لگتا ہے آپ کو لمبے کمنٹ پڑھنے میں کوئی مسلہ ہے،
میں نے آپ کو سود حرام کی رٹ سے بھی بہتر رٹ کا مشورہ دیا ہے، آپ کے مطلب کی ہی بات کی ہے
?
آپ کسی چھوٹے یا پرانے موبائل فون سے سیاست ڈاٹ پی کے استعمال کرتے ہیں؟
آپ کو ایک نصیحت ہے کہ اس فورم پر مشورے دینے سے گریز کیا کریں ، بلکے ایسی دلیل دیا کریں جس کا کوئی توڑ نہ کر سکے
میں نے آپ سے پہلے بھی عرض کی تھی کہ اگر آپ سودی نظام کے اتنے بڑے حمایتی ہیں تو اس نظام کے فوائد پر کچھ ارشاد فرمائیں . . . . مختصر سی بات تھی نا معلوم آپ کو سمجھ میں کیوں نہ آئی
اس کے علاوہ آپ کو میں نے اپنے اولین کمنٹ میں بتا دیا تھا کہ آپ جن باتوں کا ذکر فرما رہے ہیں ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں
?
ہاں آپ کو کیسے پتا چلا . . . .!؟
ہاں آپ کو کیسے پتا چلا . . . .!؟
آپ نے یہ نوٹس نہیں کیا کہ میں سود کا حمایتی نہیں ہوں
مجھے سود کی حمایت میں ایک بھی دلیل دینے کی ضرورت نہیں، میں نے تو کوئی مطالبہ نہیں کیا ہر قرضے کے لین دین میں سود کی کوئی شرح لازمی ہونی چاہئیے، جو صفر سے زیادہ ہو
جو قرض لے رہا ہو وہ حالات کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے ، اس لئے اس کا (بظاہر) راضی ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا . . . . . آپ کا یہی اصول لاگو کر دیا جائے تو جسم فروشی اور دیگر کئی استحصالی اعمال جائز ہو جاتے ہیں
میرا اصل نقطہ کاروباری آزادی کا ہے، اگر زید اور بکر سودی لین دین کرنا چاہیں تو کر لیں، اگر بلا سود کاروبار کرنا چاہیں تو سو بسم الله، جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی
کینسر زد جسم کو اس کے حال میں چھوڑ دیں تو وہ مزید بگڑے گا ہی . . . . . خودبخود درست نہیں ہو گایہ تو آپ کا مطالبہ ہے کہ ہر قرضے کے لین دین میں سود لازمی ممنوعہ قرار دیا جاۓ
کاروباری آزادی سے متعلق میرا دوسرا نقطہ نظریات کے مقابلے کا ہے، اس نظریات کے مقابلے میں دونوں طریقوں کو پھلنے پھولنے دیں، اگر سودی طریقہ موثر ہو گا، معیشت کیلئے بہتر ہوگا تو بلا سود لین دین پر حاوی ہو جاۓ گا، اور اگر بلاسود لین دین اتنا طاقتور نظریہ ہے تو سودی نظام کے خود بخود پرخچے اڑا دے گا، آپ کو کچھ ممنوعہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی
اوہ اچھامیں نے صرف اندازہ لگایا ہے، کیونکہ میرے تین تین صفحوں والے کمنٹ کے بعد آپ کا جواب ایک یا دو جملے کا ہوتا ہے، جس میں مزید صفحے بھرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے
پہلی نظر میں آپ کی یہ باتیں ایک دوسرے کے الٹ نظر آتی ہیں کہ آپ سود کے حمایتی نہیں لیکن شرح منافع (سود) کے حمایتی ہیں
جو قرض لے رہا ہو وہ حالات کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے ، اس لئے اس کا (بظاہر) راضی ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا .
میرے خیال میں سودی نظام ایک کاروبار ہے، اور غربت اور مجبوری کے تحت قرض لینے والے کاروبار کی پوزیشن میں نہیں کہلاۓ جا سکتے، ان کا تحفظ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، اور اس لیے میں فلاحی ریاست کا حامی ہوں
چاہے جتنے بھی امیر کو سود پر قرض دیں ، اس کا اثر باقیوں پر بھی پڑنا ہے کیونکہ اس نے کاروبار کر کے دوسروں سے ہی پیسے کمانے ہیں . اس لئے اس کے لئے سود کی ادائیگی اصل میں صارفین پر بوجھ ہےغریب کی کفالت اور اسے غربت کی لکیر سے اوپر لانا ریاست کا کام ہے، جب وہ اوپر آجاۓ تو پھر متوسط طبقے کے باشندے کی حیثیت سے چلتی معیشت کا حصّہ بن سکتا ہے، چاہے نوکری کرے یا سودی نظام سے قرض لے کر کوئی کاروبار
میں اس کا قائل نہیں کہ چونکہ نواز شریف اور زرداری جیسے ملک کا خون چوس رہے ہیں اور ہڈیوں سے گوشت نوچ رہے ہیں، تو غریب کا قرض تھوڑا ہلکا کرنے کیلئے سود کو ممنوعہ کر دو، آپ کینسر کا علاج نہیں کررہے، کینسر کے مریض کو ڈسپرین دے کر اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ ہم نے غریب کا بہت بڑا مسلہ حل کر دیا
© Copyrights 2008 - 2025 Siasat.pk - All Rights Reserved. Privacy Policy | Disclaimer|