سورة الروم (30) آیات (30)
Surat-ur-Room (30) Verses (30)
فَاَقِمۡ وَجۡہَکَ لِلدِّیۡنِ حَنِیۡفًا ؕ فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا ؕ لَا تَبۡدِیۡلَ لِخَلۡقِ اللّٰہِ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ ٭ۙ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿٭ۙ۳۰
So direct your face toward the religion, inclining to truth. [Adhere to] the fitrah of Allah upon which He has created [all] people. No change should there be in the creation of Allah . That is the correct religion, but most of the people do not know.
پس آپ یک سو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کر دیں اللہ تعالٰی کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے ، اللہ تعالٰی کے بنائے کو بدلنا نہیں یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے ۔
سلام دین فطرت ہے
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلی الله عليه وسلم : ما من مولود إلا يولد على الفطرة، فأبواه يهودانه وينصرانه ويمجسانه كما تنتج البهيمة بهيمة جمعاء هل تحسون فيها من جدعاء ، ثم يقول أبو هريرة واقرؤوا إن شئتم ** فطرة الله التي فطر الناس عليها لا تبديل لخلق الله **(بخاری و مسلم )
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ہر بچہ (اسلامی) فطرت پر ہی پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی، یا مجوسی بنا لیتے ہیں جس طرح جانور صحیح سالم عضو والا بچہ جنتا ہے، کیا تم اس میں سے کوئی عضو کٹا ہوا دیکھتے ہو؟ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یہ آیت آخر تک تلاوت کرتےہیں: اللہ تعالیٰ کی فطرت وہ ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیاہے۔
مختصر تشریح
فطرت سے کیا مراد ہے ؟ اس سلسلہ میں شارحین حدیث فرماتے ہیں کہ فطرت سے مراد دین اسلام ہے ،جیسا کہ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
وأشهر الأقوال أن المراد بالفطرة الإسلام قال بن عبد البر: وهو المعروف عند عامة السلف وأجمع أهل العلم بالتأويل على أن المراد بقوله تعالى فطرة الله التي فطر الناس عليها الإسلام (فتح الباری : ۳؍۲۴۸)
’’مشہور قول یہ ہے کہ فطرت سے مراد اسلام ہے ، علامہ ابن عبد البر فرماتے ہیں کہ یہی بات تمام سلف کے نزدیک معروف ہے اور مفسرین کا اس پر اجماع ہے کہ اللہ کے قول فطرۃ اللہ التی فطرالناس علیہا میں فطرت سے مراد اسلام ہے ‘‘
فطرت کی اس تعریف وتشریح سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ہر انسان اسلامی فطرت پر پیدا ہوتا ہے یعنی خالق حقیقی پر اس کا ایمان ہوتا ہے اور اس کے فکر واعتقاد میں شرک وکفر نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ، لیکن اس پر رفتہ رفتہ اس ماحول کا اثر ہوتا ہے جس میں اس کی پرورش ہوتی ہے اور اس خارجی اثر کی وجہ سے اس کی فطری اور طبعی فکر واعتقاد میں تبدیلی ہوتی ہے اور پھر وہ ماحول کے مطابق کافر ، مشرک ، یہودی ، نصرانی وغیرہ بن جاتا ہے۔گویا اگر یہ فرض کیا جائے کہ ایک بچہ پیدا ہو اور اس کی نشو ونما تنہاء بالکل اکیلے میں ہو،کسی سے اس کا ملنا جلنا نہ ہو، اور اس پر کفر وشرک کی طرف مائل کرنے والے ماحول کا کوئی اثر بھی نہ پڑے تووہ بچہ اپنی فطرت پر برقرار رہے گا اور خدا شناس مؤمن خالص ہوگا۔
فوائد حدیث
(۱) اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ’’ توحید‘‘ انسان کی فطرت میں ودیعت کی گئی ہے ، گرچہ کہ دنیاوی احوال واثرات اس ودیعت کردہ طبعی جوہر پر غالب آجاتے ہیں اور اس فطری جوہر کے تقاضوں سے دور کردیتے ہیں۔
(۲) مذہب ودین انسان کی بنیادی ضرورت ہے ، اور انسانی زندگی سے اس کا گہرا تعلق ہے کہ انسان دیگر چیزوں سے بعد میں متعارف اور وابستہ ہوتا ، لیکن اس کی تخلیق مذہب سے وابستگی کے ساتھ ہوتی ہے ، مذہب سے انسانی زندگی کے گہرے تعلق کی یہ بھی ایک دلیل ہے کہ انسان جب کبھی بھی سخت ترین مصائب اوربرے احوال سے ہمکنار ہوتا ہے تو عبادت وریاضت کی طرف متوجہ ہوتا ہے او ر اس راستہ سے اپنی مصیبتوں کے خاتمہ کی راہ تلاش کرتاہے۔
(۳) مسلمانوں کی اولا د اگر بالغ ہونے سے پہلے مرجائیں تو وہ یقینا جنتی ہیں ، لیکن مشرکین کی اولاد کا کیا ہوگا؟ اس حدیث سے اس جانب اشارہ ملتا ہے کہ وہ نجات پائیں گے کیونکہ بالغ ہونے سے پہلے وہ مکلف نہیں تھے اور پیدائشی طور پر وہ دین فطرت پر تھے۔اسی لئے بہت سے علماء نے اسی رائے کو اختیار کیا ہے ، جبکہ بہت سے علماء (جن میں امام اعظم حضرت امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ بھی ہیں)اس بات کے قائل ہیں کہ ان کے انجام کے بارے میں کچھ نہ کہا جائے ،بلکہ توقف کیا جائے ، یہ حضرات اس بات کے قائل اس لئے ہیں کہ جہاں اس حدیث سے نجات کا اشارہ ملتا ہے وہیں بعض روایتوں میں یہ بھی مذکور ہے کہ وہ اپنے والدین کے تابع ہوں گے۔(مرقاۃ المفاتیح: ۱؍۱۸۵)
مشرکین کی نابالغ اولاد کے انجام کے بارے یہ اختلاف صرف اخروی نجات کی حدتک ہے، رہی بات دنیاکی تو بالاتفاق اس میں ان پر مشرکین کے احکام ہی جاری ہوں گے ، مثلا : ان کو موت کے بعد مسلمانوں کے قبرستان کے بجائے کفار ہی قبرستان میں دفن کیا جائے گا اور ان پر نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔ اس کی دلیل وہ روایت ہے جس میں رسول اللہ ﷺ سے یہ سوال کیا گیا کہ اگر مسلمانوں کے لشکر نے کفار پر یلغار کیا اور مشرکین کی اولاد کو قید کیا تو ان کا کیا حکم ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ ان کو ان کے آباء ہی کی طرح غلام بنایا جائے گا(مسلم : ۱۷۴۵)