atensari
(50k+ posts) بابائے فورم
انڈیا: پالگھر میں جہاں ہندو سادھوؤں کی ہلاکت ہوئی، کیا وہاں مسلمان رہتے بھی ہیں؟
انڈیا کی ریاست مہاراشٹر کے علاقے پالگھر کے گاؤں گڑھ چنچلے میں 16 اپریل کو سادھوؤں کی ایک ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت کی ویڈیو خوب وائرل ہوئی۔ ساتھ ہی ذرائع ابلاغ کے بعض حلقوں اور بعض سوشل میڈیا صارفین نے اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی۔
تفصیلات کے مطابق جمعرات کی رات کو ایک ہجوم نے تین افراد کو پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا جس میں دو سادھو بھی شامل تھے۔ سادھوؤں کی شناخت 70 سال کے مہاراج کلپورشگری اور 35 سالہ سوشیل گری مہاراج کے طور پر ہوئی جبکہ ہلاک ہونے والا تیسرا شخص ان کا ڈرائیور نیلیش تیلگانے تھا۔
پالگھر پولیس نے اس کیس میں 110 لوگوں کو گرفتار کیا ہے جس میں 9 لوگ نابالغ ہیں۔ اس واقعے کے بعد دو پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔
فیس بک پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو کے ذریعے مہاراشٹر کے وزیر داخلہ انل دیش مکھ نے کہا ہے کہ گرفتار ہونے والے 101 افراد میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیےتفصیلات کے مطابق جمعرات کی رات کو ایک ہجوم نے تین افراد کو پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا جس میں دو سادھو بھی شامل تھے۔ سادھوؤں کی شناخت 70 سال کے مہاراج کلپورشگری اور 35 سالہ سوشیل گری مہاراج کے طور پر ہوئی جبکہ ہلاک ہونے والا تیسرا شخص ان کا ڈرائیور نیلیش تیلگانے تھا۔
پالگھر پولیس نے اس کیس میں 110 لوگوں کو گرفتار کیا ہے جس میں 9 لوگ نابالغ ہیں۔ اس واقعے کے بعد دو پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔
فیس بک پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو کے ذریعے مہاراشٹر کے وزیر داخلہ انل دیش مکھ نے کہا ہے کہ گرفتار ہونے والے 101 افراد میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔
انڈیا میں مسلمانوں سے نفرت کی بازگشت خلیجی ممالک تک پہنچ گئی
’تبلیغی جماعت کا نام آیا تو افواہوں نے مسلم مخالف رنگ اختیار کر لیا‘
انڈیا میں تبلیغی جماعت کے سربراہ پر قتلِ کی دفعات کے تحت مقدمہ
انڈین ریسلر کی مسلمان مخالف ٹویٹس پر شور، اکاؤنٹ بند کرنے کا مطالبہ
’تبلیغی جماعت کا نام آیا تو افواہوں نے مسلم مخالف رنگ اختیار کر لیا‘
انڈیا میں تبلیغی جماعت کے سربراہ پر قتلِ کی دفعات کے تحت مقدمہ
انڈین ریسلر کی مسلمان مخالف ٹویٹس پر شور، اکاؤنٹ بند کرنے کا مطالبہ
اس واقعے کی ویڈیو کے کئی چھوٹے چھوٹے حصے وائرل ہوئے جس میں سادھو روتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر بھیڑ کے سامنے رحم کی بھیک مانگ رہے ہیں لیکن مشتعل ہجوم ہاتھ میں ڈنڈے لیے ہوئے ہیں اور سادھوؤں پر حملہ کر رہے ہیں۔
اس ویڈیو میں پولیس بھی وہاں نظر آرہی ہے جو سادھوؤں کو بچانے کی کوشش کرتی ہوئی نظر نہیں آتی ہے۔
بی بی سی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس گاؤں کی آبادی کیسی ہے اور اس میں اکثریت کس مذہب کے لوگوں کی ہے اور کیا سادھوؤں پر حملہ کرنے والی بھیڑ میں مسلمان شامل تھے؟
گڑھ چنچلے گاؤںاس ویڈیو میں پولیس بھی وہاں نظر آرہی ہے جو سادھوؤں کو بچانے کی کوشش کرتی ہوئی نظر نہیں آتی ہے۔
بی بی سی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس گاؤں کی آبادی کیسی ہے اور اس میں اکثریت کس مذہب کے لوگوں کی ہے اور کیا سادھوؤں پر حملہ کرنے والی بھیڑ میں مسلمان شامل تھے؟
2011 کی مردم شماری کے مطابق گڑھ چنچلے گاؤں میں 248 خاندان رہتے ہیں اور وہاں کی کل آبادی 1208 لوگوں پر مشتمل ہے۔
انتخابی سروے کرنے والی ممبئی میں کی ایک تنظیم ’پول ڈائری‘ نے گڑھ چنچلے گاؤں کے سماجی پہلو اور آبادی پر ریسرچ کی ہے۔ تنظیم کے مطابق اس گاؤں میں 1198 خاندان قبائلی ہیں اور صرف ایک خاندان ہے جس کا تعلق نام نہاد ’پسماندہ‘ ذات سے ہے .
