اقبال کی شاعری پر پابندی ہونی چاہئیے

maksyed

Siasat.pk - Blogger
25fd5340dea742cb669f86980420f161.jpg

Courtesy by : Wake up Muslims before it's too late

میں اگرچہ اقبال کی صناعی کا بہت قائل ہوں تاہم میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اقبال کی شاعری کو بین کردینا چاہئے، اللہ کا شکر ہے کہ اس کی شاعری کا کچھ حصہ تو پہلے ہی سے چھپا کر رکھا گیا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ اسے ہوا نہ لگنے پائے۔ مثلاً

اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخ امراء کے درو دیوار ہلا دو

جبکہ دوسری طرف ہمارے حاکم اور ہمارے سیاستدان جلسے جلوسوں میں

ایک ولولہ تازہ دیا تونے دلوں کو

والا شعر پورے تواتر سے استعمال کرتے ہیں اور عوام کو سمجھاتے ہیں کہ اقبال نے یہ شعر ان کی قیادت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے کہا ہے مگر میں نے کسی سیاستدان اور کسی حاکم کی زبان سے اقبال کا یہ شعر

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہٴ گندم کو جلا دو

کبھی نہیں سنا اور یہ بہت اچھی بات ہے کیونکہ اگر پاکستان کے غریب جاگ اٹھے تو وہ کاخ امراء کے درو دیوار ہلا دیں گے جس کھیت کی ساری کمائی جاگیردار لے جاتا ہے ،وہ اس کھیت کے ہر خوشہٴ گندم کو جلانے کی بات کریں گے اور یوں سرمایہ دارانہ جمہوریت جو ہماری بقاء کی ضامن ہے ،خواہ مخواہ عوامی جمہوریت کے ہتھے چڑھ جائے گی اور یوں ہمارا مراعات یافتہ طبقہ ان ٹکے ٹکے کے لوگوں کی نظر کرم کا محتاج ہو کر رہ جائے گا۔

مگر اقبال کے کلام کے صرف اس حصے کو عوام سے چھپا چھپا کر رکھنے سے کام نہیں بنے گا بلکہ ضروری ہے کہ اقبال کا سارا کلام دریا برد کردیا جائے کیونکہ ہم جس ڈھب پر اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں اور یہ زندگیاں ہمیں بہت عزیز ہیں۔ اقبال اسے زندگی نہیں، موت قرار دیتا ہے اور یوں ہمارے جذبات کو ٹھیس پہنچاتا ہے، مثلاً ہم مطمئن ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے گھر پیدا کیا بلکہ ہم اس کے دین کی پیروی کرتے ہوئے نماز، روزے میں کبھی غفلت نہیں برتتے لیکن اقبال اس کے باوجود ہمیں کچوکے دیتا رہتا ہے، وہ ہمارے ان نام نہاد ہی سہی مذہبی پیشواؤں کو بھی نہیں بخشتا جن کے ہم ہاتھ چومتے ہیں اور جنہوں نے ہمیں یقین دلا رکھا ہے کہ تم جتنی چاہو دنیا داری کرو، ہم تمہاری انگلی پکڑ کر اپنے ساتھ جنت میں لے جائیں گے اور داروغہ جنت بس منہ دیکھتا رہ جائے گا۔ اقبال کی ساری شاعری اس طرح کی باتوں سے بھری پڑی ہے ،مثلاً وہ کہتا ہے۔

رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے
==================
میں جانتا ہوں جماعت کا حشر کیا ہوگا
مسائل نظری میں الجھ گیا ہے خطیب
==================
کس کومعلوم ہے ہنگامہ فردا کا مقام
مسجد و مکتب و میخانہ ہیں مدت سے خموش
==================
دل ہے مسلماں تیرا نہ میرا
تو بھی نمازی ، میں بھی نمازی
میں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے میں ملا ہوں غازی
==================
تیرا امام بے حضور تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر، ایسے امام سے گزر
==================
نہ فلسفی سے نہ ملا سے ہے غرض مجھ کو
یہ دل کی موت وہ اندیشہ نظر کا فساد
==================
رہا نہ حلقہ صوفی میں سوز مشتاقی
فسانہ ہائے کرامات رہ گئے باقی
کرے گی داور محشر کو شرمسار اک روز
کتاب صوفی و ملا کی سادہ اوراقی
==================

وغیرہ وغیرہاور یہ وغیرہ وغیرہ میں نے اس لئے کہا ہے کہ اقبال کے کلام میں اس طرح کے اور بہت سے کچوکے ہیں جن سے وہ ہمارے دلوں کو زخمی کرتا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ اس کے بعد ہمیں اپنی ساری عبادات بے معنی لگنے لگتی ہیں کیونکہ اس کے نزدیک ہم عبادات کی اصل روح سے بے گانہ ہوچکے ہیں۔

میں اگر اقبال کے کلام کو بین کرنے کی بات کرتا ہوں تو اس کی صرف یہی ایک وجہ نہیں جو میں نے ابھی بیان کی ہے بلکہ اس کی اور بھی بے شمار وجوہات ہیں، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں خدا کے فضل و کرم سے ہمارے حاکم خدا ترس ہیں۔ انہیں ہر لمحہ عوام کی فلاح و بہبود کی فکر رہتی ہے، وہ پاکستان کی خود مختاری کی حفاظت ہر قیمت پر کرتے ہیں ملک کو خوشحال بنانے کی خاطر غیر ملکی امداد کے لئے وہ ہر دروازے پر جاکر دستک دیتے ہیں مگر اقبال ان کی ان کاوشوں کو خاطر ہی میں نہیں لاتا اور کہتا ہے۔

نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں روش بندہ پروری کیا ہے
کسے نہیں ہے تمنائے سروری لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے

خودی، خودی، خودی اقبال کی اس تکرار نے ہماری نیندیں حرام کی ہوئی ہیں، کیا خودی کے ذریعے عظیم الشان محلات کھڑے کئے جاسکتے ہیں، کیا خودی سے سوس اکاؤنٹس کا پیٹ بھرا جاسکتا ہے، کیا خودی سے اربوں کھربوں کے قرضے لئے جاسکتے ہیں، اقبال کی یہ سوچ ہماری قوم کے نوجوانوں کو گمراہ کررہی ہے اور ان کے دلوں میں ظل الٰہی کے خلاف باغیانہ خیالات جنم لینے لگتے ہیں ، لہٰذا اقبال کو بین کئے بغیر آنے والے حالات پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔

اقبال کی شاعری پر پابندی ہونی چاہئیے بلکہ اس کی ساری شاعری سمندر میں پھینک دینی چاہئیے. اقبال ہمیں سونے نہی دیتا، نیند میں خلل ڈالتا ہے.
ابھی چند صدیاں ہی تو ہوئی ہیں سوئے ہوئے اور اقبال کہتا ہے کہ

معمار حرم، باز بہ تعمیر جہاں خیز
از خواب گراں، خواب گراں، خواب گراں خیز

اے حرم کو تعمیر کرنے والے (مسلمان) تو ایک بار پھراس (تباہ و برباد) جہان کو تعمیر کرنے کیلیے اٹھ کھڑا ہو، (لیکن تُو تو خوابِ غفلت میں پڑا ہوا ہے) اٹھ، گہری نیند سے اٹھ، بہت گہری نیند سے اٹھ۔.

اب بتائیں یہ کوئی کرنے والی بات ہے.
اور پھر اوپر سے اقبال مردار کھانے سے روکتا ہے. اور ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ
"اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی"
یا پھر
لیلی بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول

اقبال بہت کچوکے لگاتا ہے ہمیں.

ہم نے ویسے تو بہت کوشش کی اقبال کی شاعری کو بوسیدہ کرنے کی. اس کا بےدریغ استعمال کیا ہر جگہ. جعمہ کا خطبہ ہو یا سیاسی تقریر، ہمارے سیاستدان ہوں یا مولوی، علما، دانشور، فقیر یا جرنلسٹ، وکیل ہو یا جج، استاد ہو یا شاگرد .. کسی کی تقریر اقبال کے شعر کے بغیر مکمل نہی ہوتی.....اپنی اپنی مرضی کے مفہوم نکالنے اور اس کے شعروں کو گڈمڈ کرنے کی بہت کوشش کی. حتیٰ کہ کلام اقبال کو ہم نے قوالیوں میں گا گا کر بوسیدہ کرنے کی کوشش کی. ٹیلی ویژن چینلوں پر اقبال کے اشعار گاے اور پڑھے جاتے ہیں اقبال کے نام پر بننے والے اداروں کے سربراہ سکرین پر آکر رٹی رٹائی تقریریں کرتے ہیں اور پھر

بپا ہم سال میں اک مجلس اقبال کرتے ہیں
پھر اْسکے بعد جو کرتے ہیں وہ قوال کرتے ہیں

اس سب کے باوجود بھی اقبال کا پیغام اپنی تاثیر نہی کھو رہا. اب ایک ہی حل ہے کہ اسے دریا برد کر دیا جاے. ورنہ یہ ہماری نیندیں حرام کرتا رہے گا.

 

maksyed

Siasat.pk - Blogger
ماضی تو سنہرا ہے مگر حال کھو گیا
وہ رعب و دبدبہ وہ جلال کھو گیا
وہ حسن بےمثال وہ جمال کھو گیا
اقبال تیری قوم کا اقبال کھو گیا

ھمارا المیہ یہ ھے کہ ھم ایسے دور میں بستے ھیں جہاں ھمارے جسم حواھشوں کی گرفت میں ھیں اور ھمارے ذھن غلام ھو چکے ۔

مسئلہ یہ ھے کہ ھم نے اسلام کی عزت کرنا سیکھا ھی نہیں ۔ ھم اپنے مذھب کو دین جانتےھی نہیں بلکہ اسے مسجد تک محدود کر کے ھم نے کتنا بڑا ظلم ڈھایا ھے ھماری عملی زندگی کا ھر شعبہ اسلام کا مذاق اڑاتا ھے ۔۔۔ برکتیں کدھر سے آئیں ؟

عزت کا معیار جس معاشرے میں ایی صفات ھوں جنکا خدا کی نگاہ میں مرتبہ صفر ھو تو اللہ کی مدد کیسے آئے ؟

شادی کی رسومات سے آغاز کریں ، اور اس سلسلے کو موت تک لے جائیں اور دیکھیں کہ ھم اسلام کو کیسے چکر دیتے ھیں

یا اللہ قٕرآن اس مقصد کے لئے نازل کیا گیا تھا کہ موسیقی کی دھنیں بج رھی ھوں ، بے ھنگم مخلوط ناچ چل رھا ھو ، اسلامی احکامات کی دھجیاں بکھیری جا رھی ھوں ، اور دولیے اور دلہن کو اسی ماحول میں قرآن کے نیچے سے گزار دیا جائے ۔ خاک برکت آئے گی گھروں میں ِ یہ منظر کسی ایلیٹ فیملی کا نہیں بلکہ میں متوسط طبقے
کے گھروں مییں ھونے والی قرآن پاک کی بے حرمتی کی بات کر رھا ھوں ۔

بے حرمتی صرف قرآن کا جلایا جانا ھی نہیں ھوتا ، اس کے پیغام کا مذاق اڑانا اسے سے بڑے درجے کی بے حرمتی ھے ھم دیکھتے ھیں جب بندہ مر جاتا ھو تو قرآن کے غلاف میں پیسے رکھ کر اس کو چکر دئے جاتے ھیں ۔۔۔۔۔۔ کیا مذاق اس الہامی کتاب کے ساتھ

جس معاشرے میں ذلیل ترین لوگ جنکو بات کرنا بھی نہ آتا ھو ، انکو لوگ ٹی وی پروگرام میں بلاتے ھیں اور پوری دنیا کے سامنے گالیاں بکتے ھیں ۔۔۔ کیا بنے گا ؟

یہ رھا انفرادیت کا حال ۔ اجتماعی رویے تو ایسے کے شیطان بھی شرما جائے ۔ سود پر مبنی تجارت ، رشوت کے بغیر کسی کام کا نہ ھونا ، حقداد کر حق نہ ملنا اور دعوی مسلمانی کا

کیا مذاق ھے ۔۔ ۔۔۔۔

اللہ کی رحمت آئے کہاں سے ؟؟؟؟؟؟؟؟

مدعا یہ ھے اسلام کو بتائے ھوئے اصولوں کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں لاگو کرنا ھے ، ورنہ اللہ کوئی اور قوم لے آئے گا اور ھم ملتے رہ جائیں گے ۔۔
 
Last edited:

janbazali

Chief Minister (5k+ posts)
وہ حسن بےمثال وہ جمال کھو گیا
اقبال تیری قوم کا اقبال کھو گیا


spot on...

(clap)
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
میں سو فیصد متفق ہوں، تاریخ پاکستان صرف اور صرف قائد اعظم کی ١٣ اگست کی تقریر کے ایک جملے پر مشتمل ہونی چاہے
 

mriteri

Politcal Worker (100+ posts)
wait for new Nation who will take care Allah's gift Pakistan....InshaAllah....Surah Al Imran.. Allah says ..."those who sold their Eman and don't care about Deen Allah will wipe them and bring new Nation who will Love Allah Almighty and Allah loves therm"
 

remykhan

Chief Minister (5k+ posts)
No one listens to Iqbal anyway, ager suntay hotay tu yeh haal na hota muslamanoon ka dunya maan. You don't have to ban his book. yeh Pakistani kome koi niaari hi ha.
 

_pakistan

Minister (2k+ posts)
سمجھنے کی ضرورت بھی کیا ہے ؟ سمجھنے کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں .جو لوگ سمجھ گئے ہیں .بس چپ کر کے انکی ہی سننی ہے .ورنہ دائرہ اسلام سے خارج. ہوسکتا ہے دنیا سے بھی فارغ
sun bhi lay to kitno ko sumjh ati hay ;)​
 
Last edited:

PAINDO

Siasat.pk - Blogger
25fd5340dea742cb669f86980420f161.jpg

Courtesy by : Wake up Muslims before it's too late

میں اگرچہ اقبال کی صناعی کا بہت قائل ہوں تاہم میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اقبال کی شاعری کو بین کردینا چاہئے، اللہ کا شکر ہے کہ اس کی شاعری کا کچھ حصہ تو پہلے ہی سے چھپا کر رکھا گیا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ اسے ہوا نہ لگنے پائے۔ مثلاً

اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگادو
کاخ امراء کے درو دیوار ہلا دو

جبکہ دوسری طرف ہمارے حاکم اور ہمارے سیاستدان جلسے جلوسوں میں

ایک ولولہ تازہ دیا تونے دلوں کو

والا شعر پورے تواتر سے استعمال کرتے ہیں اور عوام کو سمجھاتے ہیں کہ اقبال نے یہ شعر ان کی قیادت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے کہا ہے مگر میں نے کسی سیاستدان اور کسی حاکم کی زبان سے اقبال کا یہ شعر

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہٴ گندم کو جلا دو

کبھی نہیں سنا اور یہ بہت اچھی بات ہے کیونکہ اگر پاکستان کے غریب جاگ اٹھے تو وہ کاخ امراء کے درو دیوار ہلا دیں گے جس کھیت کی ساری کمائی جاگیردار لے جاتا ہے ،وہ اس کھیت کے ہر خوشہٴ گندم کو جلانے کی بات کریں گے اور یوں سرمایہ دارانہ جمہوریت جو ہماری بقاء کی ضامن ہے ،خواہ مخواہ عوامی جمہوریت کے ہتھے چڑھ جائے گی اور یوں ہمارا مراعات یافتہ طبقہ ان ٹکے ٹکے کے لوگوں کی نظر کرم کا محتاج ہو کر رہ جائے گا۔

مگر اقبال کے کلام کے صرف اس حصے کو عوام سے چھپا چھپا کر رکھنے سے کام نہیں بنے گا بلکہ ضروری ہے کہ اقبال کا سارا کلام دریا برد کردیا جائے کیونکہ ہم جس ڈھب پر اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں اور یہ زندگیاں ہمیں بہت عزیز ہیں۔ اقبال اسے زندگی نہیں، موت قرار دیتا ہے اور یوں ہمارے جذبات کو ٹھیس پہنچاتا ہے، مثلاً ہم مطمئن ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے گھر پیدا کیا بلکہ ہم اس کے دین کی پیروی کرتے ہوئے نماز، روزے میں کبھی غفلت نہیں برتتے لیکن اقبال اس کے باوجود ہمیں کچوکے دیتا رہتا ہے، وہ ہمارے ان نام نہاد ہی سہی مذہبی پیشواؤں کو بھی نہیں بخشتا جن کے ہم ہاتھ چومتے ہیں اور جنہوں نے ہمیں یقین دلا رکھا ہے کہ تم جتنی چاہو دنیا داری کرو، ہم تمہاری انگلی پکڑ کر اپنے ساتھ جنت میں لے جائیں گے اور داروغہ جنت بس منہ دیکھتا رہ جائے گا۔ اقبال کی ساری شاعری اس طرح کی باتوں سے بھری پڑی ہے ،مثلاً وہ کہتا ہے۔

رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے
==================
میں جانتا ہوں جماعت کا حشر کیا ہوگا
مسائل نظری میں الجھ گیا ہے خطیب
==================
کس کومعلوم ہے ہنگامہ فردا کا مقام
مسجد و مکتب و میخانہ ہیں مدت سے خموش
==================
دل ہے مسلماں تیرا نہ میرا
تو بھی نمازی ، میں بھی نمازی
میں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے میں ملا ہوں غازی
==================
تیرا امام بے حضور تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر، ایسے امام سے گزر
==================
نہ فلسفی سے نہ ملا سے ہے غرض مجھ کو
یہ دل کی موت وہ اندیشہ نظر کا فساد
==================
رہا نہ حلقہ صوفی میں سوز مشتاقی
فسانہ ہائے کرامات رہ گئے باقی
کرے گی داور محشر کو شرمسار اک روز
کتاب صوفی و ملا کی سادہ اوراقی
==================

وغیرہ وغیرہ…اور یہ وغیرہ وغیرہ میں نے اس لئے کہا ہے کہ اقبال کے کلام میں اس طرح کے اور بہت سے کچوکے ہیں جن سے وہ ہمارے دلوں کو زخمی کرتا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ اس کے بعد ہمیں اپنی ساری عبادات بے معنی لگنے لگتی ہیں کیونکہ اس کے نزدیک ہم عبادات کی اصل روح سے بے گانہ ہوچکے ہیں۔

میں اگر اقبال کے کلام کو بین کرنے کی بات کرتا ہوں تو اس کی صرف یہی ایک وجہ نہیں جو میں نے ابھی بیان کی ہے بلکہ اس کی اور بھی بے شمار وجوہات ہیں، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں خدا کے فضل و کرم سے ہمارے حاکم خدا ترس ہیں۔ انہیں ہر لمحہ عوام کی فلاح و بہبود کی فکر رہتی ہے، وہ پاکستان کی خود مختاری کی حفاظت ہر قیمت پر کرتے ہیں ملک کو خوشحال بنانے کی خاطر غیر ملکی امداد کے لئے وہ ہر دروازے پر جاکر دستک دیتے ہیں مگر اقبال ان کی ان کاوشوں کو خاطر ہی میں نہیں لاتا اور کہتا ہے۔

نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں روش بندہ پروری کیا ہے
کسے نہیں ہے تمنائے سروری لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے

خودی، خودی، خودی اقبال کی اس تکرار نے ہماری نیندیں حرام کی ہوئی ہیں، کیا خودی کے ذریعے عظیم الشان محلات کھڑے کئے جاسکتے ہیں، کیا خودی سے سوس اکاؤنٹس کا پیٹ بھرا جاسکتا ہے، کیا خودی سے اربوں کھربوں کے قرضے لئے جاسکتے ہیں، اقبال کی یہ سوچ ہماری قوم کے نوجوانوں کو گمراہ کررہی ہے اور ان کے دلوں میں ظل الٰہی کے خلاف باغیانہ خیالات جنم لینے لگتے ہیں ، لہٰذا اقبال کو بین کئے بغیر آنے والے حالات پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔

اقبال کی شاعری پر پابندی ہونی چاہئیے بلکہ اس کی ساری شاعری سمندر میں پھینک دینی چاہئیے. اقبال ہمیں سونے نہی دیتا، نیند میں خلل ڈالتا ہے.
ابھی چند صدیاں ہی تو ہوئی ہیں سوئے ہوئے اور اقبال کہتا ہے کہ

معمار حرم، باز بہ تعمیر جہاں خیز
از خواب گراں، خواب گراں، خواب گراں خیز

اے حرم کو تعمیر کرنے والے (مسلمان) تو ایک بار پھراس (تباہ و برباد) جہان کو تعمیر کرنے کیلیے اٹھ کھڑا ہو، (لیکن تُو تو خوابِ غفلت میں پڑا ہوا ہے) اٹھ، گہری نیند سے اٹھ، بہت گہری نیند سے اٹھ۔.

اب بتائیں یہ کوئی کرنے والی بات ہے.
اور پھر اوپر سے اقبال مردار کھانے سے روکتا ہے. اور ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ
"اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی"
یا پھر
لیلی بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول

اقبال بہت کچوکے لگاتا ہے ہمیں.

ہم نے ویسے تو بہت کوشش کی اقبال کی شاعری کو بوسیدہ کرنے کی. اس کا بےدریغ استعمال کیا ہر جگہ. جعمہ کا خطبہ ہو یا سیاسی تقریر، ہمارے سیاستدان ہوں یا مولوی، علما، دانشور، فقیر یا جرنلسٹ، وکیل ہو یا جج، استاد ہو یا شاگرد .. کسی کی تقریر اقبال کے شعر کے بغیر مکمل نہی ہوتی.....اپنی اپنی مرضی کے مفہوم نکالنے اور اس کے شعروں کو گڈمڈ کرنے کی بہت کوشش کی. حتیٰ کہ کلام اقبال کو ہم نے قوالیوں میں گا گا کر بوسیدہ کرنے کی کوشش کی. ٹیلی ویژن چینلوں پر اقبال کے اشعار گاے اور پڑھے جاتے ہیں اقبال کے نام پر بننے والے اداروں کے سربراہ سکرین پر آکر رٹی رٹائی تقریریں کرتے ہیں اور پھر

بپا ہم سال میں اک مجلس اقبال کرتے ہیں
پھر اْسکے بعد جو کرتے ہیں وہ قوال کرتے ہیں

اس سب کے باوجود بھی اقبال کا پیغام اپنی تاثیر نہی کھو رہا. اب ایک ہی حل ہے کہ اسے دریا برد کر دیا جاے. ورنہ یہ ہماری نیندیں حرام کرتا رہے گا.


ماضی تو سنہرا ہے مگر حال کھو گیا
وہ رعب و دبدبہ وہ جلال کھو گیا
وہ حسن بےمثال وہ جمال کھو گیا
اقبال تیری قوم کا اقبال کھو گیا

ھمارا المیہ یہ ھے کہ ھم ایسے دور میں بستے ھیں جہاں ھمارے جسم حواھشوں کی گرفت میں ھیں اور ھمارے ذھن غلام ھو چکے ۔

مسئلہ یہ ھے کہ ھم نے اسلام کی عزت کرنا سیکھا ھی نہیں ۔ ھم اپنے مذھب کو دین جانتےھی نہیں بلکہ اسے مسجد تک محدود کر کے ھم نے کتنا بڑا ظلم ڈھایا ھے ھماری عملی زندگی کا ھر شعبہ اسلام کا مذاق اڑاتا ھے ۔۔۔ برکتیں کدھر سے آئیں ؟

عزت کا معیار جس معاشرے میں ایی صفات ھوں جنکا خدا کی نگاہ میں مرتبہ صفر ھو تو اللہ کی مدد کیسے آئے ؟

شادی کی رسومات سے آغاز کریں ، اور اس سلسلے کو موت تک لے جائیں اور دیکھیں کہ ھم اسلام کو کیسے چکر دیتے ھیں

یا اللہ قٕرآن اس مقصد کے لئے نازل کیا گیا تھا کہ موسیقی کی دھنیں بج رھی ھوں ، بے ھنگم مخلوط ناچ چل رھا ھو ، اسلامی احکامات کی دھجیاں بکھیری جا رھی ھوں ، اور دولیے اور دلہن کو اسی ماحول میں قرآن کے نیچے سے گزار دیا جائے ۔ خاک برکت آئے گی گھروں میں ِ یہ منظر کسی ایلیٹ فیملی کا نہیں بلکہ میں متوسط طبقے
کے گھروں مییں ھونے والی قرآن پاک کی بے حرمتی کی بات کر رھا ھوں ۔

