This took my heart away

Khair Andesh

Chief Minister (5k+ posts)

یہ آپ نے نیا کٹا کھول دیا ، اس کا جواب بھی ضرور دوں گا لیکن پہلے آپ یہ بات قبول کریں کہ شام میں ایرانی جماعتوں نے شامی عوام کو نہیں بلکے دیش کو پھینٹا لگایا ہے ، پھر آگے چلتے ہیں
ہ پہلی بار نہیں کہ میں نے آپسے اس قسم کا ثبوت مانگا ہو۔ البتہ کٹا تو اب کھلنے لگا ہے۔ آپ کی پرزور فرمائش حسب وعدہ پر امریشیعی اتحاد کی کہانی کو ایک مضمون کی صورت میں یکجا کر دیا ہے تا کہ بوقت ضرورت بطور ریفرنس کام آئے (الحمد للہ علی ذالک)۔اس مضمون میں شاید ہی ایسی کوئی بات ہو،جو میں نے پہلے نہ کی ہو البتہ فرق اتنا پڑے گا کہ پہلے آپ سنگل بات پر لا جواب ہوتے تھے اور اب با جماعت لا جواب ہو گے۔
نوٹ کافی لمبا مضمون ہے، لہذا آپ وقت فارغ وقت میں پڑھنا۔ کہ امید تو کم ہی ہے ، مگر کیا معلوم حقیقت تک پہنچ ہی جائو۔
۔
ایران امریکا نورا کشتی بے نقاب۔
امریشیعی اتحاد کی کہانی۔
پارٹ ون

بنیادی اصول:قول فعل کا تضاد
اگر کوئی شخص آپ کا ہمدرد اور دوست ہونے کا دعوی کر رہا ہو، مگر آپ پر چاقو لے کر حملہ آور ہو جائے اور جان کے درپے ہو جائے، تو آپ کبھی اسے اپنا دوست نہیں مانیں گے، بلکہ دشمن قرار دیں گے۔
اسی طرح اگر ایک طالبعلم ہمیشہ یہ کہے کہ وہ بہت ہشیار اور لائق ہے، مگر عملا ہربار مسلسل امتحان میں فیل ہو جائے تو آپ اس طالب علم کو یقینا ایک نالائق اور ناکام مانیں گے۔
اوپر والی دو مثالوں سے واضح ہے کہاتی ہے ا
گر کبھی قول فعل میں تضاد ہو، تو پھر فعل کو ترجیح دی جاتی ہے، اور اس کے عمل کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا جاتاہے، رائے قائم کی جاتی ہے۔
اور یہی اس پوری تحریر کا بنیادی اصول ہے، کہ اگر چہ ایران امریکا بظاہر زبانی کلامی دشمنی کا دعوی کرتے ہیں، مگر ان کا عمل ان کی دوستی کی چغلی کھاتا ہے۔

دشمنی کی تعریف اور تقاضے:
جس سطح کی دشمنی کا یہ دونوں دعوی کرتے ہیں، اس کا اصولی تقاضا تو یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے مفاد کو جہاں تک ہو سکے، جہاں بھی دہو سکے،اور جب بھی ہو سکے، نقصان پہنچائیں،اور ہر اس کام سے بچیں جس سے اس کے دشمن کو دور کا بھی فائدہ ہو۔دشمن کا دشمن دوست ہو، اور دشمن کا دوست بھی دشمن ہو۔ مگر اگلی سطور میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ دونوں کس طرح ایک دوسرے کو ہر ممکن فائدہ پہنچاتے ہیں اور ایک دوسرے کے مفادات کے خلاف کام کرنے سے گریز کرتے ہیں۔لہذا ہم پوری دنیا میں (جہاں بھی ان کے مفاد ٹکرانے چاہئے کا، ایک ایک کر کے ) جائزہ لیں گے۔ اور ہر پڑھنے والا اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ دونوں کسی بھی طرح دشمنی کی تعریف پر پورا نہیں اترتے۔ ہمارا طریقہ کار یہ ہو گا کہ ہم یہ دیکھیں گے کہ دونوں جس شدید دشمنی کا دعوی کرتے ہیں، اس کا تقاضا کیا ہے، ہونا کیا چاہئے تھا، اور حقیقت حال میں کیا ہو رہا ہے۔

یمن؛
یمن ایرانی ملا کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کا خمیازہ بھگت رہا ہے، جہاں ایرانی تربیت، اور حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے ملک کے دارلحکومت سمیت ایک بڑے حصہ پر قبضہ کر رکھا ہے۔حوثی باغی آئے روز نہ صرف یمنی عوام پر دہشت گردی کرتے ہیں، بلکہ امریکا کے (بظاہر) اتحادیوں، یو اے ای اور سعودیہ پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ ایران نے میزائیلوں اور ڈرونوں کے ڈھیر لگا دیئے ہیں۔اور یہ سب امریکا کی ناک تلے ہو رہا ہے، اور امریکا نے سوائے گونگلؤں سے مٹی جھاڑنے کے، کسی قسم کی مداخلت نہیں کی۔

ایسا نہیں کہ امریکا نے یمن میں حملے نہیں کئے، بلکہ امریکا یمن میں القائدہ کے نام پر سینکڑوں حملے کر چکا ہے(جس کا براہ راست فائدہ حوثیوں کو ہوتا ہے، کیونکہ اگر حوثیوں کو پورے یمن پر قبضہ جمانا ہے، تو اسے القائدہ اور دوسرے گروہوں سے بھی لڑنا ہو گا)۔ مگر اسے آج تک کبھی کسی حوثی باغی کے ٹھکانے پر حملہ کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ حالآنکہ ان پر حملہ کرنے کی ایک سے ذیادہ وجوہات موجود ہیں؛
یہ لوگ ایران کے حمایت یافتہ ہیں، اور ان کی کوئی بھی کامیابی،مرگ بر امریکا کی مالا جپنے والے ایران کی فتح کے مترادف ہے، اور ان کو نقصان پہنچانا ایران کو براہ راست تکلیف پہنچانے کے برابر ہے۔،
یہ جدید اسلحہ سے لیس ہیں جو ایران کا فراہم کردہ ہے، جس کی وجہ سے یہ لوگ خطے میں موجود امریکی فوج کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں (یہ حملوں کی دھمکیاں بھی دیتے رہتے ہیں اور صلاحیت بھی ہے)۔
آئے روز امریکی اتحادی سعوی عرب پر حملے کرتے رہتے ہیں مثلا سعودی آرامکو پر حملہ، اور ابھی حالیہ سعودی ایئر پورٹ پر حملہ۔
جس طرح حوثیوں نے (اپنے اور)امریکا کے سابق اتحادی یمنی صدر کو دھوکہ دے کر قتل کیا، وہ بھی حوثیوں کو نشانہ بنانے کی ایک وجہ بن سکتی ہے۔


غرض یہ کہ ایک سے ذیادہ کئی ایسی حقیقی وجوہات ہیں کہ اگر امریکا چاہے تو کسی ایک کو بھی بنیاد بنا کر حوثیوں کو نشانہ پر رکھ سکتا ہے۔ مگر میزائیلوں کی بارش تو کیا ہو، امریکا نے ان کے خلاف ایک گولی نہیں داغی(ہاں حوثیوں کا ڈراوا دے کر سو ارب ڈالر کا اسلحہ بیچ کر اپنا الو ضرور سیدھا کیا ہے۔امریکا اچھی طرح جانتا ہے کہ جنگ کا تجربہ نہ رکھنے والی سعودی فوج اور عیاش پرست سعودی حکمرانوں کے پاس پہنچنے والے اس جدید اسلحہ سے ایران کو کوئی خاص خطرہ نہیں،بلکہ اس کا غلط استعمال اور اس کے نتیجے میں ہونے والی شہری اموات سے خود حوثیوں کو ہی فائدہ ہو گا)۔چنانچہ سوال یہ ہے کہ یہ کون سی دشمنی ہے جس میں دشمن کونقصان پہنچانے کا پورا موقع ہونے کے باوجود اس کے خلاف کاروائی سے احتراز کیا جاتا ہے۔حالآنکہ اگر امریکا حوثیوں کو نشانہ بنائے تو اس سے ایران کو شدید نقصان پہنچے گا، یمن جنگ ختم ہو جائے گی،اور اس کا ایک اہم اتحادی سعودیہ کو بھی ریلیف ملے گا۔مگر حقیقت حال کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
اور اب بائیڈن حکومت حکومت آنے کے بعد امریکا نے اپنی برائے نام سپورٹ سے بھی ہاتھ کھینچ لیا ہے۔حوثیوں کو کچھ عرصہ دہشت گردی کی فہرست میں رکھنے کے بعداس فہرست سے نکال لیا ہے(یہ الگ بات ہے کہ فہرست میں ڈال کر بھی کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا تھا۔) افسوس کہ سعودی شاہوں کو سمجھ نہیں کہ امریکا ان کا اتنا ہی دوست ہے، جتنا ایران کا دشمن ہے۔(اگر سعودی حکومت بھی اسی طرح سنی گروپوں کی مدد شروع کر دے جس طرح ایران حوثیوں کی کرتا ہے، تو حوثیوں کے پاؤں بہت جلد اکھڑ سکتے ہیں، مگر امریکا نے القاعدہ وغیرہ کا بہانہ بنا کر اس بات کا پورا انتظام کر رکھا ہے کہ ایسا نہ ہو)۔

عراق
عراق میں جھوٹے بہانوں امریکی حملہ بھی امریکا کی ایران نوازی کا نا قابل تردید ثبوت ہے۔عراق پر حملے کا امریکا کو کیا فائدہ ہوا، وہ الگ بحث ہے، مگر
اس حملہ کا سب سے ذیادہ فائدہ جس ملک کو ہوا وہ اتفاق سے ایران ہی ہے۔ پہلے پہل توایران مخالف صدام حسین کی حکومت کو ختم کر کے ایران کو براہ راست ریلیف دیا گیا،پھر اس کے بعد اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ ایران نواز تنظیموں اور اہل تشیع کو کھل کھیلنے کا موقع ملے۔پھر جب عراقی اہل سنت عوام نے فرقہ پرست ایرانیوں کے ظلم کے خلاف آواز بلند کی، تو اس آواز کو دبانے میں امریکہ ایران ایک دوسرے کے اتحادی اور یک جان دو قالب تھے۔ چنانچہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ عراق اس وقت ایران کا ایک صوبہ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ اور یہ سب کچھ امریکی ناک تلے اور اس کی مکمل آشیر باد سے ہوا ہے۔
جس طرح ایران مخالف صدام کو ہٹا یا گیا، اور اس کے بعد ایرانی تنظیموں کوعراق میں کھل کھیلنے اور قبضہ جمانے کا موقع دیا گیا،وہ کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے، اور دونوں ممالک کے باہمی اتحاد و تعاون کی ایک کھلی مثال ہے۔
افغانستان؛۔
افغانستان میں ایران امریکا کا معاشقہ تو نو گیارہ سے پہلے ہی شمالی اتحاد کی صورت میں چل رہا تھا، اور دونوں ہی شمالی اتحاد کے فتنہ پرست ٹولے کو سپورٹ کر رہے تھے۔ مگر جب امریکا نے صلیبی جنگ کا نعرہ لگا کر افغانستان کے بے گناہ عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، تو اس کام میں ایران اور ایرانی قوتوں نے ہر آول دستے کا کام کیا۔بیس سال بعد بھی یہ صورت حال ہے کہ وہ علاقے جہاں اہل تشیع کی تعداد ذیادہ آباد ہے،مثلا ایرانی بارڈر سے ملحقہ صوبے، بامیان ہرات وغیرہ، وہاں امریکہ کوسب سے کم پریشانی ہے۔

ایران امریکا کے ساتھ جس قسم کی دشمنی کا دعوی کرتا ہے، اس کا اثر تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ ایران افغانستان میں امریکی فوجیوں کا شکار کرنے والی قوتوں کی پھر پور مدد کرتا، انہیں ہتھیار میزائل اور دوسری ٹیکنالوجی فراہم کرتا، تا کہ امریکہ کہ افغانستان سے فرار کو تیز تر کیا جائے۔مگر حقیقت حال کیا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔چنانچہ ایران کے میزائیل، ڈرون وغیرہ سینکڑوں میل دور یمن میں تو پہنچ جاتے ہیں جس کے ساتھ کوئی بارڈر نہیں ملتا اور نہ وہاں اس اسلحہ نے امریکہ کہ خلاف استعمال ہونا ہے، مگر افغانستان جہاں یہ ہتھیار امریکہ کے خلاف یقینی استعمال ہو سکتے ہیں، وہاں جاتے ہوئے انہیں ویزا لگتا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ اگر کوئی کہے کہ کیوں کہ ایران کی افغان مجاہدین کے ساتھ نہیں بنتی، جس کی وجہ سے اس نے افغانستان میں امریکہ مخالف قوتوں کی مدد نہیں کی، تو اگرچہ اگر اس بات کو کچھ دیر کے لئے مان بھی لیا جائے،تب بھی ایران کا افغانستان کی امریکی کٹھ پتلی حکومت کی حمایت کا جواز کسی بھی طرح نہیں بنتا۔ساری دنیا کو معلو ہے کہ کرزئی اور اشرف غنی انتظامیہ امریکی پٹھو ہیں، اور ان کی حکومت کا مطلب امریکا کی حکومت ہے، مگر اس کے باوجود ایران کا نام نہاد اٖفغان حکومت کے ساتھ شروع دن سے بیش بہا تعاون سمجھ سے بالاتر ہے۔تعریف کے مطابق، دشمن کا دوست بھی دشمن ہی ہوتا ہے، مگر یہاں تو دشمن کے غلام ہیں۔ اور بجائے اس کہ کہ ایران اپنی پراکسیوں کو امریکی فوجوں اور امریکی کٹھ پتلیوں کے خلاف کام کرنے کا حکم دے، الٹا ایرانی وزیر خارجہ نے امریکی کٹھ پتلی حکومت کے بچاؤ کے لئے ان کے استعمال کی پیشکش کر کے اپنی امریکہ دشمنی کی قلعی کھول دی ہے۔(آگ دونوں طرف برابر لگی ہوئی ہے، اگر امریکہ ایرانی پراکسیوں کو دنیا بھر میں کچھ نہیں کہتا، تو ساری دنیا میں موجود ایرانی پراکسیاں بھی امریکہ کے مفادات کا پورا پورا خیال رکھنے کے لئے ہر دم تیار ہیں)۔
شام
شام کا محاذبھی امریکا ایران نورا کشتی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔شام میں فساد کی جڑ بشار الاسد اور اس کا خاندان ہے جو لاکھوں لوگوں کے قتل کا ذمہ دار ہے۔ اگر امریکہ چاہتا توجس طرح اس نے طالبان حکومت، صدام حکومت، قذافی حکومت اور صومالیہ میں اسلامک کورٹس کی(اہل سنت حکومتوں) حکومتوں کو ختم کیا، وہ چند ایک ڈرون حملے کر کے بشار الاسد کے قصے کو ختم کر سکتا تھا، لیکن ایسا تو تب ہوتا جب واقعی امریکہ بشار حکومت کو ختم کرنے کا خواہش مند ہوتا۔ اگرچہ بظاہر امریکہ بشار حکومت کے خلاف ہے،اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نے کچھ گروہوں کو مالی اور ہتھیاروں کی مدد فراہم کی ہے، مگر یمن میں سعودی امداد کی طرح یہاں بھی امداد کو اس حد تک ہی رکھا کہ اس کی ایران کے ساتھ دشمنی کا ڈرامہ بھی چلتا رہے)اور ساتھ ہی ساتھ اس نے اس بات کا بھی انتظام کیا کہ یہ قوتیں بشار سے ذیادہ آپس میں ہی لڑتی رہیں۔اس انتظام کاویسے تو سب سے بڑا مظہر داعش کا ظہور ہے(جس پر
الگ اور تفصیل سے ایک تھریڈ موجود ہے)، مگر داعش کے علاوہ بھی کبھی کردوں کو ترکی سے لڑوایا جاتا ہے، کبھی ایس ڈی ایف اور ایچ ٹی ایس کی لڑائی کروائی جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔اور ان بشار مخالف قوتوں کی ناچاقی کے پیچھے آپ کو ہر جگہ امریکاکا ہاتھ نظر آئے گا۔

چنانچہ اس سب کا نتیجہ یہ ہے کہ امریکا نے بشار الاسد، اس کی فوجوں، اور ایرانی ملیشیاؤں پر اس قوت کا ایک فیصد بھی استعمال نہیں کیا، جو اس نے مختلف حیلے بہانوں سے بشار مخالف قوتوں پر استعمال کی ہے۔حیرت کی بات ہے کہ جس حکومت کو امریکا ختم کرنا چاہتا ہے، اس پر تو ایک بھی گولی داغنے کا روادار نہیں، البتہ اسی حکومت سے لڑنے والوں پر لاکھوں ٹن بارود برسا دیا۔

اس کے علاوہ یہ بات حیرت اور دلچسپی سے خالی نہیں کہ امریکا اسی بشار الاسد کی حکومت کا سب سے بڑا ڈونر ہے۔ (یہ امداد اقوام متحدہ کا وسیلہ استعمال کر کے دی جاتی ہے،اور بظاہر اس کا مقصد انسانی ہمدردی ہے، مگر حقیقت میں یہ کہاں استعمال ہوتی ہے، اس کا اندازہ لگانے کے لئے ہاتھی جتنا دماغ ہونے کی ضرورت نہیں)۔


فاطمیون زینبیون
یہ اس بات کا مشاہدہ تو ساری قوم نے کیا ہے کہ کس طرح امریکا نے کبھی خود، اور کبھی اپنی لونڈی اقوام متحدہ(ایف اے ٹی ایف وغیرہ) کے ذریعے کشمیری مجاہدین، جماعت دعوہ وغیرہ پر پابندی لگوا دی، فوج کو قبائلی علاقوں میں آپریشن پر مجبور کیا۔ لال مسجد جیسا سانحہ وقوع پذیر ہوا،مگر کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ امریکا نے پاکستانی حکومت اور فوج پر کبھی اس بات پر دباؤ ڈالا ہو کہ وہ زینبیون، مہدی آرمی، سپاہ محمد، اور دیگر ایرانی فنڈڈ شیعہ دہشت گرد گروپوں کے خلاف آپریشن کرے۔ یہ ایک اوپن سیکرٹ ہے کہ شیعہ ذاکرین دہشت گردوں کی بھرتی کر کر کے
انہیں شام اور عراق بھیجتے ہیں، مگر آج تک ہی بات سننے میں نہیں آئی کہ اس حوالے سے امریکا (بشکل ایف اے ٹی ایف)نے دھمکی دی ہو کہ پاکستان دہشت گردوں کے ان سہولت کاروں کو گرفتار کرے، ورنہ بلیک لسٹ کر دیا جائے گا۔آخر کیوں؟۔ جتنی شدید دشمنی کا دعوی امریکا اور ایران کا ہے، اس کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امریکا پوری دنیا میں شیعہ مسلح تنظیموں کو کچلنے کے لئے ویسی ہی پھرتی دکھاتا جیسا کہ دوسروں (اہل سنت) کے لئے ہے، مگر حقیقت کیا ہے، وہ سب کو معلوم ہے۔ اور تو اور افغانستان جہاں میں جہاں پر امریکی پٹھو حکومت قائم ہے، اور جو امریکی بیساکھیوں کے بغیر ایک دن بھی قائم نہیں رہ سکتی، وہاں پر بھی یہی صورت حال ہے، اور فاطمیون، علی پور ملیشیا، حذب وحدت ملیشیا(کریم خلیلی،استاد محقق) اور دیگر تنظیموں کی بھرتی اور تربیت جاری ہے، اور امریکہ کی طرف سے کوئی ری ایکشن نہیں۔ فاطمیون کے یہ دہشت گرد شام عراق میں جا کر امریکا کے ہی اتحادیوں (کردوں وغیرہ) کے خلاف لڑتے ہیں، مگر روزانہ افغانستان میں بارود برسانے والے امریکا نے نہ کبھی خود ان ملیشیاؤں کو ٹیڑھی آنکھ سے دیکھا اور نہ اپنی کٹھ پتلی حکومت کو ان کے خلاف کاروائی کے لئے حکم دیا۔(ابھی حال ہی میں ایرانی وزیر خارجہ نے ٹی وی انٹرویو میں ہزاروں افغان شیعہ دہشت گردوں کی موجودگی کا اعتراف کیا ہے، بلکہ کٹھ پتلی افغان حکومت کو ان کے ذریعے سے مدد کی پیش کش بھی کی ہے)۔
تیل سمگلنگ۔
پاکستان میں ایرانی تیل کی
اربوں سالانہ کی سمگلنگ ہوتی ہے(دوسرے لفظوں میں ایرانی حکومت کا ایک اہم ذریعہ معاش ہے)۔سمگلنگ تو ویسے ہی بری چیز ہے، اور اگر وہ ہو بھی ایران کے ساتھ، تو پھر ہونا تو یہ چاہے کہ امریکا اپنا پورا زور لگا کر اس سمگلنگ کو بند کروائے۔ لیکن بلوچستان کا بچہ بچہ تو جانتا ہے، مگر ایک ایک چپہ پر سیٹیلائٹ سے نظر رکھنے والے امریکا کی آنکھ سے یہ سب کچھ اوجھل ہے(تجاہل عارفانہ)۔
اسی طرح افغانستان میں بھی ایرانی تیل وافر دستیاب ہے۔ ابھی حال ہی میں افغان صوبہ ہرات میں آئل ٹینکڑوں میں لگنے والی آگ ، اور سینکڑوں ٹینکروں میں دھماکے افغانستان کی امریکی کٹھ پتلی حکومت کے ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات کی وسعت کا اندازہ لگانے کے لئے کافی ہیں۔
Continued ....
 
Last edited:

Khair Andesh

Chief Minister (5k+ posts)

یہ آپ نے نیا کٹا کھول دیا ، اس کا جواب بھی ضرور دوں گا لیکن پہلے آپ یہ بات قبول کریں کہ شام میں ایرانی جماعتوں نے شامی عوام کو نہیں بلکے دیش کو پھینٹا لگایا ہے ، پھر آگے چلتے ہیں

ایران امریکا نورا کشتی بے نقاب۔
امریشیعی اتحاد کی کہانی۔
پارٹ ٹو
ایٹمی صلاحیت؛۔
ایرانی ایٹمی صلاحیت خود اپنی ذات میں ایک الگ موضوع ہے، اور صرف یہی ایک ایشو امریشیعی اتحاد یا امریکا ایران نورا کشتی کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے۔
ایٹمی ہتھیاروں سمیت ہر قسم کے ہتھیاروں کے متعلق میرا موقف ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ دنیا کے ہر ملک بشمول ایران کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس قسم کا اسلحہ چاہے حاصل کر سکتا ہے، اور دنیا کے کسی دوسرے ملک کو یہ اخلاقی یا قانونی حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کو ایٹمی صلاحیت سے روکیں، خصوصا جب کہ وہ خود ایٹمی اسلحہ کے انبار لگائے بیٹھے ہوں۔مگر کیوں کہ ہم یہاں پر دنیا کے حالیہ چوہدری اور بدمعاش امریکا کی بات کر رہے ہیں، لہذا امریکا کے ہی طرز عمل کو ایران کے حوالے سے پرکھیں گے، جس نے جانتے بوجھتے عراق کوانہی ایٹمی ہتھیاروں کے جھوٹے بہانے اور الزام لگا کر تباہ کر دیا۔
اگر دیکھا جائے تو اس وقت ایران کے نیوکلیر پاور بننے میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکا کی سپر پاوری ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ امریکا نے ایران کو بزور طاقت ایٹمی طاقت بننے سے روکا ہوا ہے، بلکہ امریکا کی بلا سے ایران کل کی بجائے آج ہی ایٹمی صلاحیت حاصل کر لے، البتہ اس میں مسئلہ یہ ہے کہ امریکا ایک سپر پاور ہے، اور اگر ایران ایٹمی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے، تو سب سے پہلا سوال یہی آئے گا کہ سپر پاور امریکا کے ہوتے ہوئے آخر یہ کیسے ہو گیا، اور امریکا نے روکنے کے لئے کچھ کیوں نہیں کیا۔
اب اگر امریکا ایران کے خلاف عراق لیبیا، افغانستان جیسی کوئی عسکری کاروائی کرتا تو ایرانی صلاحیت تو دھبڑدھوس ہو جانی ہے،مگر اس کا نقصان یہ ہے کہ پھر امریکا اپنے عرب اتحادیوں کو کس کا ڈراوا دے کر قابو کرے گا، اپنا اربوں ڈالر کا "بے کار " اسلحہ بیچے گا۔جتنے بھی عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنائے ہیں، ان کے اس فیصلے کے پیچھے
سب سے بڑا محرک امریکا کا یہی" بوگی مین "ہے جس کا ڈراوا دے کر امریکا اپنے ناجائز بچے اسرائیل کو تسلیم کروا رہا ہے۔ اور بے وقوف عرب یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ جس ایرانی اثر و نفوذ سے انہیں ڈرایا جا رہا ہے اس میں ایرانی کوشش کم اور امریکی ڈھیل اور مکاریوں کا کمال سب سے ذیادہ ہے۔

