Night_Hawk
Siasat.pk - Blogger
سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے ملک میں ضلعی نظام کے قیام کے بعد 2002 میں جو غیر جماعتی عام انتخابات سپریم کورٹ کی ہدایت پر کروائے تھے ان کے نتیجے میں جو ارکان قومی و صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے ان پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے سالانہ فراہم کیے جانے والے فنڈز پر پابندی عائد کردی تھی۔
یہ فنڈز ارکان اسمبلی اور سینیٹروں کو فراہم کیے تو نہیں جاتے تھے مگر ہر رکن اسمبلی کے لیے سرکاری فنڈ مخصوص کیے جاتے تھے اور ہر رکن اپنے حصے میں آنے والا کروڑوں روپے کا فنڈ اپنی صوابدید کے تحت خرچ کرنے کا مجاز ہے اور وہ یہ فنڈ اپنے حلقہ انتخاب ہی میں نہیں بلکہ کہیں بھی استعمال کرا سکتا تھا اور کہنے کی حد تک ہر رکن اپنے حلقے کے عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے اپنی مرضی سے منصوبے منظور کروا کر اپنی پسند کے ٹھیکیداروں کو ان تعمیری و ترقیاتی کاموں کی تکمیل کے ٹھیکے دلایا کرتا تھا۔
کہا تو یہ جاتا تھا کہ اکثر جگہوں پر بعض رکن خود ہی ٹھیکہ لیتے تھے مگر نام ان کے کسی اپنے ہی آدمی کا ہوتا تھا۔ ارکان اسمبلی کو دیے گئے فنڈز سے جو بھی کام ہوتے تھے وہ انتہائی ناقص ہوتے تھے اور کاموں کے جعلی بل بنتے تھے اور سرکاری انجینئر ارکان اسمبلی کی خوشنودی کے لیے وہی کرتے تھے جو متعلقہ رکن اسمبلی چاہتا تھا اور متعلقہ رکن اسمبلی کے حلقے میں کاموں کے بلوں کی ادائیگی بھی رکن اسمبلی کی اجازت سے ہوتی تھی۔ سرکاری انجینئروں اور ان کے عملے کو اپنے مقررہ کمیشن سے غرض ہوتی تھی۔ ارکان اسمبلی تعمیری کام اپنے حلقہ انتخاب شہروں میں کم اور دیہی علاقوں میں زیادہ کراتے تھے کیونکہ وہاں ہونے والے کاموں میں کرپشن کی زیادہ گنجائش ہوتی تھی۔
دیہی علاقوں میں راستوں پر مٹی بچھائی جاتی تھی یا اینٹوں سے فرش بندی کرائی جاتی۔ زیرزمین فراہمی ونکاسی آب کے لیے جو پائپ بچھائے جاتے تھے وہ نظر نہ آنے کی وجہ سے کرپشن کا اہم ذریعہ تھے اور اس طرح ایک ایک حلقے میں سالانہ کروڑوں روپے کی کرپشن ہوتی تھی جس پر نہ شور مچتا تھا نہ حکومتی تحقیقات ہوتی تھیں کیونکہ حکومت کی طرف سے ارکان اسمبلی کو یہ فنڈ دیے ہی خوش کرنے کے لیے جاتے ہیں اور ایک قسم کی رشوت ہوتی تھی .۔
تاکہ ارکان اسمبلی خوش اور حکومت کے ساتھ رہیں اور حکومت من مانی جاری رکھ سکے اور ارکان فنڈز کے لیے حکومت کی مخالفت نہ کرسکیں۔ حکمراں پارٹی اور حلیفوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کو ہر حکومت ترجیحی بنیاد پر فنڈ دیتی ہے جب کہ اپوزیشن کے ارکان کو نظرانداز کیا جاتا ہے اور انھیں جان بوجھ کر فنڈز سے محروم رکھا جاتا ہے تاکہ وہ بھی فنڈز کے حصول کے لیے حکومت کی حمایت پر مجبور ہوں حکومت کی شدید مخالفت کرنے والے اپوزیشن ارکان کے لیے یہ فنڈز شجر ممنوعہ بنا دیے جاتے ہیں۔
حکومت کی طرف سے یہ فنڈز بلا امتیاز دینے کے دعوے تو کیے جاتے ہیں مگر عملاً ایسا ہوتا نہیں ہے۔ اپنے پسندیدہ ارکان کو حکومت یہ فنڈ پہلے مختص کردیتی ہے اور بعد میں اپوزیشن ارکان کا نمبر آتا ہے اور انتہائی ناپسندیدہ ارکان کو یہ فنڈ دیا نہیں جاتا یا کم کرکے دیا جاتا ہے۔
کروڑوں روپے الیکشن پر خرچ کرکے منتخب ہونیوالے ارکان کی بھی یہ فنڈ ضرورت ہوتے ہیں اور انھیں پتا ہوتا ہے کہ انھیں ملنے والے یہ فنڈ سیاسی رشوت ہوتے ہیں حکومت مقررہ الاؤنسز کے علاوہ ارکان کو رقم نہیں دے سکتی اس لیے ترقیاتی و تعمیری کاموں کے نام پر ارکان اسمبلی، مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان اسمبلی اور سینیٹروں کو بھی یہ فنڈ دیے جاتے ہیں حالانکہ ان کے مخصوص حلقے نہیں ہوتے مگر انھیں نوازنے کے لیے یہ فنڈ دیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان فنڈز کا اکثر استعمال ہی غلط ہوتا ہے اور زیادہ تر یہ فنڈ کرپشن کی نذر ہوجاتے ہیں۔
راقم وزیر اعظم جونیجو کے دور میں شکار پور کے صحافیوں کے ہمراہ بلوچستان گیا تھا جہاں ایک رکن صوبائی اسمبلی نے ہمیں اس وقت کے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے فنڈ سے وہ علاقے دکھائے تھے جہاں کروڑوں سرکاری فنڈز سے خرچ ہوئے تھے مگر وہاں سڑکوں کا نام و نشان نہ تھا اور سڑکیں کاغذوں میں بناکر فنڈ خرد برد کردیا گیا تھا۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف ارکان اسمبلی اور سینیٹروں کو دیے جانے والے فنڈز کی خوردبرد سے آگاہ تھے اس لیے انھوں نے 2002 کے انتخابات میں منتخب ہونے والوں کو سالانہ فنڈز دینے کا سلسلہ بند کردیا تھا اور یہ فنڈز سٹی اور ڈسٹرکٹ حکومتوں کے لیے مختص کردیے تھے جو اپنے ضلع کے ٹاؤنز، تحصیل و یونین کونسلوں کو یہ فنڈز فراہم کرتی تھیں اور تعمیری و ترقیاتی کام ہوتے تھے۔
2002 میں منتخب ہونے والے ارکان اسمبلی اور وجود میں آنے والی غیر جماعتی حکومتوں نے جب ضلعی حکومتوں کے اختیارات اور فنڈ دیکھے تو انھوں نے جنرل مشرف پر دباؤ ڈالا اور انھیں اپنی سیاسی حمایت کے عوض مجبور کیا کہ وہ ضلعی حکومتوں کو صوبائی حکومتوں کے ماتحت کریں اور ناظمین کے اختیارات بھی کم کریں۔ ان حالات میں جنرل مشرف کا ریفرنڈم کا کام ناظموں سے لیا جاچکا تھا اور انھیں ضلعی حکومتوں سے زیادہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی سیاسی حمایت کی ضرورت تھی اس لیے انھوں نے ضلعی حکومتوں کو مزید اختیارات دینے کا فیصلہ ملتوی کردیا اور اپنے سیاسی مفاد کے لیے ارکان اسمبلی اور سینیٹرز کے فنڈز بحال کردیے اور ضلعی حکومتوں کو صوبائی حکومتوں کے تحت کردیا۔
سابق صدر کا پہلے موقف ہوتا تھا کہ ارکان اسمبلی اور سینیٹرز کا کام اپنے اپنے ایوانوں میں جاکر قانون سازی کرنا ہے ان کا کام عوام کے بنیادی مسائل حل کرانا نہیں کہ وہ حکومت سے فنڈ لے کر نالیاں، سڑکیں اور گلیاں بنوائیں اور فراہمی و نکاسی آب کا کام کرائیں۔ یہ کام نچلی سطح پر منتخب ہونیوالے بلدیاتی نمایندوں کا ہے اور وہی اس کام کے لیے موزوں ہیں۔
دیگر ممالک میں کہیں بھی ارکان اسمبلی اور سینیٹرز کو بلدیاتی کاموں کے لیے فنڈ نہیں دیے جاتے بلکہ حکومت بڑے منصوبے خود تعمیر کراتی ہے اور بلدیاتی مسائل وہاں کے بااختیار بلدیاتی ادارے مکمل کراتے ہیں۔ وہاں باقاعدگی سے بلدیاتی انتخابات ہوتے ہیں اور وہاں کے بلدیاتی اداروں اور ان کے منتخب سربراہوں کو وسیع اختیارات ہوتے ہیں ۔
جس کی وجہ سے وہ اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں اور اپنے ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں تک پہنچتے ہیں۔پاکستان میں بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوتا۔ ارکان اسمبلی یہاں بلدیاتی انتخابات نہیں ہونے دیتے اور بلدیاتی فنڈ خود حاصل کرنے کے لیے کمزور بلدیاتی نظام کو بھی برداشت نہیں کرتے اور بلدیاتی فنڈز خود ہتھیا لیتے ہیں جو انتہائی غلط طریقہ ہے۔