zaheer2003
Chief Minister (5k+ posts)
اسلام آباد کا بلدیاتی الیکشن اور ضابطہ اخلاق
By: Zaheer Ahmed

آخرکار اسلام آباد کا پہلا بلدیاتی الیکشن بھی ہوگیا، کل 50 یونین کونسلز کی نشستوں پر انتخاب ہوا اور اب تک 50 میں سے 21 نشستوں پر مسلم لیگ ن کامیاب ہوئی اور 16 نشستوں تحریک انصاف کامیاب ہوئی ہے اور 11 آزاد اُمیدوار کامیاب ہوئے، اب تک نظر یہی آرہا ہے کہ آزاد امیدوار جس کے ساتھ ہونگے وہی جماعت اپنا میئر لا سکے گی۔ آج وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ آزاد امیدوار بھی انہی کے ہیں، سوال یہ ہے کہ وہ آزاد امیدوار جو فتحیاب ہوئے ہیں انہوں نے بہرحال ن لیگ کے امیدواروں کو شکست دی ہے۔
اسلام آباد کا بلدیاتی الیکشن کافی وجوہات کی بنیاد پر مختلف ہے، ایک تو یہ واحد الیکشن تھا جہاں الیکشن والے دن سرکاری چھٹی نہیں دی گئی، دونوں جماعتوں کی درخواست کے باوجود پولنگ کا وقت بھی نہیں بڑھایا گیا، یہاں قومی اسمبلی کی 2 نشستیں ہیں، ایک این اے 48 جہاں سے اسد عمر ایم این اے ہیں اور دوسری این اے 49 جہاں طارق فضل چوہدری رکن قومی اسمبلی ہیں۔

این اے 48 میں 23 یونین کونسلز ہیں اور این اے 49 میں 27 یونین کونسلز ہیں، اس کی تقسیم پر بعد میں بات کرتے ہیں، پہلے ضابطہ اخلاق کے حوالے سے صدارتی آرڈیننس کی بات ہوجائے، عمران خان کا جلسہ کرنا تو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے جو کہ ہے بھی، دوسری طرف الیکشن سے صرف 3 دن پہلے صدارتی آرڈیننس لے کر آنے کا کیا مطلب ہے؟، اخباری اطلاعات کے مطابق یہ آرڈیننس اکتوبر میں تیار کیا گیا تھا مگر اس کو خفیہ رکھا گیا اور حکومت کے اپنے لوگوں کو بھی معلوم نہیں تھا، اس صدارتی آرڈیننس نے لوکل باڈیز ایکٹ 2015ء جو کہ قومی اسمبلی میں پاس ہوا تھا کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں، جس کے تحت میئر بننے کیلئے قوانین کو تبدیل کیا گیا، خواتین کی نشستوں میں 50 فیصد کمی کی گئی۔

لوکل باڈیز ایکٹ کے تحت ڈپٹی میئر صرف ایک تھا، اب اس آرڈیننس کے تحت اس کی تعداد بڑھا کر 3 کردی گئی، میئر کے انتخاب کیلئے لوکل باڈیز ایکٹ کے تحت ضروری تھا کہ میئر کا چنائو منتخب ہونیوالے 66 ممبران میں سے ہونا تھا جبکہ اس آرڈیننس کے تحت 650 منتخب ممبران میں سے کوئی بھی میئر کیلئے انتخاب میں حصہ لے سکتا ہے۔ 16 مخصوص نشستوں کو کم کرکے اب خواتین کی نشستوں کی تعداد کو 9 کردیا گیا، اس آرڈیننس کو جان بوجھ کر اس وقت لایا گیا جب قومی اسمبلی کا اجلاس ختم ہوگیا، کیونکہ ہر آرڈیننس کو قومی اسمبلی سے پاس کرانا ضروری ہوتا ہے۔

اس صدارتی آرڈیننس کو سمجھنے کیلئے اسلام آباد کی یونین کونسلوں کی حلقہ بندیوں کو سمجھنا بہت ضروری ہے تب سمجھ میں آئے گا کہ حکومت آرڈیننس کیوں لائی ہے اور بد دیانتی اور بے ایمانی صاف نظر آجائے گی۔ یونین کونسل کی تقسیم ہی بد دیانتی پر مبنی ہے، این اے 48 اسد عمر والے حلقے میں 20، 20 ہزار پر مشتمل ایک یونین کونسل جبکہ این اے 49 کی ایک یونین کونسل میں صرف 4 ہزار ووٹ ہیں، ویسے اوسطاً 14 پندرہ ہزار ووٹوں پر مشتمل یونین کونسل طارق فضل چوہدری کے حلقے میں پائی جاتی ہے۔
اس حلقے میں صرف ایک یونین کونسل 22 ہزار ووٹرز کی ہے اس کی بھی وجہ یہ ہے کہ وہ یونین کونسل مخالف جماعت کے امیدوار کی ہے، اب اس تقسیم سے یہ بات واضح ہے کہ اگر تحریک انصاف کے کل ووٹ نواز لیگ سے بھی زیادہ پڑتے ہیں تو وہ اپنا میئر نہیں لاسکیں گے کیونکہ ان کی نشستیں کم ہوں گی۔ اب صدارتی آرڈیننس لانے کی وجہ بھی سمجھ آجانی چاہئے۔ کیا یہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟۔ کیا الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق کسی پارٹی سربراہ کو تقریر اور جلسے میں شرکت سے روکنے تک محدود ہے۔

جیسا کہ گزشتہ 2 دن سے میڈیا پر آرہا ہے اور اسلام آباد میں رہنے والے چشم دید گواہ ہیں کہ حکومت نے اچانک شہر اقتدار کی گلیاں اور سڑکیں بنانا شروع کردی ہیں، کیا یہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں؟ اور صرف ایک ہفتہ پہلے طارق فضل چوہدری جو اسلام آباد کے رکن قومی اسمبلی ہیں کو وزیر مملکت بنادیا گیا، کیا یہ خلاف ورزی نہیں؟ اور سی ڈی اے کو کیبنٹ ڈویژن سے ہٹاکر طارق فضل چوہدری کی وزارت کے ماتحت کردیا گیا، کیا یہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں؟، انصاف کا تقاضا ہے کہ عمران خان نے اگر ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کہ تو سزا ملنی چاہئے مگر ایک خلاف ورزی پر سزا یا واویلا اور بے تحاشا خلاف ورزیوں پر خاموشی انصاف کا تقاضا نہیں ہے، اور اگر آرڈیننس لانا، وزیر بنانا، سڑکیں پکی کروانا اور حلقہ بندیوں کی تقسیم ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں تو ضابطہ اخلاق بنانے والوں پر دھاندلی کے الزامات لگتے رہیں گے۔
http://urdu.samaa.tv/blogs/2015/12/227841/
Last edited by a moderator: