آج یوم وفات ،مولانا مودودی

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
1273946_778065182239783_2401893897886083726_o.png


p12_05.jpg



 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ اورجماعت اسلامی !

قاضی حسین احمدؒ
تحریر: سابق امیرجماعت اسلامی پاکستان

26اگست 1941ءکو لاہور میں پورے برصغیر پاک و ہند سے کچھ لوگ جو پہلے ہی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تحریروں سے متاثر تھے اور ماہنامہ ترجما ن القرآن کے ذریعے ان کے افکار و نظریات اور ان کی ذات گرامی سے بخوبی واقفیت بھی رکھتے تھے ان کی دعوت پر جمع ہوئے اورجماعت اسلامی کے نام سے ایک مختصر سی نئی جماعت وجود میں لائے۔ اس جماعت کی پشت پر وہ فکری رہنمائی تھی جو کئی سال سے مولانا مودودیؒ انفرادی طور پر فراہم کر رہے تھے اور جس میں خود علامہ اقبال مرحوم کے مشورے بھی شامل تھے۔ مولانا مودودیؒ اور علامہ اقبال ؒ کے درمیان گہرا تعلق اس امر سے واضح ہوجاتا ہے کہ مشرقی پنجاب میں پٹھانکوٹ کے نزدیک دارالاسلام کے نام سے جماعت اسلامی کا جوپہلا مرکز قائم ہوا ، اس کے لیے زمین علامہ اقبالؒ کے توسط سے فراہم ہوئی تھی۔ یہ زمین علامہ اقبال ؒ کو پنجاب کے ایک زمیندار چوہدری نیاز علی صاحب نے اس مقصدکے لیے پیش کی تھی کہ اس پر دین کا کام کرنے کے لیے کوئی مرکز بنائیں ۔ علامہ اقبال ؒ نے اس کے لیے مولانا مودودیؒکا انتخاب کیا اور ان کو دعوت دی کہ وہ اس پر ایسا مرکز بنائیں ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کو نہ تو کوئی جھٹلا سکتا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی انکار کرسکتا ہے ۔ یہ تاریخی حقیقت ان تمام اعتراضات اور الزامات کی بھی تردید کردیتی ہے جو پاکستان کی مخالفت کے سلسلے میں مولانا مودودیؒ پر لگائے جاتے ہیں۔
مسلمانوں کی دیگر جماعتیں تو پہلے ہی سے موجود تھیں ۔مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کوئی ایسے آدمی نہیں تھے کہ محض ایک اضافی جماعت بنانا ان کا مقصد ہوتا۔ انھوں نے ترجمان القرآن میں تفصیل کے ساتھ وہ وجوہات اور اسباب بیان کردےے تھے جس کے نتیجے میں وہ اس فیصلے پر پہنچے کہ ایک ایسی نئی جماعت کی ضرورت ہے جو ان مقاصد کی حامل اور اس طریق کار پر کاربند ہو جیسی اللہ کے حکم پر حضور نبی کریم نے صحابہ کرامؓ کی معیت میں بنائی تھی۔ درحقیقت اللہ اور اس کے رسول نے امت کی جو ذمے داری بیان کی ہے اس کے لیے امت کو دوبارہ مجتمع اور متحد کرنا ناگزیر ہے۔ اس مقصد کی وضاحت مولانا مودودیؒ نے قرآن و سنت کی روشنی میں تاسیس جماعت سے پہلے کردی تھی ۔ تن تنہا بالکل ابتداءسے ایک کام کا آغاز کرنا جو ئے شیرلانے کے مترادف تھا ۔ پھراس کے لیے دوربینی اور بلند ہمتی کے ساتھ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے پہلی اینٹ رکھی ۔
پورے برصغیر ہندو پاک سے پچھترآدمی اکٹھے ہوئے ۔ ان میں سے چندایک جید علماءتھے جو اپنے علم اور تقویٰ میں ممتاز تھے ، چند ایک اچھے اور مخلص لوگ تھے اور کچھ ان میں عام لوگ تھے جو مولانا مودودیؒکی تحریروں سے متاثر ہو کر آئے تھے۔ ان تھوڑے سے لوگوں نے جو غریب تھے انتہائی قلیل سرمائے سے ایک نئی جماعت کی بنیاد رکھی ۔ انھوں نے اس جماعت کا کوئی عقیدہ اور کوئی مقصد اپنی طرف سے پیش نہیں کیا بلکہ کتاب و سنت کی روشنی میں جماعت کے عقیدے اور مقصد کا تعین کیا جو جماعت اسلامی کے دستور میں پوری تشریح کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے کہ ہمارا عقیدہ لاالہ الااللہ محمدرسول اللہ ہوگا۔ یہ وہ عقیدہ ہے جو اللہ رب العالمین نے سکھایا ہے اور حضورنبی کریم انے امت کے ہرفرد کو اس کی تعلیم دی ہے ۔ مولانا مودودیؒ نے اپنے عقیدے کے بارے میں وہی بتایا جس پر تمام امت کو مجتمع اور متحد کیا جاسکتا ہے ۔

جماعت اسلامی نے کتاب و سنت کی تعلیمات کے مطابق جو عقیدہ،مقصد اور طریق کار اختیار کیا ہے۔ اسی کے تحت وہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتی ہے ۔ جو لوگ اس دعوت کو قبول کرلیتے ہیں حضورنبی کریم کے طریقے کے مطابق جماعت ان کی فکری اور عملی تربیت اور ان کا تزکیہ نفس کرکے ان کے اندر سے نفاق تناقص اور دورنگی کو ختم کرنے اور اسلام کے انسانِ مطلوب کے اوصاف پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔

حضورنبی کریم ا،خلفائے راشدین اور صحابہ کرامؓکے مبارک دور میں اصلاح کے لیے جو طریق اختیار کیا گیا تھا اس کے تمام اصولوں کو کتاب و سنت کی روشنی میں جمع کرکے ان کے مطابق جماعت اسلامی کی تنظیم کی گئی ہے ۔ جماعت اسلامی کی تشکیل کے موقع پر وقت کے علمائے کرام کو بھی شریک مشورہ رکھا گیا تھا ۔ تاسیس جماعت سے پہلے علامہ اقبالؒبھی مشورے میں شامل رہے ہیں ۔ ابتدائی ارکان جنھوں نے جماعت کی تاسیس میں حصہ لیا تھا ، ان میں دو بہت بڑے نام ہیں اگرچہ وہ بعد میں جماعت میں نہ رہے لیکن وہ جماعت اسلامی کی تشکیل میں نہ صرف شریک مشورہ رہے ہیں بلکہ جماعت کا دستور بھی انھی کے مشوروں سے بنا ۔ اس میں ایک نام مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒکا ہے جو مولانا مودودیؒ کی طرح سارے عالم اسلام اور پورے عالم عرب میں ایک معروف علمی و دینی مقام رکھتے ہیں اور ان کی کتابوں کو پورے عالم اسلام میں قبولیت عامہ حاصل ہے ۔ دوسرا نام مولانا محمد منظور نعمانی ؒ کا ہے جو ایک سو سال کی عمر میں فوت ہوئے ۔ صاحب تصنیف عالم دین تھے اور علماءکے تمام گروہ ان کا احترام کرتے تھے۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ہمیشہ کوشاں رہے کہ اکابر امت متحد ہوجائیں ۔ جو لوگ ان کے ساتھ نہ آسکے ان کے بارے میں کبھی انھوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ غلط راستے پر ہیں ۔ جماعت اسلامی امت کو متحد کرنے کی ایک تحریک ہے جسے مولانا مودودیؒ نے شروع کیا تھا ۔ اگر جماعت اسلامی کوئی فرقہ ہوتی اور اس سے وابستہ شخصیات کوئی مکتب فکر ہوتے تو اتحاد اور اتفاق کے لیے کوئی خدمت انجام نہ دی جا سکتی ۔لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ ہمارا عقیدہ ہے اور اللہ کی دعوت ہمارا طریق کار ہے ۔ جولوگ اس عقیدے اور طریق کا رکو قبول کرلیں،قرآن اور سنت کے مطابق جماعت ان کی تربیت کرکے انھیں معاشرے کی اصلاح اور اسلامی حکومت کے قیام کی جدوجہد میں لگادیتی ہے تاکہ وہ اللہ کی رضا اور آخرت کی فلاح کو پاسکیں ۔ اس عقیدے اور طریق کار پر کسی بھی مسلمان کا چاہے وہ کسی بھی مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہو کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ جماعت اسلامی ا اتحاد کی داعی ہے اس وقت امت مسلمہ کو جو چیلنج درپیش ہے اس کا مقابلہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ مسلمانوں میں اللہ رب العالمین کے عطا کردہ اسلام کے نظام رحمت کی دعوت کو عام کیا جائے ۔ اس نظام کے قیام کے لیے مسلمانوں کو اتفاق اور اتحاد ،اور اس چیلنج کامقابلہ کرنے کے لیے امت مسلمہ کو یکجا اور یکسو کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری دعا ہے ہمارا اللہ ہم سے راضی ہو جائے اور آخرت میں ہمیں فلاح اور کامیابی نصیب ہو۔ اللہ کی رضا اور آخرت کی فلاح کا حصول ہی عظیم کامیابی ہے اور یہی ایک مسلمان کی آرزو ہے ۔



 
Last edited:

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
جب مولانا مودودی قرآن پاک اٹھائے پھانسی گھر روانہ ہوئے



تحریر : میاں طفیل محمدؒ

سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان

مولانا مودودی مرحوم دعوت اسلامی کا چلتا پھرتا نمونہ تھے۔میں نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے ساتھ ۳۵ سالہ رفاقت کے دوران ان کی کوئی بات اور کوئی حرکت اسلام اور اسوہ رسول سے ہٹی ہوئی نہیں دیکھی۔ مولانا مودودی پر پہلی مرتبہ ۴ اکتوبر۱۹۴۸ءکو جہاد کشمیر کے بارے میں جھوٹا الزام لگا ، اس بار مو لانا امین احسن اصلاحی صاحب کو اور مجھے بھی ان کے ساتھ گرفتار کر کے نیو سینٹرل جیل ملتان میں نظر بند رکھا گیا اور ۲۰ ماہ بعد رہا کیا گیا۔ دوسری مرتبہ مولانا مودودی صاحب لاہورشہر کے مار شل لا کے تحت ۲۸ مارچ ۱۹۵۳ ءکو گرفتار ہوئے۔ تیسری مرتبہ مولانا مودودی صاحب ۴ جنوری ۱۹۶۴ءکو جماعت اسلامی خلافِ قانون قرار دیے جانے پر گرفتار ہوئے اور ان کے ساتھ جماعت کے ۵۵ دوسرے سرکردہ ارکان جماعت بھی گرفتار ہوئے۔ پھر مولانا مودودی صاحب اور دوسرے سب نظر بند بھی ۹ ستمبر ۱۹۶۴ ءکو اس وقت رِہا ہوئے جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے جماعت پر پابند ی کو منسوخ کر تے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا ۔ چوتھی مرتبہ مولانا مودودی صاحب ۱۹۶۷ ءمیں نظر بند کیے گئے ۔اور دو ماہ بعد ان کو رِہا کیاگیا ۔
شہر لاہور میں مارچ ۱۹۵۳ءمیں جب ہم لوگوں کو گرفتا ر کر کے لاہور سینٹرل جیل میں لے جایا گیا تو مو لانا مودودی صاحب مولانا امین احسن اصلاحی صاحب ملک نصر اللہ خاں عزیز صاحب سید نقی علی صاحب چودھری محمد اکبر صاحب سیالکوٹی اور مجھے لاہور سینٹرل جیل کے دیوانی گھر وارڈمیں اور لاہور سے گرفتار شدہ دوسرے حضرات کو دوسرے وارڈوں میں رکھا گیا ۔ لاہور سینٹرل جیل میں ہی قائم کردہ مار شل لا کورٹ میںمولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب سید نقی علی صاحب اور ملک نصر اللہ خاں عزیز صاحب پر مقدمہ چلایا گیا ۔
۱۱ مئی ۱۹۵۳ءکو ہم لوگ دیوانی گھر وارڈ کے صحن میں مولانا مودودی صاحب کی اقتدا میں مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک فوجی افسر نے آ کرکہا: آپ لوگ نماز سے فارغ ہو لیں۔ چنانچہ ہم نے باقی نماز مکمل کر لی تو ان میں سے بڑ ے فوجی افسر نے جو مارشل لا کورٹ کا صدر تھا اس نے پوچھا: مولانا مودودی صاحب کون ہیں ؟ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ مولانا مودودی صاحب کون ہیں اس لیے کہ وہ تو عدالت میں کئی دن ان کے سامنے پیش ہوتے رہے تھے ۔ بہر حال مولانا نے عرض کیا:میں ابوالاعلیٰ مودودی ہوں، تواس نے کہا: آپ کو قادیانی مسئلہ تصنیف کر نے پر موت کی سزا دی جاتی ہے۔ اس کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہو سکتی ہے ۔ آپ گورنر جنرل سے رحم کی اپیل کر سکتے ہیں۔ مولانا نے بلا توقف فرمایا: مجھے کسی سے کوئی رحم کی اپیل نہیں کرنی ہے ۔ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں پر میری موت کا فیصلہ ہو چکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی اور اگر وہاں سے میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی۔ اس کے بعد اسی افسر نے مجھ سے مخاطب ہو کرکہا: آپ نے مارشل لا کے بارے میں روزنامہ تسنیم میں جو بیان دیا ہے اس پر آپ کو سات سال قید با مشقت کی سزا دی جاتی ہے ۔اس کے بعد اسی افسر نے نقی علی کا نام پکار کر ، کہا:تمہیں قادیانی مسئلہ چھاپنے کے جرم میںنو سال قید بامشقت کی سزادی جاتی ہے۔ اسی طرح ملک نصر اللہ خان عزیز سے اس افسر نے کہا :آپ کو روزنامہ تسنیم میں مو لانا مودودی صاحب کا بیان شائع کرنے کے جرم میںتین سال قید با مشقت کی سزا دی جاتی ہے۔ ملک صاحب نے جواب دیا:آپ کا شکریہ ۔
یہ حکم سنانے کے بعد یہ لوگ واپس چلے گئے اور وارڈ کا باہر کا دروازہ بند کر دیا گیا ۔ واقعہ یہ ہے کہ احکام سننے کے بعد ہم لوگوں پر بظاہر کوئی اثر ہی نہ ہوا۔کوئی آدھ گھنٹے کے بعد ہیڈ وارڈن اور ان کے ساتھ کچھ دوسرے وارڈر آئے اور انھوں نے کہا:مولانا مودودی صاحب تیار ہوجائیں وہ پھانسی گھر جائیں گے۔ اس پر مولانا مودودی صاحب نے اطمینان سے اپنا کھلا پا جامہ تنگ پاجامے سے بدلا جو وہ گھر سے باہر جاتے وقت پہنا کرتے تھے ۔ سر پر اپنی سیاہ قراقلی ٹوپی پہنی اور چپلی اتارکر سیاہ گر گابی جوتا پہنا اور اپنا قرآن مجید لے کر اور ہم سب سے گلے مل کر نہا یت اطمینان سے پھانسی گھر روانہ ہو گئے ۔
اس دوران ہمارے وارڈ بھی تبدیل کر دیئے گئے اور تھوڑی دیر بعد وارڈ ر مولانا مودودی صاحب کا جوتا پاجامہ قمیص اور ٹوپی لا کر ہمیں دے گئے کہ مولانا صاحب کو پھانسی گھر کے کپڑے پہنا دیے گئے ہیں ۔ اس پر پہلی مرتبہ ہم لوگوں کو اندازہ ہوا کہ ہو کیا گیا ہے ۔ اگلی صبح ایک وارڈر نے آکر بتایا:مولانا مودودی صاحب تو عجیب آدمی ہیں۔ معلوم ہو تا ہے کہ ان کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔حالانکہ ان کے آس پاس پھانسی گھرکے د وسر ے قیدی چیخ و پکار میں مصروف تھے۔
مولانا مودودی صاحب کو پھا نسی کی سزا کا اعلان ہوتے ہی ملک بھر میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں احتجاج شروع ہو گیا ۔ انڈو نیشیا اور سعودی عرب نے اس سزا کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ تیسرے ہی روز حکومت پاکستان نے اعلان کر دیا کہ مولانا مودودی صاحب اور مولانا عبد الستار خاں نیازی صاحب کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کر دی گئی ہے ۔ چنانچہ مولانا مودودی صاحب کو پھانسی گھر سے جیل کے بی کلاس وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔
ملاقات کی اجازت لے کر ہم لوگ بی کلاس وارڈ میں جا کر مولانا سے ملے ۔ جہاں میں اپنا ایک ململ کا کرتہ لٹھے کا پاجامہ اوربستر کی ایک چادر ساتھ لے گیا اورکھدر کے کرتے پاجامے کی جگہ یہ کپڑے ان کو پہنا دیے ۔اسی بی کلاس وارڈ میں مولانا عبد الستار خاں نیازی صاحب اور مولانا خلیل احمد صاحب خلف مولانا ابو الحسنات صاحب سے بھی ملا قات ہوئی ۔
چند دن کے بعد سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کو لاہور سنٹرل جیل سے میانوالی جیل میں منتقل کر دیا گیا اور پھر کچھ دن کے بعد ہی انھیں میانوالی جیل سے ڈسٹرکٹ جیل ملتان بھیج دیا گیا جہاں ان کو ایک وارڈ کے کھلے میدان میں ٹین کے بنے ہوئے الگ گول کمرے میں رکھا گیا جو جون جولائی کی دھوپ میں تپ کر جہنم بن جاتا تھا۔ملتان ڈسٹرکٹ جیل میں دو مر تبہ میں نے مولانا مودودی صاحب سے ملاقات کی۔ وہ ان ساری تکا لیف کو نہایت خندہ پیشانی سے بر داشت کر تے رہے۔حالات معمول پر آنے کے بعد مارشل لاءکے فیصلوںاور انہیں حاصل ہونے والی انڈیمنٹی کی گورنر جنرل سے توثیق نہ ہونے پر سپریم کورٹ سے اس کے خلاف فیصلہ آگیا۔جس پر مولانا کی سزا کے خلاف رٹ دائر کی گئی اور انہیں رہا کر دیا گیا۔سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒکی یہ عمر قید عملاً ۱۴ سال تھی۔ ہائی کورٹ نے رٹ منظور ہونے پر ۲۸ مئی ۱۹۵۵ءکو انہیں ڈسٹرکٹ جیل ملتان سے رہا کر دیا گیا۔


 

swing

Chief Minister (5k+ posts)
الله مغفرت کرے اور مولانا صاحب کو ،کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے - واقعی انکی بوہت زیادہ کاوشیں ہیں
 

hmkhan

Senator (1k+ posts)
?????? ?????? ?? ????? ???? ????? ?????? ?? ?????? ??? ????? ?????? ?? ?????
??? ??? ???????? ??? ?????? ?? ?????? ?? ??? ????? ?? ??? ????? ?? ?? ?? ?? ?????
??? ?? ?? ??? ????? ?? ??? ?? ????? ?? ???? ?????? ??????
???= ????? ???? ??? ????? ?????? ?? ????? ?? ??? ????? ?? ?????? ?????? ?? ??? ??????
?? ???? ?? ????? ?? ???? ???? ?? ??? ??? ??? ???? ????





 

Back
Top