پنجابی کھلے دل کے مالک ھیں۔ پنجاب سب کے لئے۔ 1947 میں جو مہاجرین پنجاب میں آباد ھوئے وہ پنجاب میں پنجابی کہلائے۔ ایسے مکس ھوئے کہ مہاجر کا نام کا انسان نہ پنجاب میں ھے نہ ملے گا۔ لیکن جو سندھ کراچی آباد ھوئے وہ اب تک خود کو مہاجر کہتے ھیں اور اس نام کو استعمال کر کے اپنی سیاست کررھے ھیں۔ کسی قوم کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کی اپنی قوم پرستی، زبان، رنگ نسل وغیرہ۔ سندھی مہاجر بلوچوں نے اپنے آپ کو ایک دائرے تک محدود کر لیا ھے۔ دنیا بہت بڑی ھے۔ اس دائرے سے باھر نکلو۔ ھم سب کی شناخت پاکستانی ھے۔ دوسرا ھم سب مسلمان ھیں۔ وہ مسلمان ھی کیا جو اپنے دوسرے مسلمان بھائی سے اس لئے نفرت کرے کیوں کہ وہ زبان اور سقافت میں مختلف ھے۔ شرم کا مقام ھے۔ لعنت ھے ایسے لوگوں پر جو مسلمان اور ایک وطن کے ھو کر بھی نہ ایک ھوئے نہ ایک ھونے دیتے ھیں۔ اسی لئے نہ ھی بلوچستان ترقی کرسکا نہ سندھ۔۔ کراچی میں بھی مہاجر کا نعرہ لگا کر اس روشنیوں کے شہر کو اندھیروں میں ڈبو دیا۔ دیکھا جائے تو جو ترقی سندھ یا بلوچستان میں ھوئی ھے اس میں مقامی لوگوں کا کردار بہت ھی کم ھے۔ ھم مسلمان ھو کر قومیتوں کے گرد گوم رھے ھیں ۔
چھوٹا سا انگلینڈ ھے جو ساری دنیا کے لوگوں کو قبول ھے۔ یورپ کو دیکھہ لیں یا امریکہ کو۔ یہاں کا ھر شہری وھی حقوق رکھتا ھے جو یہاں کا گورا ، یہاں کا پیدائشی۔ یہی وجہ ھے کہ یہ ملک ترقی کر رھے ھیں۔ لیکن ھم اپنے ھی ملک میں اپنی چھوٹی سی دنیا میں قید ھیں۔ جہالت کی انتہا ھے۔
بے شک پنجاب کے 4 صوبے بنا دئے جائیں تو وہ پھر بھی ترقی کرے گا۔ بنجاب کے اگر صوبے بنانے ھیں تو قومیت پر نہی بنانے چاھیں۔ اگر سرائکی صوبہ بنا تو ایک اور نفرت جنم لے گی۔ کچھہ حاصل نہی ھو گا۔ سرایئکی نواب بھی وھی کچھہ کریں گے جو سندھ کے وڈیرے اور بلوچستان کے سردار کررے ھیں۔