تہذیبی نرگسیت کے بعد ۔ کتاب: مغالطے مبالغے

redaxe

Politcal Worker (100+ posts)


=============================================
110304123555_anwer_sen_roy.jpg

انور سِن رائے
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
=============================================
کتاب: مغالطے مبالغے
مصنف: مبارک حیدر
اشاعت: مئی 2011
ناشر: سانجھ پبلیکیشنز ٹیمپل روڈ لاہور
بیرونِ ملک قیمت: دس پاؤنڈ / پندرہ ڈالر
پاکستان میں قیمت: 200 روپے

110628154723_mughaltay_mubalghay_226x283_.jpg


ہمارا عام رویہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی بات اسلام اور دین کا نام لے کر پیش اور مسلط کی جاتی ہے تو ہم اس پر سوال اٹھانے سے نہ صرف جھجھکتے ہیں بلکہ خوفزدہ ہو جاتے ہیں

تہذیبی نرگسیت کے بعدمغالطے مبالغے کے ذریعے مبارک حیدر نے جس آلودگی کو ہٹانے کی کوشش کی ہے وہ ڈھیر نہیں پہاڑ ہے۔ خاص طور پر اس نسل کے پڑھنے والوں کو ان کی باتیں سمجھنے اور قبول کرنے میں شدید رکاوٹ پیش آئے گی جس نے ان مغالطوں اور مبالغوں کو تاریخی حقائق کے طور پر پڑھا ہے۔ اور سانحہ یہ ہے کہ یہ معاملہ اب صرف ایک نسل کا نہیں کئی نسلوں کا ہے۔


جذبات، مبالغوں اور مغالطوں پر پرورش پانے والے یہ لوگ عام لوگ نہیں ہیں۔ یہ مفکر، محقق، دانشور، صحافی، انجینئر، ڈاکٹر، بینکر، کاروباری اور صنعتکار ہی نہیں اب ایک عرصے سے پرائمری، سکینڈری سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور پروفیسر کے منصب تک بھی پہنچ چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے پوری سنجیدگی سے اپنے بعد آنے والوں کی تربیت اور نشو نما میں حصہ لے رہے ہیں۔ یعنی ایک ایسا ڈھانچہ تیار ہو چکا ہے جس کے کسی بھی حصے کے لیے اب یہ قبول کرنا تو در کنار اس پر شک کرنا بھی کم و بیش ناممکن ہو گا کہ جو کچھ وہ پڑھتے، لکھتے، کہتے، سنتے، سمجھتے اور سمجھاتے آئے ہیں وہ غلط بھی ہو سکتے ہیں۔

کیونکہ مبارک حیدر جن مغالطوں اور مبالغوں کی بات کر رہے ہیں انھیں نام نہاد تاریخی حقائق بنایا جا چکا ہے۔ ان پر مبنی ایسی بے شمار کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور رسائل و جرائد کی فائلیں بھری پڑی ہیں کہ جو بھی کسی ایسے مسئلے پر تحقیق کرے گا اس کے تمام سوالوں کا جو بھی نتیجہ سامنے آئے گا مغالطوں اور مبالغوں پر مبنی ہو گا۔


اردو میں تاریخ کو درپیش اس مسئلے کا اولین اظہار محترم علی عباس جلال پوری نے کیا تھا۔ ان کی کتاب عام فکری مغالطے ستر کی دہائی میں شائع ہوئی تھی لیکن اس وقت اس کو خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی اس بات کو محسوس کیا گیا کہ خاص طور پر ساٹھ کی دہائی سے ہی نصاب اور تاریخ میں ایسے لوگوں نے منظم در اندازی شروع کر دی تھی جو پاکستان ایک ایسی مملکت بنانا چاہتے تھے جہاں وہ اپنے ان مخصوص نظریات کو مسلط کر سکیں جنھیں وہ تحریکِ پاکستان پر مسلط کرنے میں ناکام رہے تھے۔

اس بات سے تو اختلاف نہیں ہے کہ ہر شہری کو اپنے نظریات رکھنے، پھیلانے، رائے عامہ کو ہموار کرنے اور ان کی بنا پر اقتدار میں آنے کا حق ہے۔ لیکن یہ سارا عمل جمہوری طریقے سے ہونا چاہیے لیکن اس راستے کی بجائے تاریخ اور نصاب کی کتابوں میں تبدیلیاں کر کے نئے ذہنوں کی آزادانہ نمو کے راستے کو مخصوص راستے پر ڈالنے کی کوشش کی گئی۔

ہمارا عام رویہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی بات اسلام اور دین کا نام لے کر پیش اور مسلط کی جاتی ہے تو ہم اس پر سوال اٹھانے سے نہ صرف جھجھکتے ہیں بلکہ خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ شاید اسی کمزوری کو سامنے رکھتے ہوئے محض اپنے اپنے مکتبِ فکر کو واحد درست قرار دینے اور باقی پر کفر کے فتوے جاری کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اور اس اجارہ داری کو اس حد تک لے جایا گیا کہ مرنے مارنے والے مسلح مذہبی گروہ پیدا ہونے لگے۔

اس صورتِ حال کے عروج میں دوسال قبل شایع ہونے والی پہلی کتاب تہذیبی نرگسیت پر تبصرہ کرتے ہوئے عارف وقار نے مبارک حیدر کے بارے میں بتایا تھا کہ پینتالیس برس قبل ایک نوجوان جوشیلے مزدور لیڈر کے رُوپ میں شروع ہونے والا اُن کا سفر ارتقا کی فطری منزلیں طے کرتا ہوا اِس پختہ عمری میں انہیں ایک متحمل مزاج لیکن زِیرک اور تجربہ کار انقلابی دانشور کی منزل تک لے آیا ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ مبارک حیدر نے یہ سفر درجہ بہ درجہ طے کیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے جو مبارک حیدر اب ہم سے مخاطب ہے وہ خود بھی اُس مشین کا ڈھلا ہوا ہے، جو خرابیاں رکھنے والا مال تیار کر رہی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ انھوں نے عمل کے دوران اپنی خرابیاں دیکھیں، انھیں پرکھا، ان کی درستی کے رستے ڈھونڈے اور پھر انھیں تبدیل اور بیان کرنے کا حوصلہ پیدا کیا ہے۔

یعنی سب سے پہلے انھوں نے خود اپنے آپ کو اور اپنی سوچ اور رویوں کو شک، تجزیے، انحراف اور نئی ترتیب کے سامنے پیش کیا ہے۔ گویا ان کی کتاب تمام اردو پڑھنے والوں کے لیے اور خاص طور پر اندھی پیروی اور عقیدت مندی پر یقین رکھنے والوں کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ سب لوگوں کو کم از کم ایک بار ذاتی اعتقادات اور تعصبات سے بالا ہو کر اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔

اس کتاب میں جن مبالغہ آرائیوں کو موضوع بنایا گیا ہے ان میں پارسائی، عدلیہ کا تقدس، آزاد میڈیا، علم کی ملکیت اور اسلام دشمنی کے بارے میں کی جانے والی مبالغہ آرائی شامل ہے جب کہ مغالطوں میں اسلامی سلطنت، نگراں جماعت، قیامِ خلافت، مغربی تہذیب اور سکیولر ازم کے بارے میں پائے جانے والے مغالطوں پر بات کی گئی ہے۔

منو بھائی اور حمید اختر نے اس کتاب پر جو کالم لکھے ہیں۔ ان کا مطالعہ بھی خاصا اس کتاب کے بارے میں جاننے کے لیے خاصا مددگار ہو سکتا ہے۔



source: http://www.bbc.co.uk/urdu/entertainment/2011/06/110628_mughaltay_mubalghay_sen.shtml
 

Skeptic

Siasat.pk - Blogger
He is prolific writer I read his book "تہذیبی نرگسیت ". It is wonderful work by Mobarak Haider that show mirror to our psychopath society.I am sure in this new book he must have analysed the same problem with different dimension. Definitely it will reflect our fundamental problems with cure too.
 

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
I think most of our writers are divided into secularist and religious mindsets which has not worked in pakistan since its creation.

Just as ruling elite has been abusing people so have been the mullas. Islam as a deen has been pushed out of the way so there is no solution till we come back to it. As a result civil war is becoming more and more inevitable.

Both parties think that jinnah was not a muslim at all or was a westernized muslim, ignoring what jinnah himself said all along about islam and pakistan once he fought to create pakistan.