بھارتی وزیراعظم جب سے اپنے عہدہ وزارت عظمی پر براجمان ہوئےہیں تب سے برصغیر خصوصیت سے پاک وہند اور انکے گرد نواح میں تعصب کو فروغ ہی ہوا ہے۔ گرچہ تعصب پر مبنی حکومتیں اپنے اوائل میں اس سرزمین کی مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے لئے ہمیشہ پر کشش ہوتی ہیں۔ حکومت کی مقبولیت کے گراف اسکے اندازوں سے بھی تجاوز کرجاتے ہیں۔
یہیں سے اس حکمران کا دماغ زمینی حقائق سے ٹکرانا شروع کرتا ہے،سب سے پہلے اس حکمران کے کندہوں پر اسپیشل انٹرسٹ حکومتوں کی مہربانیوں اور عنایات کی بارش شروع ہوتی ہے اس حکمران کو دنیا کی بڑی ہستیوں کے درمیان بٹھانے سے معاملات کا آغاز کیا جاتا ہے اب صورتحال یکدم مختلف ہوتی ہے جو پہلے اس نے کبھی دیکھی اور محسوس تک نہیں کی ہوتی تھی وہ اپنے ماضی کے ادوار میں جب کچھ کہتا تھا تواسے انتظار کرنا پڑتا تھا اپنے اظہار خیال کے لئے۔ دوران اظہار بسا اوقات شرکاء مداخلت بھی کردیتے تھے جسکی وجہ سے بعض شرکاء اسکے تمام نکات سے فیضیات بھی نہیں ہو پاتے تھے۔
اسپیشل انٹرسٹ گروپ کی عنایات اسمیں رعونت کو جنم دیتی ہے اب جب وہ زعماء کیساتھ بیٹھکر جوںہی لب کشائی کرتا ہے شرکاء اسکی جانب ایسے متوجہ اور ہمہ تن گوش ہوتے ہیں جیسے وہ بائیبل،قرآن،،تورہ،گیتاء یا بدھمت کی سوتراس کا کوئی ورس بیان کررہا ہو۔یہ سب کسی مقصد کے حصول کے لئے کیا جاتا ہے۔اب اس نکتے سے بھارتی وزیراعظم نرندر مودی جسکا بچپنہ عسرت اور ریلوے اسٹیشن پر گزراجس سے اسکی ماحولیاتی تربیت نے اسکے ذہن پر جو نقوش چھوڑے وہ دائمی حیثیت رکھتے ہیں۔مقدر کا سکندر ہونا دوسری ایک زمینی حقیقت ہے قدرت اپنے وجود کو ایسے ہی منواتی ہے۔
غیر سیاسی کاروباری طبقے سے امریکی صدر ٹرمپ، انڈیا کے نریندر مودی سماج کی جس کلاس سے بھارتی وزارت عظمی تک پہونچے،نواز شریف کاپاکستانی وزارت عظمی پر تین مرتبہ بیٹھنا تو خیر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ تک انہیں لیجائیگا۔نرندر مودی گو قدرت سے نوازے گئے ایسی مثالوں سے دنیا بھری پڑی ہے مگر قدرت کی یہ نوازشیں اسکا کچھ نہ بدل سکیں اور وہ بیٹھتے ہی پانی بند،دنیا سے کسی کاٹ کر مفلوج کرنے،پڑوسیوں کا خود کو چودہری تصور کرنا،انکے معاملات میں مداخلت یہ نہ کرو ایسے کرو کے وطیرے نے اسکی چائے فروشی کی ذہینیت عیاں کردی۔
اس خطے کے چودہری بننے کے خواب نے اسے ایک طرف سمندر اور اطراف میں دشمنی کو فرغ دیا۔نتیجہ غیرملکی کمپنیوں کی بنائی ہوئی میڈ ان انڈیا کیلئے اب صرف وہ غیرملکی صنعتکار اور وہاں کے ننگے بھوکے سواارب خریدار ہی رہ گئے ہیں۔پاکستان کی سرزمین خود پاکستانی اسکی اہمیت سے ناآشنا ہیں جبکہ انڈیا کی موت اور زندگی پاکستانی سرزمین ہے،کمازکم انکے لئے راہداری کا مہیا نہ ہونا انڈیا کو واپس اندہیروں میں دکھیل دیگا۔
مغربی دباؤ اور پاکستان کیلئے احکامات اس ہی بے چینی اور کاروباری موت کی جانب اشارہ کررہے ہیں۔مودی چائے والا خود تو تباہ ہورہا ہے اپنی جہالت اور تلخ گفتاری کی وجہ سے کہیں اس جاہل حکمران ہند کے کسی فعل سے دنیا کسی امریکی رقیبی طاقت کو نہ جنم دے دے۔خود تو ڈوبے ہیں نرندر دوسروں کو بھی لے ڈوبے گا۔
یہیں سے اس حکمران کا دماغ زمینی حقائق سے ٹکرانا شروع کرتا ہے،سب سے پہلے اس حکمران کے کندہوں پر اسپیشل انٹرسٹ حکومتوں کی مہربانیوں اور عنایات کی بارش شروع ہوتی ہے اس حکمران کو دنیا کی بڑی ہستیوں کے درمیان بٹھانے سے معاملات کا آغاز کیا جاتا ہے اب صورتحال یکدم مختلف ہوتی ہے جو پہلے اس نے کبھی دیکھی اور محسوس تک نہیں کی ہوتی تھی وہ اپنے ماضی کے ادوار میں جب کچھ کہتا تھا تواسے انتظار کرنا پڑتا تھا اپنے اظہار خیال کے لئے۔ دوران اظہار بسا اوقات شرکاء مداخلت بھی کردیتے تھے جسکی وجہ سے بعض شرکاء اسکے تمام نکات سے فیضیات بھی نہیں ہو پاتے تھے۔
اسپیشل انٹرسٹ گروپ کی عنایات اسمیں رعونت کو جنم دیتی ہے اب جب وہ زعماء کیساتھ بیٹھکر جوںہی لب کشائی کرتا ہے شرکاء اسکی جانب ایسے متوجہ اور ہمہ تن گوش ہوتے ہیں جیسے وہ بائیبل،قرآن،،تورہ،گیتاء یا بدھمت کی سوتراس کا کوئی ورس بیان کررہا ہو۔یہ سب کسی مقصد کے حصول کے لئے کیا جاتا ہے۔اب اس نکتے سے بھارتی وزیراعظم نرندر مودی جسکا بچپنہ عسرت اور ریلوے اسٹیشن پر گزراجس سے اسکی ماحولیاتی تربیت نے اسکے ذہن پر جو نقوش چھوڑے وہ دائمی حیثیت رکھتے ہیں۔مقدر کا سکندر ہونا دوسری ایک زمینی حقیقت ہے قدرت اپنے وجود کو ایسے ہی منواتی ہے۔
غیر سیاسی کاروباری طبقے سے امریکی صدر ٹرمپ، انڈیا کے نریندر مودی سماج کی جس کلاس سے بھارتی وزارت عظمی تک پہونچے،نواز شریف کاپاکستانی وزارت عظمی پر تین مرتبہ بیٹھنا تو خیر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ تک انہیں لیجائیگا۔نرندر مودی گو قدرت سے نوازے گئے ایسی مثالوں سے دنیا بھری پڑی ہے مگر قدرت کی یہ نوازشیں اسکا کچھ نہ بدل سکیں اور وہ بیٹھتے ہی پانی بند،دنیا سے کسی کاٹ کر مفلوج کرنے،پڑوسیوں کا خود کو چودہری تصور کرنا،انکے معاملات میں مداخلت یہ نہ کرو ایسے کرو کے وطیرے نے اسکی چائے فروشی کی ذہینیت عیاں کردی۔
اس خطے کے چودہری بننے کے خواب نے اسے ایک طرف سمندر اور اطراف میں دشمنی کو فرغ دیا۔نتیجہ غیرملکی کمپنیوں کی بنائی ہوئی میڈ ان انڈیا کیلئے اب صرف وہ غیرملکی صنعتکار اور وہاں کے ننگے بھوکے سواارب خریدار ہی رہ گئے ہیں۔پاکستان کی سرزمین خود پاکستانی اسکی اہمیت سے ناآشنا ہیں جبکہ انڈیا کی موت اور زندگی پاکستانی سرزمین ہے،کمازکم انکے لئے راہداری کا مہیا نہ ہونا انڈیا کو واپس اندہیروں میں دکھیل دیگا۔
مغربی دباؤ اور پاکستان کیلئے احکامات اس ہی بے چینی اور کاروباری موت کی جانب اشارہ کررہے ہیں۔مودی چائے والا خود تو تباہ ہورہا ہے اپنی جہالت اور تلخ گفتاری کی وجہ سے کہیں اس جاہل حکمران ہند کے کسی فعل سے دنیا کسی امریکی رقیبی طاقت کو نہ جنم دے دے۔خود تو ڈوبے ہیں نرندر دوسروں کو بھی لے ڈوبے گا۔