56 فیصد آبادی کا تعلق کوکنا نامی قبائل سے ہے، 34 فیصد ورلی قبائل، 6 فیصد کتکری قبائل اور 4 فیصد لوگوں کا تعلق پسماندہ ذات ملہر سے ہے۔
’پول ڈائری‘ کے 2019 کے لوک سبھا الیکشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس گاؤں میں ایک بھی مسلمان خاندان نہیں ہے۔
اس واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ کیسے دیا گیا؟
اتوار کو اس واقعہ کا 45 سیکنڈ کا ایک ویڈیو کافی شئیر کیا گیا اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ ویڈیو کے 43 ویں سیکنڈ پر مشتعل ہجوم میں سے آواز سنائی دیتی ہے کہ ’مار شعیب مار`۔
ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کے حامی نیوز چینل سدرشن نیوز کے ایڈیٹر سریشن چوہانکے اور فلم ہدایت کار اشوک پنڈت جیسے کئی لوگوں نے سوشل میڈیا پر یہ دعویٰ کیا کہ ویڈیو میں کسی شعیب کا نام لیا جارہا ہے .
انڈیا کی نامور فیکٹ چیکنگ ویب سائٹ 'آلٹ نیوز' کی ایک رپورٹ کے مطابق ویڈیو کے 43ویں سیکنڈ پر مشتعل ہجوم کو روکنے کے لیے کوئی پیچھے سے چلا رہا ہے' اوئے بس، اوئے بس' جس کو سوشل میڈیا پر بعض لوگوں نے یہ کہہ کر پیش کیا 'مار شعیب، مار'۔
کیا ہوا تھا اس رات؟انتخابی سروے کرنے والی ممبئی میں کی ایک تنظیم ’پول ڈائری‘ نے گڑھ چنچلے گاؤں کے سماجی پہلو اور آبادی پر ریسرچ کی ہے۔ تنظیم کے مطابق اس گاؤں میں 1198 خاندان قبائلی ہیں اور صرف ایک خاندان ہے جس کا تعلق نام نہاد ’پسماندہ‘ ذات سے ہے .
56 فیصد آبادی کا تعلق کوکنا نامی قبائل سے ہے، 34 فیصد ورلی قبائل، 6 فیصد کتکری قبائل اور 4 فیصد لوگوں کا تعلق پسماندہ ذات ملہر سے ہے۔
’پول ڈائری‘ کے 2019 کے لوک سبھا الیکشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس گاؤں میں ایک بھی مسلمان خاندان نہیں ہے۔
اس واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ کیسے دیا گیا؟
اتوار کو اس واقعہ کا 45 سیکنڈ کا ایک ویڈیو کافی شئیر کیا گیا اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ ویڈیو کے 43 ویں سیکنڈ پر مشتعل ہجوم میں سے آواز سنائی دیتی ہے کہ ’مار شعیب مار`۔
ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کے حامی نیوز چینل سدرشن نیوز کے ایڈیٹر سریشن چوہانکے اور فلم ہدایت کار اشوک پنڈت جیسے کئی لوگوں نے سوشل میڈیا پر یہ دعویٰ کیا کہ ویڈیو میں کسی شعیب کا نام لیا جارہا ہے .
انڈیا کی نامور فیکٹ چیکنگ ویب سائٹ 'آلٹ نیوز' کی ایک رپورٹ کے مطابق ویڈیو کے 43ویں سیکنڈ پر مشتعل ہجوم کو روکنے کے لیے کوئی پیچھے سے چلا رہا ہے' اوئے بس، اوئے بس' جس کو سوشل میڈیا پر بعض لوگوں نے یہ کہہ کر پیش کیا 'مار شعیب، مار'۔
پیر کو اس معاملے کے حوالے سے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے ایک ویڈیو بیان جاری کیا اور اس بات کی وضاحت دی کہ یہ ایک فرقہ وارانہ واقعہ نہیں تھا۔ اس گاؤں میں گزشتہ چند دنوں سے یہ افواہ عام تھی کہ بعض سادھو بچوں کو چرا کر لے جا رہے ہیں تاکہ وہ ان کا گردہ فروخت کردیں۔
وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کے مطابق دو سادھو ایک گاڑی میں سوار اپنے کسے جان پہچان والے کی آخری رسومات میں حصہ لینے جارہے تھے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے انہیں ریاست دادر نگر حویلی کے سلواسہ علاقے میں روک دیا گیا۔ یہ ریاست گجرات اور مہاراشٹر کی سرحد پر واقع ہے۔ جب وہ واپس آرہے تھے تو راستے میں گڑھ چنچلے گاؤں کے لوگوں نے بچہ چور ہونے کے شک میں ان کی گاڑی رکوائی اور ان پر حملہ کر دیا۔
اس واقعے کے چند دن بعد اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر ہونے لگی اور بعض افراد نے اس ’ماب لنچنگ‘ کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی۔ لیکن ریاستی حکومت کی جانب سے وضاحت کی گئی کہ اس واقعے میں مسلمان ملوث نہیں ہیں۔
مہاراشٹر کی حکومت نے پالگھر کیس کی تفتیش کی ذمہ داری سی آئی ڈی کو سونپ دی ہے۔
سورسوزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کے مطابق دو سادھو ایک گاڑی میں سوار اپنے کسے جان پہچان والے کی آخری رسومات میں حصہ لینے جارہے تھے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے انہیں ریاست دادر نگر حویلی کے سلواسہ علاقے میں روک دیا گیا۔ یہ ریاست گجرات اور مہاراشٹر کی سرحد پر واقع ہے۔ جب وہ واپس آرہے تھے تو راستے میں گڑھ چنچلے گاؤں کے لوگوں نے بچہ چور ہونے کے شک میں ان کی گاڑی رکوائی اور ان پر حملہ کر دیا۔
اس واقعے کے چند دن بعد اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر ہونے لگی اور بعض افراد نے اس ’ماب لنچنگ‘ کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی۔ لیکن ریاستی حکومت کی جانب سے وضاحت کی گئی کہ اس واقعے میں مسلمان ملوث نہیں ہیں۔
مہاراشٹر کی حکومت نے پالگھر کیس کی تفتیش کی ذمہ داری سی آئی ڈی کو سونپ دی ہے۔