Amal
Chief Minister (5k+ posts)
بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
وَ اصۡبِرۡ نَفۡسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ وَ لَا تَعۡدُ عَیۡنٰکَ عَنۡہُمۡ ۚ تُرِیۡدُ زِیۡنَۃَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ لَا تُطِعۡ مَنۡ اَغۡفَلۡنَا قَلۡبَہٗ عَنۡ ذِکۡرِنَا وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَ کَانَ اَمۡرُہٗ فُرُطًا - الکہف ۲۸
ترجمہ اور اپنے آپ کو ( استقامت سے ) انہیں کے ساتھ رکھ - جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے اور اس کی خوشنودی کے طالب ہیں۔ ان کے ساتھ صبر کرتے رہو۔ اور تمہاری نگاہیں ان میں (گزر کر اور طرف) نہ دوڑیں کہ تم آرائشِ زندگانی دنیا کے خواستگار ہوجاؤ۔ اور جس شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کا کام حد سے بڑھ گیا ہے اس کا کہا نہ ماننا
وَ اصۡبِرۡ نَفۡسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ وَ لَا تَعۡدُ عَیۡنٰکَ عَنۡہُمۡ ۚ تُرِیۡدُ زِیۡنَۃَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ لَا تُطِعۡ مَنۡ اَغۡفَلۡنَا قَلۡبَہٗ عَنۡ ذِکۡرِنَا وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَ کَانَ اَمۡرُہٗ فُرُطًا - الکہف ۲۸
ترجمہ اور اپنے آپ کو ( استقامت سے ) انہیں کے ساتھ رکھ - جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے اور اس کی خوشنودی کے طالب ہیں۔ ان کے ساتھ صبر کرتے رہو۔ اور تمہاری نگاہیں ان میں (گزر کر اور طرف) نہ دوڑیں کہ تم آرائشِ زندگانی دنیا کے خواستگار ہوجاؤ۔ اور جس شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کا کام حد سے بڑھ گیا ہے اس کا کہا نہ ماننا
شان نزول : سرداران کفار کی ایک جماعت نے سید عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے عرض کیا کہ ہمیں غرباء اور شکستہ حالوں کے ساتھ بیٹھتے شرم آتی ہے اگر آپ ہمیں انھیں صحبت سے جدا کر دیں تو ہم اسلام لے آئیں اور ہمارے اسلام لے آ نے سے خلق کثیر اسلام لے آئے گی ۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔
انکو اہمیت دیں جواس کے دیدار اور خوشنودی حاصل کرنے کے شوق میں نہایت اخلاص کے ساتھ دائمًا عبادت میں مشغول رہتے ہیں ۔ مثلاً ذکر کرتے ہیں، قرآن پڑھتے ہیں ، نمازوں پر مداومت رکھتے ہیں۔ حلال و حرام میں تمیز کرتے ہیں خالق و مخلوق دونوں کے حقوق پہچانتے ہیں ، گو دنیوی حیثیت سے معزز اور مالدار نہیں ۔ جیسے صحابہ میں اس وقت عمار ، صہیب ، بلال ، ابن مسعود وغیرہ رضی اللہ عنہم تھے۔ ایسے مومنین مخلصین کو اپنی صحبت و مجالست سےمستفید کرتے رہئے۔ اور کسی کے کہنے سننے پر ان کو اپنی مجلس سے علیحدہ نہ کیجئے۔
یعنی ان غریب شکستہ حال مخلصین کو چھوڑ کر موٹے موٹے متکبر دنیاداروں کی طرف اس غرض سے نظر نہ اٹھائیے کہ ان کے مسلمان ہو جانے سے دین اسلام کو بڑی رونق ہو گی۔ اسلام کی اصلی عزت و رونق مادی خوشحالی اور چاندی سونے کے سکوں سے نہیں ۔ مضبوط ایمان و تقویٰ اور اعلیٰ درجہ کی خوش اخلاقی سے ہے۔ دنیا کی ٹیپ ٹاپ محض فانی اور سایہ کی طرح ڈھلنے والی ہے ، حقیقی دولت تقویٰ اور تعلق مع اللہ کی ہے جسے نہ شکست ہے نہ زوال ، چنانچہ اصحاب کہف کے واقعہ میں خدا کو یاد کرنے والوں اور دنیا کے طالبوں کا انجام معلوم ہو چکا۔
جن کے دل دنیا کے نشہ میں مست ہو کر خدا کی یاد سے غافل اور ہر وقت نفس کی خوشی اور خواہش کی پیروی میں مشغول رہتے ہیں ، خدا کی نافرمانی اور ہواپرستی میں آگے رہنا ان کا شیوہ ، ایسے بدمست غافلوں کی بات پر آپ کان نہ دھریں خواہ وہ بظاہر کیسے ہی دولتمند اور جاہ و ثروت والے ہوں۔ روایات میں ہے کہ بعض قریش نے آپ سےکہا کہ ان رذیلوں کو اپنے پاس سے اٹھا دیجئے تاکہ سردار آپ کے پاس بیٹھ سکیں رذیل کہا غریب مسلمانوں کو اور سردار دولتمند کافروں کو۔ ممکن ہے آپ کے قلب مبارک میں خیال گزرا ہو کہ ان غرباء کو تھوڑی دیر علیحدہ کر دینے میں کیا مضائقہ ہے ۔ وہ تو پکےمسلمان ہیں مصلحت پر نظر کر کے رنجیدہ نہ ہوں گے اور یہ دولت مند اس صورت میں اسلام قبول کر لیں گے۔
اس پر یہ آیت اتری کہ آپ ہر گز ان متکبرین کا کہنا نہ مانئے کیونکہ یہ بیہودہ فرمائش ہی ظاہر کرتی ہے کہ ان میں حقیقی ایمان کا رنگ قبول کرنے کی استعداد نہیں ۔ پھر محض موہوم فائدہ کی خاطر مخلصین کا احترام کیوں نظر انداز کیا جائے نیز امیروں اور غریبوں کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کرنے سے احتمال ہے کہ عام لوگوں کےقلوب میں پیغمبر کی طرف سے معاذ اللہ نفرت اور بد گمانی پیدا ہو جائے جس کا ضرر اس ضرر سے کہیں زیاد ہو گا جو ان چند متکربین کے اسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں تصور کیا جا سکتا ہے۔
انکو اہمیت دیں جواس کے دیدار اور خوشنودی حاصل کرنے کے شوق میں نہایت اخلاص کے ساتھ دائمًا عبادت میں مشغول رہتے ہیں ۔ مثلاً ذکر کرتے ہیں، قرآن پڑھتے ہیں ، نمازوں پر مداومت رکھتے ہیں۔ حلال و حرام میں تمیز کرتے ہیں خالق و مخلوق دونوں کے حقوق پہچانتے ہیں ، گو دنیوی حیثیت سے معزز اور مالدار نہیں ۔ جیسے صحابہ میں اس وقت عمار ، صہیب ، بلال ، ابن مسعود وغیرہ رضی اللہ عنہم تھے۔ ایسے مومنین مخلصین کو اپنی صحبت و مجالست سےمستفید کرتے رہئے۔ اور کسی کے کہنے سننے پر ان کو اپنی مجلس سے علیحدہ نہ کیجئے۔
یعنی ان غریب شکستہ حال مخلصین کو چھوڑ کر موٹے موٹے متکبر دنیاداروں کی طرف اس غرض سے نظر نہ اٹھائیے کہ ان کے مسلمان ہو جانے سے دین اسلام کو بڑی رونق ہو گی۔ اسلام کی اصلی عزت و رونق مادی خوشحالی اور چاندی سونے کے سکوں سے نہیں ۔ مضبوط ایمان و تقویٰ اور اعلیٰ درجہ کی خوش اخلاقی سے ہے۔ دنیا کی ٹیپ ٹاپ محض فانی اور سایہ کی طرح ڈھلنے والی ہے ، حقیقی دولت تقویٰ اور تعلق مع اللہ کی ہے جسے نہ شکست ہے نہ زوال ، چنانچہ اصحاب کہف کے واقعہ میں خدا کو یاد کرنے والوں اور دنیا کے طالبوں کا انجام معلوم ہو چکا۔
جن کے دل دنیا کے نشہ میں مست ہو کر خدا کی یاد سے غافل اور ہر وقت نفس کی خوشی اور خواہش کی پیروی میں مشغول رہتے ہیں ، خدا کی نافرمانی اور ہواپرستی میں آگے رہنا ان کا شیوہ ، ایسے بدمست غافلوں کی بات پر آپ کان نہ دھریں خواہ وہ بظاہر کیسے ہی دولتمند اور جاہ و ثروت والے ہوں۔ روایات میں ہے کہ بعض قریش نے آپ سےکہا کہ ان رذیلوں کو اپنے پاس سے اٹھا دیجئے تاکہ سردار آپ کے پاس بیٹھ سکیں رذیل کہا غریب مسلمانوں کو اور سردار دولتمند کافروں کو۔ ممکن ہے آپ کے قلب مبارک میں خیال گزرا ہو کہ ان غرباء کو تھوڑی دیر علیحدہ کر دینے میں کیا مضائقہ ہے ۔ وہ تو پکےمسلمان ہیں مصلحت پر نظر کر کے رنجیدہ نہ ہوں گے اور یہ دولت مند اس صورت میں اسلام قبول کر لیں گے۔
اس پر یہ آیت اتری کہ آپ ہر گز ان متکبرین کا کہنا نہ مانئے کیونکہ یہ بیہودہ فرمائش ہی ظاہر کرتی ہے کہ ان میں حقیقی ایمان کا رنگ قبول کرنے کی استعداد نہیں ۔ پھر محض موہوم فائدہ کی خاطر مخلصین کا احترام کیوں نظر انداز کیا جائے نیز امیروں اور غریبوں کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کرنے سے احتمال ہے کہ عام لوگوں کےقلوب میں پیغمبر کی طرف سے معاذ اللہ نفرت اور بد گمانی پیدا ہو جائے جس کا ضرر اس ضرر سے کہیں زیاد ہو گا جو ان چند متکربین کے اسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں تصور کیا جا سکتا ہے۔

Last edited by a moderator: