مجید اچکزئی کا جرم پوری قوم نے دیکھا، نہیں دیکھائی دیا تو فقط آنکھوں پر پٹی باندھے منصف کو جسے شاید اچکزئی کی دولت اور طاقت نے وقتی اندھا کردیا- بڑی عدالیتں، ریاستی ادارے، اور حکومت انصاف کے اس قتل پر یوں دام سادھے بیٹھے ہیں جیسے مجید اچکزئی کی لینڈ کروزر نے ان کو اپنے بڑے بڑے ٹائروں کے نیچے کچل دیا ہو مجید اچکزئی اس نام نہاد عدالت سے " باعزت" رہا ہوگیا اب آگے کیا ہوگا؟ آئینی شق 62 لگے گی اور نہ 63، تو الیکشن کمیشن سے نااہلی کا خدشہ بھی نہیں- انتخابات کا موسم آۓ گا تو اسی نیم خواندہ قبائلی معاشرے میں بطور امیدوار کھڑا ہوگا- اپنی دولت، گھمنڈ، قبیلے اور ذات پات کی بنیاد پر منتخب ہوکر اسمبلی میں پہنچ جاۓ گا اسمبلی میں بطور پالیسی میکر کیونکر چاہے گا کہ وہ اس غیرعادلانہ نظام کو بدلے جس نے اسے قتل جیسے قبیح جرم سے نہایت صفائی سے نکال باہر کیا- اس نظام میں اصلاحات لانا کیوں اس کی ترجیح ہوگی جو اس کے کرتوتوں کا پشت پناہ ہے اور اس کے ہر قسم کے مفادات کا نگہبان ہے! ناحق خون سے رنگے ان مجرموں کے ہاتھ ظالم کا ساتھ دے سکتے ہیں مظلوم کی داد رسی نہیں کرسکتے! اور یہ بات مجید اچکزئیوں تک محدود نہیں، یہ اسمبلیاں 70 فیصد قاتلوں، لیٹروں، اور قبضہ گیروں پر مشتمل ہیں- جب تک اسمبلیوں کی ان ناسوروں سے صفائی نہیں ہوتی، وطن عزیز میں جمہوریت ایک بے معنی ٰ اور بےثمر مشق رہے گی! سارجنٹ تو بیچارہ شہید ہوا تھا، اب تو انصاف کا قتل عام ہوا ہے اور وہ بھی منصفوں کے ہاتھوں. پتہ نہیں جج نے اپنا ایمان کتنے میں بیچا ہے ویسے جتنے میں بھی بیچا ہے بہت ہی سستا بیچا ہے