ترپ کے پتے کا تو علم نہیں ، تاھم یہ حقیقت ہے کہ عمران کے آخری ایام چل رھے ہیں اور اس کی
کیفیت اس چراغ کی مانند ہےجو بجھنے سے پہلے آخری بار پھڑ پھڑا رھا ہو ۔ میں اس کی آخری ایام میں ھاتھ پیر ھلانے کی ان کوششوں پر حیران ہو کہ اقتدار کا لالچ کس طرح انسان کے اوسان خطا کیے دیتا ہے ۔ بات سیدھی سی ہے ، اسے اسمبلی تحلیل کرکے فوری نئے الیکشن کا اعلان کر دینا چاھیے تھا لیکن موصوف حسب توقع شیدا ٹیلی کی بھڑکوں کا شکار ہوگئے ہیں ۔ شیدا ٹیلی بھی خاموشی سے پتلی گلی سے کھسک لے گا ۔
نام رہے گا اللہ کا۔ جو غائب بھی ہے ، حاضر بھی۔
عمران کو اگر اقتدار کا لالچ ہوتا تو آج یہ منحرف ارکان نہ ہوتے، عمران ان کو پیسہ بھی دے دیتا اور عہدے بھی
رہی بات استعفے کی تو اس میں بھی عمران کا نقصان ہوتا اپوزیشن کہتی کہ ہمارے پریشر کی وجہ سے استعفی دیا
عمران خان کی حکومت کو زبردستی ختم کر کے اول تو اتحادیوں کی حکومت چل نہیں پائے گی وجہ چوں چوں کا مربہ، اور پھر کیا اگلا الیکشن وہ سب عمران خان کی مخالفت میں لڑیں گے؟
اس لیے موجود حالات کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کے لیے دونوں صورتوں میں ون ون کی پوزیشن ہے