Khair Andesh
Chief Minister (5k+ posts)
ہ پہلی بار نہیں کہ میں نے آپسے اس قسم کا ثبوت مانگا ہو۔ البتہ کٹا تو اب کھلنے لگا ہے۔ آپ کی پرزور فرمائش حسب وعدہ پر امریشیعی اتحاد کی کہانی کو ایک مضمون کی صورت میں یکجا کر دیا ہے تا کہ بوقت ضرورت بطور ریفرنس کام آئے (الحمد للہ علی ذالک)۔اس مضمون میں شاید ہی ایسی کوئی بات ہو،جو میں نے پہلے نہ کی ہو البتہ فرق اتنا پڑے گا کہ پہلے آپ سنگل بات پر لا جواب ہوتے تھے اور اب با جماعت لا جواب ہو گے۔
یہ آپ نے نیا کٹا کھول دیا ، اس کا جواب بھی ضرور دوں گا لیکن پہلے آپ یہ بات قبول کریں کہ شام میں ایرانی جماعتوں نے شامی عوام کو نہیں بلکے دیش کو پھینٹا لگایا ہے ، پھر آگے چلتے ہیں
نوٹ کافی لمبا مضمون ہے، لہذا آپ وقت فارغ وقت میں پڑھنا۔ کہ امید تو کم ہی ہے ، مگر کیا معلوم حقیقت تک پہنچ ہی جائو۔
۔
ایران امریکا نورا کشتی بے نقاب۔
امریشیعی اتحاد کی کہانی۔
پارٹ ون
امریشیعی اتحاد کی کہانی۔
پارٹ ون
بنیادی اصول:قول فعل کا تضاد
اگر کوئی شخص آپ کا ہمدرد اور دوست ہونے کا دعوی کر رہا ہو، مگر آپ پر چاقو لے کر حملہ آور ہو جائے اور جان کے درپے ہو جائے، تو آپ کبھی اسے اپنا دوست نہیں مانیں گے، بلکہ دشمن قرار دیں گے۔اسی طرح اگر ایک طالبعلم ہمیشہ یہ کہے کہ وہ بہت ہشیار اور لائق ہے، مگر عملا ہربار مسلسل امتحان میں فیل ہو جائے تو آپ اس طالب علم کو یقینا ایک نالائق اور ناکام مانیں گے۔
اوپر والی دو مثالوں سے واضح ہے کہاتی ہے اگر کبھی قول فعل میں تضاد ہو، تو پھر فعل کو ترجیح دی جاتی ہے، اور اس کے عمل کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا جاتاہے، رائے قائم کی جاتی ہے۔
اور یہی اس پوری تحریر کا بنیادی اصول ہے، کہ اگر چہ ایران امریکا بظاہر زبانی کلامی دشمنی کا دعوی کرتے ہیں، مگر ان کا عمل ان کی دوستی کی چغلی کھاتا ہے۔
دشمنی کی تعریف اور تقاضے:
جس سطح کی دشمنی کا یہ دونوں دعوی کرتے ہیں، اس کا اصولی تقاضا تو یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے مفاد کو جہاں تک ہو سکے، جہاں بھی دہو سکے،اور جب بھی ہو سکے، نقصان پہنچائیں،اور ہر اس کام سے بچیں جس سے اس کے دشمن کو دور کا بھی فائدہ ہو۔دشمن کا دشمن دوست ہو، اور دشمن کا دوست بھی دشمن ہو۔ مگر اگلی سطور میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ دونوں کس طرح ایک دوسرے کو ہر ممکن فائدہ پہنچاتے ہیں اور ایک دوسرے کے مفادات کے خلاف کام کرنے سے گریز کرتے ہیں۔لہذا ہم پوری دنیا میں (جہاں بھی ان کے مفاد ٹکرانے چاہئے کا، ایک ایک کر کے ) جائزہ لیں گے۔ اور ہر پڑھنے والا اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ دونوں کسی بھی طرح دشمنی کی تعریف پر پورا نہیں اترتے۔ ہمارا طریقہ کار یہ ہو گا کہ ہم یہ دیکھیں گے کہ دونوں جس شدید دشمنی کا دعوی کرتے ہیں، اس کا تقاضا کیا ہے، ہونا کیا چاہئے تھا، اور حقیقت حال میں کیا ہو رہا ہے۔اوپر والی دو مثالوں سے واضح ہے کہاتی ہے اگر کبھی قول فعل میں تضاد ہو، تو پھر فعل کو ترجیح دی جاتی ہے، اور اس کے عمل کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا جاتاہے، رائے قائم کی جاتی ہے۔
اور یہی اس پوری تحریر کا بنیادی اصول ہے، کہ اگر چہ ایران امریکا بظاہر زبانی کلامی دشمنی کا دعوی کرتے ہیں، مگر ان کا عمل ان کی دوستی کی چغلی کھاتا ہے۔
دشمنی کی تعریف اور تقاضے:
یمن؛