بے حرمتی صرف قرآن کا جلایا جانا ھی نہیں ھوتا ، اس کے پیغام کا مذاق اڑانا اسے سے بڑے درجے کی بے حرمتی ھے ھم دیکھتے ھیں جب بندہ مر جاتا ھو تو قرآن کے غلاف میں پیسے رکھ کر اس کو چکر دئے جاتے ھیں ۔۔۔۔۔۔ کیا مذاق اس الہامی کتاب کے ساتھ

جس معاشرے میں ذلیل ترین لوگ جنکو بات کرنا بھی نہ آتا ھو ، انکو لوگ ٹی وی پروگرام میں بلاتے ھیں اور پوری دنیا کے سامنے گالیاں بکتے ھیں ۔۔۔ کیا بنے گا ؟

یہ رھا انفرادیت کا حال ۔ اجتماعی رویے تو ایسے کے شیطان بھی شرما جائے ۔ سود پر مبنی تجارت ، رشوت کے بغیر کسی کام کا نہ ھونا ، حقداد کر حق نہ ملنا اور دعوی مسلمانی کا

کیا مذاق ھے ۔۔ ۔۔۔۔

اللہ کی رحمت آئے کہاں سے ؟؟؟؟؟؟؟؟

مدعا یہ ھے اسلام کو بتائے ھوئے اصولوں کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں لاگو کرنا ھے ، ورنہ اللہ کوئی اور قوم لے آئے گا اور ھم ملتے رہ جائیں گے ۔۔

:mash::jazak:
 

barca

Prime Minister (20k+ posts)
جس ملک کےاپنے ولوں دانشور اور تجزیہ نگار اقبال کے فلسفے کے انکاری ہو وہاں عام آدمی کا تم خود اندازہ لگا لو
 

_pakistan

Minister (2k+ posts)
اپنے ولو ں ؟کہیں حسن نثار کی تو بات نہیں ہو رہی ؟

جس ملک کےاپنے ولوں دانشور اور تجزیہ نگار اقبال کے فلسفے کے انکاری ہو وہاں عام آدمی کا تم خود اندازہ لگا لو
 

zeshaan

Chief Minister (5k+ posts)
Kabhee 2 rakkaat namaz khashoo o khazoo say aoor samajh kar parh kay daikh loo,sari batain samajh main aa jaain gee.

Iqbal kee shairee koo uskay uss waqat kay tanazar mainn aoor majudaa halat kay passmanzar main parh/rakh kar daikhoo aoor samjhoo too sabb kuch saaf nazar aajay gaa.

Sabb kuch too naheen parh sakaa magar jitnaa bhee parhaa hay qabil e sataish hay.
 

khanpanni

Minister (2k+ posts)
?? ???????? ?? ??? ???? ????? ?? ??? ???? ????? ??? ?????? ????? ??? ?? ???? ????? ?
??????? ??? ?????? ???? ?????? ??? ?? ??? ?? ?????? ???? ??? ???? ?? ??
??? ?? ???? ???? ????? ??? ?????? ???? ???? ???? ???? ?? ???? ?? ?
?? ??? ????? ?? ??????? ?? ???? ???? ???? ???? ?? ????????? ???? ?
???? ????????? ?? ????? ??? ???? ?????? ???? ??? ?? ????? ?? ???? ??? ?
????? ???? ?????? ?? ???? ?????? ???? ?
??? ????? ??? ???? ???? ?? ??? ???? ??? ??? ?????? ????? ?? ???? ??? ??? ??? ?

 
Last edited:

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
Quran To Faryad kerta hai Apne Mannene Waloon Se........Koi Sunta hi Nahi---Iqbal Ko Qoun yad kere Ga



Quran_kee_Faryad.jpg

 
Last edited:

iftikharalam

Minister (2k+ posts)
Great, One of the best writing that I read in recent days, please write more about Iqbal. I myself wrote and article on Iqbal's poetry and its importance in our life http://iftikharalam.blogspot.com/2009/11/ability-to-think-beyond-limitations-and.html

I chosse to homeschool my daughter in pakistan. One of the prime reason is because I want to make iqbal's potery and philosophy a regular subject and part of her curriculum from the beginning. In our educational system, only 5 to 8 poems are included in our course from class one to twelve. Homeschooling allows me to tailor curriculum on my own and according to my wishes. I really believe that to save our children from the worst educational system in Pakistan, homeschooling is the best option.
 

Back
Top