گورنر کی جانب سے پرویز الٰہی کو وزیر اعلی کے عہدے سے ہٹانے کا معاملہ،، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کیجانب سے دوبارہ بینچ کی تشکیل کے بعد وکلاء کمرہ عدالت میں پہنچ گئے،چوہدری پرویز الہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر،عامر سعید راں کمرہ ،ایڈوکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس بھی کمرہ عدالت میں موجود
دلائل دیتے ہوئے پرویز الٰہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ وزیر اعلی کے انتخاب مین چوہدری پرویز الہی186ووٹ لے کر وزیر اعلی منتخب ہوئےاس وقت کے ڈپٹی اسپیکر نے چوہدری شجاعت حسین کے خط کی روشنی میں ق لیگ کے ممبران کے ووٹ تصور نہیں کیے معاملہ سپریم کورٹ گیا جہاں سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کا فیصلہ کالعدم قرار دیا
بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ وزیر اعلی پرویز الہی ہوں گے،،وزیر اعلی کو تحریک عدم اعتماد کے زریعے ہٹایا جا سکتا ہے ۔20 اراکین اسمبلی کے دستخط کے ساتھ تحریک جمع ہو سکتی ہے۔ چیف منسٹر کو اسمبلی منتخب کرتی ہے، چیف منسٹر کو تعنیات نہیں کیا جاتا ۔
علی ظفر ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ دوسرا طریقہ گورنر وزیر اعلی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہیں،آئیں کے آرٹیکل 130 کے سب سیکشن 7 کے اعتماد کو ووٹ لینے کہ سکتا ہے ،اگر گورنر تصور کرے یہ وزیر اعلی اکثریت کھو چکے ہیں تو اعتماد کا ووٹ کےلیے کہہ سکتے ہیں گورنر کے پاس اعتماد کا ووٹ لینے کےلیے ٹھوس وجوہات ہونی چاہیے
انہوں نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ اگر گورنر سمجھے کہ وزیر اعلی اکثریت کھو چکے ہیں تو وہ عدم اعتماد کے ووٹ کا کہ سکتے ہیں ۔ عدم اعتماد کے لیے الگ سے سیشن بلایا جاتا ہے ۔
عدالت نے استفسار کیا کہ رولز کے مطابق کیا اسی دن ووٹنگ نہیں ہو سکتی ۔ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اسپیکر کو اختیار ہے وہ ایک ہی دن نوٹس اور ووٹنگ کرا سکتا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ گورنر عدم اعتماد کے لیے دن اور وقت کا تعین نہیں کر سکتا،جب عدم اعتماد کے لیے تین سے سات دن کا وقت ہے تو اعتماد کے ووٹ کے لیے ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ۔ عدم اعتماد کے لیے بھی طریقہ کار موجود ہے اراکین کو نوٹس دیتے ہیں
انہوں نے کہا کہ رولز کے مطابق کے ووٹ کا کہنے کےلیے مناسب وقت دینا ہونا ہے ۔اگر سپیکر سمجھے تمام ممبران پورے ہیں تو دو روز میں ووٹنگ ہوسکتی ہے، ۔مگر اگر سپیکر سمجھے کہ تمام ممبران کی شرکت کےلیے وقت دینا ضروری ہے تو مناسب وقت دیا جانا چاہیے۔
علی ظفر کا کہنا تھا کہ گورنر نے اعتماد کے ووٹ کےلیے اسپیکر کو خط لکھا,وزیر اعلی نے اعتماد کا ووٹ لینے سے انکار نہیں ،اجلاس اسپیکر نے بلانا ہے وزیر اعلی خود سیشن نہیں بلا سکتا ،اگر اجلاس ہوا ہی نہیں تو پھر گورنر نے خود سے کیسے فیصلہ کرلیا,اجلاس بلانے کے اختیارات کے پاس اسپیکر کے پاس ہیں
یہ تو ایسے ہی کہ دو افراد کے درمیان لڑائی کے نتیجے میں سزا تیسرے کو دے دی جائے بیرسٹر علی ظفر
ضروری ہے کہ سپیکر ووٹنگ کے لیے دن مقرر کرے اور وزیر اعلی کہے کہ اعتماد کا ووٹ نہیں لیتا تو گورنر کوئی آرڈر پاس کر سکتے ہیں ۔گورنر نے اعتماد کے ووٹ کےلیے اسپیکر کو خط لکھا ۔وزیر اعلی نے اعتماد کا ووٹ لینے سے انکار نہیں کیا ۔بیرسٹر علی ظفر
اجلاس اسپیکر نے بلانا ہے وزیر اعلی خود سیشن نہیں بلا سکتا،اجلاس ہوا ہی نہیں تو پھر گورنر نے خود سے کیسے فیصلہ کرلیا،اجلاس بلانے کے اختیارات اسپیکر کے پاس ہیں،یہ تو ایسے ہی کہ دو افراد کے درمیان لڑائی کے نتیجے میں سزا تیسرے کو دے دی جائے ۔بیرسٹر علی ظفر
اگر گورنر نے اعتماد کے ووٹ کا کہا ہے تو اس پر عملدرآمد تو ہونا چاہیے ۔ جسٹس عابد عزیز شیخ
رولز کے مطابق گورنر کو اعتماد کے ووٹ کے لیے تاریخ مقرر کرنے کا اختیار ہے،مگر وہ تاریخ کتنے دن کی ہوگی وہ الگ بحث ہے جسٹس عابد عزیزشیخ
رولز کے تحت کرسکتا ہے مگر آئیں کے تحت نہیں اجلاس ہوتا تو وزیر اعلی اعتماد کا ووٹ لیتے بیرسٹر علی ظفر
وزیر اعلی نے ہوا میں تو اعتماد کا ووٹ نہیں لینا ۔گورنر کو اختیار نہیں ہے کہ وہ وزیر اعلی کو ہٹائے بیرسٹر علی ظفر
گورنر اعتماد کے ووٹ کا کہ سکتا ہے یہ تو رولز میں ہے ۔ جسٹس عابد عزیز
شیخ عدم اعتماد کے ووٹ کے لیے اسمبلی کا پروسیجز بھی ہے ۔ اس پورے پراسس کے لیے مناسب وقت دینا چاہیے ۔ اگر کوئی سیشن ہی نہیں ہے تو وزیر اعلی کہاں ووٹ لے گا ۔ علی ظفر
میڈیا پر خبر آئی کہ ایک وزیر کی پرویز الہی کے ساتھ تکرار ہوئی اس نے استعفی دے دیا ۔ کہا گیا عمران خان نے بیان دیا کہ پرویز الٰہی کی کابینہ میں ایک اور وزیر کا اضافہ ہوا اور انہیں پتا ہی نہیں ان بنیادوں پر عدم اعتماد اور اعتماد کے ووٹ کا کہا گیا ۔ علی ظفر
انکو یہ نظر نہیں آتا پرویز الہی پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہیں یہ بیان بھی میڈیا پر آیا ۔ علی ظفر
یہ تو منحصر ہے گورنر صاحب ٹی وی کون سا دیکھتے ہیں ۔ جسٹس عاصم حفیظ کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہہ سماعت جاری
رولز میں ایسا کچھ نہیں، کہ جاری اجلاس میں اعتماد کا ووٹ کےلیے نہیں کہہ سکتا : جسٹس عابد عزیز شیخ
گورنر کا اختیار ہے کہ وہ جب مرضی ووٹ کا کہے ،اگر آپ پاس کےاکثریت ہے تو پھر ڈر کس بات کا ہے،یہ سارا بحران ختم ہوسکتا ہے فیصلہ تو اسمبلی نے ہی کرنا ہے : عدالت
اگر اسپیکر کہہ دے کہ گورنر نے ووٹنگ کا جو وقت دیا ہے وہ مناسب نہیں ہے اور ووٹنگ کےلیے مناسب وقت دے دے پھر مسئلہ حل ہوجاتا ہے ،عدالت
یہ اسپیکر ہی بتا سکتا ہے میرا مسئلہ یہ ہے کہ مجھے کس بات کی سزا دی گئی بیرسٹر علی ظفر
کیا آپ تحریری طور پر یقین دہانی کروا سکتے ہیں کہ عدالت نوٹیفکیشن معطل کرے تو اسمبلیاں تحلیل نہیں کرین گے، عدالت
کیا آپ تحریری طور پر یقین دہانی کروا سکتے ہیں کہ عدالت گورنر کا نوٹیفکیشن معطل کرے تو اسمبلیاں تحلیل نہیں کریں گے، عدالت کا سوال