جی ہاں ،،، امریکہ کے بعد اب انڈیا نے بھی ہمیں ڈومور کہہ دیا ہے ۔ انڈین آرمی چیف نروانے کا ایک بیان شائع ہوا ہے جو بہت سارے بوٹوں کی مداحی میں کالم سیاہ کرنے والوں کیلئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ میرے لئے تو یہ شاکنگ اور انتہای انسلٹنگ بیان تھا۔ نروانے جی کہتے ہیں کہ اب امن کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری پاکستان کی ہے ۔ یعنی امن میں دلچسپی بھی پاکستان کو ہے انڈیا کو نہیں اور اس کو برقرار رکھنا بھی انڈیا کی ہیڈک نہیں ہوگی ، اس بیان کا مطلب بہت کلئیر ہے۔ بیان سے درج ذیل باتیں واضح ہو جاتی ہیں
اول یہ کہ پاکستان کی بہادر افواج کے ایما پر حکومت نے انڈیا سے امن کی بھیک مانگی تھی۔ جودے دی گئی تھی مگر یہ ایک انتہای قابل شرم بات ہے۔
دوئم یہ کہ انڈیا کی رضامندی کے بعد دونوں حکومتوں کے خفیہ مذاکرات ہوے جس کو شاہ محمود منہ ٹیڑھا کرکے بیک ڈور روابط بتاتا رہا۔ مذاکرات میں جو باتیں طے ہوئیں ان پر عملدرآمد کی ذمہ داری بھی پاکستانی افواج اور حکومت پر ڈالی گئی تھی کیونکہ یہ ظاہر بات ہے کہ جو کمزور ہوتا ہے اور امن کی بھیک مانگتا ہے اسے ہی کہا جاتا ہے کہ دیکھو اس بار تمہیں کچھ نہیں کہتے مگر آئیندہ کچھ کیا تو تمہاری خیر نہیں ہوگی۔ کوی شرارت نہیں ہونی چاہئے وغیرہ
مزید شرمناک بات یہ کہ نروانے کا بیان آے ایک ہفتہ ہوچکا مگر ہماری حکومت یا فوج نے اس پر کسی قسم کا ردعمل دینے کی بجاے چپ سادھے رکھی۔ اس سے میرا شک بھی یقین میں بدل جاتا ہے۔ درحقیقت جنگ کو روکنے میں انڈیا کو کوی دلچسپی نہیں وہ ہندو ہونے کے باوجود لڑای پر آمادہ ہیں اور یہ مسلمان کہلانے والے جنگ کے خوف سے تھرتھر کانپ رہے ہیں ہاں نہتے غریب جنرلسٹس کی ہڈیاں توڑنے میں یہ شیر ہیں، سیاستدانوں کو خریدنے اور نئی نئی کنگز پارٹیاں بنانے میں یہ شیر ہیں، امریکن گرین کارڈ اور بزنس کرنے میں یہ شیر ہیں
میری حکومت سے اپیل ہے کہ فوری طور پر نروانے کے بیان کا جواب دیا جاے اور انڈیا سے ترلے منتوں کے ساتھ امن کی بھیک مانگ کر پوری قوم کی انسلٹ کروانے کا سلسلہ بھی اب بند ہونا چاہئے اگر یہ نہیں کرسکتے تو پھر ایٹمی طاقت ہونے کی طفل تسلیاں مت دیا کریں اور دفاعی بجٹ کو بچوں کی تعلیم پر خر چ کیا جاے
اول یہ کہ پاکستان کی بہادر افواج کے ایما پر حکومت نے انڈیا سے امن کی بھیک مانگی تھی۔ جودے دی گئی تھی مگر یہ ایک انتہای قابل شرم بات ہے۔
دوئم یہ کہ انڈیا کی رضامندی کے بعد دونوں حکومتوں کے خفیہ مذاکرات ہوے جس کو شاہ محمود منہ ٹیڑھا کرکے بیک ڈور روابط بتاتا رہا۔ مذاکرات میں جو باتیں طے ہوئیں ان پر عملدرآمد کی ذمہ داری بھی پاکستانی افواج اور حکومت پر ڈالی گئی تھی کیونکہ یہ ظاہر بات ہے کہ جو کمزور ہوتا ہے اور امن کی بھیک مانگتا ہے اسے ہی کہا جاتا ہے کہ دیکھو اس بار تمہیں کچھ نہیں کہتے مگر آئیندہ کچھ کیا تو تمہاری خیر نہیں ہوگی۔ کوی شرارت نہیں ہونی چاہئے وغیرہ
مزید شرمناک بات یہ کہ نروانے کا بیان آے ایک ہفتہ ہوچکا مگر ہماری حکومت یا فوج نے اس پر کسی قسم کا ردعمل دینے کی بجاے چپ سادھے رکھی۔ اس سے میرا شک بھی یقین میں بدل جاتا ہے۔ درحقیقت جنگ کو روکنے میں انڈیا کو کوی دلچسپی نہیں وہ ہندو ہونے کے باوجود لڑای پر آمادہ ہیں اور یہ مسلمان کہلانے والے جنگ کے خوف سے تھرتھر کانپ رہے ہیں ہاں نہتے غریب جنرلسٹس کی ہڈیاں توڑنے میں یہ شیر ہیں، سیاستدانوں کو خریدنے اور نئی نئی کنگز پارٹیاں بنانے میں یہ شیر ہیں، امریکن گرین کارڈ اور بزنس کرنے میں یہ شیر ہیں
میری حکومت سے اپیل ہے کہ فوری طور پر نروانے کے بیان کا جواب دیا جاے اور انڈیا سے ترلے منتوں کے ساتھ امن کی بھیک مانگ کر پوری قوم کی انسلٹ کروانے کا سلسلہ بھی اب بند ہونا چاہئے اگر یہ نہیں کرسکتے تو پھر ایٹمی طاقت ہونے کی طفل تسلیاں مت دیا کریں اور دفاعی بجٹ کو بچوں کی تعلیم پر خر چ کیا جاے