آج پاکستان اپنی تاریخ کے ایک خوفناک موڑ پر کھڑا ہے۔
مشرف دور کے بعد جب جمہوریت بحال ہوئی تو ہم نے سوچا تھا کہ اب یہ قوم جمہوریت کے ثمرات سے فائدے اٹھائے گی لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ فوجی ادوار کے مارشل لاؤں سے بھی زیادہ بھیانک تھا۔ زرداری دور میں پاکستان میں معاشی دہشت گردی کی انتہا کر دی گئی اور نوازشریف دور میں خارجہ محاذ کو کھلا چھوڑ کر بھارت کو راستہ دیا گیا جس کی وجہ سے آج بیرونی دنیا میں پاکستان کوشدید ترین مشکلات کا سامنا درپیش ہے۔
اگر آپ غور کریں تو پچھلے چالیس سال پاکستان میں باریوں کا سسٹم چل رہا ہے۔ اس سارے عرصے میں پیپلزپارٹی، نون لیگ اور فوج نے ہی حکمرانی کی ہے۔ نوے کی دہائی میں بے نظیراور نوازشریف نے دو دو باریاں لیں، پھر پرویز مشرف آ گئے، اس کے بعد پھر سے پہلی باری پیپلزپارٹی کو دی گئی اور دوسری باری نوازشریف کو۔
لیکن اب 2018 میں پیپلزپارٹی پنجاب اور خیبرپختونخواہ سے مکمل طور پر مٹ چکی ہے، جس کی وجہ سے یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ 2018 میں کس کی "باری" آنے والی ہے ؟ اگر آپ غور کریں تو پاکستان تحریکِ انصاف وہ واحد جماعت ہے جس نے پیپلزپارٹی کے بعد اس خالی جگہ کو پر کیا ہے اور ایک متبادل جماعت کے طور پر اپنا آپ منوایا ہے۔ سیاسی پنڈتوں کے مطابق اس بار عمران خان اور تحریکِ انصاف کی باری ہے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے نون لیگ نے عمران خان کی کردار کشی کے لیے ایک سیل بنا رکھا ہے جس کا کام ہی صرف یہ ہے کہ وہ عمران خان کی کردار کشی کریں اور اس کا امیج عوام کی نظروں میں خراب کیا جا سکے۔ اس کردار کشی کی مہم کا باقاعدہ آغاز ریحام خان کی شکل میں ہو چکا ہے۔ لیکن یہ حربہ بری طرح سے ناکام رہا۔ اور اب دوسرا حربہ افتخار چوہدری کی شکل میں ہے جس کو سیتا وائٹ کیس عدالتوں میں لے جانے کا ٹاسک ملا ہے۔
افتخار چوہدری اس وقت اپنی مقبولیت کے دوام پر تھے جب مشرف نے ان کو زبردستی ان کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ اس کے بعد پاکستان میں ایک زبردست تحریک کا آغاز ہوا اور جب افتخار چوہدری اپنے عہدے پر بحال ہوئے تو یہ گمان کیا جا رہا تھا کہ شاید اب وہ اپنی کرسی پر بیٹھ کر پاکستان کی تاریخ ہی بدل دیں گے۔
لیکن تاریخ بدلنا تو دور کی بات سب سے پہلے یہ سکینڈل آیا کہ ان کے بیٹے ڈاکٹر ارسلان افتخار کو بلوچستان میں سرمایہ کاری کمیشن کا وائس چئیرمین لگا دیا گیا ہے اور یہ تقرری سرے سے ہی غلط ہے۔ اس کے علاوہ ارسلان افتخار نے اپنے باپ کی حیثیت کا فائدہ اٹھا کر کروڑوں روپے کے کمیشن کھائے اور بزنس تائیکون بننے کے لیے اس نے بے شمار فراڈز کیے، جس پر نیب نے اس کو طلب کیا لیکن وہ اپنے باپ کے بل پر نیب کے سامنے بھی پیش نہ ہوا۔
ارسلان افتخار کا واقعہ، شاید افتخار چوہدی کی زندگی کا شاید سب سے شرمناک باب ہو گا کیونکہ پاکستان کی عوام نے دیکھ لیا کہ جس شخص نے مشرف جیسے ڈکٹیٹر کے سامنے سر نہ جھکایا، وہ انقلابی جج ، اپنے ہی بیٹے کی کرپشن چھپانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ اس واقعے کے بعد افتخار چوہدری کی عظمت کے تمام بت پاش پاش ہو چکے تھے۔
افتخار چوہدری کی زندگی میں دوسرا سب سے بڑا جھٹکا اس کو تب لگا جب عمران خان نے ایک جلسے کے دوران چلا کر پوچھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ افتخار چوہدری کتنے میں بکے ہو ؟ 2013 کے الیکشنز میں نون لیگ کو جتوانے میں مرکزی کردار ادا کرنے والے افتخار چوہدری کو عمران خان نے ننگا کر دیا اور اس کے بعد پورے پاکستان میں ایک زبردست کیمپئن چلی جس نے افتخار چوہدری کے خلاف عوامی غم و غصے کو بڑھا دیا۔ اس واقعہ کے بعد نون لیگ جو کہ افتخار چوہدری کو پاکستان کا صدر بنانے کا سوچ رہی تھی، اس نے بھی اس متنازعہ بات کے بعد اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔
ان ساری باتوں کے بعد افتخار چوہدری کو ہمیشہ سے عمران خان کے خلاف دل میں ایک بغض تھا اور اب 2018 کے الیکشنوں میں نون لیگ نے ایک دفعہ پھر سے افتخار چوہدری کو اگلی ٹرم کے لیے صدرِ پاکستان کا لالچ دے کر عمران خان کے خلاف میدان میں اتار دیا ہے اور افتخار چوہدری کے ذمے بس یہی کام ہے کہ وہ عمران خان اور سیتا وائٹ کا معاملہ عدالت میں لے کر جائے تا کہ اس پرانے قصے کو ایک دفعہ پھر سے ایشو بنا کر عوام کو متنفر کیا جا سکے اور بغضِ عمران سے بھرے بیٹھے افتخار چوہدری صدرِ پاکستان بننے کا خواب آنکھوں میں سجائے آج کل سپریم کورٹ کی دہلیز پر بیٹھے ہوئے ہیں۔
سیتا وائٹ سے متعلق الزامات کوئی نئے نہیں ہیں، بلکہ یہ الزامات 1997 سے لگ رہے ہیں لیکن آج تک ان الزامات کی حقیقت سامنے نہیں آ سکی اور اب تو عوام اتنی ہوشیار ہو چکی ہے کہ وہ اگلا سوال یہی کریں گے کہ چلو عمران خان کو تو بعد میں دیکھیں گے، پہلے یہ بتاؤ نون لیگ نے آخر پنجاب میں کیا ہی کیا ہے ؟ 2018 کی اس ہوشیار عوام کو الو بنانا اب آسان نہیں ہے۔
افتخار چوہدری ایک چلا ہوا کارتوس ہے اور یقین کیجیے یہ ریحام خان سے بھی زیادہ برے طریقے سے فلاپ ہو گا کیونکہ اب پاکستان کے لوگوں کو شعور آ گیا ہے اور یہ شعور کبھی ریورس نہیں ہوتا۔۔۔۔!!۔
تحریر و تجزیہ : عاشور بابا
Join me on facebook.com/AashoorBaba
مشرف دور کے بعد جب جمہوریت بحال ہوئی تو ہم نے سوچا تھا کہ اب یہ قوم جمہوریت کے ثمرات سے فائدے اٹھائے گی لیکن اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ فوجی ادوار کے مارشل لاؤں سے بھی زیادہ بھیانک تھا۔ زرداری دور میں پاکستان میں معاشی دہشت گردی کی انتہا کر دی گئی اور نوازشریف دور میں خارجہ محاذ کو کھلا چھوڑ کر بھارت کو راستہ دیا گیا جس کی وجہ سے آج بیرونی دنیا میں پاکستان کوشدید ترین مشکلات کا سامنا درپیش ہے۔
اگر آپ غور کریں تو پچھلے چالیس سال پاکستان میں باریوں کا سسٹم چل رہا ہے۔ اس سارے عرصے میں پیپلزپارٹی، نون لیگ اور فوج نے ہی حکمرانی کی ہے۔ نوے کی دہائی میں بے نظیراور نوازشریف نے دو دو باریاں لیں، پھر پرویز مشرف آ گئے، اس کے بعد پھر سے پہلی باری پیپلزپارٹی کو دی گئی اور دوسری باری نوازشریف کو۔
لیکن اب 2018 میں پیپلزپارٹی پنجاب اور خیبرپختونخواہ سے مکمل طور پر مٹ چکی ہے، جس کی وجہ سے یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ 2018 میں کس کی "باری" آنے والی ہے ؟ اگر آپ غور کریں تو پاکستان تحریکِ انصاف وہ واحد جماعت ہے جس نے پیپلزپارٹی کے بعد اس خالی جگہ کو پر کیا ہے اور ایک متبادل جماعت کے طور پر اپنا آپ منوایا ہے۔ سیاسی پنڈتوں کے مطابق اس بار عمران خان اور تحریکِ انصاف کی باری ہے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے نون لیگ نے عمران خان کی کردار کشی کے لیے ایک سیل بنا رکھا ہے جس کا کام ہی صرف یہ ہے کہ وہ عمران خان کی کردار کشی کریں اور اس کا امیج عوام کی نظروں میں خراب کیا جا سکے۔ اس کردار کشی کی مہم کا باقاعدہ آغاز ریحام خان کی شکل میں ہو چکا ہے۔ لیکن یہ حربہ بری طرح سے ناکام رہا۔ اور اب دوسرا حربہ افتخار چوہدری کی شکل میں ہے جس کو سیتا وائٹ کیس عدالتوں میں لے جانے کا ٹاسک ملا ہے۔
افتخار چوہدری اس وقت اپنی مقبولیت کے دوام پر تھے جب مشرف نے ان کو زبردستی ان کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ اس کے بعد پاکستان میں ایک زبردست تحریک کا آغاز ہوا اور جب افتخار چوہدری اپنے عہدے پر بحال ہوئے تو یہ گمان کیا جا رہا تھا کہ شاید اب وہ اپنی کرسی پر بیٹھ کر پاکستان کی تاریخ ہی بدل دیں گے۔
لیکن تاریخ بدلنا تو دور کی بات سب سے پہلے یہ سکینڈل آیا کہ ان کے بیٹے ڈاکٹر ارسلان افتخار کو بلوچستان میں سرمایہ کاری کمیشن کا وائس چئیرمین لگا دیا گیا ہے اور یہ تقرری سرے سے ہی غلط ہے۔ اس کے علاوہ ارسلان افتخار نے اپنے باپ کی حیثیت کا فائدہ اٹھا کر کروڑوں روپے کے کمیشن کھائے اور بزنس تائیکون بننے کے لیے اس نے بے شمار فراڈز کیے، جس پر نیب نے اس کو طلب کیا لیکن وہ اپنے باپ کے بل پر نیب کے سامنے بھی پیش نہ ہوا۔
ارسلان افتخار کا واقعہ، شاید افتخار چوہدی کی زندگی کا شاید سب سے شرمناک باب ہو گا کیونکہ پاکستان کی عوام نے دیکھ لیا کہ جس شخص نے مشرف جیسے ڈکٹیٹر کے سامنے سر نہ جھکایا، وہ انقلابی جج ، اپنے ہی بیٹے کی کرپشن چھپانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ اس واقعے کے بعد افتخار چوہدری کی عظمت کے تمام بت پاش پاش ہو چکے تھے۔
افتخار چوہدری کی زندگی میں دوسرا سب سے بڑا جھٹکا اس کو تب لگا جب عمران خان نے ایک جلسے کے دوران چلا کر پوچھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ افتخار چوہدری کتنے میں بکے ہو ؟ 2013 کے الیکشنز میں نون لیگ کو جتوانے میں مرکزی کردار ادا کرنے والے افتخار چوہدری کو عمران خان نے ننگا کر دیا اور اس کے بعد پورے پاکستان میں ایک زبردست کیمپئن چلی جس نے افتخار چوہدری کے خلاف عوامی غم و غصے کو بڑھا دیا۔ اس واقعہ کے بعد نون لیگ جو کہ افتخار چوہدری کو پاکستان کا صدر بنانے کا سوچ رہی تھی، اس نے بھی اس متنازعہ بات کے بعد اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔
ان ساری باتوں کے بعد افتخار چوہدری کو ہمیشہ سے عمران خان کے خلاف دل میں ایک بغض تھا اور اب 2018 کے الیکشنوں میں نون لیگ نے ایک دفعہ پھر سے افتخار چوہدری کو اگلی ٹرم کے لیے صدرِ پاکستان کا لالچ دے کر عمران خان کے خلاف میدان میں اتار دیا ہے اور افتخار چوہدری کے ذمے بس یہی کام ہے کہ وہ عمران خان اور سیتا وائٹ کا معاملہ عدالت میں لے کر جائے تا کہ اس پرانے قصے کو ایک دفعہ پھر سے ایشو بنا کر عوام کو متنفر کیا جا سکے اور بغضِ عمران سے بھرے بیٹھے افتخار چوہدری صدرِ پاکستان بننے کا خواب آنکھوں میں سجائے آج کل سپریم کورٹ کی دہلیز پر بیٹھے ہوئے ہیں۔
سیتا وائٹ سے متعلق الزامات کوئی نئے نہیں ہیں، بلکہ یہ الزامات 1997 سے لگ رہے ہیں لیکن آج تک ان الزامات کی حقیقت سامنے نہیں آ سکی اور اب تو عوام اتنی ہوشیار ہو چکی ہے کہ وہ اگلا سوال یہی کریں گے کہ چلو عمران خان کو تو بعد میں دیکھیں گے، پہلے یہ بتاؤ نون لیگ نے آخر پنجاب میں کیا ہی کیا ہے ؟ 2018 کی اس ہوشیار عوام کو الو بنانا اب آسان نہیں ہے۔
افتخار چوہدری ایک چلا ہوا کارتوس ہے اور یقین کیجیے یہ ریحام خان سے بھی زیادہ برے طریقے سے فلاپ ہو گا کیونکہ اب پاکستان کے لوگوں کو شعور آ گیا ہے اور یہ شعور کبھی ریورس نہیں ہوتا۔۔۔۔!!۔
تحریر و تجزیہ : عاشور بابا
Join me on facebook.com/AashoorBaba