یمن ایرانی ملا کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کا خمیازہ بھگت رہا ہے، جہاں ایرانی تربیت، اور حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے ملک کے دارلحکومت سمیت ایک بڑے حصہ پر قبضہ کر رکھا ہے۔حوثی باغی آئے روز نہ صرف یمنی عوام پر دہشت گردی کرتے ہیں، بلکہ امریکا کے (بظاہر) اتحادیوں، یو اے ای اور سعودیہ پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ ایران نے میزائیلوں اور ڈرونوں کے ڈھیر لگا دیئے ہیں۔اور یہ سب امریکا کی ناک تلے ہو رہا ہے، اور امریکا نے سوائے گونگلؤں سے مٹی جھاڑنے کے، کسی قسم کی مداخلت نہیں کی۔
ایسا نہیں کہ امریکا نے یمن میں حملے نہیں کئے، بلکہ امریکا یمن میں القائدہ کے نام پر سینکڑوں حملے کر چکا ہے(جس کا براہ راست فائدہ حوثیوں کو ہوتا ہے، کیونکہ اگر حوثیوں کو پورے یمن پر قبضہ جمانا ہے، تو اسے القائدہ اور دوسرے گروہوں سے بھی لڑنا ہو گا)۔ مگر اسے آج تک کبھی کسی حوثی باغی کے ٹھکانے پر حملہ کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ حالآنکہ ان پر حملہ کرنے کی ایک سے ذیادہ وجوہات موجود ہیں؛
یہ لوگ ایران کے حمایت یافتہ ہیں، اور ان کی کوئی بھی کامیابی،مرگ بر امریکا کی مالا جپنے والے ایران کی فتح کے مترادف ہے، اور ان کو نقصان پہنچانا ایران کو براہ راست تکلیف پہنچانے کے برابر ہے۔،
یہ جدید اسلحہ سے لیس ہیں جو ایران کا فراہم کردہ ہے، جس کی وجہ سے یہ لوگ خطے میں موجود امریکی فوج کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں (یہ حملوں کی دھمکیاں بھی دیتے رہتے ہیں اور صلاحیت بھی ہے)۔
آئے روز امریکی اتحادی سعوی عرب پر حملے کرتے رہتے ہیں مثلا سعودی آرامکو پر حملہ، اور ابھی حالیہ سعودی ایئر پورٹ پر حملہ۔
جس طرح حوثیوں نے (اپنے اور)امریکا کے سابق اتحادی یمنی صدر کو دھوکہ دے کر قتل کیا، وہ بھی حوثیوں کو نشانہ بنانے کی ایک وجہ بن سکتی ہے۔
غرض یہ کہ ایک سے ذیادہ کئی ایسی حقیقی وجوہات ہیں کہ اگر امریکا چاہے تو کسی ایک کو بھی بنیاد بنا کر حوثیوں کو نشانہ پر رکھ سکتا ہے۔ مگر میزائیلوں کی بارش تو کیا ہو، امریکا نے ان کے خلاف ایک گولی نہیں داغی(ہاں حوثیوں کا ڈراوا دے کر سو ارب ڈالر کا اسلحہ بیچ کر اپنا الو ضرور سیدھا کیا ہے۔امریکا اچھی طرح جانتا ہے کہ جنگ کا تجربہ نہ رکھنے والی سعودی فوج اور عیاش پرست سعودی حکمرانوں کے پاس پہنچنے والے اس جدید اسلحہ سے ایران کو کوئی خاص خطرہ نہیں،بلکہ اس کا غلط استعمال اور اس کے نتیجے میں ہونے والی شہری اموات سے خود حوثیوں کو ہی فائدہ ہو گا)۔چنانچہ سوال یہ ہے کہ یہ کون سی دشمنی ہے جس میں دشمن کونقصان پہنچانے کا پورا موقع ہونے کے باوجود اس کے خلاف کاروائی سے احتراز کیا جاتا ہے۔حالآنکہ اگر امریکا حوثیوں کو نشانہ بنائے تو اس سے ایران کو شدید نقصان پہنچے گا، یمن جنگ ختم ہو جائے گی،اور اس کا ایک اہم اتحادی سعودیہ کو بھی ریلیف ملے گا۔مگر حقیقت حال کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
اور اب بائیڈن حکومت حکومت آنے کے بعد امریکا نے اپنی برائے نام سپورٹ سے بھی ہاتھ کھینچ لیا ہے۔حوثیوں کو کچھ عرصہ دہشت گردی کی فہرست میں رکھنے کے بعداس فہرست سے نکال لیا ہے(یہ الگ بات ہے کہ فہرست میں ڈال کر بھی کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا تھا۔) افسوس کہ سعودی شاہوں کو سمجھ نہیں کہ امریکا ان کا اتنا ہی دوست ہے، جتنا ایران کا دشمن ہے۔(اگر سعودی حکومت بھی اسی طرح سنی گروپوں کی مدد شروع کر دے جس طرح ایران حوثیوں کی کرتا ہے، تو حوثیوں کے پاؤں بہت جلد اکھڑ سکتے ہیں، مگر امریکا نے القاعدہ وغیرہ کا بہانہ بنا کر اس بات کا پورا انتظام کر رکھا ہے کہ ایسا نہ ہو)۔
عراق
عراق میں جھوٹے بہانوں امریکی حملہ بھی امریکا کی ایران نوازی کا نا قابل تردید ثبوت ہے۔عراق پر حملے کا امریکا کو کیا فائدہ ہوا، وہ الگ بحث ہے، مگر اس حملہ کا سب سے ذیادہ فائدہ جس ملک کو ہوا وہ اتفاق سے ایران ہی ہے۔ پہلے پہل توایران مخالف صدام حسین کی حکومت کو ختم کر کے ایران کو براہ راست ریلیف دیا گیا،پھر اس کے بعد اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ ایران نواز تنظیموں اور اہل تشیع کو کھل کھیلنے کا موقع ملے۔پھر جب عراقی اہل سنت عوام نے فرقہ پرست ایرانیوں کے ظلم کے خلاف آواز بلند کی، تو اس آواز کو دبانے میں امریکہ ایران ایک دوسرے کے اتحادی اور یک جان دو قالب تھے۔ چنانچہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ عراق اس وقت ایران کا ایک صوبہ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اور یہ سب کچھ امریکی ناک تلے اور اس کی مکمل آشیر باد سے ہوا ہے۔
جس طرح ایران مخالف صدام کو ہٹا یا گیا، اور اس کے بعد ایرانی تنظیموں کوعراق میں کھل کھیلنے اور قبضہ جمانے کا موقع دیا گیا،وہ کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے، اور دونوں ممالک کے باہمی اتحاد و تعاون کی ایک کھلی مثال ہے۔
افغانستان؛۔
افغانستان میں ایران امریکا کا معاشقہ تو نو گیارہ سے پہلے ہی شمالی اتحاد کی صورت میں چل رہا تھا، اور دونوں ہی شمالی اتحاد کے فتنہ پرست ٹولے کو سپورٹ کر رہے تھے۔ مگر جب امریکا نے صلیبی جنگ کا نعرہ لگا کر افغانستان کے بے گناہ عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، تو اس کام میں ایران اور ایرانی قوتوں نے ہر آول دستے کا کام کیا۔بیس سال بعد بھی یہ صورت حال ہے کہ وہ علاقے جہاں اہل تشیع کی تعداد ذیادہ آباد ہے،مثلا ایرانی بارڈر سے ملحقہ صوبے، بامیان ہرات وغیرہ، وہاں امریکہ کوسب سے کم پریشانی ہے۔
ایران امریکا کے ساتھ جس قسم کی دشمنی کا دعوی کرتا ہے، اس کا اثر تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ ایران افغانستان میں امریکی فوجیوں کا شکار کرنے والی قوتوں کی پھر پور مدد کرتا، انہیں ہتھیار میزائل اور دوسری ٹیکنالوجی فراہم کرتا، تا کہ امریکہ کہ افغانستان سے فرار کو تیز تر کیا جائے۔مگر حقیقت حال کیا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔چنانچہ ایران کے میزائیل، ڈرون وغیرہ سینکڑوں میل دور یمن میں تو پہنچ جاتے ہیں جس کے ساتھ کوئی بارڈر نہیں ملتا اور نہ وہاں اس اسلحہ نے امریکہ کہ خلاف استعمال ہونا ہے، مگر افغانستان جہاں یہ ہتھیار امریکہ کے خلاف یقینی استعمال ہو سکتے ہیں، وہاں جاتے ہوئے انہیں ویزا لگتا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ اگر کوئی کہے کہ کیوں کہ ایران کی افغان مجاہدین کے ساتھ نہیں بنتی، جس کی وجہ سے اس نے افغانستان میں امریکہ مخالف قوتوں کی مدد نہیں کی، تو اگرچہ اگر اس بات کو کچھ دیر کے لئے مان بھی لیا جائے،تب بھی ایران کا افغانستان کی امریکی کٹھ پتلی حکومت کی حمایت کا جواز کسی بھی طرح نہیں بنتا۔ساری دنیا کو معلو ہے کہ کرزئی اور اشرف غنی انتظامیہ امریکی پٹھو ہیں، اور ان کی حکومت کا مطلب امریکا کی حکومت ہے، مگر اس کے باوجود ایران کا نام نہاد اٖفغان حکومت کے ساتھ شروع دن سے بیش بہا تعاون سمجھ سے بالاتر ہے۔تعریف کے مطابق، دشمن کا دوست بھی دشمن ہی ہوتا ہے، مگر یہاں تو دشمن کے غلام ہیں۔ اور بجائے اس کہ کہ ایران اپنی پراکسیوں کو امریکی فوجوں اور امریکی کٹھ پتلیوں کے خلاف کام کرنے کا حکم دے، الٹا ایرانی وزیر خارجہ نے امریکی کٹھ پتلی حکومت کے بچاؤ کے لئے ان کے استعمال کی پیشکش کر کے اپنی امریکہ دشمنی کی قلعی کھول دی ہے۔(آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی ہے، اگر امریکہ ایرانی پراکسیوں کو دنیا بھر میں کچھ نہیں کہتا، تو ساری دنیا میں موجود ایرانی پراکسیاں بھی امریکہ کے مفادات کا پورا پورا خیال رکھنے کے لئے ہر دم تیار ہیں)۔
