توشہ خانہ ٹرائل کرنیوالی عدالت اور ملٹری ٹریبونل میں فرق نہیں،وکیل عمران

intizhaaiaha.jpg


عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ٹرائل کرنے والی عدالت اور ملٹری ٹریبونل میں کوئی فرق نہیں ، حقوق اور فئیر ٹرائل وہاں بھی نہیں ملتے اور یہاں بھی کوئی حق محفوظ نہیں اور فئیر ٹرائل کی شرائط کو روندا جا رہا ہے۔

توشہ خانہ ٹرائل ایک ایسے جج کی طرف سے ڈے ٹو ڈے سماعت رکھ کر چلایا جانا جس کے خلاف عدم اعتماد اور تعصب کی درخواست درخواست دائر کر رکھی گئی ہو اس سارے کیس اور اس سے حاصل کیا جانے والا ہدف نہ صرف واضح کرتا ہے بلکہ اس ٹرائل کی کاروائی میں عمران خان کے فئیر ٹرائل کے بنیادی حق کو بھی سلب کیے جانے کو بھی واضح کرتا ہے
https://twitter.com/x/status/1679067591162355714
ایساٹرائل جس میں الزام علیہ کو حق دفاع میسر نہ ہو محض ایک ڈرامہ اور ڈھکوسلہ رہ جاتا ہے

انتظار پنجوتھہ نے آخر میں وضاحت کی کہ کورٹ کا لفظ جان بوجھ کر نہیں کیا جا رہا کیونکہ آئین میں ملٹری کے پاس عدلیہ کا کوئی اختیار نہیں ہو سکتا

توشہ خانہ ٹرائل ،عمران خان اور چیف جسٹس توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی نگرانی کی درخواست منظور کر کے جس انداز میں بعد میں فیصلہ تبدیل کیا گیا اسکی گواہ ساری دنیا ہے اس کیس سے پہلے عدم اعتماد کی درخواست آنا اور معزز جج صاحب کا پھر بھی ایسا فیصلہ دینا بھی ساری دنیا کے سامنے ہے لیکن اب کچھ ایسا ہو رہا کہ جس کا تصوربھی اس ماڈرن دور اور سوشل میڈیا کے دور میں ممکن ہی نہیں
https://twitter.com/x/status/1679028045993345024
پچھلے تین دن سے مبینہ طور پر چیف جسٹس بیمار ہیں اور جب کوئی چیف جسٹس صاحب بیمار ہو ں یا چھٹی پر ہوں تو ان کے بعد سب سے سنئیر ترین جج وہ تمام انتظامی زمہ داریاں نبھاتے ہیں جو چیف جسٹس کا دائرہ اختیار ہوتی ہیں یعنی عدلیہ اور انصاف کا نظام رکتا نہیں انصاف کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔

ان تین دنوں میں عمران خان پر انصاف کے دروازے اسلام آباد ہائی کورٹ نے بند کر رکھے ہیں پیر یعنی دس جولائی کو عمران خان کی جانب سے ہم نے مختلف مقدمات میں حفاظتی ضمانتیں صبح نو بجے عدالت کا وقت شروع ہوتے ہی دائر کیں یہاں یہ بتانا انتہائی اہم ہے کہ حفاظتی ضمانتوں کا کیس ایک بہت ہی ارجنٹ نوعیت کا کیس ہوتا ہے کیونکہ اس میں انسان کی آزادی کا سوال شامل ہوتا ہے

اسی لئے ان درخواستوں کو فوراً سماعت کے لیے لگایا جا تا ہے لیکن عمران خان کی پیر کو دائر کی جانے والی درخواستیں چیف جسٹس کی بیماری کی وجہ سے مقرر نہ ہو پائیں اس کے بعد ہم نے توشہ خانہ ٹرائل میں حالیہ غیر قانونی فیصلے کے خلاف پھر سے نئی نگرانی دائر کی ہے جس کے ساتھ ہماری ارجنٹ سماعت مقرر کرانے کی درخواست بھی ہے

اسے پہلے دن بھی چیف جسٹس کی بیماری کی وجہ سے مقرر نہیں گیا کہا گیا کہ دن کے دوسرے حصے میں جج صاحب آئیں گے لیکن نہیں آئے اور آج مقرر کرنے کے باوجود پھر جج صاحب خرابی صحت کے بدولت نہیں آ پائے ۔

ہم ساتھ ساتھ عدم اعتماد کی درخواست کے زکر بھی کرتے ہیں اور استدعا یہ بھی کر رہے ہیں کہ کیس کسی اور معزز جج کو مارک کیا جائے تاکہ ہماری شنوائی ہو پائے لیکن یہی بتایا جا رہا کہ جج صاحب خود سنیں گے اور وہ آئیں گے دوسری جانب ٹرائل کو رٹ ہائی کورٹ کی اس نگرانی اور سپریم کورٹ میں دائر نگرانی کے متعلق آگاہ کیا گیا ہے لیکن انہیں ایسی عجلت ہے کہ وہ نہ تو سپریم کورٹ اور نہ ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔

یہ ہے نظام انصاف اور یہ کیس کسی عام شخص نہیں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ اور مقبول ترین لیڈر کا ہے
 

Syaed

MPA (400+ posts)
intizhaaiaha.jpg


عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ٹرائل کرنے والی عدالت اور ملٹری ٹریبونل میں کوئی فرق نہیں ، حقوق اور فئیر ٹرائل وہاں بھی نہیں ملتے اور یہاں بھی کوئی حق محفوظ نہیں اور فئیر ٹرائل کی شرائط کو روندا جا رہا ہے۔


توشہ خانہ ٹرائل ایک ایسے جج کی طرف سے ڈے ٹو ڈے سماعت رکھ کر چلایا جانا جس کے خلاف عدم اعتماد اور تعصب کی درخواست درخواست دائر کر رکھی گئی ہو اس سارے کیس اور اس سے حاصل کیا جانے والا ہدف نہ صرف واضح کرتا ہے بلکہ اس ٹرائل کی کاروائی میں عمران خان کے فئیر ٹرائل کے بنیادی حق کو بھی سلب کیے جانے کو بھی واضح کرتا ہے
https://twitter.com/x/status/1679067591162355714
ایساٹرائل جس میں الزام علیہ کو حق دفاع میسر نہ ہو محض ایک ڈرامہ اور ڈھکوسلہ رہ جاتا ہے

انتظار پنجوتھہ نے آخر میں وضاحت کی کہ کورٹ کا لفظ جان بوجھ کر نہیں کیا جا رہا کیونکہ آئین میں ملٹری کے پاس عدلیہ کا کوئی اختیار نہیں ہو سکتا

توشہ خانہ ٹرائل ،عمران خان اور چیف جسٹس توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی نگرانی کی درخواست منظور کر کے جس انداز میں بعد میں فیصلہ تبدیل کیا گیا اسکی گواہ ساری دنیا ہے اس کیس سے پہلے عدم اعتماد کی درخواست آنا اور معزز جج صاحب کا پھر بھی ایسا فیصلہ دینا بھی ساری دنیا کے سامنے ہے لیکن اب کچھ ایسا ہو رہا کہ جس کا تصوربھی اس ماڈرن دور اور سوشل میڈیا کے دور میں ممکن ہی نہیں
https://twitter.com/x/status/1679028045993345024

پچھلے تین دن سے مبینہ طور پر چیف جسٹس بیمار ہیں اور جب کوئی چیف جسٹس صاحب بیمار ہو ں یا چھٹی پر ہوں تو ان کے بعد سب سے سنئیر ترین جج وہ تمام انتظامی زمہ داریاں نبھاتے ہیں جو چیف جسٹس کا دائرہ اختیار ہوتی ہیں یعنی عدلیہ اور انصاف کا نظام رکتا نہیں انصاف کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔

ان تین دنوں میں عمران خان پر انصاف کے دروازے اسلام آباد ہائی کورٹ نے بند کر رکھے ہیں پیر یعنی دس جولائی کو عمران خان کی جانب سے ہم نے مختلف مقدمات میں حفاظتی ضمانتیں صبح نو بجے عدالت کا وقت شروع ہوتے ہی دائر کیں یہاں یہ بتانا انتہائی اہم ہے کہ حفاظتی ضمانتوں کا کیس ایک بہت ہی ارجنٹ نوعیت کا کیس ہوتا ہے کیونکہ اس میں انسان کی آزادی کا سوال شامل ہوتا ہے

اسی لئے ان درخواستوں کو فوراً سماعت کے لیے لگایا جا تا ہے لیکن عمران خان کی پیر کو دائر کی جانے والی درخواستیں چیف جسٹس کی بیماری کی وجہ سے مقرر نہ ہو پائیں اس کے بعد ہم نے توشہ خانہ ٹرائل میں حالیہ غیر قانونی فیصلے کے خلاف پھر سے نئی نگرانی دائر کی ہے جس کے ساتھ ہماری ارجنٹ سماعت مقرر کرانے کی درخواست بھی ہے

اسے پہلے دن بھی چیف جسٹس کی بیماری کی وجہ سے مقرر نہیں گیا کہا گیا کہ دن کے دوسرے حصے میں جج صاحب آئیں گے لیکن نہیں آئے اور آج مقرر کرنے کے باوجود پھر جج صاحب خرابی صحت کے بدولت نہیں آ پائے ۔

ہم ساتھ ساتھ عدم اعتماد کی درخواست کے زکر بھی کرتے ہیں اور استدعا یہ بھی کر رہے ہیں کہ کیس کسی اور معزز جج کو مارک کیا جائے تاکہ ہماری شنوائی ہو پائے لیکن یہی بتایا جا رہا کہ جج صاحب خود سنیں گے اور وہ آئیں گے دوسری جانب ٹرائل کو رٹ ہائی کورٹ کی اس نگرانی اور سپریم کورٹ میں دائر نگرانی کے متعلق آگاہ کیا گیا ہے لیکن انہیں ایسی عجلت ہے کہ وہ نہ تو سپریم کورٹ اور نہ ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔

یہ ہے نظام انصاف اور یہ کیس کسی عام شخص نہیں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ اور مقبول ترین لیڈر کا ہے
ریپبلک کی تمام نام نہاد عدالتیں(کیونکہ یہاں عدالتوں کا کوئی وجود سرے سے ہے ہی نہیں)لوہاروں کی ایک رنڈی کے چڈوں سے نکلنے والے اشاروں پہ چل رہی ہیں 😉اور یہ اشارے جنرل کھنڈورام کے زریعے منتقل کیے جاتے ہیں
 

Resilient

Minister (2k+ posts)
intizhaaiaha.jpg


عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ٹرائل کرنے والی عدالت اور ملٹری ٹریبونل میں کوئی فرق نہیں ، حقوق اور فئیر ٹرائل وہاں بھی نہیں ملتے اور یہاں بھی کوئی حق محفوظ نہیں اور فئیر ٹرائل کی شرائط کو روندا جا رہا ہے۔


توشہ خانہ ٹرائل ایک ایسے جج کی طرف سے ڈے ٹو ڈے سماعت رکھ کر چلایا جانا جس کے خلاف عدم اعتماد اور تعصب کی درخواست درخواست دائر کر رکھی گئی ہو اس سارے کیس اور اس سے حاصل کیا جانے والا ہدف نہ صرف واضح کرتا ہے بلکہ اس ٹرائل کی کاروائی میں عمران خان کے فئیر ٹرائل کے بنیادی حق کو بھی سلب کیے جانے کو بھی واضح کرتا ہے
https://twitter.com/x/status/1679067591162355714
ایساٹرائل جس میں الزام علیہ کو حق دفاع میسر نہ ہو محض ایک ڈرامہ اور ڈھکوسلہ رہ جاتا ہے

