خان صاحب اور بھٹو صاحب کی طرز سیاست اور پیپلز پارٹی کے جیالوں اور تحریک انصاف کے متوالوں کی نفسیات میں ایک تاریخی مماثلت ہے ، بھٹو صاحب نے بھی خان صاحب کی طرح ایوب خان کے خلاف ایک جھوٹی بات کو بنیاد بنا کر اس ملک میں "عوامی سیاست " کی طرح ڈالی ، پھر ایک نظریاتی جماعت بنائی نعرے جسکے بڑے آیڈ یلسٹک تھے ، سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرینگیں ، جاگیرداروں کی چمڑی کھینچ کر رکھ لینگیں ، سامراج پر یلغار ہوگی ، اسلامی سوشلزم نافذ کرینگیں وغیرہ - پھر تاریخ نے وہ منظر بھی دیکھا کہ بھٹو صاحب نے چن چن کر سرمایہ دارو ، جاگیرداروں ، کارخانہ داروں کو پارٹی میں شامل کرنا شروع کیا ، عوامی جلسوں میں جنکے خلاف تقریریں کرتے تھے انکو اپنی کابینہ میں شامل کر لیا یعنی یہی آج کی عمرانی سیاست شروع کر دی جسکو آپ پاور پالیٹکس یا الیکٹبلز کی سیاست کہ سکتے ہیں
اس دو عملی پر کچھ جیالے ناراض ہوۓ لیکن اکثریت نے اسے بھٹو کی سیاسی بصیرت اور حقیقت پسندی سے تعبیر کیا اور بھٹو صاحب کے حق میں تاویلیں گھڑنے لگے ، "اب بھٹو صاحب فرشتے کہا سے لیکر آیئں ، ایک بار حکومت آنے دو بھٹو ان سب کو فارغ کر دے گا" وغیرہ - یہ جو آج آپ کو گنے چنے جیالے نظر آتے ہیں یہ انہی جیالوں کی آل میں سے ہیں ، بس ذرا ڈھیٹ ہوگے ہیں ، بھٹو کے دفاع دفاع میں چند ، بینظیر کے دفاع میں چند اور ، زرداری کے دفاع میں ڈھیر ساری تاویلیں - یہ جیالوں کی اخلاقی دیوالیہ پن کی وہ داستان ہے جسکی پہلی دوسری سیڑھی پر عمرانیوں نے پاؤں رکھ دیا ہے ، پہلے سیاسی لوٹوں کے حق میں دلائل دیے اور اب مقلدیت عمران میں موروثی خاندانی سیاست کے حق میں دلائل ، یہی لوگ کل ریحام کے ایم این اے بننے کے حق میں دلائل دینگیں ، پرسوں جنہانگیر ترین کے پارٹی چیرمین بنے کا دفاع کر رہے ہونگیں - قوم کو نیے جیالے مبارک ہوں ، رہے نام الله کا