شام
شام کا محاذبھی امریکا ایران نورا کشتی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔شام میں فساد کی جڑ بشار الاسد اور اس کا خاندان ہے جو لاکھوں لوگوں کے قتل کا ذمہ دار ہے۔ اگر امریکہ چاہتا توجس طرح اس نے طالبان حکومت، صدام حکومت، قذافی حکومت اور صومالیہ میں اسلامک کورٹس کی(اہل سنت حکومتوں) حکومتوں کو ختم کیا، وہ چند ایک ڈرون حملے کر کے بشار الاسد کے قصے کو ختم کر سکتا تھا، لیکن ایسا تو تب ہوتا جب واقعی امریکہ بشار حکومت کو ختم کرنے کا خواہش مند ہوتا۔ اگرچہ بظاہر امریکہ بشار حکومت کے خلاف ہے،اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے کچھ گروہوں کو مالی اور ہتھیاروں کی مدد فراہم کی ہے، مگر یمن میں سعودی امداد کی طرح یہاں بھی امداد کو اس حد تک ہی رکھا کہ اس کی ایران کے ساتھ دشمنی کا ڈرامہ بھی چلتا رہے)اور ساتھ ہی ساتھ اس نے اس بات کا بھی انتظام کیا کہ یہ قوتیں بشار سے ذیادہ آپس میں ہی لڑتی رہیں۔اس انتظام کاویسے تو سب سے بڑا مظہر داعش کا ظہور ہے(جس پر الگ اور تفصیل سے ایک تھریڈ موجود ہے)، مگر داعش کے علاوہ بھی کبھی کردوں کو ترکی سے لڑوایا جاتا ہے، کبھی ایس ڈی ایف اور ایچ ٹی ایس کی لڑائی کروائی جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔اور ان بشار مخالف قوتوں کی ناچاقی کے پیچھے آپ کو ہر جگہ امریکاکا ہاتھ نظر آئے گا۔
چنانچہ اس سب کا نتیجہ یہ ہے کہ امریکا نے بشار الاسد، اس کی فوجوں، اور ایرانی ملیشیاؤں پر اس قوت کا ایک فیصد بھی استعمال نہیں کیا، جو اس نے مختلف حیلے بہانوں سے بشار مخالف قوتوں پر استعمال کی ہے۔حیرت کی بات ہے کہ جس حکومت کو امریکا ختم کرنا چاہتا ہے، اس پر تو ایک بھی گولی داغنے کا روادار نہیں، البتہ اسی حکومت سے لڑنے والوں پر لاکھوں ٹن بارود برسا دیا۔
اس کے علاوہ یہ بات حیرت اور دلچسپی سے خالی نہیں کہ امریکا اسی بشار الاسد کی حکومت کا سب سے بڑا ڈونر ہے۔ (یہ امداد اقوام متحدہ کا وسیلہ استعمال کر کے دی جاتی ہے،اور بظاہر اس کا مقصد انسانی ہمدردی ہے، مگر حقیقت میں یہ کہاں استعمال ہوتی ہے، اس کا اندازہ لگانے کے لئے ہاتھی جتنا دماغ ہونے کی ضرورت نہیں)۔
فاطمیون زینبیون
یہ اس بات کا مشاہدہ تو ساری قوم نے کیا ہے کہ کس طرح امریکا نے کبھی خود، اور کبھی اپنی لونڈی اقوام متحدہ(ایف اے ٹی ایف وغیرہ) کے ذریعے کشمیری مجاہدین، جماعت دعوہ وغیرہ پر پابندی لگوا دی، فوج کو قبائلی علاقوں میں آپریشن پر مجبور کیا۔ لال مسجد جیسا سانحہ وقوع پذیر ہوا،مگر کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ امریکا نے پاکستانی حکومت اور فوج پر کبھی اس بات پر دباؤ ڈالا ہو کہ وہ زینبیون، مہدی آرمی، سپاہ محمد، اور دیگر ایرانی فنڈڈ شیعہ دہشت گرد گروپوں کے خلاف آپریشن کرے۔ یہ ایک اوپن سیکرٹ ہے کہ شیعہ ذاکرین دہشت گردوں کی بھرتی کر کر کے انہیں شام اور عراق بھیجتے ہیں، مگر آج تک ہی بات سننے میں نہیں آئی کہ اس حوالے سے امریکا (بشکل ایف اے ٹی ایف)نے دھمکی دی ہو کہ پاکستان دہشت گردوں کے ان سہولت کاروں کو گرفتار کرے، ورنہ بلیک لسٹ کر دیا جائے گا۔آخر کیوں؟۔ جتنی شدید دشمنی کا دعوی امریکا اور ایران کا ہے، اس کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امریکا پوری دنیا میں شیعہ مسلح تنظیموں کو کچلنے کے لئے ویسی ہی پھرتی دکھاتا جیسا کہ دوسروں (اہل سنت) کے لئے ہے، مگر حقیقت کیا ہے، وہ سب کو معلوم ہے۔ اور تو اور افغانستان جہاں میں جہاں پر امریکی پٹھو حکومت قائم ہے، اور جو امریکی بیساکھیوں کے بغیر ایک دن بھی قائم نہیں رہ سکتی، وہاں پر بھی یہی صورت حال ہے، اور فاطمیون، علی پور ملیشیا، حذب وحدت ملیشیا(کریم خلیلی،استاد محقق) اور دیگر تنظیموں کی بھرتی اور تربیت جاری ہے، اور امریکہ کی طرف سے کوئی ری ایکشن نہیں۔ فاطمیون کے یہ دہشت گرد شام عراق میں جا کر امریکا کے ہی اتحادیوں (کردوں وغیرہ) کے خلاف لڑتے ہیں، مگر روزانہ افغانستان میں بارود برسانے والے امریکا نے نہ کبھی خود ان ملیشیاؤں کو ٹیڑھی آنکھ سے دیکھا اور نہ اپنی کٹھ پتلی حکومت کو ان کے خلاف کاروائی کے لئے حکم دیا۔(ابھی حال ہی میں ایرانی وزیر خارجہ نے ٹی وی انٹرویو میں ہزاروں افغان شیعہ دہشت گردوں کی موجودگی کا اعتراف کیا ہے، بلکہ کٹھ پتلی افغان حکومت کو ان کے ذریعے سے مدد کی پیش کش بھی کی ہے)۔
تیل سمگلنگ۔
پاکستان میں ایرانی تیل کی اربوں سالانہ کی سمگلنگ ہوتی ہے(دوسرے لفظوں میں ایرانی حکومت کا ایک اہم ذریعہ معاش ہے)۔سمگلنگ تو ویسے ہی بری چیز ہے، اور اگر وہ ہو بھی ایران کے ساتھ، تو پھر ہونا تو یہ چاہے کہ امریکا اپنا پورا زور لگا کر اس سمگلنگ کو بند کروائے۔ لیکن بلوچستان کا بچہ بچہ تو جانتا ہے، مگر ایک ایک چپہ پر سیٹیلائٹ سے نظر رکھنے والے امریکا کی آنکھ سے یہ سب کچھ اوجھل ہے(تجاہل عارفانہ)۔
اسی طرح افغانستان میں بھی ایرانی تیل وافر دستیاب ہے۔ ابھی حال ہی میں افغان صوبہ ہرات میں آئل ٹینکڑوں میں لگنے والی آگ ، اور سینکڑوں ٹینکروں میں دھماکے افغانستان کی امریکی کٹھ پتلی حکومت کے ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات کی وسعت کا اندازہ لگانے کے لئے کافی ہیں۔
Continued ....
یمن ایرانی ملا کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کا خمیازہ بھگت رہا ہے، جہاں ایرانی تربیت، اور حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے ملک کے دارلحکومت سمیت ایک بڑے حصہ پر قبضہ کر رکھا ہے۔حوثی باغی آئے روز نہ صرف یمنی عوام پر دہشت گردی کرتے ہیں، بلکہ امریکا کے (بظاہر) اتحادیوں، یو اے ای اور سعودیہ پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ ایران نے میزائیلوں اور ڈرونوں کے ڈھیر لگا دیئے ہیں۔اور یہ سب امریکا کی ناک تلے ہو رہا ہے، اور امریکا نے سوائے گونگلؤں سے مٹی جھاڑنے کے، کسی قسم کی مداخلت نہیں کی۔
ایسا نہیں کہ امریکا نے یمن میں حملے نہیں کئے، بلکہ امریکا یمن میں القائدہ کے نام پر سینکڑوں حملے کر چکا ہے(جس کا براہ راست فائدہ حوثیوں کو ہوتا ہے، کیونکہ اگر حوثیوں کو پورے یمن پر قبضہ جمانا ہے، تو اسے القائدہ اور دوسرے گروہوں سے بھی لڑنا ہو گا)۔ مگر اسے آج تک کبھی کسی حوثی باغی کے ٹھکانے پر حملہ کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ حالآنکہ ان پر حملہ کرنے کی ایک سے ذیادہ وجوہات موجود ہیں؛
یہ لوگ ایران کے حمایت یافتہ ہیں، اور ان کی کوئی بھی کامیابی،مرگ بر امریکا کی مالا جپنے والے ایران کی فتح کے مترادف ہے، اور ان کو نقصان پہنچانا ایران کو براہ راست تکلیف پہنچانے کے برابر ہے۔،
یہ جدید اسلحہ سے لیس ہیں جو ایران کا فراہم کردہ ہے، جس کی وجہ سے یہ لوگ خطے میں موجود امریکی فوج کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں (یہ حملوں کی دھمکیاں بھی دیتے رہتے ہیں اور صلاحیت بھی ہے)۔
آئے روز امریکی اتحادی سعوی عرب پر حملے کرتے رہتے ہیں مثلا سعودی آرامکو پر حملہ، اور ابھی حالیہ سعودی ایئر پورٹ پر حملہ۔
جس طرح حوثیوں نے (اپنے اور)امریکا کے سابق اتحادی یمنی صدر کو دھوکہ دے کر قتل کیا، وہ بھی حوثیوں کو نشانہ بنانے کی ایک وجہ بن سکتی ہے۔
غرض یہ کہ ایک سے ذیادہ کئی ایسی حقیقی وجوہات ہیں کہ اگر امریکا چاہے تو کسی ایک کو بھی بنیاد بنا کر حوثیوں کو نشانہ پر رکھ سکتا ہے۔ مگر میزائیلوں کی بارش تو کیا ہو، امریکا نے ان کے خلاف ایک گولی نہیں داغی(ہاں حوثیوں کا ڈراوا دے کر سو ارب ڈالر کا اسلحہ بیچ کر اپنا الو ضرور سیدھا کیا ہے۔امریکا اچھی طرح جانتا ہے کہ جنگ کا تجربہ نہ رکھنے والی سعودی فوج اور عیاش پرست سعودی حکمرانوں کے پاس پہنچنے والے اس جدید اسلحہ سے ایران کو کوئی خاص خطرہ نہیں،بلکہ اس کا غلط استعمال اور اس کے نتیجے میں ہونے والی شہری اموات سے خود حوثیوں کو ہی فائدہ ہو گا)۔چنانچہ سوال یہ ہے کہ یہ کون سی دشمنی ہے جس میں دشمن کونقصان پہنچانے کا پورا موقع ہونے کے باوجود اس کے خلاف کاروائی سے احتراز کیا جاتا ہے۔حالآنکہ اگر امریکا حوثیوں کو نشانہ بنائے تو اس سے ایران کو شدید نقصان پہنچے گا، یمن جنگ ختم ہو جائے گی،اور اس کا ایک اہم اتحادی سعودیہ کو بھی ریلیف ملے گا۔مگر حقیقت حال کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
اور اب بائیڈن حکومت حکومت آنے کے بعد امریکا نے اپنی برائے نام سپورٹ سے بھی ہاتھ کھینچ لیا ہے۔حوثیوں کو کچھ عرصہ دہشت گردی کی فہرست میں رکھنے کے بعداس فہرست سے نکال لیا ہے(یہ الگ بات ہے کہ فہرست میں ڈال کر بھی کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا تھا۔) افسوس کہ سعودی شاہوں کو سمجھ نہیں کہ امریکا ان کا اتنا ہی دوست ہے، جتنا ایران کا دشمن ہے۔(اگر سعودی حکومت بھی اسی طرح سنی گروپوں کی مدد شروع کر دے جس طرح ایران حوثیوں کی کرتا ہے، تو حوثیوں کے پاؤں بہت جلد اکھڑ سکتے ہیں، مگر امریکا نے القاعدہ وغیرہ کا بہانہ بنا کر اس بات کا پورا انتظام کر رکھا ہے کہ ایسا نہ ہو)۔
عراق
عراق میں جھوٹے بہانوں امریکی حملہ بھی امریکا کی ایران نوازی کا نا قابل تردید ثبوت ہے۔عراق پر حملے کا امریکا کو کیا فائدہ ہوا، وہ الگ بحث ہے، مگر اس حملہ کا سب سے ذیادہ فائدہ جس ملک کو ہوا وہ اتفاق سے ایران ہی ہے۔ پہلے پہل توایران مخالف صدام حسین کی حکومت کو ختم کر کے ایران کو براہ راست ریلیف دیا گیا،پھر اس کے بعد اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ ایران نواز تنظیموں اور اہل تشیع کو کھل کھیلنے کا موقع ملے۔پھر جب عراقی اہل سنت عوام نے فرقہ پرست ایرانیوں کے ظلم کے خلاف آواز بلند کی، تو اس آواز کو دبانے میں امریکہ ایران ایک دوسرے کے اتحادی اور یک جان دو قالب تھے۔ چنانچہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ عراق اس وقت ایران کا ایک صوبہ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اور یہ سب کچھ امریکی ناک تلے اور اس کی مکمل آشیر باد سے ہوا ہے۔
جس طرح ایران مخالف صدام کو ہٹا یا گیا، اور اس کے بعد ایرانی تنظیموں کوعراق میں کھل کھیلنے اور قبضہ جمانے کا موقع دیا گیا،وہ کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے، اور دونوں ممالک کے باہمی اتحاد و تعاون کی ایک کھلی مثال ہے۔
افغانستان؛۔
افغانستان میں ایران امریکا کا معاشقہ تو نو گیارہ سے پہلے ہی شمالی اتحاد کی صورت میں چل رہا تھا، اور دونوں ہی شمالی اتحاد کے فتنہ پرست ٹولے کو سپورٹ کر رہے تھے۔ مگر جب امریکا نے صلیبی جنگ کا نعرہ لگا کر افغانستان کے بے گناہ عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، تو اس کام میں ایران اور ایرانی قوتوں نے ہر آول دستے کا کام کیا۔بیس سال بعد بھی یہ صورت حال ہے کہ وہ علاقے جہاں اہل تشیع کی تعداد ذیادہ آباد ہے،مثلا ایرانی بارڈر سے ملحقہ صوبے، بامیان ہرات وغیرہ، وہاں امریکہ کوسب سے کم پریشانی ہے۔
ایران امریکا کے ساتھ جس قسم کی دشمنی کا دعوی کرتا ہے، اس کا اثر تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ ایران افغانستان میں امریکی فوجیوں کا شکار کرنے والی قوتوں کی پھر پور مدد کرتا، انہیں ہتھیار میزائل اور دوسری ٹیکنالوجی فراہم کرتا، تا کہ امریکہ کہ افغانستان سے فرار کو تیز تر کیا جائے۔مگر حقیقت حال کیا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔چنانچہ ایران کے میزائیل، ڈرون وغیرہ سینکڑوں میل دور یمن میں تو پہنچ جاتے ہیں جس کے ساتھ کوئی بارڈر نہیں ملتا اور نہ وہاں اس اسلحہ نے امریکہ کہ خلاف استعمال ہونا ہے، مگر افغانستان جہاں یہ ہتھیار امریکہ کے خلاف یقینی استعمال ہو سکتے ہیں، وہاں جاتے ہوئے انہیں ویزا لگتا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ اگر کوئی کہے کہ کیوں کہ ایران کی افغان مجاہدین کے ساتھ نہیں بنتی، جس کی وجہ سے اس نے افغانستان میں امریکہ مخالف قوتوں کی مدد نہیں کی، تو اگرچہ اگر اس بات کو کچھ دیر کے لئے مان بھی لیا جائے،تب بھی ایران کا افغانستان کی امریکی کٹھ پتلی حکومت کی حمایت کا جواز کسی بھی طرح نہیں بنتا۔ساری دنیا کو معلو ہے کہ کرزئی اور اشرف غنی انتظامیہ امریکی پٹھو ہیں، اور ان کی حکومت کا مطلب امریکا کی حکومت ہے، مگر اس کے باوجود ایران کا نام نہاد اٖفغان حکومت کے ساتھ شروع دن سے بیش بہا تعاون سمجھ سے بالاتر ہے۔تعریف کے مطابق، دشمن کا دوست بھی دشمن ہی ہوتا ہے، مگر یہاں تو دشمن کے غلام ہیں۔ اور بجائے اس کہ کہ ایران اپنی پراکسیوں کو امریکی فوجوں اور امریکی کٹھ پتلیوں کے خلاف کام کرنے کا حکم دے، الٹا ایرانی وزیر خارجہ نے امریکی کٹھ پتلی حکومت کے بچاؤ کے لئے ان کے استعمال کی پیشکش کر کے اپنی امریکہ دشمنی کی قلعی کھول دی ہے۔(آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی ہے، اگر امریکہ ایرانی پراکسیوں کو دنیا بھر میں کچھ نہیں کہتا، تو ساری دنیا میں موجود ایرانی پراکسیاں بھی امریکہ کے مفادات کا پورا پورا خیال رکھنے کے لئے ہر دم تیار ہیں)۔
شام
شام کا محاذبھی امریکا ایران نورا کشتی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔شام میں فساد کی جڑ بشار الاسد اور اس کا خاندان ہے جو لاکھوں لوگوں کے قتل کا ذمہ دار ہے۔ اگر امریکہ چاہتا توجس طرح اس نے طالبان حکومت، صدام حکومت، قذافی حکومت اور صومالیہ میں اسلامک کورٹس کی(اہل سنت حکومتوں) حکومتوں کو ختم کیا، وہ چند ایک ڈرون حملے کر کے بشار الاسد کے قصے کو ختم کر سکتا تھا، لیکن ایسا تو تب ہوتا جب واقعی امریکہ بشار حکومت کو ختم کرنے کا خواہش مند ہوتا۔ اگرچہ بظاہر امریکہ بشار حکومت کے خلاف ہے،اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے کچھ گروہوں کو مالی اور ہتھیاروں کی مدد فراہم کی ہے، مگر یمن میں سعودی امداد کی طرح یہاں بھی امداد کو اس حد تک ہی رکھا کہ اس کی ایران کے ساتھ دشمنی کا ڈرامہ بھی چلتا رہے)اور ساتھ ہی ساتھ اس نے اس بات کا بھی انتظام کیا کہ یہ قوتیں بشار سے ذیادہ آپس میں ہی لڑتی رہیں۔اس انتظام کاویسے تو سب سے بڑا مظہر داعش کا ظہور ہے(جس پر الگ اور تفصیل سے ایک تھریڈ موجود ہے)، مگر داعش کے علاوہ بھی کبھی کردوں کو ترکی سے لڑوایا جاتا ہے، کبھی ایس ڈی ایف اور ایچ ٹی ایس کی لڑائی کروائی جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔اور ان بشار مخالف قوتوں کی ناچاقی کے پیچھے آپ کو ہر جگہ امریکاکا ہاتھ نظر آئے گا۔
چنانچہ اس سب کا نتیجہ یہ ہے کہ امریکا نے بشار الاسد، اس کی فوجوں، اور ایرانی ملیشیاؤں پر اس قوت کا ایک فیصد بھی استعمال نہیں کیا، جو اس نے مختلف حیلے بہانوں سے بشار مخالف قوتوں پر استعمال کی ہے۔حیرت کی بات ہے کہ جس حکومت کو امریکا ختم کرنا چاہتا ہے، اس پر تو ایک بھی گولی داغنے کا روادار نہیں، البتہ اسی حکومت سے لڑنے والوں پر لاکھوں ٹن بارود برسا دیا۔
اس کے علاوہ یہ بات حیرت اور دلچسپی سے خالی نہیں کہ امریکا اسی بشار الاسد کی حکومت کا سب سے بڑا ڈونر ہے۔ (یہ امداد اقوام متحدہ کا وسیلہ استعمال کر کے دی جاتی ہے،اور بظاہر اس کا مقصد انسانی ہمدردی ہے، مگر حقیقت میں یہ کہاں استعمال ہوتی ہے، اس کا اندازہ لگانے کے لئے ہاتھی جتنا دماغ ہونے کی ضرورت نہیں)۔
فاطمیون زینبیون
یہ اس بات کا مشاہدہ تو ساری قوم نے کیا ہے کہ کس طرح امریکا نے کبھی خود، اور کبھی اپنی لونڈی اقوام متحدہ(ایف اے ٹی ایف وغیرہ) کے ذریعے کشمیری مجاہدین، جماعت دعوہ وغیرہ پر پابندی لگوا دی، فوج کو قبائلی علاقوں میں آپریشن پر مجبور کیا۔ لال مسجد جیسا سانحہ وقوع پذیر ہوا،مگر کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ امریکا نے پاکستانی حکومت اور فوج پر کبھی اس بات پر دباؤ ڈالا ہو کہ وہ زینبیون، مہدی آرمی، سپاہ محمد، اور دیگر ایرانی فنڈڈ شیعہ دہشت گرد گروپوں کے خلاف آپریشن کرے۔ یہ ایک اوپن سیکرٹ ہے کہ شیعہ ذاکرین دہشت گردوں کی بھرتی کر کر کے انہیں شام اور عراق بھیجتے ہیں، مگر آج تک ہی بات سننے میں نہیں آئی کہ اس حوالے سے امریکا (بشکل ایف اے ٹی ایف)نے دھمکی دی ہو کہ پاکستان دہشت گردوں کے ان سہولت کاروں کو گرفتار کرے، ورنہ بلیک لسٹ کر دیا جائے گا۔آخر کیوں؟۔ جتنی شدید دشمنی کا دعوی امریکا اور ایران کا ہے، اس کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امریکا پوری دنیا میں شیعہ مسلح تنظیموں کو کچلنے کے لئے ویسی ہی پھرتی دکھاتا جیسا کہ دوسروں (اہل سنت) کے لئے ہے، مگر حقیقت کیا ہے، وہ سب کو معلوم ہے۔ اور تو اور افغانستان جہاں میں جہاں پر امریکی پٹھو حکومت قائم ہے، اور جو امریکی بیساکھیوں کے بغیر ایک دن بھی قائم نہیں رہ سکتی، وہاں پر بھی یہی صورت حال ہے، اور فاطمیون، علی پور ملیشیا، حذب وحدت ملیشیا(کریم خلیلی،استاد محقق) اور دیگر تنظیموں کی بھرتی اور تربیت جاری ہے، اور امریکہ کی طرف سے کوئی ری ایکشن نہیں۔ فاطمیون کے یہ دہشت گرد شام عراق میں جا کر امریکا کے ہی اتحادیوں (کردوں وغیرہ) کے خلاف لڑتے ہیں، مگر روزانہ افغانستان میں بارود برسانے والے امریکا نے نہ کبھی خود ان ملیشیاؤں کو ٹیڑھی آنکھ سے دیکھا اور نہ اپنی کٹھ پتلی حکومت کو ان کے خلاف کاروائی کے لئے حکم دیا۔(ابھی حال ہی میں ایرانی وزیر خارجہ نے ٹی وی انٹرویو میں ہزاروں افغان شیعہ دہشت گردوں کی موجودگی کا اعتراف کیا ہے، بلکہ کٹھ پتلی افغان حکومت کو ان کے ذریعے سے مدد کی پیش کش بھی کی ہے)۔
تیل سمگلنگ۔
پاکستان میں ایرانی تیل کی اربوں سالانہ کی سمگلنگ ہوتی ہے(دوسرے لفظوں میں ایرانی حکومت کا ایک اہم ذریعہ معاش ہے)۔سمگلنگ تو ویسے ہی بری چیز ہے، اور اگر وہ ہو بھی ایران کے ساتھ، تو پھر ہونا تو یہ چاہے کہ امریکا اپنا پورا زور لگا کر اس سمگلنگ کو بند کروائے۔ لیکن بلوچستان کا بچہ بچہ تو جانتا ہے، مگر ایک ایک چپہ پر سیٹیلائٹ سے نظر رکھنے والے امریکا کی آنکھ سے یہ سب کچھ اوجھل ہے(تجاہل عارفانہ)۔
اسی طرح افغانستان میں بھی ایرانی تیل وافر دستیاب ہے۔ ابھی حال ہی میں افغان صوبہ ہرات میں آئل ٹینکڑوں میں لگنے والی آگ ، اور سینکڑوں ٹینکروں میں دھماکے افغانستان کی امریکی کٹھ پتلی حکومت کے ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات کی وسعت کا اندازہ لگانے کے لئے کافی ہیں۔
Continued ....
Last edited: