حکمران جماعت ن لیگ کے رکن قومی اسمبلی کے امریکہ اور برطانیہ میں سوشل میڈیا پر فائر وال کے استعمال سے متعلق دعویٰ جھوٹا ثابت ہوگیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق 28 جولائی کو ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ن لیگی رکن قومی اسمبلی دانیال چوہدری نے حکومت کے سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے سے متعلق اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جب سوشل میڈیا اداروں کے خلاف استعمال ہورہا ہو یا ان اداروں کو کمزور کرنے اور یا ملک مخالف پراپیگنڈہ ہورہا ہو تو اس سب کو روکنے کیلئے فائر وال انسٹال کی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی فائر والز پوری دنیا بشمول امریکہ اور برطانیہ میں بھی استعمال ہورہی ہیں۔
اس پر پروگرام کے میزبان نے انہیں کہا کہ جن ممالک کے وہ نام لے رہے ہیں وہاں ایسا کوئی نظام موجود نہیں ہے ، تاہم دانیال چوہدری اپنے بیان پر ڈٹے رہے اور بولے کہ تقریبا ہر ملک میں یہ فائر وال نصب ہے۔
نجی خبررساں ادارے نے اس بیان کے بعد تحقیقات شروع کیں اور اس بیان کو غلط ثابت کیا کہ امریکہ اور برطانیہ میں سوشل میڈیا پر کسی بھی قسم کی فائروال نصب ہے۔
تحقیقات کے دوران امریکہ میں گلوبل نیٹ ورک انیشی ایٹو(جی این آئی) کے ایگزیکٹیو ڈائریکیٹر جیسن پیلیمیئر سے رابطہ کیا گیا اور اس حوالے سےسوال پوچھا گیا، انہوں نے بتایا کہ امریکہ کے پاس چین جیسے ممالک کی طرح کوئی بھی فائروال سسٹم نہیں ہے، امریکہ میں نجی نیٹ ورکس کے انٹرنل فائر والز موجود ہیں ۔
انہوں نےمزید کہا کہ امریکہ می بارڈر گیٹ ویز پر یا کسی بھی اور طرح سے کوئی قومی یا سرکاری پابندیاں عائد نہیں ہیں، امریکہ میں صارفین انٹرنیٹ پر جو بھی مواد دیکھنا چاہتے ہیں اس تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں، اور جو کچھ پوسٹ کرنا چاہیں وہ بآسانی پوسٹ کرسکتے ہیں، غیر قانونی مواد شیئر کرنے پر صارفین کے خلاف مناسب قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے۔
رپورٹ میں امریکہ کے ہی ایک دوسرے ٹیکنالوجی ماہر سے ہونے والی بات چیت کو بھی حصہ بنایا گیا ٹیک ماہر رمن جیت سنگھ نے بھی امریکہ اور برطانیہ میں چین کی طرز کا فائر وال سسٹم ہونے کی تردید کی اور کہا کہ فائر وال بنیادی طور پر سنسر شپ کی ایک شکل ہے جس کی جمہوریت میں کوئی جگہ نہیں ہوسکتی۔