انتظار پنجوتھہ نے آخر میں وضاحت کی کہ کورٹ کا لفظ جان بوجھ کر نہیں کیا جا رہا کیونکہ آئین میں ملٹری کے پاس عدلیہ کا کوئی اختیار نہیں ہو سکتا

توشہ خانہ ٹرائل ،عمران خان اور چیف جسٹس توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی نگرانی کی درخواست منظور کر کے جس انداز میں بعد میں فیصلہ تبدیل کیا گیا اسکی گواہ ساری دنیا ہے اس کیس سے پہلے عدم اعتماد کی درخواست آنا اور معزز جج صاحب کا پھر بھی ایسا فیصلہ دینا بھی ساری دنیا کے سامنے ہے لیکن اب کچھ ایسا ہو رہا کہ جس کا تصوربھی اس ماڈرن دور اور سوشل میڈیا کے دور میں ممکن ہی نہیں
https://twitter.com/x/status/1679028045993345024

پچھلے تین دن سے مبینہ طور پر چیف جسٹس بیمار ہیں اور جب کوئی چیف جسٹس صاحب بیمار ہو ں یا چھٹی پر ہوں تو ان کے بعد سب سے سنئیر ترین جج وہ تمام انتظامی زمہ داریاں نبھاتے ہیں جو چیف جسٹس کا دائرہ اختیار ہوتی ہیں یعنی عدلیہ اور انصاف کا نظام رکتا نہیں انصاف کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔

ان تین دنوں میں عمران خان پر انصاف کے دروازے اسلام آباد ہائی کورٹ نے بند کر رکھے ہیں پیر یعنی دس جولائی کو عمران خان کی جانب سے ہم نے مختلف مقدمات میں حفاظتی ضمانتیں صبح نو بجے عدالت کا وقت شروع ہوتے ہی دائر کیں یہاں یہ بتانا انتہائی اہم ہے کہ حفاظتی ضمانتوں کا کیس ایک بہت ہی ارجنٹ نوعیت کا کیس ہوتا ہے کیونکہ اس میں انسان کی آزادی کا سوال شامل ہوتا ہے

اسی لئے ان درخواستوں کو فوراً سماعت کے لیے لگایا جا تا ہے لیکن عمران خان کی پیر کو دائر کی جانے والی درخواستیں چیف جسٹس کی بیماری کی وجہ سے مقرر نہ ہو پائیں اس کے بعد ہم نے توشہ خانہ ٹرائل میں حالیہ غیر قانونی فیصلے کے خلاف پھر سے نئی نگرانی دائر کی ہے جس کے ساتھ ہماری ارجنٹ سماعت مقرر کرانے کی درخواست بھی ہے

اسے پہلے دن بھی چیف جسٹس کی بیماری کی وجہ سے مقرر نہیں گیا کہا گیا کہ دن کے دوسرے حصے میں جج صاحب آئیں گے لیکن نہیں آئے اور آج مقرر کرنے کے باوجود پھر جج صاحب خرابی صحت کے بدولت نہیں آ پائے ۔

ہم ساتھ ساتھ عدم اعتماد کی درخواست کے زکر بھی کرتے ہیں اور استدعا یہ بھی کر رہے ہیں کہ کیس کسی اور معزز جج کو مارک کیا جائے تاکہ ہماری شنوائی ہو پائے لیکن یہی بتایا جا رہا کہ جج صاحب خود سنیں گے اور وہ آئیں گے دوسری جانب ٹرائل کو رٹ ہائی کورٹ کی اس نگرانی اور سپریم کورٹ میں دائر نگرانی کے متعلق آگاہ کیا گیا ہے لیکن انہیں ایسی عجلت ہے کہ وہ نہ تو سپریم کورٹ اور نہ ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔

یہ ہے نظام انصاف اور یہ کیس کسی عام شخص نہیں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ اور مقبول ترین لیڈر کا ہے

جو بھی جج عمران خان کے خلاف کیس چلانا چاہتا ہے ، اس کے خلاف گھٹیا پراپیگنڈا شروع کردیا جاتا ہے ، ساتھ ہی عدم اعتماد کردیا جاتا ہے ، یہی پراپیگنڈا پچھلے جج کے خلاف بھی کیا تھا اور وہ بھاگ گیا تھا ، اس سے پچھلی جج کو تو باقاعدہ عمران خان کی طرف سے دھمکیاں دی گئیں ، چوری نہیں کی تو بھاگتا کیوں ہے؟؟

یہی وکیل تھا خواجہ حارث ، نواز شریف نے ایک دن دن کا التوا نہیں مانگا سوائے فیصلے والے دن کہ ایک دو دن فیصلہ لیٹ کرلیں وہ خود عدالت میں کھڑے ہوکر فیصلہ سننا چاہتا ہے ، مگر ایسا نہیں کیا گیا ، اس کیس میں صرف پانچ سات گواہ ہیں دو ماہ میں کیس نمٹ جانا چاہیے ، عمران خان پچھلے سات ماہ سے لٹکا رہا ہے ، کبھی عدم اعتماد کرتا ہے ، کبھی وکیل تبدیل کرتا ہے ، سات دفعہ تو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ چلا گیا ہے ، اسٹے مانگنے ، یہ بار بار اسٹے کیوں مانگتا ہے ، جب کہ خود یہ دوسروں کو اسٹے دینے کے سخت خلاف ہے ، اس سے بڑا منافق کوئی نہیں ، خود یہ دوسروں کے خلاف ڈے ٹوڈے کیس چلانے کا سب سے بڑا حامی ہے اپنے خلاف اسے یہ فاشزم لگتا ہے اورملٹری کورٹس سے تشبیہ دیتا ہے ،عمران کی طرح سپیڈی کورٹس بنانے کا جنون نواز شریف کو بھی تھا ، اس نے اینٹی ٹیررسٹ اور احتساب عدالتیں بنائیں مگر اپنے خلاف سپیڈی کورٹس کا وہ کبھی مخالف نہیں رہا ، عمران خان کو یہ سپیدی کورٹس نظام مارشل لائی نظام لگتا ہے ؟؟
 

Resilient

Minister (2k+ posts)
intizhaaiaha.jpg


عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ٹرائل کرنے والی عدالت اور ملٹری ٹریبونل میں کوئی فرق نہیں ، حقوق اور فئیر ٹرائل وہاں بھی نہیں ملتے اور یہاں بھی کوئی حق محفوظ نہیں اور فئیر ٹرائل کی شرائط کو روندا جا رہا ہے۔


توشہ خانہ ٹرائل ایک ایسے جج کی طرف سے ڈے ٹو ڈے سماعت رکھ کر چلایا جانا جس کے خلاف عدم اعتماد اور تعصب کی درخواست درخواست دائر کر رکھی گئی ہو اس سارے کیس اور اس سے حاصل کیا جانے والا ہدف نہ صرف واضح کرتا ہے بلکہ اس ٹرائل کی کاروائی میں عمران خان کے فئیر ٹرائل کے بنیادی حق کو بھی سلب کیے جانے کو بھی واضح کرتا ہے
https://twitter.com/x/status/1679067591162355714
ایساٹرائل جس میں الزام علیہ کو حق دفاع میسر نہ ہو محض ایک ڈرامہ اور ڈھکوسلہ رہ جاتا ہے

انتظار پنجوتھہ نے آخر میں وضاحت کی کہ کورٹ کا لفظ جان بوجھ کر نہیں کیا جا رہا کیونکہ آئین میں ملٹری کے پاس عدلیہ کا کوئی اختیار نہیں ہو سکتا

توشہ خانہ ٹرائل ،عمران خان اور چیف جسٹس توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی نگرانی کی درخواست منظور کر کے جس انداز میں بعد میں فیصلہ تبدیل کیا گیا اسکی گواہ ساری دنیا ہے اس کیس سے پہلے عدم اعتماد کی درخواست آنا اور معزز جج صاحب کا پھر بھی ایسا فیصلہ دینا بھی ساری دنیا کے سامنے ہے لیکن اب کچھ ایسا ہو رہا کہ جس کا تصوربھی اس ماڈرن دور اور سوشل میڈیا کے دور میں ممکن ہی نہیں
https://twitter.com/x/status/1679028045993345024

پچھلے تین دن سے مبینہ طور پر چیف جسٹس بیمار ہیں اور جب کوئی چیف جسٹس صاحب بیمار ہو ں یا چھٹی پر ہوں تو ان کے بعد سب سے سنئیر ترین جج وہ تمام انتظامی زمہ داریاں نبھاتے ہیں جو چیف جسٹس کا دائرہ اختیار ہوتی ہیں یعنی عدلیہ اور انصاف کا نظام رکتا نہیں انصاف کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔

ان تین دنوں میں عمران خان پر انصاف کے دروازے اسلام آباد ہائی کورٹ نے بند کر رکھے ہیں پیر یعنی دس جولائی کو عمران خان کی جانب سے ہم نے مختلف مقدمات میں حفاظتی ضمانتیں صبح نو بجے عدالت کا وقت شروع ہوتے ہی دائر کیں یہاں یہ بتانا انتہائی اہم ہے کہ حفاظتی ضمانتوں کا کیس ایک بہت ہی ارجنٹ نوعیت کا کیس ہوتا ہے کیونکہ اس میں انسان کی آزادی کا سوال شامل ہوتا ہے

اسی لئے ان درخواستوں کو فوراً سماعت کے لیے لگایا جا تا ہے لیکن عمران خان کی پیر کو دائر کی جانے والی درخواستیں چیف جسٹس کی بیماری کی وجہ سے مقرر نہ ہو پائیں اس کے بعد ہم نے توشہ خانہ ٹرائل میں حالیہ غیر قانونی فیصلے کے خلاف پھر سے نئی نگرانی دائر کی ہے جس کے ساتھ ہماری ارجنٹ سماعت مقرر کرانے کی درخواست بھی ہے

اسے پہلے دن بھی چیف جسٹس کی بیماری کی وجہ سے مقرر نہیں گیا کہا گیا کہ دن کے دوسرے حصے میں جج صاحب آئیں گے لیکن نہیں آئے اور آج مقرر کرنے کے باوجود پھر جج صاحب خرابی صحت کے بدولت نہیں آ پائے ۔

ہم ساتھ ساتھ عدم اعتماد کی درخواست کے زکر بھی کرتے ہیں اور استدعا یہ بھی کر رہے ہیں کہ کیس کسی اور معزز جج کو مارک کیا جائے تاکہ ہماری شنوائی ہو پائے لیکن یہی بتایا جا رہا کہ جج صاحب خود سنیں گے اور وہ آئیں گے دوسری جانب ٹرائل کو رٹ ہائی کورٹ کی اس نگرانی اور سپریم کورٹ میں دائر نگرانی کے متعلق آگاہ کیا گیا ہے لیکن انہیں ایسی عجلت ہے کہ وہ نہ تو سپریم کورٹ اور نہ ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔

یہ ہے نظام انصاف اور یہ کیس کسی عام شخص نہیں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ اور مقبول ترین لیڈر کا ہے


عمران خان کو اب بھی بھی شکایت ہے کہ اسے حفاظتی ضمانت نہیں دی جارہی ؟؟ یہ صرف تاخیری حربے ہیں ، حفاظتی ضمانت صرف ایک بار دی جاتی ہے ، کہ عدالت پیش ہونے تک گرفتار نہ کیا جائے ،عدالتیں عمران خان پراس قدر مہربان ہیں کہ ایک ہی کیس میں تین تین بار حفاظتی ضمانت دی گئی اور عمران خان پیش ہونے کی بجائے ایک نئی درخوست دائر کردیتا ہے ، ساتھ ہی ججوں کو گالیاں دے کر انڈر پریشر لانے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ، ایسا دنیا میں کہاں ہوتا ہے ؟؟