خبریں

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے تمام اسمبلیوں سے استعفے دینے کا اعلان کے بعد کہا جارہا ہے کہ ایسی صورت میں الیکشن کمیشن کو عام انتخابات کا انعقاد کروانا ہوگا،ذرائع الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق آئینی اور قانونی طور پر اسمبلیوں کی خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوں گے۔ ذرائع الیکشن کمیشن نے بتایا ہے کہ ایسا کوئی قانون نہیں کتنی نشستیں خالی ہوں تو عام انتخابات لازمی ہوں گے، اسمبلیوں کی آئینی مدت سے پہلے خالی تمام نشستیں پُر کی جاتی ہیں۔ ذرائع کے مطابق اسمبلی مدت ختم ہونے سے 4 ماہ پہلے نشست خالی ہو تو انتخاب نہیں ہوتا، اس سے پہلے جتنی نشستیں خالی ہوں گی ضمنی انتخاب ہوگا،نصف اسمبلی بھی خالی ہو تو ضمنی انتخاب ہوگا، 2 نشستیں بھی اسمبلی میں ہوں تو اسمبلی بحال رہتی ہے۔ اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان کے بعد عمران خان نے ٹوئٹر پیغام میں کہا تھا ہماری تحریک قانون کی حکمرانی اور حقیقی آزادی کے قیام تک جاری رہے گی، عمران خان نے موجودہ نظام کا حصہ نہ رہنے اور تمام اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اسلام آباد گئے تو ملک کا نقصان ہو گا۔
عمران خان نے گزشتہ روز ملک کی تمام اسمبلیوں سے استعفے دینے کے اشارہ دے دیا، جس کے بعد مسلم لیگ ن نے صوبے پنجاب میں حکومت بنانے کیلیے کمر کس لی،ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن کی جانب سے پنجاب میں حکومت سازی کیلئے مشاورت شروع کردی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی 372میں سے 167نشتیں ہیں جبکہ ایک اتحادی ان کے ساتھ ہے، اسی طرح پیپلزپارٹی کے پاس 7 نشستیں ہیں، یوں کُل نشستیں 174 تک بن جاتی ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں پانچ آزاد امیدوار، مسلم لیگ ق کی دس نشتیں، راہ حق پارٹی ایک نشت کے ساتھ پی ٹی آئی کی اتحادی ہے یوں 180 نشستوں کے ساتھ پی ٹی آئی صوبے کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن پانچ آزاد اور ایک راہ حق پارٹی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے متحرک ہوگئی ہے، ایسا ہونے کی صورت میں ن لیگ صوبے میں حکومت قائم کرسکتی ہے،پنجاب میں حکومت سازی کے لیے مسلم لیگ ن کی قیادت اتحادیوں سے مشاورت کے بعد آزاد امیدواروں سے رابطے کرے گی۔ دوسری جانب مسلم لیگ ن کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی کے تمام امیدواروں کی جانب سے استعفے نہیں دیے جائیں گے یوں حکومت سازی کے لیے اپوزیشن مزید مضبوط ہوجائے گی،پنجاب اسمبلی میں اجلاس جاری ہے اس لیے وزیراعلیٰ پنجاب اور اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کروائی جاسکتی ہے، جس کے بعد ووٹنگ کیلئے علحیدہ اجلاس بلایا جائے گا۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی اور ن لیگ کے رہنما ملک احمد خان نے کہا ہے کہ مشاورت کے بعد آئندہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہوگی،احسن اقبال نے کہا کہ پنجاب حکومت سپریم کورٹ کے حکم پر قائم ہے جس پر آئینی ماہرین بھی اعتراض کیا، اگر ق لیگ کے اراکین ووٹ دیں تو پنجاب حکومت ختم ہوجائے گی اور وزیراعلیٰ پنجاب کا فیصلہ پی ڈی ایم قیادت کرے گی۔ اُدھر وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا ہے کہ جب تک اللہ نہ چاہیے پنجاب حکومت کو کچھ نہیں ہوگا، ہم جتنے عرصے بھی اقتدار میں رہیں گے دعوے نہیں عوام کی خدمت کریں گے،چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے تمام اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان کیا تھا۔ راولپنڈی میں حقیقی آزادی مارچ کے شرکا سے خطاب میں کہا تھا کہ ہم اس نظام کا حصہ نہیں بنیں گے جہاں کرپٹ چور اپنے کیسز روز معاف کروا رہےہیں۔
کالعدم عسکریت پسند تنظیم"بی ایل اے" نے جنوبی پنجاب کے مسلح گروہوں کو متحد کرتے ہوئے ضلع راجن پور کےپولیس اسٹیشنز پر حملے کی دھمکیاں دینا شروع کردی ہیں۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق 23 نومبر کو جنوبی پنجاب میں ایک پولیس مقابلے کے بعد خطرناک اشتہاری مجرم اور گینگ کے سربراہ خدابخش کی ہلاکت کے بعد مختلف مسلح گروہوں اور مجرمان کے گینگ نے کالعدم تنظیم بی ایل اے کے سائے تلے متحد ہونے کے بعد راجن پور کی تحصیل روجھان میں چھ پولیس اسٹیشنزپر حملے کی دھمکیاں دیدی ہیں۔ بی ایل اے نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کے ذریعے پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والے خطرناک مجرم خدابخش کو شہیدقرا ر دیا اور اس کی موت کا بدلہ لینے کے عزم کا اظہار کیا، پولیس کے مطابق عسکریت پسندو ں نےبھاری اسلحہ اور راکٹ لانچرزکی مدد سے تھانوں پر حملے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب پولیس حکام نے دھمکیوں کے بعد مناسب کارروائی کیلئے حکمت عملی تیار کرنا بھی شروع کردی ہے، بلوچ عسکریت پسندوں کی دھمکیوں کے بعد پولیس نےروجھان کے 6تھانوں سے اضافی نفری واپس بلوالی ہے۔ خیال رہے کہ 23 نومبر کو جنوبی پنجاب کے علاقے میں پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان 5گھنٹے تک جھڑپ جاری رہی، اس موقع پر ملزمان ناقص ہتھیاروں سے لیس پولیس فورس پر راکٹ لانچر ز، مارٹر گولوں اور دیگر ہتھیاروں سے حملہ آور ہوئے، تاہم جھڑپ کا اختتام خطرناک مجرم خدابخش کی ہلاکت کے بعد ہوا، اس مجرم کےسر کی قیمت 18 لاکھ روپے مقرر کی گئی تھی، فائرنگ کے تبادلے میں 5پولیس اہلکاروں سمیت 12 افراد زخمی بھی ہوئے۔
ترجمان پاک فوج نے کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے بلوچستان کے علاقے کوہلو میں آپریشن کے دوران 9 دہشت گردوں کو مار گرایاہے جبکہ 3 دہشت گردوں کو زخمی حالت میں گرفتار بھی کرلیا گیا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر) سیکیورٹی فورسز نے انٹیلی جنس معلومات کی پر بی ایل اے ایچ کے دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانوں پر کارروائی کرکے 9 دہشت گردوں کو مار گرایا ہے ، آپریشن کے دوران تین دہشت گرد زخمی حالت میں سیکیورٹی فورسز کے ہتھے بھی چڑھ گئے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق صبح چھ بجے خفیہ معلومات پر آپریشن شروع کیا گیا، دہشت گردوں نے حملے کے نتیجے میں سیکیورٹی فورسز پر جوابی فائرنگ کی، فائرنگ کا یہ تبادلہ کافی دیر جاری رہا جس کے نتیجے میں 9 دہشت گرد مارے گئے، آپریشن کے بعد سیکیورٹی فورسز نے علاقے میں سرچ آپریشن بھی شروع کردیا ہے۔ ترجمان پاک فوج کے مطابق انٹیلی جنس ایجنسیوں نے کوہلو بازار میں ستمبر میں ہونے والے دھماکے کے بعد سے ان دہشتگردوں کی تلاش میں لگی ہوئی تھیں،اس حملے میں ملوث تنظیم علاقے میں دیگر جرائم اور سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں بھی ملوث تھی۔ بی ایل اےایچ کے یہ دہشت گرد بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے والے انجینئرز اور کارکنان کونشانہ بنانےمیں بھی ملوث تھے، دہشت گردوں نے آنے والے دنوں میں کاہان، کوہلو اور میوند کے علاقوں میں حملوں کی منصوبہ بندی کرنا شروع کررکھی تھی۔
گزشتہ روز میڈیا پر یہ خبر زیردگردش تھی کہ اسٹیٹ بینک پاکستان کی جانب سے ڈائریکٹ کریئر بلنگ کا طریقہ تبدیل کردیا گیا، جس کے بعد گوگل پلے اسٹور کی سروسز پاکستان میں بند ہونے کا امکان ہے۔ نجی چینل ذرائع کے مطابق اسٹیٹ بینک پاکستان نے بین الاقوامی سروس فراہم کرنے والوں کو 3 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی ادائیگی منسوخ کرنے کے بعد موبائل صارفین یکم دسمبر 2022 سے پاکستان میں گوگل پلے اسٹور کی سروسز ڈاؤن لوڈ نہیں کرسکیں گے۔ سروسز معطل ہونے پر پاکستانی صارفین صرف کریڈٹ کارڈ یا ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے ادائیگی کرنے کے گوگل اور دیگر بین الاقوامی ایپس کو ڈاؤن لوڈ کر سکیں گے،موبائل کمپنیوں کے ذریعے گوگل، ایمازون اور میٹا وغیرہ سمیت بین الاقوامی سروس فراہم کرنے والوں کو سالانہ بنیادوں پر 3 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز کی ادائیگی رک گئی۔ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور 4 سیلولر موبائل آپریٹرز نے متفقہ طور پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو جمعہ کو ایک مشترکہ خط میں ڈی سی بی کے طریقہ کار کو منسوخ کرنے کے فیصلے کو واپس لینے کی درخواست کی تھی۔ اس پر اسٹیٹ بنک کا ردعمل سامنے آگیا ہے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ذرائع ابلاغ کے بعض حصوں میں گوگل کو ادائیگیاں روکنے کے حوالے سے چلائی جانے والی خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے انہیں بے بنیاد اور گمراہ کن قرار دیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری بیان کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ ملک کے اداروں کو سہولت فراہم کرنے کی غرض سے اسٹیٹ بینک نے اطلاعی ٹیکنالوجی (آئی ٹی) سے متعلق بعض خدمات کی تخصیص کی جو ایسے ادارے اپنے استعمال کے لیے بیرون ملک سے خرید سکتے ہیں اور وہاں 100،000امریکی ڈالر فی انوائس تک زر مبادلہ میں ادائیگیاں کرسکتی ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ میں بیوی کی بھانجی سے شادی کا معاملہ، انوکھے کیس پر عدالت کے ریمارکس لاہور ہائیکورٹ میں انوکھا کیس سامنے آگیا عدالت کے سامنے سوال آیا ہے کہ کیا شوہر اپنی بیوی کی سگی بھانجی سے شادی کرسکتا ہے؟ تفصیلات کے مطابق دوسری بیوی کی بازیابی کیس میں جسٹس انوارالحق پنوں کی عدالت میں دوران سماعت درخواست گزار مشتاق احمد کی پہلی بیوی 4 بچوں سمیت عدالت میں جج کے روبرو پیش ہو گئی۔ شہری کی پہلی بیوی کا کہنا تھا کہ اس کے شوہر مشتاق احمد نے اسے طلاق نہیں دی اور بھانجی سے زبردستی دوسری شادی کرلی۔ عدالت نے مشتاق احمد کی درخواست مسترد کرتے ہوئے 35 ہزارروپے جرمانہ کردیا۔ درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ دوسری بیوی سائلہ احمد اپنے شوہر کے ساتھ جانا چاہتی ہے، جسٹس انوارالحق پنوں نے قراردیا اگر کوئی کنوئیں میں چھلانگ لگانا چاہے تو کیا عدالت اجازت دیدے؟ عدالت نے دوسری بیوی کو اس کے والدین کے ساتھ بھجوا دیا، اوکاڑہ کے رہائشی مشتاق احمد نے دوسری بیوی کی سسرالیوں سے بازیابی کے لئے رجوع کیا تھا۔
تحریکِ انصاف کے رہنما و سابق وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کی انتظامیہ نے عمران خان کے ہیلی کاپٹر کو پریڈ گراؤنڈ اترنے کی اجازت مسترد کر دی ہے ۔ یہ بات انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری کیے گئے ایک بیان میں کہی ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما کا مزید کہنا ہے کہ اسلام آباد کی انتظامیہ کی جانب سے اجازت مسترد کرنے کی کوئی وجہ نہیں دی گئی کیونکہ کوئی وجہ ہو ہی نہیں سکتی۔ اسد عمر کا یہ بھی کہنا ہے کہ جان بوجھ کر اسلام آباد کی انتظامیہ عمران خان کی زندگی کے لیے خطرہ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جبکہ جی ایچ کیو کی جانب سے پریڈگراؤنڈ میں ہیلی کاپٹر کی لینڈنگ پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا۔ اجازت طلب کرنے کے جواب میں کہا گیا تھا پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد انتظامیہ کی حدود ہے،ان سے اجازت طلب کی جائے، جی ایچ کیو کو پریڈ گراؤنڈ میں عمران خان کا ہیلی کاپٹرلینڈ ہونے پر کوئی اعتراض نہیں۔جی ایچ کیو کی جانب سے بذریعہ خط تحریک انصاف کو باضابطہ طور پر آگاہ کیا گیا تھا۔ اپنے ایک اور پیغام میں اسدعمر کا کہنا تھا کہ حکومت نے ہیلی کاپٹر کی لینڈنگ کے معاملے پر تماشا بنایا ہوا ہے، این او سی ملے یا نہ ملے عمران خان کل ہر صورت پنڈی آئیں گے، راولپنڈی میں ہماری حکومت ہے لیکن ابھی تک ایس ایچ او کو فون آجاتا ہے۔ انتظامات میں مداخلت کی کوشش کی گئی ہے لیکن ہم بھی پوری تیاری کررہے ہیں۔ اس ضمن میں شیری مزاری کاکہنا تھا کہ اسلام آبادانتظامیہ نے عمران خان کے ہیلی کو پریڈ گراؤنڈ میں اترنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے حالانکہ جی ایچ کیو کی اجازت کل آئی تھی - دونوں سے اجازت درکار ہے! واضح طور پر یہ مضحکہ خیز اور گڈکاپ، بیڈکاپ کا معاملہ ہے۔ عمران خان کا خوف سازشیوں کے ذہنوں میں بیٹھ گیا ہے اور وہ ان کی جان کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ دوسری جانب راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر نے فیض آباد کے مقام پر پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کو جلسے کی اجازت دے دی ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو جلسے کا اجازت نامہ 56 شرائط کے ساتھ جاری کیا ہے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے مبینہ طور پر آرمی چیف کی فیملی کے ٹیکس ریٹرن لیک میں ملوث گریڈ 18 کے دو افسران کو عہدوں سے ہٹا کر تحقیقات شروع کر دیں۔ تفصیلات کے مطابق میڈیا کا دعویٰ ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے اہلخانہ کی ٹیکس ریٹرن لیک ہونے کیلئے لاگ ان آئی ڈی اور پاس ورڈ کے استعمال کے مبینہ شبے میں جن دو افسروں کے خلاف تحقیقات کی جارہی ہیں انہیں فوری طور پر آر ٹی او سے تبدیل کردیا گیا ہے۔ ایف بی آر نے ریجنل ٹیکس آفس لاہور کے گریڈ 18 کے ڈپٹی کمشنر ان لینڈ ریونیو عاطف نواز وڑائچ اور ڈپٹی کمشنر ان لینڈ ریونیو ظہور احمد کو تبدیل کرکے ایف بی آر ہیڈ کوارٹر اسلام آباد کے ایڈمن پول بھجوا دیا ہے۔ اس کے ساتھ ان افسران کو ہدایت کی گئی ہے کہ آن لائن ہیومن ریسورس مینجمنٹ سسٹم یا اپنا آئی جے پی لاگن استعمال کرتے ہوئے اپنے عہدوں کا چارج چھوڑ کر ایف بی آر ہیڈ کوارٹر ایڈمن پول رپورٹ کریں۔ جبکہ اس کے علاوہ دیگر 6 افسران کے بھی تبادلوں کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔ جن افسران کے تبادلے کیے گئے ہیں ان میں گریڈ 19اور 20 کے اعلیٰ افسران جبکہ گریڈ16 کے انسپکٹر لیول کے سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں۔
تفصیلات کے مطابق شوگر ملزما مالکان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پچھلے سال کی بچ جانے والے چینی کو برآمد کرنے کی اجازت ملنی چاہیے جس پر حکومت اور شوگر ملز مالکان کے درمیان مذاکرات جاری ہیں لیکن اس حوالے سے ابھی تک حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی طارق بشیر چیمہ کا اس حوالے سے اجلاس کے دوران کہنا تھا کہ شوگر ملز مالکان کو فارمولہ دیا ہے، اس پر عملدرآمد کرینگے تو دیکھیں گے، ابھی تک اس حوالے سے شوگر ملز مالکان کو چینی باہر بھیجنے کی اجازت نہیں دی۔ طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ پنجاب حکومت نے اپنے موقف سے یوٹرن لے لیا ہے، پہلا کہا گیا تھا کہ چینی کے سٹاک کم ہیں برآمد کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ وفاقی وزیرتجارت نے اس حوالے سے کہا کہ مسئلہ اس وقت چینی کے سٹاک کی پوزیشن کا ہے جس کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کا فیصلہ کیا گیا ہے، چینی سٹاک کے آڈٹ کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا، جس پر اطلاعات کے مطابق فیصلہ ہوا ہے کہ 25 نومبر تک شوگر ملز مالکان اپنے سٹاک کی تمام تفصیلات جمع کروائیں گے۔ دریں اثنا چیئرمین پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن ذکاء اشرف کا کہنا تھا کہ حکومت نے چینی برآمد کرنے کی اجازت دینے کے بجائے حکومت نے ہمیں لمبی سڑک پر ڈال دیا ہے، اجازت نہ ملنے پر جلد شوگر ملز ایسوسی ایشن کا اجلاس طلب کر رہے ہیں، ابھی تک ہڑتال کا نہیں سوچا۔ انہوں نے بتایا کہ شوگر ملز مالکان ایکویٹی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ سندھ اور کے پی کے پنجاب کی شوگر ملز کی طرف سے چینی برآمد کرنے کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ چینی کی تیاری پر 115 روپے لاگت آتی ہے لیکن مارکیٹ میں قیمت 85 روپے رکھی گئی ہے جس سے شوگر ملز مالکان کو 10 کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے جبکہ ایک سیزن میں 4 سے 5 ارب روپے کا نقصان برداشت کر رہے ہیں۔
سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تقرری کے معاملے پر بھارتی میڈیا میں صفِ ماتم بِچھ گئی ہے، بھارتی ٹی وی اینکرز کی چیخیں دور دور تک سنائی دے رہی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک ایسے جنرل کوآرمی کا سربراہ لگایا گیا ہے جو اپنے کیریئر کے دوران ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی کے سربراہ کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں، ایسے افسر کی بطور آرمی چیف تعیناتی پڑوسی ملک بھارت کو ہضم نہیں ہورہی، ا س کا اندازہ بھارتی میڈیا پر سنائی دینے والی اینکرز کی چیخوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ بھارتی اینکرز نے جیسے ہی پاکستانی وزیراعظم میاں شہباز شریف کی جانب سے جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف تعینات کرنے کی منظوری کی خبر سنی تو اسی وقت بھارتی میڈیا پر سوگ کا سماں چھا گیا۔ بھارتی صحافی یہ سوال اٹھاتے نظرآتے ہیں کہ عاصم منیر کا رویہ انڈیا کیلئے سخت کیوں ہے؟ اینکرز نے پاکستان اور پاک فوج کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کردی، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی جانب سے جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف لگانے کے فیصلے نے مودی سرکار اور بھارتی میڈیا کے 27 فروری کے آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کےزخم تازہ کردیئے ہیں۔
شہید پاکستانی صحافی ارشد شریف کے ماضی میں نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے متعلق خیالات کی ایک ویڈیومنظر عام پر آگئی ہے۔ مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک صارف کی جانب سے شہید ارشد شریف کے ایک وی لاگ کا کلپ شیئر کیا گیا جس میں ارشد شریف کا کہنا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس بھی رہے ہیں اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی بھی رہے ہیں اور بعد میں انہوں نے گوجرانوالہ میں کور کی کمانڈ بھی کی ۔ ارشد شریف نے جنرل عاصم منیر سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انتہائی نفیس آدمی ہے، شریف الانفس آدمی ہیں،اورحافظ القرآن بھی ہیں، اس کے علاوہ جمہوریت پر، جمہوری لیڈر شپ پر اور سویلین اتھارٹی پر ان کا اعتماد بالکل ہےکہ یہ معاملات سویلین لیڈرشپ کو ہی چلانے چاہیے۔ ارشد شریف نے مزید کہا کہ جنرل عاصم منیر ایک بڑے ہی بے داغ کیریئر رکھنے والے فوجی آفیسر ہیں پاک فوج کیلئے ان کی کاوشیں بہت ہیں۔ خیال رہے کہ آج وزیراعظم شہباز شریف نے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف تعینات کرنے کی منظوری دیتے ہوئے سمری صدر مملکت کو ارسال کردی تھی جس پر دستخط کرتے ہوئے صدر مملکت نے نئے آرمی چیف سے ملاقات بھی کرلی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو پاکستان کے 17ویں آرمی چیف تعینات کرنےکی منظوری دیدی ہے، جنرل عاصم منیر کی پیشہ ورانہ زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر پاکستان کی تاریخ کے پہلے آرمی چیف ہوں گے جو ملٹری انٹیلی جنس اور آئی ایس آئی میں فرائض سرانجام دے چکے ہیں، اور اعزازی شمشیر یافتہ ہیں، اپنے کیریئر میں سعودی عرب قیام کے دوران انہوں نے 38 سال کی عمر میں مدینہ سے قرآن پاک حفظ کیا۔ منگلا میں آفیسرز ٹریننگ اسکول پروگرام کے ذریعے پاک فوج کے فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کرنے والے جنرل عاصم منیر نے اس وقت کے کمانڈر ٹین کور جنرل قمر جاوید باجوہ کے ماتحت بطور بریگیڈیئر شمالی علاقہ جات فورس کی کمانڈ سنبھالی۔ 2017 میں جنرل عاصم منیر کو ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس تعینات کیا گیا جس کے بعد اکتوبر2018 میں لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو آئی ایس پی آر کا سربراہ تعینات کردیا گیا، تاہم بطور ڈی جی آئی ایس آئی انہوں نے صرف 8 ماہ ہی فرائض سرانجام دیئےجس کے بعد جنرل فیض حمید کو ان کی جگہ ڈی جی آئی ایس آئی تعینات کردیا گیا۔ اپنے کیریئر کے دوران جنرل عاصم منیر 2 سال تک کور کمانڈر گوجرانوالہ رہے، بعدا زاں انہیں جی ایچ کیو راولپنڈی میں بطور کوارٹر ماسٹر جنرل فرائض سرانجام دینے کا موقع ملا۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے ارشد شریف قتل کے خلاف تین دسمبر کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دھرنا دینےکا اعلان کردیا ہے۔ خبررساں ادارے اے آروائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق پی ایف یو جے کے سیکرٹری رانامحمد عظیم نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ارشد شریف کے قتل کے خلاف 3 دسمبر کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دھرنا دیا جائے گا، اس موقع پر انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ کے صحافی بھی دھرنے میں شریک ہوں گے۔ سیکرٹری پی ایف یو جے رانا محمد عظیم نے ارشدشریف قتل کیس میں اے آروائی نیوز کے مالک سلمان اقبال کو پھنسانے کی کوشش کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس معاملے میں سلمان اقبال کو پھنسانے کی کوشش کررہی ہے، ایسی کوششوں کی مذمت کرتے ہیں۔ ترجمان پنجاب حکومت مسرت جمشید چیمہ نے پی ایف یو جے کے احتجاج کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کو شہید کیا گیا، ظلم کیا گیا، اگر کسی کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جاتا تو مزید شہادتیں نا ہوتیں، اس ایشو کو اٹھائے رکھنا ہے، جب تک ملزمان کو پھانسی پر لٹکایا نہیں جائے گا میں پی ایف یو جے کے شانہ بشانہ کھڑی رہوں گی۔
قبضہ تنازعہ کیس میں ن لیگی سابق رکن قومی اسمبلی چوہدری جعفر اقبال دیگر ملزمان سمیت گرفتار کرلیے گئےہیں، کراس مقدمے میں مدعی عبدالرشید قریشی بھی گرفتار ہوگئےہیں۔ نجی خبررساں ادارے سے وابستہ صحافی ثاقب بشیر کی جانب سے ٹویٹر پر جاری کردہ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کچہری میں ایڈیشنل سیشن جج طاہر عباس نے سرینگر ہائی وے پر واقع ٹرسٹ کی عمارت پر قبضہ سے متعلق تنازعہ کیس کی سماعت ہوئی۔ دوران سماعت ٹرسٹ کے ملکیتی دعویدار عبدالرشید قریشی کی جانب سے وکیل گلباز مشتاق پیش ہوئے،اس موقع پر عدالت نے سابق لیگی ایم این اے چوہدری جعفر اقبال سمیت دیگر دو ملزمان کی ضمانتیں خارج کردیں۔ ضمانتیں خارج ہونے پر پولیس نے چوہدری جعفر اقبال اور دیگر 2 ملزمان کو گرفتار کرلیا جبکہ کراس مقدمے میں ضمانت خارج ہونے پر مدعی عبدالرشید قریشی کو بھی پولیس نے کمرہ عدالت سے گرفتار کرلیا۔ اس حوالے سے جعفراقبال کے وکیل کا کہنا تھا کہ میڈیا رپورٹس اس حوالے سے غلط ہیں کہ میرا موکل ٹرسٹ کا“ملکیتی دعویدار”ہے۔بلڈنگ کی ملکیت کا کوئی تنازع نہیں۔جعفر اقبال بھی میرے موکل کی ملکیت کو تسلیم کرتے ہیں۔آج جعفر اقبال کی ضمانت قبضہ کی کوشش اور اقدام قتل کے الزام میں خارج ہوئی ہے۔جبکہ میرے موکل کو قبضہ عدالتی حکم پر ملا تھا۔ خیال رہے کہ ٹرسٹ عمارت پر مبینہ قبضے کےتنازعہ پر چوہدری جعفر اقبال اور عبدالرشید قریشی نے ایک دوسرے پر مقدمات درج کروارکھے تھے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں فیصل واوڈا کے کیس کی سماعت ہوئی، سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے سابق رہنما فیصل واوڈا کو کل امریکی شہریت ترک کرنے کے سرٹیفکیٹ کے ساتھ طلب کر لیا۔ عدالت نے سابق وزیر کو کل صبح 11 بجے طلب کیا۔ عدالت نے فیصل واوڈا کو امریکی شہریت ترک کرنےکا سرٹیفکیٹ ساتھ لانے کا حکم دیا اور انہیں دو آپشن دیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فیصل واوڈا اپنی غلطی تسلیم کریں اور63 (1) سی کے تحت نااہل ہو جائیں گے، بصورت دیگر عدالت 62 (1) ایف کے تحت کیس میں پیش رفت کرے گی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کے سامنے فیصل واوڈا کی تاحیات نااہلی کے لیے کافی مواد موجود ہے، فیصل واوڈا مان لیتے ہیں کہ جھوٹا بیان حلفی جمع کرایا تو انہیں ایک مدت کے لیے نااہل کیا جائے گا، اگر فیصل واوڈا نہیں مانتے تو وہ تاحیات نا اہل ہوں گے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ فیصل واوڈا سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوکرکہیں انہوں نے دہری شہریت کی تاریخ بدلی۔ ہمارے سامنے مواد ہے جس سے ثابت ہے فیصل واوڈا نے غلط بیان حلفی دیا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے پاس تو تاحیات نااہلی کی ڈکلیئریشن کا اختیار ہے۔ عدالت نے مزید ریمارکس میں کہا سپریم کورٹ کیوں اپنے سامنے موجود شواہد سے تاحیات نااہل نہیں کرسکتی؟ فیصل واوڈا نے ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے کئی جھوٹ بولے، مزید سماعت کل صبح تک ملتوی کردی گئی۔
ملک بھر میں نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے چرچے ہیں، اس حوالےسے وفاقی کابینہ کا اجلاس بھی جاری ہے،کیا آپ جانتے ہیں موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا شمار بھی طویل ترین فوجی کیریئر رکھنے والے جنرلوں میں ہوتا ہے، 82سالہ آرمی چیف کی فوجی خدمات کا دورانیہ 44 سالوں پر محیط ہے۔ انہوں نے فوج میں شمولیت1978 میں اختیارکی24اکتوبر 1980 کو کمیشن حاصل کیا، وہ 2190 دن یعنی چھ سال آرمی چیف رہے۔ انہوں نے 29نومبر 2016کو جنرل راحیل شریف کی جگہ سپہ سالار کا عہدہ سنھبالا، اپنے دور سپہ سالاری میں انہوں نے 5وزرأ اعظم ،نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، نگران جسٹس ریٹائرڈ ناصرالملک، عمران خان اور شہباز شریف کے ساتھ کام کیا، موجودہ صدر عارف علوی اور ممنون حسین مرحوم کا دور صدارت دیکھا۔ 28نومبر 2019 کو سپریم کورٹ نے ان کی مدت ملازمت میں توسیع کا حکم نامہ معطل کردیا اور کہا ایسا کوئی قانون موجود ہی نہیں ہے،تاہم عدالت نے اس حکومتی یقین دہانی پر کہ مدت ملازمت میں توسیع کے لیے پارلیمنٹ دستور سازی کرے گی۔ جنرل باجوہ کو 6 ماہ کی توسیع دی گئی، بعد ازاں قانون کی پارلیمانی منظوری کے بعد 28جنوری 2020 کو مدت ملازمت میں مزید تین سال کی توسیع کردی گئی،جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کا فوجی کیریئر بھی طویل یعنی 45 سال 7ماہ اور 9 دنوں پر محیط رہا۔ جنرل ضیا الحق یکم مارچ 1976ء کو 51 سال کی عمر میں آرمی چیف بنائے گئے تھے ۔ وہ 12سال 5ماہ 16دن آرمی چیف رہے۔ جنرل ایوب خان 43برس کی عمرمیں آرمی چیف بنائے گئے تھے، وہ کم عمرترین فوجی سربراہ رہے،میجرجنرل افتخار خان کی حادثاتی موت کے باعث بھی انہیں قبل از وقت ترقی ملی تھی۔ جنہیں پہلا مقامی کمانڈر انچیف نامزد کیاگیا تھا۔ ایوب خان ، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف ملک کے صدر رہے۔ آرمی چیف کی تقرری کیلئے سمری میں چھ سینئر ترین لیفٹیننٹ جنرلز کے نام شامل ہیں، لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر،لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا اور لیفٹیننٹ جنرل اظہرعباس کا نام سمری میں موجود، پینل میں لیفٹیننٹ جنرل نعمان محمود، لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور لیفٹیننٹ جنرل محمد عامر کا نام بھی شامل ہیں۔
سپریم کورٹ میں عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی،وزارت داخلہ نے عدالت میں اپنا جواب جمع کروادیا،پی ٹی آئی رہنماؤں کے ٹویٹس، ویڈیوپیغام اورکالزکا ریکارڈ بھی عدالت میں جمع کروادیئے گئے،وزارت داخلہ کی جانب سے کہا گیا ہے عمران خان نے اپنے تحریری جواب میں غلط بیانی کی۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کا آزادی مارچ شروع کرنے سے پہلے ہی ڈی چوک جانے کا منصوبہ تھا سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے جواب میں کہا گیا ہے کہ 24 مئی کو عمران خان نے قوم کے نام خصوصی پیغام جاری کیا، 25 مئی کی صبح پی ٹی آئی کے آفیشل اکاؤنٹ سے ڈی چوک میں حقیقی آزادی مارچ میں شرکت کی دعوت دی گئی اور سہ پہر عمران خان نے کنٹینر سے کی گئی اپنی دو تقاریر میں ڈی چوک جانے کے عزم کا اظہار کیا۔ جواب میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کا موبائل فون جیمرز لگائے جانے کا دعویٰ بھی حقائق کے منافی ہے، شواہد موجود ہیں پی ٹی آئی مارچ کے دوران کنٹینر سے مسلسل سوشل میڈیا استعمال کیا گیا،وزارت داخلہ نے تحریری جواب میں کہا کنٹینر سے پی ٹی آئی رہنماؤں نے مختلف ٹی وی چینلز کو انٹرویو دیئے جو جیمرز کی صورت میں ناممکن تھا،سپریم کورٹ کے حکمنامہ کے بعد فواد چوہدری نے بھی ٹویٹ کے ذریعے کارکنان کو ڈی چوک پہنچنے کی ترغیب دی۔ سپریم کورٹ کے حکمنامہ بارے میں بھی پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کو علم تھا، انھوں نے عدالتی حکم بارے سپریم کورٹ سے غلط بیانی کی، عمران خان اور پی ٹی آئی کا عمل ان کے قول سے واضح تضاد رکھتا ہے، وزارت داخلہ نے عدالت سے استدعا کی کہ بوجھ کر عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرنے پر عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔
سپریم کورٹ نے نیب کیس میں گرفتاری سے قبل آگاہ کرنے کا لاہور ہائیکورٹ کا حکم کالعدم قرار دے دیا،جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے حمزہ شہباز کو گرفتاری سے قبل آگاہ کرنے کے لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے خلاف نیب کی درخواست پر سماعت کی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ حمزہ شہباز کو گرفتاری سے 10 دن قبل آگاہ کرنے کا حکم عدالتی نظیر کے طور پر استعمال نہ کیا جائے، سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا حکم کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ گرفتاری سے قبل ملزم کو آگاہ کرنے کی قانون میں کوئی شرط نہیں ہے، گرفتاری سے قبل آگاہ کرنے کا لاہور ہائیکورٹ کا حکم خلاف قانون ہے۔ سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا حکم غیر موثر ہونے کی بنیاد پر کیس نمٹا دیا،لاہور ہائیکورٹ نے حمزہ شہباز کو صاف پانی،رمضان شوگر ملز اور آمد سے زائد اثاثہ جات کیس میں گرفتاری سے قبل آگاہ کرنے کا حکم دیا تھا۔
عمران خان کے بیان کے بعد حکومت نے اہم تعیناتیوں کے لیے متبادل آپشنز پر غور شروع کر دیا۔ صدر کی طرف سے وزیراعظم کی ایڈوائس روکنے کی صورت میں حکومت کا پلان بی سامنے آ گیا ہے، جس کے مطابق حکومت سیکرٹری کابینہ سے رولز آف بزنس میں ترمیم کا نوٹیفکیشن جاری کروائے گی۔ اس طرح چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف، آرمی چیف کی تقرری کی سفارش کو فہرست سے نکال دیا جائے گا۔ سیکریٹری کابینہ کے نوٹیفکیشن کے بعد وزیراعظم آفس صدر کو بھیجی گئی سمری واپس لے لے گا، ایوان صدر کو بھیجی گئی سمری واپس لے کر وزیراعظم خود تقرریوں کی منظوری دیں گے۔ حکومت کابینہ اجلاس میں رولز آف بزنس 1973 کے رول 15- اے میں ترمیم کی منظوری لے سکتی ہے۔ کابینہ سے منظوری لئے بغیر بھی وزیراعظم رول 57 کے تحت رولز میں از خود نرمی کا اختیار رکھتے ہیں، کابینہ سے رولز میں تبدیلی کی منظوری لی جائے یا وزیراعظم خود رولز میں نرمی کریں۔ وزیراعظم سارا معاملہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں رکھیں گے جس پر بحث کے بعد حکومتی کابینہ فیصلہ کرے گی۔ وزیر خزانہ بھی کہہ چکے ہیں کہ چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کا تقرر 27 سے پہلے ہوجائے گا جبکہ دونوں تقرریاں دو مختلف دن بھی ہو سکتی ہیں امید ہے کہ 28 نومبر تک سارا پراسس مکمل ہو جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کی 27 نومبر کو ریٹائرمنٹ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ اس کا حل بھی ہمارے پاس موجود ہے۔
اسلام مخالف مواد کی اشاعت پر پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے گیارہویں جماعت کی سوشیالوجی پر پابندی لگا دی گیارہویں جماعت کی کتاب میں متنازع مواد شائع ہونے کا انکشاف ہونے پر پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے ”آئینہ عمرانیات“ پر پابندی عائد کر دی۔ ماہرین تعلیم کی جانب سے اعتراضات اُٹھائے جانے کے بعد ہوش آیا تو پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ اینڈ کریکولم اتھارٹی نے متنازع مواد والی کتاب پبلش کرنے پر نوٹس لیا۔ کتاب کے صفحہ 242 پر اسلام کو معاشرتی تبدیلی میں رکاوٹ قرار دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی پردے کو بھی معاشرتی تبدیلی میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عورتوں کو مردوں کے ساتھ چلنا ہوتا ہے، اس لئے یہ پردہ بھی ایک رکاوٹ ہے۔ کتاب کے مصنفین پروفیسر عبدالغفور رفیقی اور پروفیسر مس فرحت ہیں۔ جبکہ آئینہ عمرانیات نامی کتاب خالد بک ڈپو اردو بازار نے شائع کی تھی۔ ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں متعدد کتابیں بغیر اجازت کے پرنٹ کی جا رہی ہیں، ٹیکسٹ بک بورڈ بغیر اجازت کتابوں کی پرنٹنگ روکنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ ماہرین تعلیم کا مزید کہنا ہے کہ کتابوں پر اعتراضات کیلئے اعلان کردہ شکایت سیل بھی قائم نہیں کیا جا رہا۔

Back
Top