ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات کب تک مکمل ہوں گی؟

10%D8%A7%D8%B1%D8%B3%DA%BE%D8%A7%D8%AF%D8%B3%DA%BE%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D8%A8%D9%85%D8%A6%DA%A9%D9%85%D8%A7%D9%84%D9%86%20%DA%AF%DB%8C.jpg

شہید صحافی ارشد شریف کا لیپ ٹاپ اور موبائل فون کس کے پاس اور کہاں ہے ابھی معلوم نہیں۔

تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی چینل اے آر وائے نیوز سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی واینکر اقرار الحسن کو ایمانوئل لے گاٹ ڈائریکٹر انویسٹی گیشن انڈی پنڈنٹ پولیسنگ اوورسائٹ اتھارٹی (آئی پوا) نے انٹرویو دیا ہے۔

اقرار الحسن کے سوال پر کہ " ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات میں اب تک کیا پیشرفت ہوئی؟ کیا پولیس نے کسی سے پوچھ گچھ کی؟ یا کسی پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج ہوا یا کسی کو معطل کیا گیا، اب تک کیا سامنے آیا ہے؟


جس کا جواب دیتے ہوئے ایمانوئل لے گاٹ نے کہا میں تصدیق کرتا ہوں کہ اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں، کچھ ملزمان سے تحقیقات کی جا رہی ہیں جنہیں تحقیقات مکمل ہونے پر عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

اقرار الحسن نے سوال کیا کہ "تحقیقات مکمل ہونے میں کتنا وقت درکار ہو گا؟"جس کا جواب دیتے ہوئے ایمانوئل لوگاٹ کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ اس میں زیادہ وقت نہیں لگے گا، میرے خیال میں 3 ہفتے میں تحقیقات مکمل کر لی جائیں گی۔ ایمانوئل لوگاٹ نے شہید صحافی کے موبائل فون اور لیپ ٹاپ کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں!

اقرار الحسن نے سوال کیا کہ نیروبی میں آنے والی پاکستانی تحقیقاتی ٹیم نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں جی ایس یو کے زخمی اہلکار تک رسائی نہیں دی گئی جبکہ وہ اس کیس سے جڑے چوتھے شخص سے بھی بات کرنا چاہ رہے تھے، کیا آپ اس بات کی تصدیق کرینگے؟

جس کے جواب میں ڈائریکٹر انویسٹی گیشن کا کہنا تھا کہ میں اس بات کی تصدیق نہیں کر سکتا کیونکہ اس پولیس افسر کا تعلق نیشنل پولیس سروس سے ہے، ان تک رسائی انسپکٹر جنرل کی منظوری سے ہی ہو سکتی ہے جبکہ پولیس افسران کی تعداد کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ جائے وقوعہ پر 4پولیس اہلکاروں کی موجودگی آپ کو پتہ ہے اس کے علاوہ بھی کچھ ملزمان کا پتا چلا ہے۔

اس سے پہلے سینئر صحافی اقرار الحسن کو انٹرویو میں سابق سیکورٹی ایکسپرٹ اور جی ایس یو ٹرینر جورج موسیٰ مالی نے بتایا تھا کہ وہ ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقات کر رہے ہیں جس میں جنرل سروس یونٹ کے ملوث ہونے کا بھی شبہ ہے کیونکہ اس کیس کے حوالے سے جنرل سروس یونٹ (جی ایس یو ) کو طلب کرنا غیرمعمولی تھا کیونکہ اس کیلئے پہلے صدر اور پھر کمانڈر کے آرڈرز درکار ہوتے ہیں جبکہ جائے وقوعہ پر گولیوں کے خول ایسے ہی چھوڑ دینے کی وجہ لاپروائی نظر آتی ہے، ایسے لگتا ہے کہ ارشد شریف کے قتل کی منصوبہ بندی کہیں اور کی گئی جبکہ انہیں قتل کینیا میں کیا گیا۔