دل تو چاہتا ہے کہ انہیں پھدووں کی حکومت کہا جاے، حکومتیں چاہی کتنی بھی ناتجربہ کار ہوں مگر ان کی لیگل ٹیم میں ہمیشہ بہت تجربہ کار وکلا شامل ہوتے ہیں جو قانون سازی کے شعبے کے علاوہ حکومتی معاملات میں قانونی مدد و مشاورت مہیا کرتے ہیں
آرمی چیف کو ایکسٹینشن دینی ہی تھی تو اتنا بھی نہ سوچا کہ قانونی تقاضے ہی پورے کرلیتے، کابینہ کی منظوری آج لی جارہی ہے جبکہ ایکسٹینشن کا لیٹر پہلے ہی جاری کیا جا چکا تھا
عدالت کا اختیار سب سے اوپر ہوتا ہے اس بات کا شعور ہماری عدالتوں کو کافی سال پہلے ہوچکا ہے اور اب ہر نیا آنےوالا دن قانون کی سپرمیسی اور بالا دستی کا دن ہوگا، کوی وزیر یا جنرل عدالت سے بالا تر نہیں ہوسکتا اور نہ ہی آیئندہ اس کی اجازت دی جاے گی
ادھر وزارت خارجہ کچھ زیادہ ہی پھرتیاں دکھانے پر اتر آی ہے، ناروے کے سفیر کو بلوا کر احتجاج یوں کیا گیا جیسے وہاں کی حکومت نے یہ سب کروایا ہو، حالانکہ یورپ میں حکومتیں ہی ہیں جو ان نسل پرستوں کے آگے دیوار بن کر کھڑی ہیں ورنہ جو حرکات وہاں پر مسلمانوں کی طرف سے کی جارہی ہیں یہ کب کے مہاجر بن کر کیمپوں میں منتقل کیے جاچکے ہوتے ، وزارت خارجہ کو تو چاہئے تھا کہ کسی خون خرابے کے بغیر برق رفتاری سے حالات کو نارمل بنا دینے پر ناروے کی حکومت کا شکریہ ادا کرتے مگر انہوں نے الٹا احتجاج کرنا مناسب سمجھا جس کی کوی منطق سمجھ نہیں آتی کیونکہ ادھر اپنے ملک میں مشال حسین جیسے نوجوان مزہبی درندوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں پر قاتلوں کو پھولوں کے ہار پہناے گئے، ایک لاکھ شہری مذہبی دھشت گردوں نے مار ڈالے اسکول کے بچوں کوخنجروں سے ذبح کرتے رہے اور یہ چلے ہیں ناروے سے احتجاج کرنے، ناروے کی حکومت نے تو فتنہ ایک گھنٹے میں ختم کردیا تھا وہ اچھے ہوتے تو ان کو کھری کھری سناتے کہ جاو پہلے اپنا دامن صاف کرو
پاکستانی حکومت کا ہر دن جہالت اور گمراہی کی طرف بڑھ رہا ہے، اب کل ہی کی بات ہے کہ بیٹھے بٹھاے جوتے کھانے کو دل چاہا تو مشرف کے مدعے پر عدالت میں پنہچ گئے حالانکہ یہ کام مشرف کا تھا نہ کہ ان کا مگر یہ سب کو معلوم ہے کہ یہ کس کے چاکر ہیں
کسی جنرل کی ایسی خوشامد اور فوج کے بوٹ چاٹنے کی یہ انتہا اس سے پہلے نہیں دیکھی تھی، ایک ڈکٹیڑکی حمایت میں عدالت تک جانے کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی
آرمی چیف کو ایکسٹینشن دینی ہی تھی تو اتنا بھی نہ سوچا کہ قانونی تقاضے ہی پورے کرلیتے، کابینہ کی منظوری آج لی جارہی ہے جبکہ ایکسٹینشن کا لیٹر پہلے ہی جاری کیا جا چکا تھا
عدالت کا اختیار سب سے اوپر ہوتا ہے اس بات کا شعور ہماری عدالتوں کو کافی سال پہلے ہوچکا ہے اور اب ہر نیا آنےوالا دن قانون کی سپرمیسی اور بالا دستی کا دن ہوگا، کوی وزیر یا جنرل عدالت سے بالا تر نہیں ہوسکتا اور نہ ہی آیئندہ اس کی اجازت دی جاے گی
ادھر وزارت خارجہ کچھ زیادہ ہی پھرتیاں دکھانے پر اتر آی ہے، ناروے کے سفیر کو بلوا کر احتجاج یوں کیا گیا جیسے وہاں کی حکومت نے یہ سب کروایا ہو، حالانکہ یورپ میں حکومتیں ہی ہیں جو ان نسل پرستوں کے آگے دیوار بن کر کھڑی ہیں ورنہ جو حرکات وہاں پر مسلمانوں کی طرف سے کی جارہی ہیں یہ کب کے مہاجر بن کر کیمپوں میں منتقل کیے جاچکے ہوتے ، وزارت خارجہ کو تو چاہئے تھا کہ کسی خون خرابے کے بغیر برق رفتاری سے حالات کو نارمل بنا دینے پر ناروے کی حکومت کا شکریہ ادا کرتے مگر انہوں نے الٹا احتجاج کرنا مناسب سمجھا جس کی کوی منطق سمجھ نہیں آتی کیونکہ ادھر اپنے ملک میں مشال حسین جیسے نوجوان مزہبی درندوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں پر قاتلوں کو پھولوں کے ہار پہناے گئے، ایک لاکھ شہری مذہبی دھشت گردوں نے مار ڈالے اسکول کے بچوں کوخنجروں سے ذبح کرتے رہے اور یہ چلے ہیں ناروے سے احتجاج کرنے، ناروے کی حکومت نے تو فتنہ ایک گھنٹے میں ختم کردیا تھا وہ اچھے ہوتے تو ان کو کھری کھری سناتے کہ جاو پہلے اپنا دامن صاف کرو
پاکستانی حکومت کا ہر دن جہالت اور گمراہی کی طرف بڑھ رہا ہے، اب کل ہی کی بات ہے کہ بیٹھے بٹھاے جوتے کھانے کو دل چاہا تو مشرف کے مدعے پر عدالت میں پنہچ گئے حالانکہ یہ کام مشرف کا تھا نہ کہ ان کا مگر یہ سب کو معلوم ہے کہ یہ کس کے چاکر ہیں
کسی جنرل کی ایسی خوشامد اور فوج کے بوٹ چاٹنے کی یہ انتہا اس سے پہلے نہیں دیکھی تھی، ایک ڈکٹیڑکی حمایت میں عدالت تک جانے کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی