Afaq Chaudhry
Chief Minister (5k+ posts)

- حکمراں پیپلزپارٹی نے اخبارات میں نصف صفحے کا اشتہار چھپوایا ہے ’’جسے تاریخی اعزاز‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے اور اعزاز یہ ہے کہ اس کے سزا یافتہ وزیراعظم نے پاکستان کے پہلے وزیراعظم شہید ملت لیاقت علی خان کے دور وزارت عظمیٰ کا سنگ میل بھی عبور کرلیا ہے۔ اشتہار میں بتایا گیا ہے کہ لیاقت علی خان 15اگست1947کو پاکستان کے وزیراعظم بنے اور 16اکتوبر 1951تک اس منصب پر فائز رہے۔ اشتہار میں اس بات کی وضاحت موجود نہیں ہے کہ وہ وزارت عظمی سے سبکدوش کیسے ہوئے حالانکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ انہیں 16اکتوبر 1951کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں دوران تقریر شہید کردیا گیا تھا بعد میں اس باغ کو ان کے نام سے منسوب کرکے ’’لیاقت باغ کا نام دیا گیا۔ اگر انہیں شہید کرنے کی گھنائونی سازش نہ کی جاتی تو وہ یقینا وزیراعظم کی حیثیت سے پاکستان کو ترقی کی ایسی روشن شاہراہ پر گامزن کردیتے کہ اس سے وطن عزیز کو ہٹانا کسی کے بس میں نہ رہتا۔ وہ قیام پاکستان کے فوراً بعد وزیراعظم بنے تھے انہیں یہ منصب قائداعظم نے پوری قوم کے اعتماد کے ساتھ سونپا تھا۔ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم الشان قربانیوں سے بن تو گیا تھا لیکن عملاً وہ جاں بلب تھا۔ سرحدوں پرخون بہہ رہا تھا۔ مہاجرین کے لئے پٹے قافلے ہندوستان سے چلے آرہے تھے، سرکاری خزانے میں ایک کوڑی نہ تھی کہ ان کی دیکھ بھال کی جاتی۔ انگریز جو سرکاری مشینری چھوڑ گیا تھا اسے ازسرنو بحال کرنے کا مسئلہ درپیش تھا۔ سرکاری نظم ونسق کی کوئی کل سیدھی نہ تھی اوردشمن یہ توقع کررہے تھے کہ پاکستان چند ماہ سے زیادہ زندہ نہ رہ سکے گا اور ان کا اکھنڈبھارت کا وہ خواب پورا ہوجائے گا جو انہوں نے انگریزوں کے ہندوستان سے جاتے وقت دیکھا تھا لیکن لیاقت علی خان نے اپنی غیر معمولی انتظامی صلاحیت ، بے لوث خدمت ، بے مثال قربانی اور انتھک جدوجہد سے دشمنوں کے یہ خواب چکنا چور کردیے۔ قائداعظمؒتو پاکستان بننے کے بعد بمشکل 13 مہینے زندہ رہے اور اس میں سے بھی زیادہ وقت ان کی بیماری نے لے لیا لیکن انہوں نے ملک کی باگ ڈور اپنے جس قریبی ساتھی کے سپرد کی تھی وہ ان کے اعتماد پر پورا اترا ور اس نے پاکستان کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے اپنی جان کھپادی بلکہ عملاً اپنی جان اس پر نچھاور کردی وہ پاکستان بننے سے پہلے ہندوستان کا ایک بڑا جاگیردار تھا کتنے ہی گائوں اور زمینوں کامالک تھا لیکن یہ سب کچھ اس نے پاکستان پروار دیا، اس نے پاکستان میں اپنی جائیداد کا کوئی کلیم داخل نہیں کیا، کوئی ذاتی مکان نہیں بنایا، کوئی روپیہ پیسہ جمع نہیں کیا اور اسی حال میں قبائے شہادت پہن کر اپنے رب کے حضور پیش ہوگیا۔ اس کی وزارت عظمیٰ کے 4 سال دوماہ اور 1دن پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے ہوئے ہیں۔ یہ عرصہ اتنا روشن اور تابناک ہے کہ پاکستان کا وجود ابھی تک اس سے جگمگارہا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے سزایافتہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کا عرصہ حکومت بلاشبہ شہید ملت لیاقت علی خان کے عرصہ حکومت سے بڑھ گیا ہے وہ 25مارچ2008کو وزارت عظمی کے منصب پر فائز ہوئے اور تادم تحریرسر براہ حکومت چلے آرہے ہیں۔ خیال ہے کہ وہ اپنے5 سال پورے کرکے رہیں گے عدالت کا کوئی فیصلہ، عوام کا کوئی احتجاج، اپوزیشن کی کوئی تحریک انہیں اپنی جگہ سے نہیں ہلاسکے گی۔اس طرح وہ واقعی اس ’’تاریخی اعزاز‘‘ کے مستحق قرارپائیں گے جو پاکستان کا کوئی بھی وزیراعظم نہیں حاصل کرسکا۔ لیکن محض طویل اقتدار کوئی پیمانہ نہیں جس سے ’’تاریخی اعزاز‘‘ کا تاج سرپر سجایا جاسکے اگر ایسا ہوتا تو وہ فوجی آمر زیادہ اس کے مستحق قرارپاتے جو 10-10سال تک برسراقتدار رہے اور کوئی ان کا بال بھی بیکانہ کرسکا۔ ’’تاریخی اعزاز‘‘ تاریخی کارناموں سے ملتا ہے اور ’’تاریخی کارناموں‘‘ کو مثبت اور منفی دونوں حوالوں سے شمار کیاجاسکتا ہے۔ شاعر نے کہا ہے بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟ تو اس کی یہ بات 100فیصد درست ہے۔ ہم اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے اپنے عرصہ حکومت کے دوران کرپشن میں نام پیدا کرنے عدالتی احکامات کو نہ ماننے، بیڈ گورننس کو فروغ دینے ، نئے صوبوں کا ایشو کھڑا کرکے قوم میں انتشار پیدا کرنے اور ملک کو اندھیروں کے حوالے کرنے کا جو ’’تاریخی کارنامہ‘‘ انجام دیا ہے اس پر واقعی وہ ’’تاریخی اعزاز‘‘ کے مستحق ہیں۔ حکمران پیپلزپارٹی کو جچتا ہے کہ وہ اخبارات میں اشتہاردے کر اس اعزاز پر جشن منائے اور اپنے وزیراعظم کا موازنہ شہید ملت لیاقت علی خان سے کرے جنہیں ان باتوں کی ہواتک نہیں لگی تھی۔ یار لوگ تو ابھی سے یہ کہنے لگے ہیں کہ آئندہ انتخابات کے بعد بھی یوسف رضا گیلانی ہی وزیراعظم ہوں گے اور آصف علی زرداری ہی صدر رہیں گے جو سونامی اٹھے گا وہ مسلم لیگ ن کو پاش پاش کردے گا جو مذہبی قوتیں میدان میں اتریں گی وہ آپس میں ہی ٹکراجائیں گی پیپلزپارٹی والے اس خوش گمانی میں ہیں کہ تیس فیصد ووٹوں کے ساتھ میدان پھر ان کے ہاتھ میں رہے گا۔ اگر واقعی قوم کی مت ماری گئی ہے اور وہ
اپنی تقدیر بدلنے کے لیے متحد نہیں ہوپاتی تو ہماری پیپلزپارٹی کو پیشگی مبارکباد
http://www.jasarat.com/epaper/index.php?page=03&date=2012-06-05اپنی تقدیر بدلنے کے لیے متحد نہیں ہوپاتی تو ہماری پیپلزپارٹی کو پیشگی مبارکباد

Last edited by a moderator: