بالآخر شہباز شریف کو نیب کے ذریعے سے ڈرائی کلین کر دیا گیا ہے۔ نیب نہ ہوا، گناہ دھونے کی مشین ہوگئی۔
الیکشن سے پہلے ہمارے پیارے بوٹ پالشیے، شہباز شریف نے حامد میر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ نہ صرف پنجاب میں ان کی حکومت بنے گی بلکہ وہ وزیراعظم بھی بننے جارہے ہیں۔ اور وہ ایسا کیوں نہ کہتے، بوٹ پالش کرتے کرتے وہ تو اپنے ماں جائے، نواز شریف کو بھی فراموش کر بیٹھے تھے، بلکہ نواز شریف کی پشت میں خنجر بھی گھونپا اور کئی بار گھونپا۔
نواز شریف، مریم کے ساتھ لندن سے واپس آرہے تھے تو نون لیگ کا قافلہ ان کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ کو چلا۔ جن کی نیتیں صاف تھیں وہ ایئرپورٹ پہنچ گئے، نہ پہنچے تو بوٹ پالشیے شہباز شریف نہ پہنچے۔ وہ سارا دن لاہور کی سڑکوں پر کرتب دکھاتے رہے۔
پھر عدلیہ کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے لوگ اسلام آباد میں جمع ہوئے تو نون لیگ کے قائد شہباز شریف کو ضروری کام یاد آگیا۔ ضروری کام کیا تھا؟ بوٹ پالش - اور کیا؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے تابعدار اور فرمانبردار خادم کو وزارت عظمیٰ کیوں نہ ملی؟ جواب یہ ہے کہ ہر کام سلیقے سے ہوتا ہے۔ وہ وقت مناسب نہیں تھا۔ نون لیگ کو اتنا بدنام کیا گیا تھا کہ اس بدنامی کے چھینٹے اڑ کر شہباز شریف کی پوشاک پر بھی آگئے تھے۔ سرکار، ان کو وزارت عظمیٰ دلا دیتے، مگر کیا قوم ایسے داغ دار وزیراعظم کو قبول کرتی؟ وہ بھی ان حالات میں جب 'بے داغ نیازی' منظر پر چھائے ہوئے تھے۔
ضرورت اس بات کی تھی کہ شہباز شریف کو ڈرائی کلین کیا جائے۔ نیب کی چکی کے پاٹوں سے گزار کر، گھس گھس کر ہیرا بنادیا جائے۔ چناں چہ نیب نے ایک ہی وار سے 2 شکار کر لیے ہیں: (1) شہباز کو پاک صاف کر کے وزارت عظمیٰ کا اولین حقدار بنا دیا ہے، (2) عمران نیازی کو جھوٹا، مکار اور نااہل ثابت کر دیا ہے۔ عمران نیازی کہا کرتے تھے کہ پوری شریف فیملی چور ہے، شہباز بھی نواز کی طرح کا ڈاکو ہے۔ نیب نے شہباز کو زبردستی جیل میں ڈال کر مشہور کیا، عدلیہ نے نیک
نیتی یا بدنیتی سے اپنا کام کیا اور شہباز کو رہا کردیا۔
ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے
الیکشن سے پہلے ہمارے پیارے بوٹ پالشیے، شہباز شریف نے حامد میر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ نہ صرف پنجاب میں ان کی حکومت بنے گی بلکہ وہ وزیراعظم بھی بننے جارہے ہیں۔ اور وہ ایسا کیوں نہ کہتے، بوٹ پالش کرتے کرتے وہ تو اپنے ماں جائے، نواز شریف کو بھی فراموش کر بیٹھے تھے، بلکہ نواز شریف کی پشت میں خنجر بھی گھونپا اور کئی بار گھونپا۔
نواز شریف، مریم کے ساتھ لندن سے واپس آرہے تھے تو نون لیگ کا قافلہ ان کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ کو چلا۔ جن کی نیتیں صاف تھیں وہ ایئرپورٹ پہنچ گئے، نہ پہنچے تو بوٹ پالشیے شہباز شریف نہ پہنچے۔ وہ سارا دن لاہور کی سڑکوں پر کرتب دکھاتے رہے۔
پھر عدلیہ کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے لوگ اسلام آباد میں جمع ہوئے تو نون لیگ کے قائد شہباز شریف کو ضروری کام یاد آگیا۔ ضروری کام کیا تھا؟ بوٹ پالش - اور کیا؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے تابعدار اور فرمانبردار خادم کو وزارت عظمیٰ کیوں نہ ملی؟ جواب یہ ہے کہ ہر کام سلیقے سے ہوتا ہے۔ وہ وقت مناسب نہیں تھا۔ نون لیگ کو اتنا بدنام کیا گیا تھا کہ اس بدنامی کے چھینٹے اڑ کر شہباز شریف کی پوشاک پر بھی آگئے تھے۔ سرکار، ان کو وزارت عظمیٰ دلا دیتے، مگر کیا قوم ایسے داغ دار وزیراعظم کو قبول کرتی؟ وہ بھی ان حالات میں جب 'بے داغ نیازی' منظر پر چھائے ہوئے تھے۔
ضرورت اس بات کی تھی کہ شہباز شریف کو ڈرائی کلین کیا جائے۔ نیب کی چکی کے پاٹوں سے گزار کر، گھس گھس کر ہیرا بنادیا جائے۔ چناں چہ نیب نے ایک ہی وار سے 2 شکار کر لیے ہیں: (1) شہباز کو پاک صاف کر کے وزارت عظمیٰ کا اولین حقدار بنا دیا ہے، (2) عمران نیازی کو جھوٹا، مکار اور نااہل ثابت کر دیا ہے۔ عمران نیازی کہا کرتے تھے کہ پوری شریف فیملی چور ہے، شہباز بھی نواز کی طرح کا ڈاکو ہے۔ نیب نے شہباز کو زبردستی جیل میں ڈال کر مشہور کیا، عدلیہ نے نیک
نیتی یا بدنیتی سے اپنا کام کیا اور شہباز کو رہا کردیا۔
ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے