کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلہ مسجد ہوں نے تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہرہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
شاید ویلے کی تحریر "دو سعد" آپ کی نگاہ سے گزری ہو جس میں اوس وخزرج کی سالوں چلتی دشمنی کی آگ یوں ختم ہوئی کہ دو قبیلوں کے سردار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں حفاظت پر مامور ہوئے، یہی نہیں ایک اور تحریر "قبلہ" جو یہاں کی انتظامیہ کو ہضم نہ ہوسکی میں ذکر تھا کہ اللہ کا قبلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، نقلی دلائل تو ویلے نے پیش کیے تھے جس میں ایک شہرہ آفاق تفسیر قرآن روح المعانی تھی جبکہ عقلی دلائل اگر کوئی تقاضا کرتا توکچھ کہنے کی جسارت ویلا بھی کرتا کہ ہمارے لیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام حرف ندا کے ساتھ پیش کرنا تو منع کہ وہ ہمارے روبرو نہیں مگر اللہ تو مسبب الاسباب ہے اس کے لیے یہ پابندیاں کیوں؟
کسی چیز کو یا تو دور سے دیکھا جائے یا پھر تکبر سے، تب اس شے کی قدرو منزلت کا ادراک نہیں رہتا، حالت زار یہ ہے کہ مسلمانوں کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قدرومنزلت ثابت کرنےکے لیے یہ جوکھم اٹھانا پڑیں گے؟
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا، وہ جو نہ ہو تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی، جان ہے تو جہان ہے
عشاق کبھی بھی شش و پنج میں مبتلا نہیں ہوتے، عشق تو خود ایک دلیل ہے، یہی عشق ہی تھا جس نے جولیا ہل کو کئی دنوں ایک درخت کو کٹنے سے بچانے کی خاطر اس کی آغوش میں سلائے رکھا، ایک درخت کے کٹنے پر خود کٹ مرنے پر پرعزم اہل مغرب ہمارے لیے قابل ستائش اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی حفاظت میں مبتلا میرے جیسے ویلے جنونی و پاگل و خبطی و جہادی؟
مغرب کے اصولو ں کو بھی کیا کہنے، ایک گلوگار ڈکسی چکس صرف اتنا کہنے پر معتوب کہ وہ شرمندہ ہے بش بھی ٹیکساس سے ہے اور ہم سب سے مکرم و معظم و محتشم ہستی کے متلعق زبانیں دراز کرنے پر آزاد؟
یہی نہیں برطانیہ میں حال ہی میں قانون پیش ہوا کہ 'برٹش ویلیوز' کے خلاف بات کرنے پر آپ قانون کی گرفت میں آ سکتے ہیں، ان ویلیوز میں ایک جمہوریت بھی ہے یعنی جمہوریت کے خلاف زبانیں گنگ اور ناموس رسالت لا وارث؟
ریمنڈ ڈیوس ہی کے معاملے کو دیکھ لیجیے، قانون دیت کی دھجیاں بکھر گئیں، غزوہ خندق کی موقع پر ایک مشرک کی لاش خندق کے اس پر آ گری تو اس کے لواحقین نے بھاری قیمت ادا کرنی چاہی تاکہ وہ اس کی آخری رسومات ادا کر سکیں، مگر رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی قیمت کو گوارا نہ کیا ، اس وقت کے حالات بھی سامنے رکھیے جب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکم اقدس پر پتھر باندھے ہوئے تھے
چلیں کاغذوں میں ہی سہی، آ پ تو اسلامی جمہوریہ ہیں اور بھارت سیکولر، مگر وہاں کے حالات پر بھی نظر ہوکہ افضل گرو کو صرف اس لیے پھانسی دی گئی کہ قانون نہیں بلکہ 'لوگ' یہی چاہتے تھے اور بلونت سنگھ جس نے ۱۹۹۵ میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ بینت سنگھ کو قتل کیا اس کی پھانسی کی سزا پر آج تک عمل نہ ہو سکا کیونکہ سکھ برادری نا صرف بلونت سنگھ کے ساتھ ہے بلکہ اسے سکھوں کے اعلیٰ اعزاز سے بھی نوازا، ہاں یہاں 'انسانیت' نواز کچھ زیادہ ہی ہیں ؟
داستان طویل اور نشست مختصر، عامر بن اکوع رضی اللہ عنہ یاد آئے کہ خیبر کے راستے میں وہ خوش الحان جب محو ترنم تھے تو آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اشعار سے خوش ہو کراس کے گناہ بخش دینے کا عندیہ دیا، اگلے دن معرکہ ہوا اور آپ شہید ہوئے تو مزاج آشنا یار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یارسول اللہ، آپ عامر کو چند دن اور زندہ رہنے دیتے ، یہ واقعہ صحیح بخاری میں اور اس کی تفصیل بخاری کی شرح میں موجود، عرض پھر یہی ہے کہ یہ ممتاز قادری اور حوروں کے درمیان 'پھڈا' ڈالنے والی بات نہیں بلکہ ویلا تو عاشق صادق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سننے کا خواہاں ہے، اگر 'پھڈے' ڈالنے کا الزام ویلے پر لگانا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت کیا کہیں گے جنہوں نے معراج کے دوران حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا گھر دیکھا اور فرمایا کہ عمر کی غیرت کی وجہ سے گھرمیں نہ جھانکا، واپسی پر چاہیے تو یہ تھا معاذ اللہ عمر کو گھر پہنچانے کا انتظام کرتے
کبھی دیار حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نصیب لے جائے تو باب السلام سے باب البقیع میں دائیں جانب دل آویز خطاطی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کندہ ہیں، ان میں ایک ہے عروہ وثقیٰ یعنی سب سے مضبوط رسی، بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اللہ کی رسی ہیں اور امت مسلمہ کبھی اس مخمصے کا شکار نہیں رہی، اللہ ہمیں ثابت قدم رہنے کی تو فیق عطا فرمائے
جان ہے عشق مصطفیٰ اور فزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزا، ناز دوا اٹھائے کیوں
علم کے بغیر عشق بے معنی ہے سَچّا عشق سُچّے علم کی نیوں پر استوار ہو کر ہی رگِ جاں بنتا ہے ورنہ اُس کا اِس طرح کا عملی اظہار فساد فی الارض اور باعثِ رسوائیِ معشوق ہے، آپکے عشق اور ممتاز کے عشق میں فرق ہے اور اسی جانب پچھلی گذارش میں اشارہ تھا
آپ نے اس پوسٹ میں جو کہا اس کے کسی ایک لفظ سے بھی تعرض نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ممتاز کا مقدمہ ہر لحاظ سے ناقابلِ دفاع ہے۔ اس تاکید کے باوجود آپ کو اصرار ہے تو بتائیے، پھر کچھ عرض کرنے کی جسارت کروں
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلہ مسجد ہوں نے تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہرہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
شاید ویلے کی تحریر "دو سعد" آپ کی نگاہ سے گزری ہو جس میں اوس وخزرج کی سالوں چلتی دشمنی کی آگ یوں ختم ہوئی کہ دو قبیلوں کے سردار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں حفاظت پر مامور ہوئے، یہی نہیں ایک اور تحریر "قبلہ" جو یہاں کی انتظامیہ کو ہضم نہ ہوسکی میں ذکر تھا کہ اللہ کا قبلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، نقلی دلائل تو ویلے نے پیش کیے تھے جس میں ایک شہرہ آفاق تفسیر قرآن روح المعانی تھی جبکہ عقلی دلائل اگر کوئی تقاضا کرتا توکچھ کہنے کی جسارت ویلا بھی کرتا کہ ہمارے لیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام حرف ندا کے ساتھ پیش کرنا تو منع کہ وہ ہمارے روبرو نہیں مگر اللہ تو مسبب الاسباب ہے اس کے لیے یہ پابندیاں کیوں؟
کسی چیز کو یا تو دور سے دیکھا جائے یا پھر تکبر سے، تب اس شے کی قدرو منزلت کا ادراک نہیں رہتا، حالت زار یہ ہے کہ مسلمانوں کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قدرومنزلت ثابت کرنےکے لیے یہ جوکھم اٹھانا پڑیں گے؟
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا، وہ جو نہ ہو تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی، جان ہے تو جہان ہے
عشاق کبھی بھی شش و پنج میں مبتلا نہیں ہوتے، عشق تو خود ایک دلیل ہے، یہی عشق ہی تھا جس نے جولیا ہل کو کئی دنوں ایک درخت کو کٹنے سے بچانے کی خاطر اس کی آغوش میں سلائے رکھا، ایک درخت کے کٹنے پر خود کٹ مرنے پر پرعزم اہل مغرب ہمارے لیے قابل ستائش اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی حفاظت میں مبتلا میرے جیسے ویلے جنونی و پاگل و خبطی و جہادی؟
مغرب کے اصولو ں کو بھی کیا کہنے، ایک گلوگار ڈکسی چکس صرف اتنا کہنے پر معتوب کہ وہ شرمندہ ہے بش بھی ٹیکساس سے ہے اور ہم سب سے مکرم و معظم و محتشم ہستی کے متلعق زبانیں دراز کرنے پر آزاد؟
یہی نہیں برطانیہ میں حال ہی میں قانون پیش ہوا کہ 'برٹش ویلیوز' کے خلاف بات کرنے پر آپ قانون کی گرفت میں آ سکتے ہیں، ان ویلیوز میں ایک جمہوریت بھی ہے یعنی جمہوریت کے خلاف زبانیں گنگ اور ناموس رسالت لا وارث؟
ریمنڈ ڈیوس ہی کے معاملے کو دیکھ لیجیے، قانون دیت کی دھجیاں بکھر گئیں، غزوہ خندق کی موقع پر ایک مشرک کی لاش خندق کے اس پر آ گری تو اس کے لواحقین نے بھاری قیمت ادا کرنی چاہی تاکہ وہ اس کی آخری رسومات ادا کر سکیں، مگر رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی قیمت کو گوارا نہ کیا ، اس وقت کے حالات بھی سامنے رکھیے جب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکم اقدس پر پتھر باندھے ہوئے تھے
چلیں کاغذوں میں ہی سہی، آ پ تو اسلامی جمہوریہ ہیں اور بھارت سیکولر، مگر وہاں کے حالات پر بھی نظر ہوکہ افضل گرو کو صرف اس لیے پھانسی دی گئی کہ قانون نہیں بلکہ 'لوگ' یہی چاہتے تھے اور بلونت سنگھ جس نے ۱۹۹۵ میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ بینت سنگھ کو قتل کیا اس کی پھانسی کی سزا پر آج تک عمل نہ ہو سکا کیونکہ سکھ برادری نا صرف بلونت سنگھ کے ساتھ ہے بلکہ اسے سکھوں کے اعلیٰ اعزاز سے بھی نوازا، ہاں یہاں 'انسانیت' نواز کچھ زیادہ ہی ہیں ؟
داستان طویل اور نشست مختصر، عامر بن اکوع رضی اللہ عنہ یاد آئے کہ خیبر کے راستے میں وہ خوش الحان جب محو ترنم تھے تو آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اشعار سے خوش ہو کراس کے گناہ بخش دینے کا عندیہ دیا، اگلے دن معرکہ ہوا اور آپ شہید ہوئے تو مزاج آشنا یار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یارسول اللہ، آپ عامر کو چند دن اور زندہ رہنے دیتے ، یہ واقعہ صحیح بخاری میں اور اس کی تفصیل بخاری کی شرح میں موجود، عرض پھر یہی ہے کہ یہ ممتاز قادری اور حوروں کے درمیان 'پھڈا' ڈالنے والی بات نہیں بلکہ ویلا تو عاشق صادق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سننے کا خواہاں ہے، اگر 'پھڈے' ڈالنے کا الزام ویلے پر لگانا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت کیا کہیں گے جنہوں نے معراج کے دوران حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا گھر دیکھا اور فرمایا کہ عمر کی غیرت کی وجہ سے گھرمیں نہ جھانکا، واپسی پر چاہیے تو یہ تھا معاذ اللہ عمر کو گھر پہنچانے کا انتظام کرتے
کبھی دیار حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نصیب لے جائے تو باب السلام سے باب البقیع میں دائیں جانب دل آویز خطاطی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کندہ ہیں، ان میں ایک ہے عروہ وثقیٰ یعنی سب سے مضبوط رسی، بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اللہ کی رسی ہیں اور امت مسلمہ کبھی اس مخمصے کا شکار نہیں رہی، اللہ ہمیں ثابت قدم رہنے کی تو فیق عطا فرمائے
جان ہے عشق مصطفیٰ اور فزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزا، ناز دوا اٹھائے کیوں
استاد جی!! آقا کے عشق سے کس کافر کو انکار ہے؟؟ جو نام گھٹی کے ساتھ وجود میں اتارا گیا تھا اس کی محبت سے انکار تو اپنے نسب کو جھٹلانے والی بات ہوگی۔
استاد جی میں تو اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا ہوں کہ جن کو امین کہا جاتا تھا، جنھیں ہجرت کی شب بھی امانتیں ان کے حقداروں کو سونپنے کی فکر تھی، کہ جنہوں نے اپنی امانتوں کا امین بھی مولا علی کو جانا، اس سے بڑھ کر امین ہونے کا کیا ثبوت ہوگا۔ یہ ممتاز قادری کو گورنر پنجاب کی حفاظت کا امین بنایا گیا تھا، میری نظر میں اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق سے بغاوت کی ہے۔ ہجرت کی شب کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ تمام امانتیں اپنے ساتھ لے کر نہ جاسکتے تھے؟؟ موقع بھی تھا اور قریش کو نقصان پہنچانے کا امکان بھی لیکن میرے مولا نے اس کسمپرسی میں، اس اذیت میں، اس ہجرت میں بےایمانی کرنا پسند نہ کی۔ یہ ممتاز قادری کو کس نے اجازت دی کہ نبی کے فرمان نبی کی سنت سے روگردانی کرسکے؟؟
صرف آپکی اسکے لئے حمائیت پر مجھے اپنی اسکے لئے مخالفت پر نظر ثانی کرنا پڑی لیکن یقین کیجئے دماغ کے ساتھ دل نے بھی یہی کہا کہ یہ شخص امین نہیں، یہ ان کی شفاعت کا حقدار نہیں کہ جن سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے۔
Aaj Ghazi ke kkhilaf bolney waley kal ko salman rishdie ke qatlon ke khilaaf bhy aese he bhonkein gey .
Oh Muslim kahan gaye teri ghairat kahan gaye tere izzat kahan gya tera jazba .
Shuker ker tu Hazrat Umer R.A ke dore mein naen tha warna tu bhy kehta phirta kya huwa jo uss Musalaman ne Hazoor S.A.W.W ka faisla naen manaa to .
استاد جی!! آقا کے عشق سے کس کافر کو انکار ہے؟؟ جو نام گھٹی کے ساتھ وجود میں اتارا گیا تھا اس کی محبت سے انکار تو اپنے نسب کو جھٹلانے والی بات ہوگی۔
استاد جی میں تو اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا ہوں کہ جن کو امین کہا جاتا تھا، جنھیں ہجرت کی شب بھی امانتیں ان کے حقداروں کو سونپنے کی فکر تھی، کہ جنہوں نے اپنی امانتوں کا امین بھی مولا علی کو جانا، اس سے بڑھ کر امین ہونے کا کیا ثبوت ہوگا۔ یہ ممتاز قادری کو گورنر پنجاب کی حفاظت کا امین بنایا گیا تھا، میری نظر میں اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق سے بغاوت کی ہے۔ ہجرت کی شب کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ تمام امانتیں اپنے ساتھ لے کر نہ جاسکتے تھے؟؟ موقع بھی تھا اور قریش کو نقصان پہنچانے کا امکان بھی لیکن میرے مولا نے اس کسمپرسی میں، اس اذیت میں، اس ہجرت میں بےایمانی کرنا پسند نہ کی۔ یہ ممتاز قادری کو کس نے اجازت دی کہ نبی کے فرمان نبی کی سنت سے روگردانی کرسکے؟؟
صرف آپکی اسکے لئے حمائیت پر مجھے اپنی اسکے لئے مخالفت پر نظر ثانی کرنا پڑی لیکن یقین کیجئے دماغ کے ساتھ دل نے بھی یہی کہا کہ یہ شخص امین نہیں، یہ ان کی شفاعت کا حقدار نہیں کہ جن سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے۔
عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
گو میں رہا رہن ستم ہائے روزگار
لیکن تیرے خیال سے غافل نہیں رہا
مصروفیت و ہمت باہم دست و گریباں آخر اس کوچے لے ہی آئیں، امین الامت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ یاد آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار کیا کہ کس کا سر ہاتھ میں پکڑا تو عرض کی یا رسول اللہ ، یہ میرے والد کا سر ہے، وہ جنہیں رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا ، وہ جنہوں نے ماں باپ،بہن بھائی ہمسائے اور رشتہ دار تک سے احسن سلوک کی تلقین کی مگر غلام کے اس قدم پر نہ اسے ٹوکا اور نہ جھڑکا
یہی نہیں حضرت محیصہ رضی اللہ عنہ نے ایک یہودی کو قتل کیا تو ان کے بڑے بھائی حویصہ جو اس وقت ایمان نہ لائے تھے ان سے شدید ناراض ہوئے اور کہا کہ جس یہودی کو قتل کیا اس کے ہم مقروض ہیں، اور تمہارے پیٹ میں بہت سی چربی اسی مال کی ہے، مگر محیصہ نے ایک ہی جواب دیا کہ وہ جن کی خاطر اس یہودی کو مارا، وہ اگر تمہیں مارنے کا حکم دیں تو بھی نہ ججھکو گا
کعب بن اشرف خود کو قلعہ میں محفوظ سمجھتا تھا مگر چند جانثاروں نے دشمن کی چال کا توڑ یوں کیا کہ بظاہر خوشامد سے قلعے میں داخل ہوئے اور بالوں میں بسی مہک سونگھنے کے بہانے ایک نے اس پر قابو پایا اور باقیوں نے اس کا کام تمام کیا اور یوں خوشخبری آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائی
حسن یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشت زناں
سر کٹاتے ہیں تیرے نام پہ مردان عرب
مولا علی کرم اللہ وجہ یاد آئے کہ گود میں تاجدار کائنات کا سر اقدس ہے اور ادھر سے وقت کی گھڑیاں گزری جارہی ہیں اور اللہ کی یاد کو قائم کرنے کو نماز رہی جا رہی ہے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام کا اتنا خیال کہ جگانا مناسب نہ سمجھا
واقعہ حدیبیہ میں ایک طرف تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اپنے سر پر چادر ڈال دیتے ہیں کہ بغیر آقا کے کعبہ کا دیدار و طواف کیسا، تو دوسری جانب مولا علی کرم اللہ وجہ معاہدہ پر محمد کے ساتھ رسول اللہ کو مٹانے کو گوارا نہیں کرتے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے ہاتھوں سے صرف محمد ہی لکھنے پر اکتفا کرتے ہیں
تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہے مگر ہمیں کار زندگی سے فرصت ہو تو ان پر توجہ ہو، پندرہ صدیوں میں کبھی مسلمانوں کے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر بٹہ لگانے والوں کے لیے ہمدردی نہیں رہی اور ان شا اللہ یہ طریق یونہی قائم رہے گا
علم کے بغیر عشق بے معنی ہے سَچّا عشق سُچّے علم کی نیوں پر استوار ہو کر ہی رگِ جاں بنتا ہے ورنہ اُس کا اِس طرح کا عملی اظہار فساد فی الارض اور باعثِ رسوائیِ معشوق ہے، آپکے عشق اور ممتاز کے عشق میں فرق ہے اور اسی جانب پچھلی گذارش میں اشارہ تھا
آپ نے اس پوسٹ میں جو کہا اس کے کسی ایک لفظ سے بھی تعرض نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ممتاز کا مقدمہ ہر لحاظ سے ناقابلِ دفاع ہے۔ اس تاکید کے باوجود آپ کو اصرار ہے تو بتائیے، پھر کچھ عرض کرنے کی جسارت کروں
مجھ کو تو سِکھا دی ہے افرنگ نے زِندیقی
اس دَور کے مُلّا ہیں کیوں ننگِ مسلمانی!
ٹیک لگائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ بیٹھے اور فرمایا نہیں میری امت کے علما ایسا نہیں کریں گے، صحابہ نے وضاحت چاہی تو فرمایا کہ بنی اسرائیل کے علما نے اپنی قوم کو بداعمالیوں پر نشاندہی کی مگر جب وہ نہیں رکے تو وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے مگر میری امت کے علما ایسا نہیں کریں گے
گر صاحب ہنگامہ نہ ہو محراب ہو منبر
دین بندہ مومن کے لیے موت ہے یا خواب
ویلے کو تو قع تو آپ علما سے تھی کہ ویلا نہ عابد، نہ زاہد، نہ عالم، نہ زاہد، مگر شاید مصلحت پسندی ہو جس نے حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ناقابل دفاع بنا دیا ہو
پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پر رضامند
تاویل مسائل کو بناتے ہیں بہانہ
تعلیم کے تیزاب میں ڈال کر اس کی خودی کو
ہوجائے ملائم تو جدھر چاہے، ادھر پھیر
ایک زمانہ تھا جب امریکن سائکییٹرک ایسوسیشن کی جاری کردہ ڈی ایس ایم میں ہم جنس پرستی بھی دماغی و نفسیاتی مرائض میں شامل تھی مگر وقت کے دھارے نے ایل جی بی ٹی کے توسط سے انہیں مجبور کر دیا کہ ہم جنس پرستی کو اس فہرست سے خارج کر دیا جائے، جنوں کا نام خرد کرنا تو کوئی ان سے سیکھے، مگر ہاں ہم عرصہ دراز سے معذرت خواہانہ ہی رہے
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی فرشتہ، ہماری، جناب میں
منجیمٹ سائنسز میں شاید ہی کوئی طالب علم ہو جسے سواٹ انالسس کی شد بد نہ ہو، یہ ٹولز ہیں کہ کس طرح مدمقابل کی حکمت عملی کا توڑ کیا جائے، مغرب کو بخوبی علم ہے کہ مسلمانوں کی سب سے بڑی طاقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ ہیں، اسی طاقت کووہ ہماری سب سے بڑی کمزوری ثابت کرنے پر مصر ہیں کہ گویا سارا فساد اسی سے برپا ہے، حالانکہ صورتحال اس سے برعکس ہے
بدل دیا رخ مشرق کو تو نے اے مغرب
تری ہوا سے بچائے خدا زمانے کو
چشمِ آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند
کرتے ہیں روح کو خوابیدہ بدن کو بیدار
حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ، یورپ سے درگزر؟
اہل مغرب کے علم پر اب ویلا کیا تبصرہ کرے جیسے معشیت کو سدھارنے کو اگر شرح سود بڑھا دیں تاکہ افراط زر کو قابو میں رکھا جائے تو سب پرائم مارگیج کرائسس جنم لیتا ہے اور اگر گھٹا دیں پہیہ چلانے کو کوانٹیٹو ایسنگ کی گریس دینی پڑتی ہے، حل ندارد
کبھی پٹرول سے انڈیسڑیل ریلویشن سے راتوں رات ان گنت اسباب آسائش دستیاب تو اب اسی پیٹرول سے خارج گیسوں کے سدباب کے لیے سسٹیبل ڈیوپلمنٹ پلان کا نفاذ، اللہ جانے اب یہ بیل کیسے منڈھے چڑھتی ہے
ہاں برقی قمقمے خوب روشن کر دئیے جن سے ویلے سمیت کئی لوگوں کی آنکھیں ضرور چندھیا گئی ہیں
یہ موضوع طویل ہے اور چند سطروں میں بیان کرنے ویلے کے بس سے باہر، واپس اسی جانب پلٹتے ہیں
پھر بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے چل
پندرہ صدیوں سے مسلمان کبھی حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں شش و پنج کا شکار نہ ہوئے اور نہ ہی ان شا اللہ ہوں گے
مسلم از سر نبی بے گا نہ شد
باز ایں بیت الحرم بت خانہ شد
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
ہمارا المیہ یہی ہے ہر بندہ چاہے وہ اہل ہو یا نہ ہو اسلام کو اپنی چراگاہ سمجھتا ہے
تنگ بر ما رهگذار دین شد است
هر لئیمی راز دار دین شد است
عرض نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
گو میں رہا رہن ستم ہائے روزگار
لیکن تیرے خیال سے غافل نہیں رہا
مصروفیت و ہمت باہم دست و گریباں آخر اس کوچے لے ہی آئیں، امین الامت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ یاد آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار کیا کہ کس کا سر ہاتھ میں پکڑا تو عرض کی یا رسول اللہ ، یہ میرے والد کا سر ہے، وہ جنہیں رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا ، وہ جنہوں نے ماں باپ،بہن بھائی ہمسائے اور رشتہ دار تک سے احسن سلوک کی تلقین کی مگر غلام کے اس قدم پر نہ اسے ٹوکا اور نہ جھڑکا
یہی نہیں حضرت محیصہ رضی اللہ عنہ نے ایک یہودی کو قتل کیا تو ان کے بڑے بھائی حویصہ جو اس وقت ایمان نہ لائے تھے ان سے شدید ناراض ہوئے اور کہا کہ جس یہودی کو قتل کیا اس کے ہم مقروض ہیں، اور تمہارے پیٹ میں بہت سی چربی اسی مال کی ہے، مگر محیصہ نے ایک ہی جواب دیا کہ وہ جن کی خاطر اس یہودی کو مارا، وہ اگر تمہیں مارنے کا حکم دیں تو بھی نہ ججھکو گا
کعب بن اشرف خود کو قلعہ میں محفوظ سمجھتا تھا مگر چند جانثاروں نے دشمن کی چال کا توڑ یوں کیا کہ بظاہر خوشامد سے قلعے میں داخل ہوئے اور بالوں میں بسی مہک سونگھنے کے بہانے ایک نے اس پر قابو پایا اور باقیوں نے اس کا کام تمام کیا اور یوں خوشخبری آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائی
حسن یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشت زناں
سر کٹاتے ہیں تیرے نام پہ مردان عرب
مولا علی کرم اللہ وجہ یاد آئے کہ گود میں تاجدار کائنات کا سر اقدس ہے اور ادھر سے وقت کی گھڑیاں گزری جارہی ہیں اور اللہ کی یاد کو قائم کرنے کو نماز رہی جا رہی ہے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام کا اتنا خیال کہ جگانا مناسب نہ سمجھا
واقعہ حدیبیہ میں ایک طرف تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اپنے سر پر چادر ڈال دیتے ہیں کہ بغیر آقا کے کعبہ کا دیدار و طواف کیسا، تو دوسری جانب مولا علی کرم اللہ وجہ معاہدہ پر محمد کے ساتھ رسول اللہ کو مٹانے کو گوارا نہیں کرتے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے ہاتھوں سے صرف محمد ہی لکھنے پر اکتفا کرتے ہیں
تاریخ ایسے واقعات سے بھری ہے مگر ہمیں کار زندگی سے فرصت ہو تو ان پر توجہ ہو، پندرہ صدیوں میں کبھی مسلمانوں کے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر بٹہ لگانے والوں کے لیے ہمدردی نہیں رہی اور ان شا اللہ یہ طریق یونہی قائم رہے گا
استاد جی محترم!! کسی کافر کو کیسے کلمہ گو سے تقابل کیا جاسکتا ہے؟؟ یہ تمام واقعات جو اوپر بیاں کئے آپ نے ، یہ تو ہیں ہی کفار کے متعلق، تو ان میں مسلمان کیسے فٹ ہوتا ہے۔ رہنمائی کیلئے پوچھ رہا ہوں خدارا اسے بحث یا گستاخی نہ سمجھئے گا۔
دوسری بات یہ کہ سلمان تاثیر نے کب گستاخی کی؟؟ کسی قانون کو غلط کہنا گستاخی ہے کیا؟؟ مجھے زنا بالرضا میں سنگساری اور زنا بالجبر کے گواہوں کی شرط غلط لگتی ہے تو کیا میں اس بنا پر واجب القتل ہوں؟؟ یہ الگ بات ہے کہ میں اس حکم کو ماننے پر مجبور ہوں۔
اسی طرح مجھے کیا پتہ کہ سلمان تاثیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دل میں کیا سمجھتا ہو؟؟ یہ بات تو اس نے آسیہ بی بی کیلئے استعمال ہوئے اس قانون کے غلط استعمال پر کہی تھی جس پر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
آخری بات یہ استاد جی کہ میرے علم کے مطابق آسیہ بی بی سے پوچھا گیا تھا رسالت کے بارے میں تو اس نے یہ جواب دیا تھا کہ میں عیسیٰ علیہ سلام کو آخری نبی مانتی ہوں اور نبی کریم کو نہیں جس پر اسے اس قانون کا نشانہ بنایا گیا۔ تو مرشد ہم کسی کو اپنے عقائد کا اظہار کرنے پر کیسے گستاخی کا کرتکب قرار دے سکتے ہیںََ
استاد جی محترم!! کسی کافر کو کیسے کلمہ گو سے تقابل کیا جاسکتا ہے؟؟ یہ تمام واقعات جو اوپر بیاں کئے آپ نے ، یہ تو ہیں ہی کفار کے متعلق، تو ان میں مسلمان کیسے فٹ ہوتا ہے۔ رہنمائی کیلئے پوچھ رہا ہوں خدارا اسے بحث یا گستاخی نہ سمجھئے گا۔
دوسری بات یہ کہ سلمان تاثیر نے کب گستاخی کی؟؟ کسی قانون کو غلط کہنا گستاخی ہے کیا؟؟ مجھے زنا بالرضا میں سنگساری اور زنا بالجبر کے گواہوں کی شرط غلط لگتی ہے تو کیا میں اس بنا پر واجب القتل ہوں؟؟ یہ الگ بات ہے کہ میں اس حکم کو ماننے پر مجبور ہوں۔
اسی طرح مجھے کیا پتہ کہ سلمان تاثیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دل میں کیا سمجھتا ہو؟؟ یہ بات تو اس نے آسیہ بی بی کیلئے استعمال ہوئے اس قانون کے غلط استعمال پر کہی تھی جس پر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
آخری بات یہ استاد جی کہ میرے علم کے مطابق آسیہ بی بی سے پوچھا گیا تھا رسالت کے بارے میں تو اس نے یہ جواب دیا تھا کہ میں عیسیٰ علیہ سلام کو آخری نبی مانتی ہوں اور نبی کریم کو نہیں جس پر اسے اس قانون کا نشانہ بنایا گیا۔ تو مرشد ہم کسی کو اپنے عقائد کا اظہار کرنے پر کیسے گستاخی کا کرتکب قرار دے سکتے ہیںََ
خرد نے کہہ بھی دیا لا الہٰ تو کیا حاصل
دل و نگاہ جو مسلم نہیں تو کچھ بھی نہیں
بشر حافی رحمت اللہ علیہ معروف صوفی ہیں، ان کے جنازے میں ندائے غیب سنائی دی کہ ہم نے بشر کو بخشا اور جنازہ پڑھنے والوں کو بھی، ہوا کچھ یوں کہ ایک مرتبہ نشے میں دھت کہیں جارہے تھے کہ رستے میں کسی نامناسب مقام پر ایک پرچہ ملا جس پر اسم اللہ درج تھا، نشہ ہرن ہوا، اسے اٹھایا، گھر لے گئے اور خوشبو سے معطر کیا، اس تکریم کا صلہ اللہ نے یوں دیا کہ ان کی زندگی کا دھارا ہی بدل گیا اور راہ سلوک پر گامزن ہوئے
سید الطائفہ جنید بغدادی رحمت اللہ علیہ نامور پہلوان تھے، ایک مرتبہ نحیف البدن شخص نے ان کو کشتی کے لیے للکارا، جب کشتی شروع ہوئی تو اس شخص نے کان میں آپ سے فرمایا کہ میں ایک سید زادہ ہوں، فاقوں کی بدولت یہ نوبت آن پڑی کہ آپ کو مقابلے کی دعوت دی تاکہ کہیں زیست کو لازم سامان مہیا ہو، یہ بازی تو آپ ہار گئے اور وقتی خجلت کا سامنا ہوا مگر زندگی کی بازی جیت گئے کہ اس مقام پر پہنچے کہ ان کی گرد راہ کو بڑے بڑے صوفیا تکتے تھے
ادب گاہِ است، زیرِ آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا
یہی نہیں مولائے روم رحمت اللہ علیہ نے ایک خوبصورت تمثیل بیان کی کہ ایک مرتبہ ایک استاد نے اپنے بھینگے شاگرد کو باہر سے شیشی لانے کو کہا، وہ باہر نکلا تو بوجہ عارضہ اسے دو شیشیاں دکھائیں دی، پلٹا اور پوچھا کہ دائیں شیشی لانی ہے یا بائیں، استاد نے کہا کہ ایک کو توڑ دینا اور دوسری لے آنا، مولانا روم رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حب اللہ اور حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم دراصل ایک ہی ہیں البتہ بھینگے کو دو نظر آتے ہیں اور ایک کے چکر میں وہ دونوں سے محروم ہو جاتا ہے، اور بقول ویلا فلاح دنیا و آخرت دونوں ایک ہی ہیں اور جوصرف فلاح دنیا کی رغبت رکھتے ہیں وہ دونوں سے ہی محروم ہو جاتے ہیں
جیسا کہ پہلے بزبان اقبال عرض کی کہ مسئلہ تب ہوتا ہے جب ویلے جیسے لئیم بھی ان مسائل پر طبع آزمائی کرتے ہیں،انہیں 'جوتے کی نوک' پر رکھتے ہیں اور نشانہ طنز و تضحیک بناتے ہیں، ہمارے لیے وہ نصیحت کافی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام حسن رضی اللہ عنہ کو فرمائی کہ وہ اشیا جو مائل بہ شبہ ہو ان سے بھی احتراز برتا جائے، یہ ساری کاوش اسی سلسلے کی کڑی ہے
امید ہے اس جسارت پر چشم پوشی فرمائیں گے اور ویلے کی جان بخشی کا مژدہ سنائیں گے
اٹھا دو پردہ ، دکھا دو جلوہ ،نورباری حجاب میں ہے
زمانہ تاریک ہو رہا ہے کہ مہر کب سے نقاب میں ہے
کریم اپنے کرم کا صدقہ، لئیم بے قدر کو نہ شرما
تو اور رضا سے حساب لینا، رضا بھی کوئی حساب میں ہے
مجھ کو تو سِکھا دی ہے افرنگ نے زِندیقی
اس دَور کے مُلّا ہیں کیوں ننگِ مسلمانی!
ٹیک لگائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ بیٹھے اور فرمایا نہیں میری امت کے علما ایسا نہیں کریں گے، صحابہ نے وضاحت چاہی تو فرمایا کہ بنی اسرائیل کے علما نے اپنی قوم کو بداعمالیوں پر نشاندہی کی مگر جب وہ نہیں رکے تو وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے مگر میری امت کے علما ایسا نہیں کریں گے
گر صاحب ہنگامہ نہ ہو محراب ہو منبر
دین بندہ مومن کے لیے موت ہے یا خواب
ویلے کو تو قع تو آپ علما سے تھی کہ ویلا نہ عابد، نہ زاہد، نہ عالم، نہ زاہد، مگر شاید مصلحت پسندی ہو جس نے حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ناقابل دفاع بنا دیا ہو
پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پر رضامند
تاویل مسائل کو بناتے ہیں بہانہ
تعلیم کے تیزاب میں ڈال کر اس کی خودی کو
ہوجائے ملائم تو جدھر چاہے، ادھر پھیر
ایک زمانہ تھا جب امریکن سائکییٹرک ایسوسیشن کی جاری کردہ ڈی ایس ایم میں ہم جنس پرستی بھی دماغی و نفسیاتی مرائض میں شامل تھی مگر وقت کے دھارے نے ایل جی بی ٹی کے توسط سے انہیں مجبور کر دیا کہ ہم جنس پرستی کو اس فہرست سے خارج کر دیا جائے، جنوں کا نام خرد کرنا تو کوئی ان سے سیکھے، مگر ہاں ہم عرصہ دراز سے معذرت خواہانہ ہی رہے
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی فرشتہ، ہماری، جناب میں
منجیمٹ سائنسز میں شاید ہی کوئی طالب علم ہو جسے سواٹ انالسس کی شد بد نہ ہو، یہ ٹولز ہیں کہ کس طرح مدمقابل کی حکمت عملی کا توڑ کیا جائے، مغرب کو بخوبی علم ہے کہ مسلمانوں کی سب سے بڑی طاقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ ہیں، اسی طاقت کووہ ہماری سب سے بڑی کمزوری ثابت کرنے پر مصر ہیں کہ گویا سارا فساد اسی سے برپا ہے، حالانکہ صورتحال اس سے برعکس ہے
بدل دیا رخ مشرق کو تو نے اے مغرب
تری ہوا سے بچائے خدا زمانے کو
چشمِ آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند
کرتے ہیں روح کو خوابیدہ بدن کو بیدار
حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ، یورپ سے درگزر؟
اہل مغرب کے علم پر اب ویلا کیا تبصرہ کرے جیسے معشیت کو سدھارنے کو اگر شرح سود بڑھا دیں تاکہ افراط زر کو قابو میں رکھا جائے تو سب پرائم مارگیج کرائسس جنم لیتا ہے اور اگر گھٹا دیں پہیہ چلانے کو کوانٹیٹو ایسنگ کی گریس دینی پڑتی ہے، حل ندارد
کبھی پٹرول سے انڈیسڑیل ریلویشن سے راتوں رات ان گنت اسباب آسائش دستیاب تو اب اسی پیٹرول سے خارج گیسوں کے سدباب کے لیے سسٹیبل ڈیوپلمنٹ پلان کا نفاذ، اللہ جانے اب یہ بیل کیسے منڈھے چڑھتی ہے
ہاں برقی قمقمے خوب روشن کر دئیے جن سے ویلے سمیت کئی لوگوں کی آنکھیں ضرور چندھیا گئی ہیں
یہ موضوع طویل ہے اور چند سطروں میں بیان کرنے ویلے کے بس سے باہر، واپس اسی جانب پلٹتے ہیں
پھر بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے چل
پندرہ صدیوں سے مسلمان کبھی حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں شش و پنج کا شکار نہ ہوئے اور نہ ہی ان شا اللہ ہوں گے
مسلم از سر نبی بے گا نہ شد
باز ایں بیت الحرم بت خانہ شد
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
ہمارا المیہ یہی ہے ہر بندہ چاہے وہ اہل ہو یا نہ ہو اسلام کو اپنی چراگاہ سمجھتا ہے
تنگ بر ما رهگذار دین شد است
هر لئیمی راز دار دین شد است
نہیں، انتہائی معذرت کے ساتھ عرض ہےکہ یہ پیرایہ اس موضوع پر بہتر تفہیم کیلئے مناسب نہیں ہے۔
آپ نے تحرّک، چاشنی، دلکشی، پھیلاؤ، بہاؤ سب ایک جگہ جمع کر دئیے ہیں، اگر نکتے کی نزاکت، حسّاسیت و اہمیت دامنگیر نہ ہو جو کہ ایک مدلّل اور منطقی اندازِنظروفکر کا تقاضا کرتے ہیں تو ان سب کے سامنے کھڑا ہونا بے ادبی گردانا جائے گا اور پھر جو میٹھے میٹھے طنز آپ نے قطار اندر قطار سجائے ہیں سوائے ایک بات کے ان کا اپنا مزہ ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود ذیل کے ایک دو نکات آپ کی توجہ بارِدگر چاہتے ہیں
کس کی زیادہ اہمیت ہے، آقاؐ کی شخصیت کی یا تعلیم و نصیحت کی؟
میری تصحیح فرمائیں اگر کوتاہی ہورہی ہےتو، شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ فساد فی الارض ہے اور اس کے ساتھ مسلم معاشرے کی تخصیص بھی نہیں ہے، پاکساتن تو پھر ایک مسلم معاشرہ ہے چاہے نام کا ہی سہی
خلافت شریعت/قانون کی حکمرانی پر قائم ہوئی تھی، فرد/افراد کی امنگوں اور خواہشات پر نہیں چاہے وہ کتنی ہی نیک، ارفع و اعلیٰ کیوں نہ تھیں/ہوں، جو مثالیں آپ نے دی ہیں وہ اس دور کی ہیں جب ایک اسلامی ریاست و خلافت اپنے قائم ہونے کے عملل میں تھی، جب خلافت قائم ہوگئی تو کیا اس نے کسی فرد کو اجازت دی کہ وہ آقاؐ کی ناموس کے نام پر خود ہی قاضی و جلاد بن جائے؟
پاکستان ایک مسلم ریاست ہے، کمزور ہے، نام کی ہے، لیکن حقیقت یہی ہے اور ناموسِ رسالت کا قانون بھی موجود ہے۔ ایسی ریاست میں اگر کوئی گروہ اپنی طرف سے خروج و جہاد کا فتوی جاری نہیں کرسکتا تو ایک فرد بھی کچے پکے اندازوں کی بنیاد پر کسی کی جان نہیں لے سکتا، چاہے وہ اس کیلئے آقاؐ کی ناموس کی آڑ ہی کیوں نہ لے رہا ہو
میری گذارش ہو گی کہ آقاؐ کی حرمت و ناموس جو کہ باعثِ تکمیلِ ایمان ہے کے مسئلے/نکتے کو ایک مسلم ریاست کے پس منظر میں شرعی اور قانونی نکتے سے خلط ملط نہ کیا جائے
اہلِ مغرب کے علم کے المیہ کی وہ جہت بھی ہوگی جس پر آپ نے نظر کی ہے، لیکن میری رائے میں اس کی اصل وجہ ارتکازِتخصّص ہے، خیر یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ باقی سووٹ انیلیسسز کےاطلاق و استعمال کا بہت سا انحصار تجزیہ کار کے تناظر پر ہوتا ہے، اس نکتے کو بھی فی الحال ہم حاشیے پر ہی چھوڑ دیتے ہیں
ہاں وہ بات جو آپ کی بے بہا نثر میں دل کو چیر گئی ہے وہ ہے مغرب کے معذرت خواہ ہونے کا طعنہ، یہاں میری تحریروں نے جو شائد آپ کی نظر سے نہ گذری ہوں نے ایسے لوگوں سے بساط بھر بڑے معرکے لڑے ہیں
نہیں، انتہائی معذرت کے ساتھ عرض ہےکہ یہ پیرایہ اس موضوع پر بہتر تفہیم کیلئے مناسب نہیں ہے۔
آپ نے تحرّک، چاشنی، دلکشی، پھیلاؤ، بہاؤ سب ایک جگہ جمع کر دئیے ہیں، اگر نکتے کی نزاکت، حسّاسیت و اہمیت دامنگیر نہ ہو جو کہ ایک مدلّل اور منطقی اندازِنظروفکر کا تقاضا کرتے ہیں تو ان سب کے سامنے کھڑا ہونا بے ادبی گردانا جائے گا اور پھر جو میٹھے میٹھے طنز آپ نے قطار اندر قطار سجائے ہیں سوائے ایک بات کے ان کا اپنا مزہ ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود ذیل کے ایک دو نکات آپ کی توجہ بارِدگر چاہتے ہیں
کس کی زیادہ اہمیت ہے، آقاؐ کی شخصیت کی یا تعلیم و نصیحت کی؟
میری تصحیح فرمائیں اگر کوتاہی ہورہی ہےتو، شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ فساد فی الارض ہے اور اس کے ساتھ مسلم معاشرے کی تخصیص بھی نہیں ہے، پاکساتن تو پھر ایک مسلم معاشرہ ہے چاہے نام کا ہی سہی
خلافت شریعت/قانون کی حکمرانی پر قائم ہوئی تھی، فرد/افراد کی امنگوں اور خواہشات پر نہیں چاہے وہ کتنی ہی نیک، ارفع و اعلیٰ کیوں نہ تھیں/ہوں، جو مثالیں آپ نے دی ہیں وہ اس دور کی ہیں جب ایک اسلامی ریاست و خلافت اپنے قائم ہونے کے عملل میں تھی، جب خلافت قائم ہوگئی تو کیا اس نے کسی فرد کو اجازت دی کہ وہ آقاؐ کی ناموس کے نام پر خود ہی قاضی و جلاد بن جائے؟
پاکستان ایک مسلم ریاست ہے، کمزور ہے، نام کی ہے، لیکن حقیقت یہی ہے اور ناموسِ رسالت کا قانون بھی موجود ہے۔ ایسی ریاست میں اگر کوئی گروہ اپنی طرف سے خروج و جہاد کا فتوی جاری نہیں کرسکتا تو ایک فرد بھی کچے پکے اندازوں کی بنیاد پر کسی کی جان نہیں لے سکتا، چاہے وہ اس کیلئے آقاؐ کی ناموس کی آڑ ہی کیوں نہ لے رہا ہو
میری گذارش ہو گی کہ آقاؐ کی حرمت و ناموس جو کہ باعثِ تکمیلِ ایمان ہے کے مسئلے/نکتے کو ایک مسلم ریاست کے پس منظر میں شرعی اور قانونی نکتے سے خلط ملط نہ کیا جائے
اہلِ مغرب کے علم کے المیہ کی وہ جہت بھی ہوگی جس پر آپ نے نظر کی ہے، لیکن میری رائے میں اس کی اصل وجہ ارتکازِتخصّص ہے، خیر یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ باقی سووٹ انیلیسسز کےاطلاق و استعمال کا بہت سا انحصار تجزیہ کار کے تناظر پر ہوتا ہے، اس نکتے کو بھی فی الحال ہم حاشیے پر ہی چھوڑ دیتے ہیں
ہاں وہ بات جو آپ کی بے بہا نثر میں دل کو چیر گئی ہے وہ ہے مغرب کے معذرت خواہ ہونے کا طعنہ، یہاں میری تحریروں نے جو شائد آپ کی نظر سے نہ گذری ہوں نے ایسے لوگوں سے بساط بھر بڑے معرکے لڑے ہیں
نکرہ کو معرفہ تصور کرنے پر جو نشتر سوہان روح کا باعث ہوئے اس پر انتہائی معذرت، ایک تو استعمال کنایہ اور دوسرا ربط مضمون کو سمونے کا کام زیادہ انحصار قاری پر چھوڑناوہ وجوہات ہیں جن سے اکثر ویلا زیر عتاب رہتا ہے، آپ سے مراد عمومی رجحان تھی نا کہ خاص آپ ہی تختہ مشق تھے، ویلا تو مست ہے، امت مسلمہ کی باگ ڈور آپ جیسے ہی زیرک و مخلص احباب نے سنبھالنی ہے، یہاں مراد معرفہ ہی ہے کہیں اسے بھی نکرہ نہ سمجھ بیٹھیں
اب آپ خود ہی ملاحظہ کریں کہ ارتکاز تخصص کا ہی تو رونا تھا جسے بزبان مرشد اقبال رحمت اللہ علیہ بیان کیا کہ ہر لئیم راز دان دین کیونکر ہو سکتا ہے، یہی تو المیہ ہے کہ آج ویلے جیسے لوگ بھی ان مسائل پر رائے زنی کرتے ہیں جن کو اب ج د کا علم نہیں، ان کے لیے آپ جیسے صاحب علم ہی درکار ہیں
دوسرا تناظر ہی کا تو ذکر ہے کہ ہماری طاقت ان کمزوری ہے اور اسی طاقت کو وہ اپنے حق اور ہمارے مخالف کس طرح استعمال کر رہے ہیں، ان کو پہچاننا اور سدباب کرنے پر اصرار ہے
تیسرا اسی نکتے پر ہی تو زیادہ تر ارتکاز ہے کہ صاحب شریعت اور شریعت کیونکر جدا ہوئے اور ان میں کون مقدم اور کون موخر؟
حضرت عثمان و علی رضی اللہ عنھما کی واقعات اس لیے بیان کیے کہ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اکیلے طواف کر لیتے تو کوئی شرعی قدغن نہیں تھی، اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نماز کو پانے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند سے جگا دیتے تو مضائقہ نہیں تھا، تاریخ ان مثالوں سے بھری ہوئی ہے، کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں سے رستا خون پی لیا تو کسی نے آپ کا پسینہ بغرض عطر محفوظ کر لیا، وضو کرتے پانی کے چھینٹوں کو زمین پر نہ گرنے دیتے بلکہ اپنے چہروں کی زینت بناتے، غرض کہ ایسےواقعات آپ کو کثرت سے مل جائیں گے، تبھی قرآن نے ان کے ایمان کو نمونہ قرار دیا، جب مشرکین نے اعترض کیا ان سفھا کی طرح ایمان لائیں تو رب لم یزل نے خود فرمایا وہ نہیں بلکہ تم سفھا ہو
اے رضا یہ احسان ہے احمد پاک کا
ورنہ تم کیا جانتے خدا کون ہے
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
گر نہ او نہ رسیدی، تمام بو لہبی است
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں
اصل اصول بندگی اس تاجور کی ہے
محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو گر خامی تو ایمان نا مکمل ہے
اس لیے اس نکتہ کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ آخر نوبت اس نہج پر کیوں پہنچی، آپ جس مثالی نظام کی بات کررہے ہیں تو شاید یہاں ندارد، حالت تو یہ مسجد کے سپیکروں پر بھی پابندی کہ یہ بھی فساد کا موجب ہیں، اس سے ہی آپ حکومت وقت کی ترجیحات کا تعین کر سکتے ہیں
اگر آپ کسی سے قانون سے متفق نہیں تو آپ کو اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی کہ آپ اس کے خلاف زبان درازیاں کریں، اسے جوتے کی نوک پر رکھیں جیسا کہ اقتدار کے نشے میں چور اس شخص نے کیا، اگر مارنے والے نے اپنے حلف یعنی مرنے والے کی نگہبانی سے روگردانی کی تو اس سے قبل ریاست کے قوانین کے احترام کا ایک حلف مرنے والے نے بھی تو اٹھایا تھا، حد تو یہ ہوئی اوائل میں ہائی کورٹ نے اس کے خلاف مقدمہ درج کرنے تک سے ٹال و مٹول کی، عدالت نے خاک اسے آئینی و قانونی سے حل کرنا تھا؟
فساد کا اصل محرک کون ہوا؟
جہاں تک کسی فرد کو ازخود منصف و جلاد کی بات ہے تو یہ کام علم دین سے بھی ہوا، جن کے وکیل بانی پاکستان محمد علی جناح رحمت اللہ علیہ ہوئے، اب پھر آپ انگریزی حکومت کا طعنہ دیں گے تو صاحب ابھی بھی تو انگلو سیکسن لا ہی نافذ ہے، ہاں فیڈرل شریعت کورٹ موجود ہے مگر ہر ذی شعور اس کی حیثیت جانتا ہے
جہاں تک خلافت یا پھر بعد کی اسلامی حکومتوں سے اس قسم کی واقعات کا تعلق ہے تو علامہ خادم حسین رضوی صاحب نے اس پر مثالیں پیش کی ہیں، آپ ان سے مستفید ہو سکتے ہیں اور اس اثر کو زائل کر سکتے ہیں، جیسا کہ دور فاروقی میں ایک بچے نے عیسائی پادری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر ازخود سزا دی
الدر الکامنہ میں امام ابن حجر عسقلانی نے واقعہ نقل کیا کہ منگولوں کے ایک گروہ نے عیسائی مذہب اختیار کیا، عیسائیوں نے مجمع کیا اور ایک عیسائی نے طاقت کے زعم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تقریر کا رخ پھیر دیا، ساتھ ہی ایک کتا بندھا تھا، کتے نے اپنی رسی چھڑائی اور اس پر حملہ کیا، لوگوں نے سمجھا کہ شاید یہ تقریر کا اثر ہے، عیسائی نے حیلہ کیا نہیں تقریر کرتے میرا ہاتھ اس کی جانب ہوا تو غیرت مندکتے نے اسے شان کی منافی سمجھا، اس نے پھر تقریر شروع کی اور وہی راگ الاپا، کتے نے اب کی بار سیدھا اس کی گردن پر حملہ کیا اور اسے جہنم واصل کیا، یہ منظر دیکھ کئی منگول مسلمان ہوئے
ہے عیاں یورش تا تا ر کے فسانے سے
پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
آخر میں عرض یہی ہے کہ ویلا فقظ طالب علم ہے، یہاں آپ جیسے صاحبان علم سے مستفید ہونے کو چلا آتا ہے، اگر بیان میں کوئی بات نامناسب ہو تو معذرت کا طلبگا ر ہے کہ حاشا و کلانیت آپ کی ہرزہ سرائی کی نہ تھی، آپ کو ان صاحبان علم کی طرف رجوع کرنے کی استدعا کر سکتا ہے جو اس مسئلے کو سمجھنے کے اہل ہیں، امید ہے آپ نگاہ کرم سے نوازیں گے
آب و گیاہ میں فساد فی الارض کا موجب کون ہے، تو یہ ادھار رہا، کبھی غم دوراں سے چھٹی ملی تو اس پر کچھ عرض کرنے کے جسارت کروں گا، فی الحال اسی پر اکتفا ہے
ویلکم بیک ...بہت اچھا لگا آپ کو عرصے بعد یہاں دیکھنا ..
ایک گزارش ہے بس اتنی سی ..عاشق یہاں خود پھانسی سے کیوں ڈر رہا ہے ..اس نے تو ایک گستاخ رسول کی جان لے کر اسے جہنم بھیج دیا تھا ،،،اب ہنس کر خود جنت جائے ...یا صرف باتیں ہی باتیں ہے ..دوسروں کی جان لینا آسان اور اپنی جان دینا مشکل ..چاہے وہ نبی کی محبت میں ہی کیوں نہ ہو
نکرہ کو معرفہ تصور کرنے پر جو نشتر سوہان روح کا باعث ہوئے اس پر انتہائی معذرت، ایک تو استعمال کنایہ اور دوسرا ربط مضمون کو سمونے کا کام زیادہ انحصار قاری پر چھوڑناوہ وجوہات ہیں جن سے اکثر ویلا زیر عتاب رہتا ہے، آپ سے مراد عمومی رجحان تھی نا کہ خاص آپ ہی تختہ مشق تھے، ویلا تو مست ہے، امت مسلمہ کی باگ ڈور آپ جیسے ہی زیرک و مخلص احباب نے سنبھالنی ہے، یہاں مراد معرفہ ہی ہے کہیں اسے بھی نکرہ نہ سمجھ بیٹھیں
اب آپ خود ہی ملاحظہ کریں کہ ارتکاز تخصص کا ہی تو رونا تھا جسے بزبان مرشد اقبال رحمت اللہ علیہ بیان کیا کہ ہر لئیم راز دان دین کیونکر ہو سکتا ہے، یہی تو المیہ ہے کہ آج ویلے جیسے لوگ بھی ان مسائل پر رائے زنی کرتے ہیں جن کو اب ج د کا علم نہیں، ان کے لیے آپ جیسے صاحب علم ہی درکار ہیں
دوسرا تناظر ہی کا تو ذکر ہے کہ ہماری طاقت ان کمزوری ہے اور اسی طاقت کو وہ اپنے حق اور ہمارے مخالف کس طرح استعمال کر رہے ہیں، ان کو پہچاننا اور سدباب کرنے پر اصرار ہے
تیسرا اسی نکتے پر ہی تو زیادہ تر ارتکاز ہے کہ صاحب شریعت اور شریعت کیونکر جدا ہوئے اور ان میں کون مقدم اور کون موخر؟
حضرت عثمان و علی رضی اللہ عنھما کی واقعات اس لیے بیان کیے کہ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اکیلے طواف کر لیتے تو کوئی شرعی قدغن نہیں تھی، اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نماز کو پانے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند سے جگا دیتے تو مضائقہ نہیں تھا، تاریخ ان مثالوں سے بھری ہوئی ہے، کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں سے رستا خون پی لیا تو کسی نے آپ کا پسینہ بغرض عطر محفوظ کر لیا، وضو کرتے پانی کے چھینٹوں کو زمین پر نہ گرنے دیتے بلکہ اپنے چہروں کی زینت بناتے، غرض کہ ایسےواقعات آپ کو کثرت سے مل جائیں گے، تبھی قرآن نے ان کے ایمان کو نمونہ قرار دیا، جب مشرکین نے اعترض کیا ان سفھا کی طرح ایمان لائیں تو رب لم یزل نے خود فرمایا وہ نہیں بلکہ تم سفھا ہو
اے رضا یہ احسان ہے احمد پاک کا
ورنہ تم کیا جانتے خدا کون ہے
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
گر نہ او نہ رسیدی، تمام بو لہبی است
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں
اصل اصول بندگی اس تاجور کی ہے
محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو گر خامی تو ایمان نا مکمل ہے
اس لیے اس نکتہ کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ آخر نوبت اس نہج پر کیوں پہنچی، آپ جس مثالی نظام کی بات کررہے ہیں تو شاید یہاں ندارد، حالت تو یہ مسجد کے سپیکروں پر بھی پابندی کہ یہ بھی فساد کا موجب ہیں، اس سے ہی آپ حکومت وقت کی ترجیحات کا تعین کر سکتے ہیں
اگر آپ کسی سے قانون سے متفق نہیں تو آپ کو اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی کہ آپ اس کے خلاف زبان درازیاں کریں، اسے جوتے کی نوک پر رکھیں جیسا کہ اقتدار کے نشے میں چور اس شخص نے کیا، اگر مارنے والے نے اپنے حلف یعنی مرنے والے کی نگہبانی سے روگردانی کی تو اس سے قبل ریاست کے قوانین کے احترام کا ایک حلف مرنے والے نے بھی تو اٹھایا تھا، حد تو یہ ہوئی اوائل میں ہائی کورٹ نے اس کے خلاف مقدمہ درج کرنے تک سے ٹال و مٹول کی، عدالت نے خاک اسے آئینی و قانونی سے حل کرنا تھا؟
فساد کا اصل محرک کون ہوا؟
جہاں تک کسی فرد کو ازخود منصف و جلاد کی بات ہے تو یہ کام علم دین سے بھی ہوا، جن کے وکیل بانی پاکستان محمد علی جناح رحمت اللہ علیہ ہوئے، اب پھر آپ انگریزی حکومت کا طعنہ دیں گے تو صاحب ابھی بھی تو انگلو سیکسن لا ہی نافذ ہے، ہاں فیڈرل شریعت کورٹ موجود ہے مگر ہر ذی شعور اس کی حیثیت جانتا ہے
جہاں تک خلافت یا پھر بعد کی اسلامی حکومتوں سے اس قسم کی واقعات کا تعلق ہے تو علامہ خادم حسین رضوی صاحب نے اس پر مثالیں پیش کی ہیں، آپ ان سے مستفید ہو سکتے ہیں اور اس اثر کو زائل کر سکتے ہیں، جیسا کہ دور فاروقی میں ایک بچے نے عیسائی پادری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر ازخود سزا دی
الدر الکامنہ میں امام ابن حجر عسقلانی نے واقعہ نقل کیا کہ منگولوں کے ایک گروہ نے عیسائی مذہب اختیار کیا، عیسائیوں نے مجمع کیا اور ایک عیسائی نے طاقت کے زعم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تقریر کا رخ پھیر دیا، ساتھ ہی ایک کتا بندھا تھا، کتے نے اپنی رسی چھڑائی اور اس پر حملہ کیا، لوگوں نے سمجھا کہ شاید یہ تقریر کا اثر ہے، عیسائی نے حیلہ کیا نہیں تقریر کرتے میرا ہاتھ اس کی جانب ہوا تو غیرت مندکتے نے اسے شان کی منافی سمجھا، اس نے پھر تقریر شروع کی اور وہی راگ الاپا، کتے نے اب کی بار سیدھا اس کی گردن پر حملہ کیا اور اسے جہنم واصل کیا، یہ منظر دیکھ کئی منگول مسلمان ہوئے
ہے عیاں یورش تا تا ر کے فسانے سے
پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
آخر میں عرض یہی ہے کہ ویلا فقظ طالب علم ہے، یہاں آپ جیسے صاحبان علم سے مستفید ہونے کو چلا آتا ہے، اگر بیان میں کوئی بات نامناسب ہو تو معذرت کا طلبگا ر ہے کہ حاشا و کلانیت آپ کی ہرزہ سرائی کی نہ تھی، آپ کو ان صاحبان علم کی طرف رجوع کرنے کی استدعا کر سکتا ہے جو اس مسئلے کو سمجھنے کے اہل ہیں، امید ہے آپ نگاہ کرم سے نوازیں گے
آب و گیاہ میں فساد فی الارض کا موجب کون ہے، تو یہ ادھار رہا، کبھی غم دوراں سے چھٹی ملی تو اس پر کچھ عرض کرنے کے جسارت کروں گا، فی الحال اسی پر اکتفا ہے
قرینہ یا ضابطہ کیا یہی نہیں ہے کہ جو اصول موجود ہے اس کی پیروی و پابندی، اگر اصول غلط ہے تو ایک تنظیم اور نظم کے تحت اس کو تبدیل کرنے کی جدوجہد، اور مقصد کیا ہے فساد فی الارض سے پرہیز اور معاشرتی امن کا استقرار۔ کیا اس مسئلے کو دیکھنے کا ہمارا دائرہ کاروعمل (فریم ورک) یہی نہیں ہونا چاہیے؟ اب اس تناظر میں اپنے ان جملوں کو دیکھیے جن میں میرے خیال میں آپ نے اس سارے مقدمے کو فیصل کر دیا ہے اگر آپ کسی سے قانون سے متفق نہیں تو آپ کو اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی کہ آپ اس کے خلاف زبان درازیاں کریں
قانون کی موجودگی میں اگر ہم زبان درازی برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں تو کُجا یہ کے قتل کے صائب ہونے کی تاویل کریں
آپ انتظامی سائنس کے طالب علم نظر آتے ہیں،جس سے میری کاوش آسان ہو جاتی ہے کیونکہ نظام کے ضعف والا نکتہ بھی مندرجہ بالا فریم ورک کے اندر ہی ہم نمٹا سکتے ہیں
بچے کے قتل کرنے کی جو روایت آپ نے حوالہ کے طور پر پیش کی ہے، مجھے ایک تو اس کی صحت پر سخت اشکال ہے اور دوسرا وہ اپنی ذات میں ایک انتہائی متنازعہ شریعی/قانونی نکتہ ہے
میرا یہ مقصد نہیں کہ میں ممتاز کے جذبہءحبِ رسولؐ کی ایک لمحے کیلئے بھی توہین کروں لیکن ایک بار پھر آپ کے لفظ مستعار لیتے ہوئے ہر لئیم راز دان دین کیونکر ہو، اور پہلی پوسٹ سے یہی میرے بنیادی نکات میں سے ایک ہے صاحب شریعت اور شریعت کیونکر جدا ہوئے اور ان میں کون مقدم اور کون موخر؟ یہ بہت اہم نکتہ اٹھایا ہے آپ نے، میری رائے یہ ہوگی کہ جب تک تو صاحبِ شریعتؐ بہ نفسِ نفیس اپنے خوش نصیب عاشقان کے درمیان موجود رہے وہ مقدم، کہ رشدو ہدایت جاری و ساری تھی۔ جب انہوں نے بظاہر پردہ فرما لیا تو انکی شریعت مقدم۔ ورنہ وہی اندیشہء فساد فی الارض۔
میرا خیال ہے زیرِبحث نکتہ کچھ الجھ رہا ہے۔ حبِ رسولؐ بغیر کسی قیل وقال، تقاضائےایمان اور تحفظِ حرمت وناموسِِ رسولؐ تقاضائے تکمیلِ ایمان، اس پر نہ کوئی سمجھوتہ نہ سوال۔ لیکن مقطع میں فساد فی الارض کی سخن گترانہ بات آ پڑتی ہے جس کیلئے ایک نظام اور اسکی عملداری بحال رکھنے اور اصلاح کیلئے ایک قوتِ نافذہ، تنظیم اور نظم درکار ہیں
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلہ مسجد ہوں نے تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہرہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
شاید ویلے کی تحریر "دو سعد" آپ کی نگاہ سے گزری ہو جس میں اوس وخزرج کی سالوں چلتی دشمنی کی آگ یوں ختم ہوئی کہ دو قبیلوں کے سردار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں بائیں حفاظت پر مامور ہوئے، یہی نہیں ایک اور تحریر "قبلہ" جو یہاں کی انتظامیہ کو ہضم نہ ہوسکی میں ذکر تھا کہ اللہ کا قبلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، نقلی دلائل تو ویلے نے پیش کیے تھے جس میں ایک شہرہ آفاق تفسیر قرآن روح المعانی تھی جبکہ عقلی دلائل اگر کوئی تقاضا کرتا توکچھ کہنے کی جسارت ویلا بھی کرتا کہ ہمارے لیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام حرف ندا کے ساتھ پیش کرنا تو منع کہ وہ ہمارے روبرو نہیں مگر اللہ تو مسبب الاسباب ہے اس کے لیے یہ پابندیاں کیوں؟
کسی چیز کو یا تو دور سے دیکھا جائے یا پھر تکبر سے، تب اس شے کی قدرو منزلت کا ادراک نہیں رہتا، حالت زار یہ ہے کہ مسلمانوں کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قدرومنزلت ثابت کرنےکے لیے یہ جوکھم اٹھانا پڑیں گے؟
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا، وہ جو نہ ہو تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی، جان ہے تو جہان ہے
عشاق کبھی بھی شش و پنج میں مبتلا نہیں ہوتے، عشق تو خود ایک دلیل ہے، یہی عشق ہی تھا جس نے جولیا ہل کو کئی دنوں ایک درخت کو کٹنے سے بچانے کی خاطر اس کی آغوش میں سلائے رکھا، ایک درخت کے کٹنے پر خود کٹ مرنے پر پرعزم اہل مغرب ہمارے لیے قابل ستائش اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی حفاظت میں مبتلا میرے جیسے ویلے جنونی و پاگل و خبطی و جہادی؟
مغرب کے اصولو ں کو بھی کیا کہنے، ایک گلوگار ڈکسی چکس صرف اتنا کہنے پر معتوب کہ وہ شرمندہ ہے بش بھی ٹیکساس سے ہے اور ہم سب سے مکرم و معظم و محتشم ہستی کے متلعق زبانیں دراز کرنے پر آزاد؟
یہی نہیں برطانیہ میں حال ہی میں قانون پیش ہوا کہ 'برٹش ویلیوز' کے خلاف بات کرنے پر آپ قانون کی گرفت میں آ سکتے ہیں، ان ویلیوز میں ایک جمہوریت بھی ہے یعنی جمہوریت کے خلاف زبانیں گنگ اور ناموس رسالت لا وارث؟
ریمنڈ ڈیوس ہی کے معاملے کو دیکھ لیجیے، قانون دیت کی دھجیاں بکھر گئیں، غزوہ خندق کی موقع پر ایک مشرک کی لاش خندق کے اس پر آ گری تو اس کے لواحقین نے بھاری قیمت ادا کرنی چاہی تاکہ وہ اس کی آخری رسومات ادا کر سکیں، مگر رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی قیمت کو گوارا نہ کیا ، اس وقت کے حالات بھی سامنے رکھیے جب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکم اقدس پر پتھر باندھے ہوئے تھے
چلیں کاغذوں میں ہی سہی، آ پ تو اسلامی جمہوریہ ہیں اور بھارت سیکولر، مگر وہاں کے حالات پر بھی نظر ہوکہ افضل گرو کو صرف اس لیے پھانسی دی گئی کہ قانون نہیں بلکہ 'لوگ' یہی چاہتے تھے اور بلونت سنگھ جس نے ۱۹۹۵ میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ بینت سنگھ کو قتل کیا اس کی پھانسی کی سزا پر آج تک عمل نہ ہو سکا کیونکہ سکھ برادری نا صرف بلونت سنگھ کے ساتھ ہے بلکہ اسے سکھوں کے اعلیٰ اعزاز سے بھی نوازا، ہاں یہاں 'انسانیت' نواز کچھ زیادہ ہی ہیں ؟
داستان طویل اور نشست مختصر، عامر بن اکوع رضی اللہ عنہ یاد آئے کہ خیبر کے راستے میں وہ خوش الحان جب محو ترنم تھے تو آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اشعار سے خوش ہو کراس کے گناہ بخش دینے کا عندیہ دیا، اگلے دن معرکہ ہوا اور آپ شہید ہوئے تو مزاج آشنا یار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یارسول اللہ، آپ عامر کو چند دن اور زندہ رہنے دیتے ، یہ واقعہ صحیح بخاری میں اور اس کی تفصیل بخاری کی شرح میں موجود، عرض پھر یہی ہے کہ یہ ممتاز قادری اور حوروں کے درمیان 'پھڈا' ڈالنے والی بات نہیں بلکہ ویلا تو عاشق صادق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سننے کا خواہاں ہے، اگر 'پھڈے' ڈالنے کا الزام ویلے پر لگانا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت کیا کہیں گے جنہوں نے معراج کے دوران حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا گھر دیکھا اور فرمایا کہ عمر کی غیرت کی وجہ سے گھرمیں نہ جھانکا، واپسی پر چاہیے تو یہ تھا معاذ اللہ عمر کو گھر پہنچانے کا انتظام کرتے
کبھی دیار حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نصیب لے جائے تو باب السلام سے باب البقیع میں دائیں جانب دل آویز خطاطی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کندہ ہیں، ان میں ایک ہے عروہ وثقیٰ یعنی سب سے مضبوط رسی، بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اللہ کی رسی ہیں اور امت مسلمہ کبھی اس مخمصے کا شکار نہیں رہی، اللہ ہمیں ثابت قدم رہنے کی تو فیق عطا فرمائے
جان ہے عشق مصطفیٰ اور فزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزا، ناز دوا اٹھائے کیوں
ویلا جی ماشااللہ لفاظی میں تو کم از کم اس فورم پر آپ کا کوئی مد مقابل نہیں دیکھا کسی نے پر یہ جو آپ نے فرمایا ہے کے معراج سے گھر دیکھا اورجناب عمر کی غیرت کی وجہ سے گھر میں نہ جھانکا یہ تو آپ نے اور بخاری شریف نے سرا سر توہین رسالت کی ہے کیوں ؟ اس کی وجہ یہ ہے کے جناب عمر کی وجہ سے گھر میںنہ جھانکا ان کے تو کیا نعوذ بللہ رسالت مآب کسی اور کا گھر ہوتا تو ضرور جھانکتے ؟ آپ کے لکھنے کے مطابق تو یہ سراسر توہین ہے اور یقینن جو الفاظ آپ نے استمال کئے ہیں مجھے یقین ہے بخاری جی میں بھی یہی ہوں گے
تو یہ تو سرا سر توہین ہے آپ رسالت مآب کی کے اگر گھر کسی اور کا ہوتا تو آپ جھانکتے پر چونکے یہ گھرجناب عمر کا تھا اور ان کی غیرت کی وجہ سے نہ جھانکا جناب یہ بات ہضم بھی نہیں ہوئی اور میرا یقین ہے کے اگر کوئی عاشق رسول ممتاز قادری جیسا پیدا ہو گیا تو آپ کی بھی خیر نہیں ہو گی
عرض یہی کروں گا کے فضائل جو مرضی بنا لیں فیکٹری میں پر کسی بھی صورت اس میں رسالت مآب کی توہین کا کوئی پہلو نہیں نکلنا چاہیے ہے شکریہ
قرینہ یا ضابطہ کیا یہی نہیں ہے کہ جو اصول موجود ہے اس کی پیروی و پابندی، اگر اصول غلط ہے تو ایک تنظیم اور نظم کے تحت اس کو تبدیل کرنے کی جدوجہد، اور مقصد کیا ہے فساد فی الارض سے پرہیز اور معاشرتی امن کا استقرار۔ کیا اس مسئلے کو دیکھنے کا ہمارا دائرہ کاروعمل (فریم ورک) یہی نہیں ہونا چاہیے؟ اب اس تناظر میں اپنے ان جملوں کو دیکھیے جن میں میرے خیال میں آپ نے اس سارے مقدمے کو فیصل کر دیا ہے اگر آپ کسی سے قانون سے متفق نہیں تو آپ کو اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی کہ آپ اس کے خلاف زبان درازیاں کریں
قانون کی موجودگی میں اگر ہم زبان درازی برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں تو کُجا یہ کے قتل کے صائب ہونے کی تاویل کریں
آپ انتظامی سائنس کے طالب علم نظر آتے ہیں،جس سے میری کاوش آسان ہو جاتی ہے کیونکہ نظام کے ضعف والا نکتہ بھی مندرجہ بالا فریم ورک کے اندر ہی ہم نمٹا سکتے ہیں
بچے کے قتل کرنے کی جو روایت آپ نے حوالہ کے طور پر پیش کی ہے، مجھے ایک تو اس کی صحت پر سخت اشکال ہے اور دوسرا وہ اپنی ذات میں ایک انتہائی متنازعہ شریعی/قانونی نکتہ ہے
میرا یہ مقصد نہیں کہ میں ممتاز کے جذبہءحبِ رسولؐ کی ایک لمحے کیلئے بھی توہین کروں لیکن ایک بار پھر آپ کے لفظ مستعار لیتے ہوئے ہر لئیم راز دان دین کیونکر ہو، اور پہلی پوسٹ سے یہی میرے بنیادی نکات میں سے ایک ہے صاحب شریعت اور شریعت کیونکر جدا ہوئے اور ان میں کون مقدم اور کون موخر؟ یہ بہت اہم نکتہ اٹھایا ہے آپ نے، میری رائے یہ ہوگی کہ جب تک تو صاحبِ شریعتؐ بہ نفسِ نفیس اپنے خوش نصیب عاشقان کے درمیان موجود رہے وہ مقدم، کہ رشدو ہدایت جاری و ساری تھی۔ جب انہوں نے بظاہر پردہ فرما لیا تو انکی شریعت مقدم۔ ورنہ وہی اندیشہء فساد فی الارض۔
میرا خیال ہے زیرِبحث نکتہ کچھ الجھ رہا ہے۔ حبِ رسولؐ بغیر کسی قیل وقال، تقاضائےایمان اور تحفظِ حرمت وناموسِِ رسولؐ تقاضائے تکمیلِ ایمان، اس پر نہ کوئی سمجھوتہ نہ سوال۔ لیکن مقطع میں فساد فی الارض کی سخن گترانہ بات آ پڑتی ہے جس کیلئے ایک نظام اور اسکی عملداری بحال رکھنے اور اصلاح کیلئے ایک قوتِ نافذہ، تنظیم اور نظم درکار ہیں
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآن، وہی فرقان، وہی یٰسین، وہی طٰہ
لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیر اوجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حجاب
موت درحقیقت مومن کا تحفہ ہی ہے کہ قید خانے سے نجات نصیب ہوتی ہے اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار حاصل ہوتا ہے، مگر اس بات کے متعلق عرض کر چکا جب عامر بن اکوع رضی اللہ عنہ کا حوالہ دیا، یہ واقعہ صحیح بخاری میں بھی ہے اور دیگر کتب حدیث میں، ارشاد الساری شرح بخاری کا ذکر اس لیے خاص طور پر کیا کہ جو اشعار عامر بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہے جمہور مترجمین نے ان کا مخاطب اللہ کو کیا مگر صاحب ارشاد الساری نے ان کا مخاطب رسول اللہ صلی اللہ علیہ کو کیا، ارشاد الساری جلد ۶، صفحہ ۲۹۱ پر یہ پڑھا جا سکتا ہے
جس بات کی طرف ویلے نے اشارہ کیا وہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشعار سن کر ان کی مغفرت کا مژدہ سنا دیا، اور صحابہ جانتے تھے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو ان لفظوں کے ساتھ مغفرت کی بشارت دے دیں تو ان کی شہادت لازم ہے، وہی ہوا کہ آپ شہید ہوگئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ آپ ان یعنی عامر سے فائدہ اٹھانے دیتے یعنی وہ زندہ رہتے
امید ہے پھر یہ نکتہ نہیں دہرانا پڑے گا، اب رہی بات غزالی صاحب کی تو امید ہے علامہ کے جو شعر پیش کیے ہیں وہ اس مغالطے کو زائل کرنے کو کافی ہیں جو انہیں ہوا، ویلے کی موت و حیات پر رائے دوسری ہے
مجھے ڈر ہے کہ دل زندہ تو نہ مر جائے
کہ زندگانی عبادت ہے تیرے جینے سے
جہاں میں اہل ایمان صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے، ادھر ڈوبے ادھر نکلے
تیسری بات یہ کہ اللہ نے اعلان فرمایا کہ اے محبوب ، ہر آنے والی گھڑی تیرے لیے پچھلی سے بہتر ہے ، اس لیے یہ قیا س آرائی کہ ان کی زندگی میں تو ان کی عزت کی بے توقیری نہ کی جائےمگر پردہ فرمانے کے بعد کی جاسکتی ہے باطل ہے، اللہ نے یہ تک فرما دیا کہ ان کی ازواج سے نکاح نہ کرنا کیونکہ یہ ان کو اذیت دینا ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہو تو شریعت کے تقاضے ہی بدل جاتے ہیں،شہید کو خود اللہ نے زندہ قرار دیا، مگر شہید کا نکاح بھی شہادت کے بعد ٹوٹ گیا، یہی نہیں اگر نماز پڑھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلائیں تو فی الفور آنے کا حکم اور نماز وہی سے شروع جہاں سے چھوٹی، ان کی بارگاہ میں آوازیں پست رکھنے کا حکم کی تختی آج بھی ان کے روضہ پر نصب حالانکہ وہاں کی حکومت کے نظریات سبھی کو معلوم
چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعت شان ورفعنا لک ذکرک دیکھے
آج بھی اگر عشاق کہیں تبرکات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سراغ پائیں تو سرنگوں اشکبار، کیونکہ جس اللہ نے قربانی کے جانور میں پڑے ہوئی رسی کو بھی شعائراللہ کا درجہ دیا اور اس کے احترام کا درس دیا، آپ کا کیا خیال ہے اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی بکواس کرے تو وہ راضی ہو گا؟
اللہ قادر ہے، اس نے خود مکڑی کے گھر کو سب سے کمزور کہا، مگر جب سفر ہجرت پر اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا مقام آیا تو اسی مکڑے کے جالے اور کبوتر کے انڈوں سے خدمت لی، ابرہہ پر ابا بیل بھیج دئیے، اس لیے اللہ کو ہرگز کسی ویلے کی ضرورت نہیں کہ وہ آ کر چکنی چپڑوں باتوں سے دل لبھائے، ہاں ویلے کو اللہ کی ہر دم ضرورت کہ بڑھیا کے پاس اگرچہ چند سکے تھے مگر خریداران یوسف میں نام لکھوانے کو وہ بھی چلی، حضرت ابراھیم علیہ السلام یاد آئے کی ان کی نار کو بڑھاوے کے لیے چھپکلی پھونکیں مارتی تو تا قیامت اسے مارنے کا حکم دے دیا
اب ظاہر بین یہ سوال کرے گا کہ چھپکلی سے بھی اسلام "خطرے " میں آ گیا؟
جو جس سے محبت کرے، اسی کے ساتھ حشر ہو، اور بندے کا دین دوست کے دین پر، اس لیے محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ نازک تر
بلعم بن باعورہ کا واقعہ پڑھ لیں، کہنے کو وہ مستجاب الدعا تھا کہ کوئی دعا رد نہ ہوتی مگر اللہ کے نبی علیہ السلام کے خلاف دعا کرنے کو چلا تو اس کے زبان سے اپنی ہی قوم کے لیے بددعا نکلی، اسی طرح اصحاب کہف کے کتے کا واقعہ پڑھ لیں، جو صرف ان کے ساتھ تھا، اللہ نے اس کے بیٹھنے تک کا ذکر اپنے کلام میں کیااور وہ امر ہو گیا، اونٹنی کا ذکر پڑھ لیں کہ اس کی توہین پر قوم پر کیا عذاب گزرا
تابوت سکینہ کے متعلق پڑھ لیں، جب قوم عمالقہ اسے اٹھا کے لے گئی تو اس کی توہین کی، عذاب میں مبتلا ہوئی اور خود ہی اس سے جان چھڑانے کے درپے ہوئے، حجر اسود کو ہی دیکھ لے جسے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوسا دیا
غرض کہ ان سب کا مقصد ادب کا اس جہت سے آگاہ کرنا تھا جس کی تعظیم توجہات الہٰی کا موجب اور جن کی توہین غضب الہیٰ کا پیغام
عرض کی تھی کہ یہ مضامین ایک نشست میں ختم ہونے کے نہیں، وقت درکار اور ویلا رہتا ہے مست، توجہ یہ رکھیں کہ توہین شعائراللہ اور توہین انبیا ہی اصل فساد ہے، جبکہ یار لوگوں نے اس باب کو بند کرنے والوں پر ہی فساد فی الارض کا شور ڈال دیا
کل کو نئے فتنے سر اٹھائیں گے، ختم نبوت پر جو یقین نہیں رکھتے وہ اس قانون کو کالا کہیں گے، جو نکاح متعہ پر یقین نہیں رکھتے وہ پاکستان میں نافذ عائلی قوانین کو کالا کہیں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب پر کوئی انگلی اٹھائے گا تو کوئی ان کی ازواج کی شان میں گستاخی کرے گااور ہر بندہ یہی گا جب سب سے مقدم و محترم رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی ہی معاف ہے تو اہل بیت و صحابہ کا درجہ ان سے تو کم ہےتو ان کی تو ہین پر معافی کیوں نہیں ہو سکتی
عوام الناس کو تاثر یہی دیا جا رہا ہے کہ یہ قانون ہی سرے سے غلط ہے، اس سے فساد پیدا ہوتا ہے، لیکن یہ کوئی نہیں بتا سکتا کہ اگر یہ قانون نہ ہو تو فساد پیدا کتنا ہوگا اور کس قدر بھیانک ہوگا، اس کی ایک بھونڈی سی مثال یوں سمجھیں کہ یہ تو ہم سب خوشی سے بتاتے ہیں کہ ذاکر نائیک نے ہزاروں لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا، مگر یہ نہیں بتاتے کہ موصوف کے نظریات کے تحت کڑوڑوں مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہو چکے
یہ تو جمع خرچ کا اپنا حساب ہے، کیا کہیے؟
یہ زائرانِ حریمِ مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے
!ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے نا آشنا رہے ہیں
!غضب ہیں یہ”مرشدانِ خودبیں” خدا تری قوم کو بچائے
بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزّت بنارہے ہیں
سُنے گا اقبال کون ان کو یہ انجمن ہی بدل کئی ہے
نئے زمانے میں آپ ہم کو پُرانی باتیں سنا رہے ہیں
دانش حاضر، حجاب اکبر است
بت پرست و بت فروش و بت گر است