اٹک جیل:ملاقاتی خواتین کو ہراساں کرنے،منشیات سمیت کئی بدترین جرائم کاانکشاف

jail-attock-5000-kr.jpg


سنٹرل جیل اڈیالہ راولپنڈی کے بعد ڈسڑکٹ جیل اٹک کے حوالے سے صوبائی انٹیلی جنس سنٹر محکمہ داخلہ پنجاب کی رپورٹ سامنے آگئی، جس میں ملاقاتی خواتین کو ہراساں کرنے سمیت کئی دیگر بدترین جرائم کا انکشاف سامنے آیا ہے۔

نجی خبررساں ادارے ایکسپریس کے مطابق صوبائی انٹیلی جنس سنٹر کی رپورٹ میں ڈسڑکٹ جیل اٹک میں ملاقات کے لیے آنے والی خواتین کو ہراساں کیے جانے کے علاوہ جیل سپرنٹنڈنٹ، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سمیت 8 اہل کاروں کے مبینہ رشوت خوری میں ملوث ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔

جیل میں قید منشیات فروش خواتین کے ذریعے منشیات جیل میں منگواتے ہیں۔ جیل کی کینٹین کے بعد جیل کا اہلکار اندر پہنچاتا ہے۔ جیل کے اندر منشیات فروشی میں ملوث عناصر اس قدر بااثر ہیں کہ ڈنکے کی چوٹ پر منشیات فروشی کرتے ہیں۔

جیل میں منشیات مہنگے داموں پر دستیاب ہے یہی نہیں لنگر خانے پر بھی رشوت لی جاتی ہے، جہاں تقریباً 100 قیدی تعینات ہیں، ان میں سے 70 ایسے ہیں جو 5 ہزار فی کس ماہانہ دے کر مشقت نہیں کرتے اور ان کی جگہ غریب قیدیوں سے وہ کام لیا جاتا ہے۔

جیل میں صرف چند ہی ادویات میسر ہیں۔ جب کہ دیگر ادویات کی ضرورت ہو تو ڈاکٹر سے لکھوا کر باہر سے منگوائی جاتی ہیں، غریب قیدیوں کو یہ سہولت بھی میسر نہیں۔ جیل میں قیدیوں سے ملاقات کے دن مقرر ہیں، تاہم ملاقاتی پیسے خرچے تو کبھی بھی ملاقات کرانے کا انتظام موجود ہے۔

یہی نہیں اگر 10 ہزار روپے تک خرچ کیے جائیں تو ملاقاتی اطمینان کےساتھ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں روبرو بھی ملاقات کرسکتا ہے۔ قیدیوں کیلئے کھانے کا مخصوص انتظام ہے جو مینوئل کے مطابق ہوتا ہے تاہم پیسے دیکر باہر سے من پسند چیز بھی منگوائی جا سکتی ہے۔

جیل کے باہر سے ایک ہزار روپے میں پسند کا ناشتہ، 5 ہزار روپے میں چکن کڑاہی، 10 ہزار روپے میں مٹن کڑاہی فراہم کی جاتی ہے۔ منشیات مقدمے کا سزا یافتہ قیدی ماہانہ 50 ہزار روپے دے کر جیل کا لباس نہ پہننے و دیگر سہولیات لینے میں آزاد ہوتا ہے۔

ریکارڈ یافتہ اور عادی مجرموں کے بار بار قید ہونے کی وجہ سے تعلقات بن چکے ہیں، وہ جیل کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔ ان کے جیل پہنچنے سے قبل ہی مرضی کے انتظامات ہو چکے ہوتے ہیں۔