bilalurrashid
Siasat.pk - Blogger

وہ ٹی وی کے ایک گھٹیا سے مزاحیہ پروگرام کا میزبان تھا۔
یہ پروگرام شرفا کا نہیں تھا۔
اسے کچھ کچھ اپنی طاقت کا اندازہ ہو چلا تھا۔
اسے احساس ہونے لگا کہ عزت اور ذلت خدا کے ہاتھ میں تو ہے ہی پر اب کچھ بس اس کا بھی چلنے لگا ہے ۔آخر وہ جسے نا پسند کرے ، اپنے بھانڈوں کو اس پر کھلا چھوڑ سکتا تھا۔ اس نے سوچا کہ س پروگرام کے بل پر شریف لوگوں سے کتنے ہی کام کروائے جا سکتے ہیں ۔ آخر شر سے بچنے کے لیے بھی تو لوگ عزت کیا کرتے ہیں ۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ ہارون الرشید بہت کم خوف کا شکار ہوتاہے۔
میں نے والد صاحب ﴿ہارو ن الرشید ﴾سے پوچھا : آفتاب اقبال کا معاملہ کیا ہے ؟ "کچھ بھی نہیں" انہوں نے بتایا: آفتاب اقبال نے اپنے رسالے کے لیے مجھے عمران خان کا خاکہ لکھنے کا کہا، 25صفحات ۔یہ 12گھنٹے کا کام تھا ۔اخبار کے لیے اتنی مشقت کرنے پر مجھے تقریباً ڈھائی لاکھ روپے ملتے ہیں مگر میں نے اسے یہ بلا معاوضہ کر کے دیا۔
پھر آفتاب اقبال کو احساس ہوا کہ خاکے میں کافی غلطیاں ہیں ۔اس نے قلم اٹھایا اور سواستیاناس کر دیا۔
ایک حساس لکھاری اپنی تحریر کی بے توقیری برداشت نہیں کر تا۔ بہرحال میں نے صبر کیا ۔ کچھ عرصہ بعد ایک اور فرمائش ہوئی۔ اب کی بار میں نے اسے بتایا کہ میں ایک فارغ آدمی ہرگز نہیں۔ اگر فراغت ہوتی تو وہ کتاب تحریر کرتا ، جس کی برسوں سے خواہش ہے ۔
آفتاب اقبال کو بڑی تذلیل محسوس ہوئی۔ وہ دن اور آج کا دن ،وہ ہارون الرشید کے خلاف جتا ہے مگر بات کچھ بنی نہیں ۔ ۔۔رائے عامہ الٹا پروگرام کے میزبان ہی کو گالی دیتی ہے ۔ روہانسا ، ایک دن اس نے کہا"ریٹنگ کچھ نہیں ہوتی۔ یہ محض کمپیوٹر کا ایک کھیل ہے "
آفتاب اقبال کو غلط فہمی ہوئی تھی ۔ عزت او رذلت فقط اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اپنی طاقت کسی سے شئیر نہیں کرتا۔
ہائے بیچارہ!
بیچارہ رسالہ داغِ مفارقت دے چکا۔ حلوائی کی دوکان پہ تادیر نانا جی کی فاتحہ نہیں کی جاسکتی۔
Last edited by a moderator: