
وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنااللہ کا کہنا ہے کہ صحافی و اینکر ارشد شریف کا کینیا میں قتل ایک ٹارگٹڈ مرڈر ہے، ارشد شریف کو قتل کرنیوالوں کو پتہ تھا کسے مارنا اور کسے بچانا ہے۔
نجی چینل "جیو" کے مارننگ شو میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے 2 روز پہلے بھی کہا تھا کہ ارشد شریف کا واقعہ غلط شناخت کا نہیں ہے۔ وقار کے اسپانسر پر ارشد شریف دبئی سے کینیا پہنچے، وہ وقار کے فلیٹ میں ہی رہائش پزیر تھے۔
انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ وقار، خرم اور کینین پولیس کے ان 5 افسروں کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے، تمام شواہد سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ غلط شناخت کا کیس نہیں ہے۔ جن لوگوں نے گاڑی پر فائرنگ کی انہیں معلوم تھا کہ وہ کس پر فائر کر رہے ہیں۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ فائر کرنے والوں کو معلوم تھا کہ ارشد شریف کس طرف بیٹھے ہیں، انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ دوسری طرف کون بیٹھا ہے، اسے کیسے بچانا ہے اور ٹارگٹ کو حاصل کرنا ہے۔ دونوں طرح کے شواہد موجود ہیں کہ پاکستان سے کن لوگوں نے ارشد شریف کو باہر جانے پر مجبور کیا۔
راناثنااللہ نے کہا کہ کچھ لوگوں نے انہیں بلا کر کہا تھا کہ ملک سے چلے جاؤ، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں پر حالات ایسے تھے کہ انہیں جانا پڑا۔ جبکہ ارشد شریف ملک سے جانا نہیں چاہتے تھے، انہیں ڈرانے کے لیے ایک فرمائشی تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا کہ آپ کی جان کو بہت خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ارشد شریف جانے پر مجبور ہوئے یا رضا مند ہوئے۔ یہ تمام چیزیں بھی ریکارڈ پر موجود ہیں کہ کس طرح سے ارشد شریف کو پشاور سے جہاز میں بٹھایا گیا، کن لوگوں نے فرمائشی تھریٹ الرٹ جاری کرایا۔
انہوں نے کہا سب کچھ سامنے ہے کہ کن لوگوں نے انہیں ایئرپورٹ تک پہنچایا، کن لوگوں نے ارشد شریف کو دبئی پہنچایا۔ دبئی سے جس آدمی کی مداخلت یا مدد سے ارشد شریف کو ویزا آن لائن ارینج ہوا وہ وقار ہے، وقار ارشد شریف کو پہلے سے نہیں جانتا تھا، وقار نے کس کے کہنے پر یہ کام کیا؟
وزیر داخلہ نے کہا کہ ارشد شریف کیوں وقار کے گھر جا کر مہمان ٹھہرے؟ یہ ساری چیزیں ریکارڈ پر آ چکی ہیں، وقار کو ابھی تک نامزد اس لیے نہیں کر رہے کہ کمیشن نے ان چیزوں کو جا کر تفصیل سے دیکھنا ہے۔