چنانچہ اپنی سپر پاوری پر حرف آئے بغیر ایرانی کو ایٹمی طاقت بنانے کا حل یہ نکالا کہ پھر سے پابندی پابندی کا ڈرامہ شروع کیا جائے۔چنانچہ پلان کے مطابق امریکا نے ایران پر سخت معاشی پابندیاں لگائیں، مگر ساتھ ہی ان پابندیوں کو فیل کرنے کا پیشگی انتظام بھی کر دیا(ان نام نہاد پابندیوں پر ایک الگ سیکشن موجود ہے، جو آگے آرہا ہے)۔

چنانچہ اس سب ڈرامے کا نتیجہ یہ ہے کہ اب ایران جب بھی ایٹمی صلاحیت حاصل کرے، امریکا کی سپر پاوری پر کوئی حرف نہیں آئے گا، اور وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے تو سخت پابندیاں لگا کر ایران کا راستہ روکنے کی مقدور بھر کوشش کی تھی، مگر ایرانی باز نہیں آئے۔یعنی سانپ بھی نہیں مرا، اور لاٹھی بھی ٹوٹ گئی۔

کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ اشکال آ سکتا ہے کہ ایران تو امریکا کادشمن ہے، وہ بھلا کیوں ایران کو ایٹمی طاقت بننے دے گا۔ تو اس میں پہلی بات تو یہ کہ ایران ہر گز امریکا کا دشمن نہیں ہے، بلکہ دونوں ایک دوسرے کے اتحادی ہیں، اور یہ پورا مضمون جو آپ پڑھ رہے ہیں،اسی حقیقت کو آشکارا کرنے کے لئے لکھا گیا ہے۔چنانچہ امریکا اچھی طرح جانتا ہے کہ اگر خدانخواستہ امریکا و ایران کا مضموم منصوبہ پورا ہوتا ہے، اور ان ہتھیاروں کو چلانے کی نوبت آئی، تو اس کا نشانہ یقینا کوئی نا کوئی اسلامی ملک ہی ہو گا مثلا پاکستان، ترکی، سعودیہ، یو اے ای وغیرہ۔

مجہول ایٹمی ڈیل؛ آپ امریکا کی تین سو سالہ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو پوری تاریخ میں ایسا نابغہ روزگار معاہدہ نہیں ملے گا، جس میں ایک بھی امریکی مفاد کا تحفظ نہ کیا گیا ہو۔چنانچہ یہ اعزاز ایرانی ملاؤں کو حاصل ہوا کہ وہ سو سال آگے کی پلاننگ کرنے والے شاطر دماغ امریکیوں سے ایک ایسا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ جو جب تک قائم رہے، اس کا فائدہ براہ راست ایران کوہو گا اور جب بھی معاہدہ ٹوٹے گا تو ایران کا کوئی نقصان نہیں۔بلکہ ہر صورت امریکی گھاٹے کا سودا کریں گے۔

۔اس معاہدے سے ایران کو جو فوائد حاصل ہوئے ان میں چند ایک مندرجہ ذیل ہیں۔
نام نہاد
پابندیوں کو ختم کیا،
امریکا نے اس ڈیل کا سہارا لے کراربوں ڈالر کے
ایرانی اثاثوں کو ریلیز کیا،
اور اسے جہازوں میں
بھر بھر کر ڈالر اور دوسری غیر ملکی کرنسی باہم پہنچائی،
اور ایران کو دیگر ٹیکنالوجی تک رسائی دی گئی، اس نے جہازوں وغیرہ کے سودے کر لئے وغیرہ وغیرہ)۔

اگر اس ایرانی ڈیل کے سارے معاملے کو ایک جملے میں سمجھانا ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ ایران کی توسیع پسندانہ اقدامات کی وجہ سے اس کی اکھڑی ہوئی سانسوں کو سہارا دینے کے لئے امریکا نے اس ایٹمی ڈیل(اسے ڈھیل کہنا ذیادہ مناسب ہو گا) کی مدد سے اربوں ڈالرکی آکسیجن فراہم کی، اور جب مقصد نکل گیا، تو پھر خود ہی معاہدہ توڑ دیا۔
جس وقت یہ معاہدہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا اسی وقت ہم نے کہا تھا کہ اس کا سراسر فائدہ صرف اور صرف ایران کو ہے کہ اس مین کوئی "پینالٹی کلاز" نہیں ہے۔ یعنی امریکا نے کہیں یہ ذکر نہیں کیا کہ اگر یہ معاہدہ ناکام ہوا تو وہ اپنے بد ترین دشمن کو ایٹمی طاقت بننے سے روکنے کے لئے کیا عملی اقدامات اٹھائے گا۔ لے دے کر صرف یہی بات کی گئی تھی کہ اگر ایران نے کوئی خلاف ورزی کی تو وہ اس پر وہی نام نہاد پابندیاں لگا دے گا جو نہ پہلے پر اثر تھیں، اور نہ آئندہ ایران کو اس ضمن میں پیش قدمی سے روک سکتی ہیں۔(ان پابندیوں پر آگے چل کر بات ہو گی)۔
چنانچہ جب یہ معاہدہ ہوا، تو ہمار ا گمان یہی تھا کہ ایران نے اس معاہدے سے جو فائدہ اٹھانا ہے، وہ اٹھا لے گا اور چند سال بعد کسی بھی چیز کا بہانہ بنا کراس معاہدے کو توڑ پھر سے اپنا ایٹمی پروگرام شروع کر لے گا اور امریکا حسب معمول پابندی پابندی کھیلتا رہے گا۔ مگر امریکا نے حق دوستی ادا کرتے ہوئے ایران کو معاہدہ توڑنے کے طعنے سے بھی بچا لیا، اور معاہدہ شکنی کی ساری ذلت اپنے سر پر تھوپ لی۔
معاہدہ کرنا اور پھر اسے توڑنا سب پہلے سے ہی طے تھا، چنانچہ اب جو ہمیں یہ خبریں دی جا رہی ہیں کہ ایران ایٹمی دھماکوں سے صرف چند ہفتے دور ہے، وہ اسی ڈھیل کا لازمی نتیجہ ہے، اوراس کا مقصد ایران کے خلاف کوئی عملی کاروائی کرنے کے لئے گراؤنڈ تیار کرنا نہیں، بلکہ دنیا کو ایرانی ایٹمی دھماکوں کی خبر سننے کے لئے تیار کرنا ہے ۔ابھی حال ہی میں امریکہ نے ایک ایرانی جرنیل کو عراق میں نشانہ بنایا، یا پر اسرار انداز میں ایٹمی سائنسدان کا قتل کیا گیا، وہ سب بڑے مقصد کے لئے دی گئی چھوٹی چھوٹی قربانیاں ہیں۔یہ نکتہ شاید کچھ لوگوں کو ابھی پوری طرح سمجھ نہ آ سکے، البتہ جس دن ایران ایٹمی دھماکے کرے گا اور اگلے دن یہ بیان دے گا کہ اس نے قاسم سلیمانی اور فخر زادی کے قتل کا بدلہ لے لیا ہے، اس دن ان امریکی کاروائیوں کی سمجھ آئے گی۔دوسرے لفظوں میں یہ قتل ایران کو ایٹمی طاقت بننے کا جواز فراہم کرنے کے لئے کئے گئے ہیں۔ اور میرا خیال ہے کہ اگر یہ مقصد حاصل ہو جائے تو تو یہ کسی قوم کے لئے کوئی بڑی قربانی نہیں۔(یہ ایسے ہی ہے کہ جس طرح امریکا نے پاک فوج کی ٹاپ کمانڈ کو رستے سے ہٹانے کے لئے اپنے سفیر کی قربانی دی)۔یاد رہے یہ صرف اس پلاننگ کا ذکر کیا ہے جو امریکااور ایران نے کی ہوئی ہے، مگر حقیقت میں جو ہونا ہے، وہ خدا کی مرضی سے ہو گا، اور ہمیں خدا کی رحمت سے امید ہے کہ امت مسلمہ کے یہ دشمن اپنی تمام تر مکاریوں کے باوجود ناکام و نامرا د رہیں گے، اور ان کی ساری سازشیں اور چالاکیاں ان پر ہی الٹ دی جائیں گی(ان شاء اللہ)۔

مظلوم دہشت گرد مسلمان؛
ویسے تو امریکا کی اسلام اور مسلمان دشمنی کوئی نئی چیز نہیں، مگر پچھلے بیس سالوں میں امریکا نے(دہشت گردی، جمہوریت، تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر) آدھ درجن کے قریب(اہل سنت) مملکتوں کو تباہ برباد کر دیا ہے، اور بہت سوں کی باری آنے والی ہے۔دوسرے لفظوں میں مسلمان مظلوم ترین طبقہ ہیں۔ مگر اس کے باوجود ساری دنیا میں یہودی اور عیسائی میڈیانے، پروپیگنڈا کے زور پر مسلمانوں کو دہشت گرد مشہور کیا ہوا ہے، اور دن رات اس حوالے سے زہر اگلا جاتا ہے، اور کوئی موقع نہیں جانے دیا جاتا جس میں مظلوموں کو ظالم بنا کر پیش نہ کیا جائے
۔ چنانچہ اس ساری مشق کا نتیجہ یہ ہے کہ اب مسلمان اور دہشت گرد ایک دوسرے کے مترادف ہیں۔لیکن ہمیں اس میں کوئی حیرت نہیں، کہ ہونا بھی یہی چاہئے کیوں کہ دشمنی کا یہی تقاضا ہے۔
مگرجیسے ہی ایران اور اہل تشیع کی باری آتی ہے، دشمنی کا یہ مسلمہ اصول ایک دم الٹ جاتا ہے۔چنانچہ صورت حال یہ ہے پاکستان میں اگر کسی کی مظلومیت کا تذکرہ کرنا ہو، تو مرزائیوں،اور ہزارہ برادری کا تصور فورا ذہن میں آتا ہے۔ اور یہ سب اسی یہودی میڈیا کا کمال ہے۔
جہاں تک مرزائیوں کی مظلومیت کا سوال ہے، تو اس کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ایسے وقت میں جب پاکستان کے باسیوں نے صرف بیس سال کے عرصے میں اسی ہزار لاشے اٹھائے ہیں، قیام پاکستان سے لے کر اب تک مختلف واقعات میں ہلاک ہونے والے احمدیوں کی تعداد دو تین سو سے ذیادہ نہیں ہے(اور انمیں بھی بہت سے قتلوں میں انڈین اور دوسری ایجنسیاں ملوث ہیں، اگرچہ کسی ایک کا نا حق قتل بھی ظلم ہے، مگر یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ کس طرح رائی کا پہاڑ بنا دیا جاتا ہے)۔(قادیانیت کی وجہ سے چلنے والی صرف انیس سو ترپن کی ایک تحریک میں دس ہزار نفوس نے اپنی جان کی قربانی دی تھی)۔لیکن یہودی میڈیا کی قادیانیت نوازی کی سمجھ میں آتی ہے کہ قادیانیت انگریز کا ایک خود کاشتہ پودا ہے، جس کی آبیاری بھی ان کی ہی ذمہ داری ہے۔

لیکن عالمی میڈیا کا ہزاہ کا بالخصوص اور اہل تشیع کے لئے بلعموم مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنا کسی بھی طرح لوجکل نہیں۔اول تو یہ کسی بھی طرح اتنے مظلوم نہیں، جس طرح انہیں بنا کر پیش کیا جاتا ہے(اگر یہاں ہزارہ کے" کارناموں" کا ذکر کیا تو نہ صرف تحریر کا حجم مزید بڑھ جائے گا، بلکہ اس کارخ فرقہ واریت کی طرف مڑ جائے گا)۔،لیکن اگر بالفرض محال یہ اتنے ہی مظلوم ہیں جیسا کہ بی بی سی، اور یہودیوں کے قبضہ میں موجود عالمی میڈیا پیش کرتا ہے،، تب بھی ہونا تو یہ چاہے کہ جس طرح مظلوم ہونے کے باوجود دنیا بھر کے مسلمانوں کے دہشت گرد اور ظالم ہونے کا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، اسی طرح ہزارہ پر ہونے والے اکا دکا واقعات کو دبایا جاتا،ان کے افغانستان، عراق، شام میں کی جانے والی کرتوتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا کہ دشمنی کا یہی تقاضا ہے، مگر حالت یہ ہے کہ اگر کسی ہزارہ کی نکسیر بھی پھوٹ جائے تو عالمی میڈیا مظلومی کے نوحے لکھنا شروع کر دیتا ہے۔(اسی طرح بی بی سی اور دوسرے یہودی میڈیا کے اداروں کا مسلمانوں اور اسلام سے بغض کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، اور ان کے خلاف زہر اگلنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیا جاتا۔، مگر کبھی بھولے سے بھی محرم یا سارا سال جاری رہنے والی شیعہ مجالس کے خلاف کوئی بات نہیں کی جاتی۔ کسی بھی اسلامی ملک میں یہ مجالس ایرانی نفوذ کے پھیلائو کا ذریعہ ہیں، مگر ایران کی سخت دشمن میڈیا تنظیمیں ان کے خلاف بات کرنا تو درکنا، انہیں پروموٹ کر رہی ہوتی ہیں )۔

پابندیوں کا ڈرامہ، قاسم سلیمانی اور ایٹمی سائنسدان کا قتل
تحریر کے اختتام پر یہ ضروری ہے کہ امریکا کی طرف سے ایران پر لگائی جانے والی وہ پابندیاں جنہیں دونوں کی دشمنی کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، ان پربات کی جائے، تا کہ ان کی حقیقت بھی سمجھ میں آ سکے۔(قاسم سلیمانی اور ایٹمی سائنسدان کے قتل کا ذکر اور ان کے ممکنہ مقصد کا ذکر اوپر ایٹمی طاقت والے پیرے میں آ چکا ہے)

جس طرح پولیس جعلی پولیس مقابلے کے بعد اپنے ہی ساتھی کو زخمی کر دیتی ہے تا کہ مقابلے کو حقیقت کا رنگ دیا جا سکے، اسی طرح امریکا بھی ایران پر چند ایک پابندیاں لگا کر دنیا کو ایران کے ساتھ اپنی دشمنی کا یقین دلانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔سوچا جا سکتا ہے کہ دونوں کی دشمنی کا عملی مظاہرہ تو ہے کوئی نہیں (جیسا کہ پچھلے پیروں میں دیکھا گیا)، اگر یہ پابندیوں والا ڈرامہ بھی نہیں ہو گا تو پھر دونوں کی دشمنی کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوٹ جائے گا(اگرچہ کسر اب بھی کوئی نہیں رہ گئی)۔اگر امریکا عراق افغانستان، یمن، صومالیہ، لیبیا میں بھی صرف پابندی پابندی کھیلتا رہتا تو شاید ہم یہ کہہ سکتے کہ صرف پابندیوں تک محدود رہنا تو امریکا کی عادت ہے، مگر متذکرہ بالا ممالک میں تو امریکہ رات دن آتش آہن کی بارش کرتا ہے خواہ اس کے لئے جھوٹے بہانے ہی کیوں نہ تراشنے پڑیں،
مگر جیسے ہی ایران(جس کو وہ برائی کا محور کہتے نہیں تھکتا)کی باری آتی ہے تو سپر پاور امریکہ کے پاس اول وآخر حربہ پابندیوں کا ہی بچتا ہے، اور اس سے آگے اس کے پر جلتے ہیں (اس سے فرق نہیں پڑتا کہ دور اوبامہ اور بائیڈن کا ہے یا ٹرمپ اور بش کا)۔

اور یہ پابندیاں بھی نا مکمل اور مضحکہ خیز انداز میں لگائی جاتی ہیں۔دشمنی کا تقاضا تو یہ ہے ہے کہ پابندیاں مکمل اور فوری نافذ العمل ہوں، اور اتنی سخت ہوں کہ اپنا مقصد حاصل کر لیں، مگر ٹرمپ جو کہ حالیہ تاریخ میں اینٹی ایران صدر سمجھا جاتا ہے، اس نے بھی جب ایٹمی معاہدہ کینسل کیااور پابندیاں لگائیں، تو اس میں بھی ایران کو سنبھلنے کا اچھا خاصہ وقت دیا گیا اور جو پابندیاں لگائیں، اس میں بھی اہم حصوں کو چھوڑ دیا گیا۔ مثلا
چاہ بہار بندگاہ کو استثنی دیا گیا(آخر یہ کیسی دشمنی ہے جس میں دشمنی نبھاتے ہوئے دشمن کے آرام کا ہر طرح سے خیال رکھا جاتا ہے)۔

یورپ انڈیا اور دوسرے ممالک جو افغانستان عراق صومالیہ یمن لیبیا وغیرہ سمیت ہر ظلم میں امریکہ کے ساتھ ہوتے ہیں، ایران کا نام آتے ہی اچانک امریکا کے باغی ہو جاتے ہیں، اور پابندیوں پر عمل کرنے سے انکار کر دیتے ہیں اور ایران کا ساتھ دیتے ہیں۔کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ ممالک آزاد ہیں، اور اپنی آزادانہ پالیسیاں رکھتے ہیں،تو اسی طرح (میرے ساتھ یا میرے دشمنوں کے ساتھ کا نعرہ لگانے والا)مریکہ بھی تو آزاد ہے، وہ ان ممالک کی اس بغاوت کو ٹھنڈے پیٹوں کیوں کر برداشت کر لیتا ہے، اور اپنے بد ترین دشمن کا ساتھ دینے کی وجہ سے ان ممالک سے تعلقات میں کیا دڑاڑیں آتی ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ان ممالک کی ایرانی حمایت کے پیچھے بھی دراصل امریکہ کی رضا مندی شامل ہے۔ یعنی ایک طر ف امریکا پابندیاں لگاتا ہے، اور دوسری طرف ان کو بے اثر کرنے کا بھی انتظام کر دیا جاتا ہے۔

اور پھر جب تمام تر احتیاط اور انتظام کے باوجود ان لولی لنگڑی پابندیوں کا بھی کچھ اثر ظاہر ہوتا ہے، توبوقت ضرورت ان کوبھی مختلف بہانوں سے ختم کر دیا جاتا ہے۔ چنانچہ اوبامہ دور میں مجہول ایٹمی ڈیل کے بعداکثر پابندیوں کو کچھ عرصے کے لئے ختم کرنا اس کی ایک حالیہ مثال ہے۔(امریکہ میں انتظامیہ تبدیل ہونے سے خارجہ پالیسی تبدیل نہیں ہوتی، لہذا اوبامہ کا ڈیل کرنا، ٹرمپ کا ڈیل ختم کرنا، اور اب بائیڈن کا دوبارہ ڈیل ڈیل کا شور ڈالنا سب پہلے سے طے شدہ ہے۔)

اوپر جتنے بھی دعوی کئے گئے ہیں، مثلا امریکا کا شامی حکومت کا سب سے بڑا ڈونر ہونا، ایرانی ملا کا افغان حکومت کے ساتھ بذریعہ فاطمیون تعاون،یمن میں ڈرون حملے،قادیانی ہلاکتوں کے اعدادو شمار وغیرہ، وہ سب دعوی عام دستیاب ذرائع سے ثابت شدہ ہیں۔مگر اس کے باوجود اگر آپ کو کوئی خلاف واقع بات نظر آئے تو ضرور مطلع فرمائیں۔ ان شاء اللہ تصیح کر دی جائے گی۔
ذیادہ تر باتیں وہی ہیں جو کہ پہلے بھی مختلف تھریڈز میں کی جاتی رہی ہیں۔ یہاں صرف انہیں یکجا کیا گیا ہے۔چند ایک ایسے تھریڈز ذیل میں ہیں، جن میں دونوں دشمنوں کی دوستی کے مزید نکات مل سکتے ہیں۔

دوسری برمودہ ٹرائی اینگل
ایران امریکا کا فلاپ پابندی ڈرامہ
مجہول ایٹمی ایرانی ڈیل
پیشین گوئیاں
حاصل کلام یہ کہ اوپر جتنے بھی پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے، ان میں سے ہر ایک اتنا واضح ہے کہ کسی ایک کو دیکھ اور سمجھ کر ایران اور امریکا کی دشمنی کی حقیقت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر ان تمام حقائق کو یکجا کر کے پڑھا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ قاری پھر بھی امریکا ایران دشمنی کے دھوکے میں آئے، اور صرف ایرانی ملا کے زبانی اعتراف کی کسر رہ گئی ہے۔ امریکا کی طرف سے تو اعتراف شایع ہو چکا ہے۔

خدا تعالی سے دعا ہے وہ ہمیں حق بات کہنے سننے اور ماننے کی توفیق عطا فرمائے، اور مسلمانوں کو اپنے جلی و خفی دشمنوں کی سازشوں کو سمجھنے اور ان کا توڑ کرنے کی توفیق اور طاقت عطا فرمائے۔

 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)

دشمنی کی تعریف اور تقاضے:
جس سطح کی دشمنی کا یہ دونوں دعوی کرتے ہیں، اس کا اصولی تقاضا تو یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے مفاد کو جہاں تک ہو سکے، جہاں بھی دہو سکے،اور جب بھی ہو سکے، نقصان پہنچائیں،اور ہر اس کام سے بچیں جس سے اس کے دشمن کو دور کا بھی فائدہ ہو۔


آج مجھے اندازہ ہو گیا ہے کہ آپ کے اس قدر محکم یقین (ڈھٹائی ) کی وجہ کیا ہے ، پتہ چلا کہ آپ کا تو سٹینڈرڈ ہی غلط ہے . اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ کو ہمارا دشمنی کا سٹینڈرڈ بتا دوں تاکہ آپ کی الجھن دور ہو سکے
. . . .
اب سنیں
اگر کسی سے دشمنی ہو تو جوابا اسی قدر دشمنی ہونی چاہیے جس قدر اس کا قصور ہو ، دشمنی کرتے کرتے انصاف کا دامن چھوڑ دینے والوں کو الله دوست نہیں رکھتا .
امریکا کی بات کریں تو امریکا میں کروڑوں معصوم عوام موجود ہیں ، پھر اشرافیہ ہے اور اسٹبلشمنٹ ہے
یہ بات صاف ظاہر ہے کہ امریکی اسٹبلشمنٹ جنگ و جدل قائم رکھنا چاہتی ہے تو حق یہی ہے کہ امریکی اسٹبلشمنٹ کے مکروہ عزائم کو روکا جائے
لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ امریکی اسٹبلشمنٹ کو روکتے روکتے عام عوام کا قتل عام کر دیں (جیسا کہ آپ کے بھائی دہشت گردی کر کے کرتے ہیں ) یا ایسے کام کیے جایئں جن سے عام امریکی عوام کو تنگی ہو جیسے رزق کو روکنے کی کوشش کرنا یا ہدایت نہ کرنا
تو آپ ہماری طرف سے امریکا (یا انڈیا یا آپ کے ہم مسلک لوگوں ) کے جنگی عزائم کی مخالفت ہی دیکھیں گے لیکن ہماری دشمنی یا مخالفت صرف اتنی ہی ہو گی جس قدر آپ اور آپ جیسوں کا شر ہو گا
[2:190]
اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑیں۔ اور زیادتی نہ کرو۔ کیونکہ یقینا اللہ زیادتی کرنے والوں کو ہرگز دوست نہیں رکھتا۔
 

Khair Andesh

Chief Minister (5k+ posts)

آج مجھے اندازہ ہو گیا ہے کہ آپ کے اس قدر محکم یقین (ڈھٹائی ) کی وجہ کیا ہے ، پتہ چلا کہ آپ کا تو سٹینڈرڈ ہی غلط ہے . اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ کو ہمارا دشمنی کا سٹینڈرڈ بتا دوں تاکہ آپ کی الجھن دور ہو سکے
. . . .
اب سنیں
اگر کسی سے دشمنی ہو تو جوابا اسی قدر دشمنی ہونی چاہیے جس قدر اس کا قصور ہو ، دشمنی کرتے کرتے انصاف کا دامن چھوڑ دینے والوں کو الله دوست نہیں رکھتا .
امریکا کی بات کریں تو امریکا میں کروڑوں معصوم عوام موجود ہیں ، پھر اشرافیہ ہے اور اسٹبلشمنٹ ہے
یہ بات صاف ظاہر ہے کہ امریکی اسٹبلشمنٹ جنگ و جدل قائم رکھنا چاہتی ہے تو حق یہی ہے کہ امریکی اسٹبلشمنٹ کے مکروہ عزائم کو روکا جائے
لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ امریکی اسٹبلشمنٹ کو روکتے روکتے عام عوام کا قتل عام کر دیں (جیسا کہ آپ کے بھائی دہشت گردی کر کے کرتے ہیں ) یا ایسے کام کیے جایئں جن سے عام امریکی عوام کو تنگی ہو جیسے رزق کو روکنے کی کوشش کرنا یا ہدایت نہ کرنا
تو آپ ہماری طرف سے امریکا (یا انڈیا یا آپ کے ہم مسلک لوگوں ) کے جنگی عزائم کی مخالفت ہی دیکھیں گے لیکن ہماری دشمنی یا مخالفت صرف اتنی ہی ہو گی جس قدر آپ اور آپ جیسوں کا شر ہو گا
[2:190]
اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑیں۔ اور زیادتی نہ کرو۔ کیونکہ یقینا اللہ زیادتی کرنے والوں کو ہرگز دوست نہیں رکھتا۔
جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ آپ سوائے آئیں بائیں شائیں کرنے کے کچھ نہیں کر سکتے۔ اور آپ کی یہ پوسٹ بتا رہی ہے کہ آپ کسی بھی بات کو جھٹلا نہیں رہے۔ اور نہ ہی جھٹلا سکتے ہو، کیونکہ کوئی بھی خلاف واقع بات نہیں کی گئی، اور ہر بات روز روشن کی طرح واضح ہے۔ہاں البتہ ان تمام باتوں کو ماننے کے باوجود آپ اس نتیجے پر نہیں پہنچتے جو کہ منطقی ہے۔ غالبا کوئی فرقہ ورانہ مجبوری ہے ۔
جہاں تک آپ کا یہ نام نہاد اصول ہے کہ عمل ردعمل برابر ہونا چاہئے، اور صرف ظالم کے خلاف ہونا چاہئے تو اس کی چغلی شام و عراق میں جا بجا پھیلی وحشت و ظلم کی داستانیں دے رہی ہیں۔(وہی ظلم جس کے ردعمل میں داعش جیسی تنظیمیں وجود میں آتی ہیں)۔دہشت گردی کی بہتی گنگا میں ایرانیوں نے امریکی چھتری تلے جو ظلم ڈھائے ہیں، اور داعش اور القاعدہ کے نام پر عورتوں اور بچوں وغیرہ کا نا حق قتل کیا ہے، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
حوثی دہشت گرد جو آئے دن کبھی آئل تنصیبات کو نشانہ بناتے ہیں ،اور کبھی سعودی ایئر پورٹ پر میزائل داغتے ہیں، کیا یہ بھی آپ کے اس اصول سے لگا کھاتا ہے ہے۔ بھلا آئل فیکٹری ملازم یا ایئرپورٹ پر کام کرنے والے عملے کا قتل کیسے جائز ہو سکتا ہے؟اور یہ مثال اس لئے دی کے اسے آپ چاہ کر بھی ان حملوں کو نہیں جھٹلا سکتے ورنہ آپ نے عراق و شام میں اپنے مظالم کو داعش کے کھاتے میں ڈال دینا ہے۔ (آپ کو ویسے بھی اپنا ہر مخالف یزیدی اور ناصبی نظر آتا ہے)۔
دوسری بڑی بات یہ کہ اگر آپ نے غور سے آرٹیکل یا مضمون پڑھا ہو تو اس میں تقریبا پچاسی فیصد بات امریکی طرز عمل کی ہوئی ہے۔ اور آپ ایرانی طرز عمل کی تو کوئی لولی لنگڑی تاویل کر سکتے ہو، (جیسا کہ آپنے کوشش بھی کی)، مگر امریکی طرز عمل کو کس طرح جسٹیفائی کرو گے کہ وہ ہر طرح کے نقصان پہنچانے کی سہولت ہونے کے باوجود بھی ہمیشہ ایرانی فائدے کی سبیل نکالتا ہے۔
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)


جہاں تک آپ کا یہ نام نہاد اصول ہے کہ عمل ردعمل برابر ہونا چاہئے، اور صرف ظالم کے خلاف ہونا چاہئے تو اس کی چغلی شام و عراق میں جا بجا پھیلی وحشت و ظلم کی داستانیں دے رہی ہیں۔(وہی ظلم جس کے ردعمل میں داعش جیسی تنظیمیں وجود میں آتی ہیں)۔دہشت گردی کی بہتی گنگا میں ایرانیوں نے امریکی چھتری تلے جو ظلم ڈھائے ہیں، اور داعش اور القاعدہ کے نام پر عورتوں اور بچوں وغیرہ کا نا حق قتل کیا ہے، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

آپ اگر یہ سمجھ لیں کہ آپ راہ حق پر نہیں بلکے فتنہ پھیلاتے ہیں تو آپ کی الجھن دور ہو جائے . آپ نے تو اپنے تئیں دیش جیسی جماعت جا بھی جواز نکالا ہوا ہے
حوثی دہشت گرد جو آئے دن کبھی آئل تنصیبات کو نشانہ بناتے ہیں ،اور کبھی سعودی ایئر پورٹ پر میزائل داغتے ہیں، کیا یہ بھی آپ کے اس اصول سے لگا کھاتا ہے ہے۔ بھلا آئل فیکٹری ملازم یا ایئرپورٹ پر کام کرنے والے عملے کا قتل کیسے جائز ہو سکتا ہے؟اور یہ مثال اس لئے دی کے اسے آپ چاہ کر بھی ان حملوں کو نہیں جھٹلا سکتے ورنہ آپ نے عراق و شام میں اپنے مظالم کو داعش کے کھاتے میں ڈال دینا ہے۔ (آپ کو ویسے بھی اپنا ہر مخالف یزیدی اور ناصبی نظر آتا ہے)۔
حوثی جماعت کے بارے میں تو میں خود کنفوز ہوں ، اس سے پہلے انہوں نے سعودی ولی عہد کا مخالف مار دیا تھا اور اب تیل کی قیمتیں بڑھوا رہے ہیں
کمال نہیں ہو گیا ؟
اور یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ انہوں نے اپنے ملک میں ہی سعودی فوجوں کے خلاف لڑائی کی . اس سے بڑا ثبوت بھلا کیا ہو گا
دوسری بڑی بات یہ کہ اگر آپ نے غور سے آرٹیکل یا مضمون پڑھا ہو تو اس میں تقریبا پچاسی فیصد بات امریکی طرز عمل کی ہوئی ہے۔ اور آپ ایرانی طرز عمل کی تو کوئی لولی لنگڑی تاویل کر سکتے ہو، (جیسا کہ آپنے کوشش بھی کی)، مگر امریکی طرز عمل کو کس طرح جسٹیفائی کرو گے کہ وہ ہر طرح کے نقصان پہنچانے کی سہولت ہونے کے باوجود بھی ہمیشہ ایرانی فائدے کی سبیل نکالتا ہے۔
کافر اس بات سے شاکی ہیں کہ مسلمانوں نے اگر طاقت حاصل کر لی تو یہ پیشگی حملے کر کے جنگ چھیڑ دیں گے اور وہ حق بجانب ہیں
لہٰذا کافر اقوام مسلمانوں کو الجھائے رکھنا چاہتے ہیں
اس مقصد کے لئے انہوں نے خوارج اور ناصبی قوتوں کی مدد لی . ہم سب جانتے ہیں کہ خوارج نے اسلام کے خلاف جنگیں لڑیں . تین جنگیں تو حضرت علی علیہ سلام کے خلاف لڑی تھیں
لہٰذا کافر اقوام خوارج کو ہی مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں ، خوارج لوگ مسلمانوں کے خلاف لڑتے ہیں یہ سوچ کر کہ ہم یہاں سے جیتنے کے بعد کافروں سے لڑیں گے اور ہوتا یہ ہے کہ جب یہ خوارج تھوڑی بہت طاقت حاصل کریں تو امریکا ہاتھ اٹھا لیتا ہے اور پھر یہ خوارج مغلوب ہو جاتے ہیں
یعنی امریکا دیش اور طالبان کو زندہ رکھنا چاہتا ہے لیکن اتنا نہیں کہ یہ اس کے گلے کی ہڈی بن جایئں

 

Khair Andesh

Chief Minister (5k+ posts)
آپ اگر یہ سمجھ لیں کہ آپ راہ حق پر نہیں بلکے فتنہ پھیلاتے ہیں تو آپ کی الجھن دور ہو جائے . آپ نے تو اپنے تئیں دیش جیسی جماعت جا بھی جواز نکالا ہوا ہے
خود آپ کے پرزور اصرار پر میں نے امریشیعی اتحاد کے حوالے سے کچھ پرانی عرضداشت ایک مضمون کی شکل میں اکٹھی کیں۔ اور آاب آپ ان کا جواب دینے کی بجائے ادھر ادھر کی باتیں کر رہے ہو۔ابھی تک آپ کسی ایک بھی پوئنٹ کو جھٹلا نہیں سکے۔
کافر اس بات سے شاکی ہیں کہ مسلمانوں نے اگر طاقت حاصل کر لی تو یہ پیشگی حملے کر کے جنگ چھیڑ دیں گے اور وہ حق بجانب ہیں
لہٰذا کافر اقوام مسلمانوں کو الجھائے رکھنا چاہتے ہیں
اس مقصد کے لئے انہوں نے خوارج اور ناصبی قوتوں کی مدد لی . ہم سب جانتے ہیں کہ خوارج نے اسلام کے خلاف جنگیں لڑیں . تین جنگیں تو حضرت علی علیہ سلام کے خلاف لڑی تھیں
لہٰذا کافر اقوام خوارج کو ہی مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں ، خوارج لوگ مسلمانوں کے خلاف لڑتے ہیں یہ سوچ کر کہ ہم یہاں سے جیتنے کے بعد کافروں سے لڑیں گے اور ہوتا یہ ہے کہ جب یہ خوارج تھوڑی بہت طاقت حاصل کریں تو امریکا ہاتھ اٹھا لیتا ہے اور پھر یہ خوارج مغلوب ہو جاتے ہیں
یعنی امریکا دیش اور طالبان کو زندہ رکھنا چاہتا ہے لیکن اتنا نہیں کہ یہ اس کے گلے کی ہڈی بن جایئں
جب اہلسنت کی معاملہ ہو توامریکا؛
افغانستان پر چالیس ممالک کو ملا کر حملہ کرتا ہے۔
عراق پر خود حملہ کرتا ہے۔
شام میں بشار الاسد کے مخالفین کو خود مارتا ہے۔
صومالیہ میں خود حملے کرتا ہے
یمن میں خود حملے کرتا ہے۔
مالی میں خود حملے کرتا ہے۔
پاکستان میں خود حملے کرتا ہے۔
مگر جیسے ہی نام نہاد "مومنین" کی باری آتی ہے تو اس کے پاس خورج اور ناصبیوں کا سہارا لینے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں بچتا۔اور اتفاق سے ہر جگہ امریکی کاروائی کا مومنین کو فائدہ ہی ہوتا ہے۔

آپ کو نہیں لگتا کہ دال میں کچھ کالا ہے، یا پوری دال ہی کالی ہے؟​
حوثی جماعت کے بارے میں تو میں خود کنفوز ہوں ، اس سے پہلے انہوں نے سعودی ولی عہد کا مخالف مار دیا تھا اور اب تیل کی قیمتیں بڑھوا رہے ہیں
کمال نہیں ہو گیا ؟
اور یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ انہوں نے اپنے ملک میں ہی سعودی فوجوں کے خلاف لڑائی کی . اس سے بڑا ثبوت بھلا کیا ہو گا
آپ بے شک کنفیوز ہو، مگر ایرانی ملا ہر گز کنفیوز نہیں، اور ہر طرح کے اسلحے کے ڈھیر و دیگر ایرنی معاونت (امریکی ناک تلے) بہم پہنچائی جا رہی ہے۔
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)

خود آپ کے پرزور اصرار پر میں نے امریشیعی اتحاد کے حوالے سے کچھ پرانی عرضداشت ایک مضمون کی شکل میں اکٹھی کیں۔ اور آاب آپ ان کا جواب دینے کی بجائے ادھر ادھر کی باتیں کر رہے ہو۔ابھی تک آپ کسی ایک بھی پوئنٹ کو جھٹلا نہیں سکے۔


آپ اور انصاری جی کا یہی طریقہ ہے کہ جہاں سوال ہو وہاں دوسرے پر جوابی سوال داغ دو
لیکن ہم فورم پر ہمیشہ اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کرتے رہتے ہیں لہٰذا ہم مطمئن رہتے ہیں اور آپ اکھڑے اکھڑے سے رہتے ہیں
جب اہلسنت کی معاملہ ہو توامریکا؛
افغانستان پر چالیس ممالک کو ملا کر حملہ کرتا ہے۔
عراق پر خود حملہ کرتا ہے۔
شام میں بشار الاسد کے مخالفین کو خود مارتا ہے۔
صومالیہ میں خود حملے کرتا ہے
یمن میں خود حملے کرتا ہے۔
مالی میں خود حملے کرتا ہے۔
پاکستان میں خود حملے کرتا ہے۔
مگر جیسے ہی نام نہاد "مومنین" کی باری آتی ہے تو اس کے پاس خورج اور ناصبیوں کا سہارا لینے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں بچتا۔اور اتفاق سے ہر جگہ امریکی کاروائی کا مومنین کو فائدہ ہی ہوتا ہے۔
آپ کو نہیں لگتا کہ دال میں کچھ کالا ہے، یا پوری دال ہی کالی ہے؟
بڑا باریک سا فرق ہے آپ کے ہاں سے امریکا کے خلاف دہشت گردی ہوتی ہے اور ہمارے ہاں سے امریکی دہشت گردی کی مخالفت ہوتی ہے . . . . . . اور آپ کے جاہل یعنی کمزور ہونے کی وجہ سے امریکا حملہ کرتا ہے اور پورا امریکا آپ کے خلاف صف آرا ہوتا ہے . . .اور ہمارے طاقت ور ہونے کی وجہ سے امریکا دانت پیس کر رہ جاتا ہے مزید یہ کہ ہم نے چونکہ امریکی دہشت گردی کی مخالفت کی ہوتی ہے لہٰذا معقول امریکی اور دیگر دنیا بھی ہمارے خلاف فوجی کاروائی کی حمایت نہیں کرتی