اس وقت ملک میں مایوسی بددلی پھلانے کی انتہا کی کوشش ہو رہی ہے بڑے منظم لیکن بھونڈے طریقے سے کبھی ڈیل ہوگی تو کبھی کچھ اور کہہ کر ٹی وی چینل پرنٹ الیکٹرونک میڈیا ہوں یا سوشل میڈیا ہر طرف سے یہ کوشش ہو رہی ہے ادھر نجم سیٹھی بولتا ہے تو اودھر سلیم صافی اس کو آگے لے کر چلتا اور پھر چال باز عاصمہ شیرازی سرکاری حاجن بھی ڈھولکی اٹھا کر ان کی ہمنوا بن جاتی ہے اور غریدہ فاروقی تو ہر وقت تیار رہتی ہے کہ کہیں دھواں نظر آئے تو میں کہو دیکھو دیکھو عمران خان نے ملک جلا دیا بس صرف شہباز شریف پر ہی اعتماد کیا جا سکتا ہے سب کی کوشش ہوتی ہے کہ جنہوں نے عمران خان کو ووٹ دیا ہے انہیں کسی طرح افسوس میں مبتلا کیا جائےکہ ہم سے عمران خان پر اعتماد کرکے غلطی کی وہ ہماری امید پر پورا نہیں اترا یہ سب کرنے کے بعد ان کا خیال ہے یعنی عمران خان سے عوام کو مایوس کرکے میدان خالی ہوجائےگااس کے بعد لوگ ہمیں نجات دہندہ سمجھے گیں شاید انہیں یہ نہیں پتا کہ وہ عمران خان جب بھی حکومت کی بیڑیاں اتار کر ان کے مقابلے پر اترے گا اور انہیں مردانہ وار للکارے گا تو انہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی اور میدان اس کا ہوگا چھپنے یا بھاگنے والو کا نہیں کیوں کہ یہ بیماری کی اداکاری کر کے بھاگ جانے والے عدالتوں سے حاضریاں معاف کروانے والے کبھی مرد کے بچے بن کر اس کے سامنے نہیں آئیں گیں یہ ان کی تاریخ ہے جو جاری و ساری ہےیہ ہمیشہ چوڑ دروازے سے ڈیل کرکے ایمپائر کو ساتھ ملا کر آنے ولوں میں سے ہیں ان کے تلوں میں تیل نہیں اور نہ ہی جگر گردہ ۔۔۔۔۔۔ کبھی بلاول کو آگے کرکے کبھی مریم کو آگے کرکے کبھہ ڈیزل کے کندھوں پر بندوق رکھ کے اپنی عورتوں بچوں کے پیچھے چھپنے والے یہ دولت کے پجاری بزدل اس کا مقابلہ نہیں کرسکے گیں
وہ نا ڈر ہو کر بات کرنا بھی جانتا ہے اور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کی پچ پر پنجا آزمانہ اسے باخوبی آتا ہےوہ قومی لباس میں پشاوری چپل پہن کر سر سے پاؤں تک باپردہ بیوی کو ساتھ لے کر فخر سے چلتا ہےاور کون نہیں جانتا یہ بمشکل اپنے پیٹوں کو قابو کر کے پینٹوں میں پھنسا کر ٹائی لگا کر بھی احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں مقابلہ کرنا ان کے بس میں کہا