ہے دراصل بلوچ ملتانی آوازیں نکالنے والے گروہ کا جبری شکار کرنا چاہتے ہیں اور اس گروہ کو بروہی کی طرز پر جبری طور پر گمشدہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس گروہ کو جبری انتقال قومیت کے ذریعے بلوچ بنایا جا سکے ۔ حالانکہ جیسا کہ اوپر واضع ہوتا ہے بلوچی لسان کا تعلق سامی السان گروہ سے ہے جس کے اندر ملتانی آوازیں نہیں بولی جاتی پھر یہ سوال اپنی جگہ پر وزن رکھتا ہے بلوچ گروہ کے اندر گ ، ٹ ، ڑ ، جٰ ، چ ٰ وغیرہ کی اوازیں نکالنی والی قومیں کیسے داخل ہوئی ہیں ؟ واضع اور واشگاف الفاظ میں کہنا چاہتا ہوں سرائیکیوں کو بھی جبری انتقال قومیت کا سامنا ہے ۔ اور بلوچ ، سرائیکی قبائل کو زبردستی بلوچ بنا کر پیش کر رہے ہیں اور انکو جبری انتقال قومیت ذریعے غائب کرنا چاہتے ہیں بلوچوں نے بروہی کو بھی جبری طور پر غائب کر دیا ہے اور بروہیوں کی غالب اکثریت آج خود کو بلوچ سمجھتی ہے ۔ حالانکہ بروہی قلات کے وارث ہیں زمینی حقائق اس بات کے شاہد ہیں بروہی قلات کے وارث ہیں لیکن جبری انتقال قومیت کی وجہ سے قلات پر بلوچ مسلط ہیں ۔ بروہی کی شناخت کو مسخ کر دیا گیا ہے ۔

بلوچوں کا یہ دعوي کہ بروہي ، بلوچ ہيں يہ بات عقل کي کسوٹي پر پوري نہين اترتي عقل اسکو تسليم نہيں کرتي کيونکہ بلوچ عرب کے مرکز سے آئے ہيں اور بروہيوں کا دعویٰ ہے وہ دراوڑي النسل کي سرحد پر آباد ہيں دونوں لساني ، تہذيبي ، تمدني ، خوني ، ثقافتي ، جغرافيائي لحاظ سے ايک دوسرے کي ضد ہيں ايک دوسرے کي مخالف سمت ميں رہنے والے ہيں تو بلوچوں کا يہ دعوي خود ساختہ ہے ظلم پر مبني ہے يہ دعوي جبري انتقال قوميت کا شاخسانہ ہے يہ جبري انتقال قوميت کا جرحانہ طرز عمل ہے جو بلوچوں نے بروہي پر مسلط کر رکھا ہے اور بروہي رياست قلات پر قبضہ کر کے بروہيوں کو بے شناخت کر ديا ہے کيونکہ علاقے کي شناخت قوميت کي شناخت کے ساتھ منسلک ہوتي ہے علاقائی شناخت سے ھی اپ اپنے قومتی وجود کو تسلیم کرواتے ہیں اگر اپکی علاقائی شناخت پر انجان گروہ کا قبضہ ہو جائے تو اپ مجبور ہو کر مسلط کردہ گروہ کی شناخت اختیار کر بیٹھتے ہیں جیسا کہ بروہی کے ساتھ ہوا ہے ۔

سرائیک بھی متاثرہ فریق ہیں ملتان جسکی سرحدیں کیچ مکران تک تھی اور ہیں سرائیکی پے در پے حملوں کے نتیجے میں کیچ سے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوئے اور کیچ مکران کے مقامی جبری انتقال قومیت کا شکار ہو گئے ہیں موجودہ بلوچستان میں بھاگ ناڑی سرائیکی علاقہ ہے جہاں پر قدیم سرائیکی آب بھی آباد ہیں جنھوں نے جبری انتقال قومیت کو مسترد کیا ہے بلوچستان میں آپ کو سرائیکی بولنے والے قبائل جہاں کہیں بھی ملیں، ان کی آبائی جڑیں کسی نہ کسی پشت میں اسی ناڑی میں جاکر ملیں گی ۔ سرائیکی کے یہ وہ قدیم قبائل ہیں جو جبری انتقال قومیت کا نشانہ بنے اور اپنی شناخت کو کھو بیٹھے اب ان قبائل پر بلوچی کا ٹھپہ لگتا ہے حالانکہ تہذیبی ، تمدنی ، لسانی ، ثقافتی ، جغرافیائی طور پر ان قبائل کا تعلق حلب سے نہیں ہے بلکہ جغرافیائی تہذیبی ، تمدنی ، ثقافتی اور لسانی بنیاد پر یہ قبائل سرائیکی ہیں لیکن جبری انتقال قومیت کا شکار ہو چکے ہیں اور زبردستی بلوچ کہلواتے ہیں ہمیں بروہی اور پوٹھواری قوم کی جبری گمدشدگی سے سبق سیکھنے کی اشد ضرورت ہے یہ جبری گمشدگی فرد واحد یا گروہ کی نہیں ہے بلکہ پوری قوم کو جبراً اغوا کر لیا گیا ہے اور جبراً انتقال قومیت مسلط کر دی گئی ہے ۔بلوچوں نے متضاد تحریریں لکھ کر ابہام پیدا کیئے تاکہ سرائیکی ، سندھی اور بروہی قبائل کو جبری طور پر بلوچ کے کھاتے میں دیکھایا جا سکے ۔

 
Last edited by a moderator:

Back
Top