
امریکی سپریم کورٹ نے خواتین کو حاصل اسقاط حمل کا حق چھین لیا، یعنی عدالت نےاسقاط حمل کے قانونی قرار دینے کے 50 سال پرانےفیصلے کو کالعدم قرار دے دیا، جس کے خلاف امریکا بھر میں مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔
دو روز قبل سنائے گئے اس فيصلے کے خلاف دارالحکومت واشنگٹن سميت کئی شہروں ميں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں،صدر جو بائيڈن نے اس عدالتی فيصلے کو انتہا پسندانہ نظريات پر مبنی ايک افسوس ناک غلطی قرار ديا ہے۔
بائيڈن نے ملکی کانگريس پر زور ديا کہ اسقاط حمل سے متعلق طبی سہوليات کو قانون کی شکل ميں تحفظ فراہم کيا جائے۔ انہوں نے يہ بھی کہا کہ نومبر کے مڈ ٹرم اليکشن ميں يہ ايک اہم موضوع ہو گا۔
دائيں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والی اور قدامت پسند قیادت والی امریکی رياستوں نے فوری طور پر اسقاط حمل سے متعلق طبی سہوليات کی فراہمی پر پابندی لگا دی ہے۔
1973 میں رو بنام ویڈ کیس میں امریکا بھر میں اسقاط حمل کو قانونی قرار دیا گیا تھا مگر اس نئے فیصلے سے امریکی خواتین کو حاصل اسقاط حمل کا حق ختم ہوگیا ہے۔
امریکی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ریاستوں کو تولیدی صحت کی سہولیات تک رسائی کو ڈرامائی حد تک محدود کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
امریکا میں اسقاط حمل پر شروع سے پابندی تھی اور 20 ویں صدی میں کچھ ریاستوں میں مشروط طور پر اس کی اجازت تھی،جون 1969 میں ایک خاتون نورما میکوری تیسری بار حاملہ ہوئیں تو وہ اسقاط حمل کی خواہشمند تھیں۔
اس مقصد کے لیے انہوں نے عدالت میں مقدمہ دائر کیا اور خاتون کی شناخت راز میں رکھنے کے لیے جین رو کا نام استعمال کیا گیا،کیس میں سرکاری وکیل کا نام ہنری ویڈ تھا اور اسی وجہ سے یہ کیس رو بنام ویڈ کے نام سے مشہور ہوا۔
کیس میں 22 جنوری 1973 کو امریکی سپریم کورٹ نے 7/2 کی اکثریت سے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا میں ہر خاتون کو اسقاط حمل کا بنیادی حق حاصل ہے،س فیصلے میں یہ بھی واضح کیا گیا تھا کہ ریاستیں کس حد تک اس معاملے میں مداخلت کرسکتی ہیں۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/4usabortionprotest.jpg