انقلاب کی آہٹ

Jugnu786

MPA (400+ posts)
وہ سارے تبدیلی کی خواہش لے کر آئے تھے۔تاحد نظر نوجوانوں کے سر اور ٹمٹماتے ہوئے چہرے ہی سر نظر آرہے تھے ان کا جوش و جذبہ دیکھنے لائق تھا۔ اس جوش اور جذبے نے تبدیلی کی فطری خواہش سے جنم لیا تھا۔ جنوبی پنجاب کے نوجوان ہوں یا وسطی پنجاب کی نئی نسل، وہ پرانی قیادت سے بدظن ہوچکی ہے۔ پرانی قیادت لیپ ٹاپ کا جھانسہ دیکر انہیں تبدیلی اور انقلاب کی شاہراہ سے بدراہ کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ اس روز مجھے محسوس ہوا کہ ان نوجوانوں کو ییلو ٹیکسیوں اور لیپ ٹاپ کے لالی پاپ دینے والے ان کے دلوں میں موجزن انقلاب اور تبدیلی کے سیلاب کے آگے بند نہیں باندھ سکتے۔ کھوے سے کھوا چھلتا تھا ،اگر لینن کے اس قول کی سچائی کو مان لیا جائے کہ جس کے پاس نوجوان ہیں مستقبل اسی کا ہے ،تاریح کے اوراق میں اس قول کی تصدیق مختلف تحریکوں کے اندر نوجوانوں کا کردار کرتا ہے تو نوجوانوں کی سرگرم مداخلت کو بطور مثال زیر بحث لایا جا سکتا ہے انسانی تاریخ کے انقلابات کی تحقیق و تعمیر میں نوجوانوں کا کردارہمیشہ فیصلہ کن رہا۔ کرۂ ارض پر جتنی تحریکوں نے جنم لیا ان میں نوجوان اور طالب علم صفِ اوّل میں موجود ہے ، برصغیرکے تاریخی اوراق پلٹیں تحریک آزادی میں نوجوانوں نے پارٹی قیادت کی لائن آف ایکشنکو متاثر کیا ،برصغیرکی تقسیم کے بعد وطن عزیز کے اندر مختلف سیاسی بحرانوں کی وجہ سے ابھرنے والی سرکشیوں میں نوجوانوں نے خستہ اور فرسودہ نظام سیاست کے پیرو کاروں کو للکارا اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔
1968-69 ء کی تاریخ ساز تحریک میں طلباء کی جدجہد انتہائی اہمیت کی حامل تھی جس کا آغا ز ایک طالب علم عبدالحمید کے قتل سے ہوا اور معاشرے کے تمام تضادات ایک دھماکے سے پھٹے۔ نیشنل سٹوڈ نٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے طالب علموں نے ملک گیر صدائے احتجاج بلند کی۔ بغاوت کا علم جب نوجوان میدان میں لے کرنکلے تو ایوبی آمریت روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں تحلیل ہوگئی ،مگر نظام کے خلاف اس تحریک اور دیگر چھوٹی چھوٹی بغاوتوں میں طلباء ،نوجوانوں کی جاں گسل تگ ودو کے ساتھ ایک المیہ سائے کی طر ح چمٹا رہا ،وہ المیہ قیادتوں کی رہز نی تھا جس کی بنا پر تحریکیںِ خون میں ڈوب گئیں اور اس کی سزا انسانی نسلوں کو بھگتنا پڑی۔ اقتدار پر وحشیانہ جمہوریت کالبادہ اوڑھے شخصی آمریت مسلط ہوتی رہی اور تحریکوں کے ہراول نوجوان اورطلبہ مایوسی، تذبذب،ذہنی خلفشار کا شکار ہوتے چلے گئے اگرکوئی کسر باقی بچی تو وہ روایتی قیادت کے مفادات اور عالمی پراپیگنڈے نے پوری کردی۔ تحریکیں سیدھی لکیر میں نہیں چلتیں اور معاشروں میں طاقتوں کا توازن بھی ایک جیسانہیں رہتا۔ اجتماعی شعور متحرک ہوتا ہے اور واقعات سے اثر قبول کرتا ہے۔ جب یہ اثرات مقداری حوالے سے اس نہج کو پہنچ جائیں جہاں مقدار معیا ر میں تبدیلی کی متقاضی ہو جائے تو یہ اجتما عی شعورواپس واقعات پراثر انداز ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ سیاسی گہماگہمی اور انتشار سے نظم و ضبط کا ظہورہوتاہے اور اگر اس نظم وضبط کو مناسب قیادت اور درست حکمتِ عملی میسر آجائے تو پھر عوام دشمن اور وطن دشمن قوتوں کے خلاف فیصلہ کن معرکہ ہوتا ہے، فرسودگی کی تدفین ہوتی ہے اورنئی اعلیٰ انسانی اخلاقیات اور اقدار جنم لیتی ہیں، انقلاب برپاہو تا ہے اورپرانے گلے سڑے معاشی سیاسی اورسماجی ڈھانچے کی لاش کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے۔
وطنِ عزیزکا نوجوان عمران خان کی قیادت میں تبدیلی کی خواہش کے ساتھ44سالہ جمود اور سکوت کے خول کو پھاڑ کر باہر نکلا ہے کیونکہ 1968-69ء کی تحریک کے بعد نوجوان نسل میں تبدیلی کی سوچ نے کروٹ لی ہے اور جنوبی پنجاب میں گزشتہ دنوں میں نے ایک بڑے معرکے کے لئے اسے بے تاب دیکھا ہے اس وقت اور آج کے معروضی حالات میں یہ تضاد ہے آج کے نوجوان میں زیادہ غصہ ،نفرت اور بغاوت موجود ہے اور یہ تضاد ناگزیر طور پر انقلابی ڈھانچے کو تخلیق کرنے کا سبب بنے گا۔
وطنِ عزیز کے دگرگوں حالات میں انتہائی اہم موڑپر نوجوانوں اورطالب علموں کو ملتان کے طارق خان، لیہ کے رمضان جانی،عتیق الرحمٰن،عبدالغفار خان کی قیادت میں تبدیلی کے تاریخی فریضے کی طرف مائل دیکھا ہے اورجنوبی پنجاب کی یہ نسلِ نو جو ہزاروں کی تعدادمیں یونیورسٹیوں اور کالجوں سے نکلی اس کا براہِ راست تعلق ان مصائب اور اذیتوں سے ہے جو ماضی قریب میں سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظامِ سیاست کی جارحانہ پالیسیوں کے باعث طالب علموں اورنوجوانوں کو برداشت کرنا پڑیں۔ تعلیمی اداروں کی نج کاری کا مسئلہ،فیسوں میں اضافہ،بڑھتی ہوئی بے روزگاری وہ مسائل ہیں جنہوں نے نوجوان نسل کو تحریکِ انصاف کی چھتری تلے آنے پرمجبور کیا۔ اپنے دوست حفیظ اللہ خان کی بات سے اتفاق کئے بنا چارہ نہیں کہ پنجاب حکومت جتنے لیپ ٹاپ تقسیم کرے نوجوانوں کی جذباتی وابستگی عمران خان کے ساتھ اٹوٹ اور غیر متزلزل ہے اور اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ صرف اور صرف نوجوانوں کے اندر اس فرسودہ نظام کو بدل کر انقلاب لانے کی صلاحیت ہے۔ عمران خان یقیناًایک متبادل قیادت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں کیونکہ نوجوانوں کے اندر بے چینی اتنی زیادہ ہے ،بھوک اور ذلت اتنی شدید ہے، محرومیاں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ اب تحریک انصاف کی شکل میں یہ کارواں تھمے گا نہیں اُس روز بھی وہ سارے تبدیلی کی خواہش لے کر نکلے تھے اورتاحدِ نظر نوجوانوں کے سر ہی سر نظر آرہے تھے ۔
 

Back
Top