انتہاکی ابتدا

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)

canstock8702085.jpg


مشتاق احمد خان
نہیں یہ انتہا نہیں ہے انتہا کی ابتدا ہے۔ اے میری قوم کے لوگو! اگر تم اپنی گہری نیند سے بیدار نہ ہوئے، اگر تم اسی طرح شخصیات کے سحر میں مبتلا رہے، اگر تم نے عصبیتوں کی چادر اوڑھے رہنا پسند کیا، اگر تم نے ٹھوس تبدیلی کے بجائے چہروں کی تبدیلی پر ہی راضی ہوجانے کی روش اختیار کیے رکھی تو بات راجہ رینٹل سے بھی آگے نکل جائے گی۔ کسی نظام سقہ تک۔ بے نظیر بھٹو کی 59 سالگرہ سے ذرا پہلے، سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی چھوڑی ہوئی وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر براجمان یوسف رضا گیلانی کو سزا یافتہ مجرم قرار دیتے ہوئے انہیں پانچ سال کے لیے نااہل قرار دے دیا اور الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ وہ ان کی نشست خالی ہونے کا نوٹیفکیشن جاری کردے۔ نوٹیفکیشن جاری ہوگیا۔ یوسف رضا گیلانی ایم این اے نہیں رہے۔ ایوان کے لیے اجنبی ہوگئے۔ وہ شاخ ہی نہ رہی جس پر آشیانہ تھا۔ نتیجتاً وہ وزیراعظم پاکستان بھی نہیں رہے۔ بھٹو کی پھانسی سے آج تک پی پی پی ایک مخمصے کا شکار ہے عدالت کو تسلیم کیا جائے نہ کیا جائے۔ مقدمہ لڑا جائے نہ لڑا جائے۔ فیصلہ آجائے تو اس کو مانا جائے یا اس کا مذاق اڑایا جائے۔ بات پرانی ہے اور رسوائی کی بھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ خود ذوالفقار علی بھٹو کے اسی رویّے کی نذر ہوگیا۔ کبھی عدالت کو ماننے کا اعلان، کبھی ججوں کا تمسخر اڑانے کا طرزِعمل۔ نتیجہ پھانسی کا پھندا۔ تب سے اب تک پی پی عدالتوں کو ان فیصلوں تک پہنچنے پر مجبور کرتی رہی ہے جن کے بارے میں وہ عدالت پر جانب داری اور اختیارات سے تجاوز کا الزام عائد کرسکے، یہ سوچے بغیر کہ خود پی پی کو اس کا نقصان بہت زیادہ اور فائدہ بہت کم ہے۔ یوسف رضا گیلانی کی نااہلی پر عاصمہ جہانگیر نے عدالتی ایکٹوازم کا الزام عائد کیا ہے۔ اسی دوران یہ بھی کہا گیا کہ اگر عدالت کو یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کا فیصلہ کرنا ہی تھا تو یہ فیصلہ 25 اپریل ہی کو کیوں نہیں کرلیا گیا! اسے کہتے ہیں عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا۔ میں چاہوں گا کہ آگے بڑھنے سے پہلے 27 اپریل 2012ء کو شائع شدہ اپنے کالم فیصلہ ٹھیک خط کون لکھے گا سے ایک اقتباس آپ کی خدمت میں پیش کردوں: میرے خیال میں اس کیس میں اس سے زیادہ نرم رویہ اختیار کیا ہی نہیں جاسکتا تھا۔ اگر عدالت نے آرٹیکل 63-1(g) کو سزا کا بنیادی حوالہ بنایا ہوتا تو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی وزارتِ عظمیٰ ہی نہیں قومی اسمبلی کی رکنیت بھی بغیر کسی مزید ریفرنس کے ختم ہوسکتی تھی۔ عدالت اگر حکم دیتی کہ الیکشن کمیشن ان کی نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری کرے تو الیکشن کمیشن کے پاس نوٹیفکیشن جاری کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ یا پھر الیکشن کمیشن بھی توہینِ عدالت کا کیس بھگتنے کو تیار ہوتا۔ سپریم کورٹ نے اس کے برعکس وزیراعظم کو ایک علامتی سزا دے کر توہینِ عدالت کا معاملہ نمٹا دیا۔ یہ سزا چونکہ دو سال سے کم ہے، لہٰذا بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ اگر وزیراعظم کی نااہلی کے حوالے سے کوئی پٹیشن ہوتی ہے تو اس کی منظوری کے امکانات کم سے کم تر ہیں۔ سو یوں، میرے خیال میں یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس پر اگر پی پی کوئی احمقانہ ردعمل نہ کرتی تو بہتر ہوتا۔ یہ سپریم کورٹ کی طرف سے اعلان ہے کہ نظریۂ ضرورت اب بھی زندہ حقیقت ہے۔ اگر سپریم کورٹ ملکی نظام کو چلتے رکھنے کی ضرورت محسوس نہ کرتی تو یوسف رضا گیلانی اتنی آسانی سے وزیراعظم ہائوس واپس نہ جاسکتے۔ سید منورحسن نے بجا فرمایا کہ اخلاقی طور پر یوسف رضا گیلانی کو استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔ پتا نہیں سید منورحسن پی پی کے جیالوں سے کس اخلاقیات کی توقع رکھتے ہیں! جہاں تک نوازشریف کے ردعمل کا تعلق ہے، اس کی بنیاد بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کے قانونی تقاضے نہیں، وزیراعظم کی اخلاقی پوزیشن ہے۔ ہاں البتہ نوازشریف اسمبلی میں اور اسمبلی سے باہر اس مسئلے پر سیاسی کھیل کھیل سکتے ہیں جو وہ ضرور کھیلیں گے۔ اس کھیل میں عدالتی پٹیشن بھی شامل ہوگی۔ اس ساری بک بک میں جو بات نظروں سے اوجھل ہونے کا خدشہ ہے وہ ہے سوئس عدالتوں کو خط لکھا جانا۔ یوسف رضا گیلانی کو سزا، ان کے اب تک خط نہ لکھنے کے عمل کی ملی ہے۔ لیکن اگر اسپیکر اسمبلی، یوسف رضا گیلانی کے خلاف کوئی اقدام تجویز نہیں کرتیں، نہ صدر صاحب ان سے وزارت ِعظمیٰ سے استعفیٰ طلب کرتے ہیں، اور نہ یوسف رضا گیلانی مطلوبہ خط لکھتے ہیں تو سپریم کورٹ کیا کرے گی؟ صرف اظہارِ بے بسی اور کفِ افسوس ملنا۔ یا یہ اعلان کہ ہمارے بس میں جو تھا وہ ہم نے کرلیا، حکومت نہیں مانتی تو ہم کیا کریں! تب کیا آسمانوں پر کوئی ہل چل نہیں ہوگی؟ کیا کہیں اس بندوبست کا بندوبست کرنے کی کوئی سوچ پروان نہیں چڑھے گی؟کیا پاکستان کے غریب عوام کا مال اسی طرح زرداریوں اور گیلانیوں کے لیے شیرِ مادر بنا رہے گا؟ کب تک؟ آخر کب تک؟ یہ بات مجھ جیسے آدمی کو بھی پہلے دن سمجھ میں آگئی تھی کہ عدالت نے وزیراعظم کو کلین چٹ نہیں دی ہے۔ ان کا معاملہ پارلیمنٹ کے سپرد کیا ہے تاکہ وہ اسے خوش اسلوبی سے حل کرلے۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی تھانے میں کسی مجرم سے کہا جائے کہ وہ مالِ مسروقہ مالک کے حوالے کردے تو ایف آئی آر کے اندراج سے بچا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی مجرم اس موقع کا فائدہ اٹھانے کے بجائے اسے تھانہ کی کمزوری سمجھ بیٹھے تو انجام ظاہر ہے۔ یوسف رضا گیلانی کو پی پی نے اسی انجام سے دوچار کیا جو تھانہ کی طرف سے دیے گئے موقع سے فائدہ نہ اٹھانے والے مجرم کا ہوتا ہے۔ اگر اسپیکر صاحبہ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے معاملہ الیکشن کمیشن کو بھیج دیتیں، تب بھی یہی ہوتا جو ہوا۔ لیکن تب یوسف رضا گیلانی صاحب عدالتی نااہلی کا شکار نہ ہوتے، صرف وزارت ِعظمیٰ سے محروم ہوتے۔ لیکن پی پی ایسا کرتی ہی کیوں! اسے تو عدالتوں کو نیچا دکھانے کا شوق ہے۔ اب مخدوم شہاب الدین کو ہی دیکھیے۔ موصوف ایفی ڈرین کیس میں ملوث ہیں۔ پی پی نے ایک اور ملزم کو وزیراعظم بنانا چاہا۔ وہ تو بھلا ہو اے این ایف کا کہ انہوں نے مخدوم صاحب کے وارنٹ گرفتاری جاری کرکے ان کی راہ کھوٹی کردی۔ لیکن پی پی کب چوکنے والی تھی! اس کا دوسرا انتخاب راجہ پرویز اشرف ہیں جو ماشاء اللہ رینٹل پاور کے معاملے میں پہلے ہی زیر گفتگو ہیں۔ سو جان لیجیے اور مان لیجیے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی پی پی کے پاس اب مجرموں کے سوا کوئی نہیں جس کے سر پر وہ قیادت کا تاج سجاسکے۔ لیکن کیا صرف پی پی ہی اس جرم کی مجرم ہے؟ کیا خدائی خدمت گار اے این پی اور 98 فیصد مظلوموں کے حقوق کی نام لیوا ایم کیو ایم کے پاس ان مجرموں کی پشت پناہی کا کوئی جواز ہے؟ راجہ پرویزاشرف کے حق میں ووٹ دینے کا جواز تو فیصل صالح حیات کے پاس بھی کوئی نہیں ہے، کیونکہ انہوں نے بقول خود سب سے پہلے راجہ پرویزاشرف کی رینٹل پاور کرپشن کا انکشاف کیا تھا۔ جواز تو مولانا فضل الرحمن کے پاس بھی کوئی نہیں ہے کہ انہوں نے آخر اپنا ووٹ کرپٹ امیدوار کے خلاف استعمال کیوں نہیں کیا۔ وہ تو خود امیدوار تھے، لیکن انہوں نے غیر جانبدار رہ کر درحقیقت اپنا ووٹ اپنے خلاف اور برائی کے حق میں استعمال کیا ہے۔ تو اے میری قوم کے لوگو کیا وہ وقت نہیں آگیا کہ تم اس سڑے گلے سیاسی نظام سے نجات کے لیے اٹھ کھڑے ہوجائو۔ پی پی اور اس کے اتحادیوں سے نجات کی گھڑی تک جدوجہد کے لیے آمادہ ہوجائو۔ نہیں یہ انتہا نہیں ہے انتہا کی ابتدا ہے۔ اے میری قوم کے لوگو! اگر تم اپنی گہری نیند سے بیدار نہ ہوئے، اگر تم اسی طرح شخصیات کے سحر میں مبتلا رہے، اگر تم نے عصبیتوں کی چادر اوڑھے رہنا پسند کیا، اگر تم نے ٹھوس تبدیلی کے بجائے چہروں کی تبدیلی پر ہی راضی ہوجانے کی روش اختیار کیے رکھی تو بات راجہ رینٹل سے بھی آگے نکل جائے گی۔ کسی نظام سقہ تک۔

 

Back
Top