جس وقت اسلام آیا تو اطراف عرب میں دو سپر پاورز تھیں، بازنطینی(رومی) اور ساسانی(ایرانی)۔ رومن یونانی زبان بولتے تھے اور انکا دارالحکومت و سطوت کا مقام قسطنطنیہ تھا جو کہ اسکے بعد بھی کئی سو سال تک بازنطینیوں کا مركز رہا۔ دور فاروقی، دور عثمانی اور دور بنو امیہ میں بازنطینیوں/رومیوں کے جو علاقے مسلمانوں کے قبضے میں آئے وہ اپنی اصل میں یونانی نہیں تھے، شام ارامی زبان بولتا تھا، اور اسکندریہ کے علاوہ باقى مصر میں قبطی لوگ تھے، بلاد مغرب (موجودہ لیبیا سے مراکش تک کا علاقہ) میں بربر اقوام تھیں،
گویا ان اسلامی فتوحات نے بازنطینی سلطنت کو تو سکیڑا مگر یونانی قومى تفاخر کو نہیں کچلا تھا- بازنطینیوں کے جو علاقے اس دور میں بلاد اسلامی بنے، ان کے لیے مثبت چینج آف ماسٹرز ہوا تھا- لہذا ان علاقوں سے اسلام یا عربوں یا اس وقت کے حکمران خاندان کے لیے بغض و عناد قومی سطح کا نہیں تھا۔
دوسری جانب ایرانیوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوا- ایرانیوں کی سطوت کا مقام یعی دارالحکومت طیسفون (مدائن) عراق میں تھا، جبکہ ساسانی خاندان کی اصل فارس یعنی مغربی ایران میں تھی، اور مجوسیت کی اصل خراسان (مشرقی ایران) میں تھی- اور یہ تمام علاقے دور عثمانی تک بلاد اسلامی میں شامل ہوگئے تھے
مزید یہ کہ خاندان ساسانیہ کا خاتمہ ہی ہو گیا تھا- ایرانی عوام کے لیے تو ان فتوحات سے سہولت آئی مگر ایرانی اشرافیہ کے سینے نفرت کی بھٹی بنے ہوئے تھے، کہ وہ عرب جن کو وہ اونٹنی کا دودھ پینے والے اور چھپکلیاں کھانے والے اجڈ سمجھتے تھے، اور جو کہ کچھ ہی سال پہلے تک ان کے محکوم بھی تھے،اب ان پر حکمران بن چکے تھے-
اسلام کا پھیلائو کیونکہ بہت تیز ہوا تھا تو براہ راست اسلام سے ٹکر لینا ممکن نہ تھا، لہذا ایران عراق میں نو وارد یمنی قبائل کے ساتھ مل کر بغاوتیں شروع کی گئیں- دور کیونکہ بنو امیہ کا تھا اس لیے ایرانی تاریخ نویسوں کے اسلام کے لبادے مین لپٹے ہوئے جنگی پروپگنڈے کا سب سے زیادہ شکار یہی بنے ہیں- صرف بنو امیہ والے ہی نہیں، وہ اصحاب جنہوں نے جنگ قادسیہ یا فتح ایران مین براہ راست حصہ لیا، مثلاً خالد بن ولید، یا سعد بن ابی وقاص وغیرہ، وہ بھی اس نفرت کا بدترین شکار ہوئے ہیں
گویا ان اسلامی فتوحات نے بازنطینی سلطنت کو تو سکیڑا مگر یونانی قومى تفاخر کو نہیں کچلا تھا- بازنطینیوں کے جو علاقے اس دور میں بلاد اسلامی بنے، ان کے لیے مثبت چینج آف ماسٹرز ہوا تھا- لہذا ان علاقوں سے اسلام یا عربوں یا اس وقت کے حکمران خاندان کے لیے بغض و عناد قومی سطح کا نہیں تھا۔
دوسری جانب ایرانیوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوا- ایرانیوں کی سطوت کا مقام یعی دارالحکومت طیسفون (مدائن) عراق میں تھا، جبکہ ساسانی خاندان کی اصل فارس یعنی مغربی ایران میں تھی، اور مجوسیت کی اصل خراسان (مشرقی ایران) میں تھی- اور یہ تمام علاقے دور عثمانی تک بلاد اسلامی میں شامل ہوگئے تھے
مزید یہ کہ خاندان ساسانیہ کا خاتمہ ہی ہو گیا تھا- ایرانی عوام کے لیے تو ان فتوحات سے سہولت آئی مگر ایرانی اشرافیہ کے سینے نفرت کی بھٹی بنے ہوئے تھے، کہ وہ عرب جن کو وہ اونٹنی کا دودھ پینے والے اور چھپکلیاں کھانے والے اجڈ سمجھتے تھے، اور جو کہ کچھ ہی سال پہلے تک ان کے محکوم بھی تھے،اب ان پر حکمران بن چکے تھے-
اسلام کا پھیلائو کیونکہ بہت تیز ہوا تھا تو براہ راست اسلام سے ٹکر لینا ممکن نہ تھا، لہذا ایران عراق میں نو وارد یمنی قبائل کے ساتھ مل کر بغاوتیں شروع کی گئیں- دور کیونکہ بنو امیہ کا تھا اس لیے ایرانی تاریخ نویسوں کے اسلام کے لبادے مین لپٹے ہوئے جنگی پروپگنڈے کا سب سے زیادہ شکار یہی بنے ہیں- صرف بنو امیہ والے ہی نہیں، وہ اصحاب جنہوں نے جنگ قادسیہ یا فتح ایران مین براہ راست حصہ لیا، مثلاً خالد بن ولید، یا سعد بن ابی وقاص وغیرہ، وہ بھی اس نفرت کا بدترین شکار ہوئے ہیں