Counting the Cost - The China-Pakistan economic corridor

zain786

Chief Minister (5k+ posts)
musharaf time k mansube ye bechare avayen begani shadi mai adullah dewana hue hue hain
 

Bangash

Chief Minister (5k+ posts)
http://www.express.pk/story/327513/



پاک چین کوریڈور ریکو ڈک کے بعد ایک ایسا منصوبہ ہے جس پر چھوٹے صوبوں نے اعتراضات اُٹھائے ہیں۔ ریکوڈک کے حوالے سے بلوچستان کے رہنما بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔ اب پاک چین کوریڈور کے روٹ کے حوالے سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے سیاستدانوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔

جب 2013 میں تجارتی راہداری کا نقشہ انٹرنیٹ پرمجھے ملا توحیرت ہوئی کہ اسلام آباد کے بجائے اب نیا راستہ لاہور کی طرف شارپ ٹرن لیکر پنجاب اور سندھ میں سے ہوکر گوادر پہنچتا ہے، حلانکہ دُنیا بھر میں تجارتی راہدریاں شارٹ کٹ ہوا کرتی ہیں۔ اس حوالے سےحال ہی میں خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں راہدری کے روٹ کے خلاف قرارداد پیش کی گئی، جس میں مرکزی حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ اصلی روٹ کو تبدیل نہ کرے اور اگر ایسا کیا گیا تو یہ جنگ سے تباہ حال صوبے کے ساتھ انتہائی زیادتی ہوگی۔

اس سے پہلے سینٹ کے اجلاس سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے سینیٹرز واک آوٹ کرچکے ہیں۔ اُن کا موقف تھا کہ اصل روٹ جو کہ چین نے منتخب کیا تھا اگر اُسے بدلا گیا تو ملک متحد نہیں رہے گا۔ گوکہ حکومت نے اُن کو مطمئن کرنے کیلئے یہ موقف اپنایا کہ یہ تبدیلی وقتی ہوگی جو کہ سیکورٹی خدشات کی وجہ سے ہے جس کے جواب میں حاجی عدیل نے یہ سوال اُٹھایا ہے کہ سیکورٹی کے خدشات ملک کے کس حصے میں نہیں۔ سینٹیر ھمایوں مندوخیل بھی 2014 میں اس طرح کے خدشات کا اظہار کرچکے ہیں اور سینٹ سے استفعیٰ کی دھمکی بھی دی تھی۔ اس ضمن میں کچھ عرصے بعد یہ خبر منظرعام پر آئی کہ حکومت نے متبادل راستے کا آپشن بھی رکھا ہے جو خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں سے ہو کر گزرے گا۔

کیا حقیقت ہے کیا افسانہ، یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر خدشہ ہے کہ پاک چین کوریڈرو پر علاقائی مفادات کا جھگڑا اس منصوبے کے آڑ میں کہیں کوئی بڑی رکاوٹ نہ کھڑی کردے۔ دوسری جانب مین یہ سوچ کر مطمئن ہوں کہ پاکستانی اور چینی میڈیا میں اس طرح کے تحفظات کو جگہ تو ملتی ہے لیکن اس کے اثرات کم ہی ہوتے ہیں۔ البتہ حکومت نے اِن آوازوں کو پروپیگنڈا قرار دیا ہے۔ اُن کی نظر میں یہ آوازیں پاک چین کوریڈور کو متنازعہ بنانا چاہتی ہیں۔ لیکن یہ بھی یاد رکھا جائے کہ چھوٹے صوبوں کی آواز کو متنازعہ بنانا انتہائی خطرناک ذہنیت ہے جس کا خمیازہ ہم 1971میں بھگت چکے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اس منصوبے کو متنازعہ نہیں بنایا جارہا، کوئی اس کی مخالفت نہیں کررہا، بات صرف یہ ہے کہ روٹ کی تبدیلی سے پسماندہ اور مسائل میں جکڑے صوبوں کے علاقے متوقع فوائد سے محروم ہوجائیں گے اور ساتھ ہی روٹ کی لمبائی میں تقریباً ایک ہزار کلومیٹر کا اضافہ بھی ہوجائے گا جس کی وجہ سے اس منصوبے کے اخراجات میں مزید اضافہ ہوا۔ دوسری جانب، اصل راستہ نہ صرف مختصر ہے اور اُن علاقوں کو ایسے پراجیکٹس کی اشد ضرورت بھی ہے۔ بات رہی محفوظ راستوں کی تو فوج کے آپریشن کے بعد یہ علاقے کلیئر ہوگئے ہیں۔ لہذا اگر بنیادی سرمایہ کاری چین کررہا ہے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس صورتِ حال کو چین بہتر حل کر سکتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے چین کے مغربی صوبوں کو ملک کے دوسرے علاقوں کے طرز پر ترقی دینے کیلئے چینی حکومت نے گریٹ ویسٹرن ڈیویلیپمنٹ اسٹریٹیجی کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا تھا۔ چینی حکومت اُسی کے طرز پر پاکستان کے لئے بھی ہمہ گیر پروگرام ترتیب دے سکتی ہے۔ تجارتی راہدری کی بنیاد پر پاکستان کے پسماندہ علاقوں کو نہ صرف ترقی دی جاسکتی ہے بلکہ ان علاقوں سے چین افغانستان میں چینی منصوبوں کے ساتھ بھی رابطہ بھی بنا سکتا ہے۔

چھوٹے صوبوں کی آوازیں پاکستانی اور چین دونوں حکومتوں کے ضمیر کو للکارتی رہیں گی۔ دونوں حکومتوں کو پسماندہ علاقوں پر توجہ دینی چاہئے۔ یقیناً پاکستان اور چین کی دوستی ہمالیہ سے اُونچی اور سمندر سے گہری ہے لیکن بعض آوازیں یا تو اس دوستی کی اونچائیوں تک پہنچ نہیں پاتی یا اس کی گہرائی میں ڈوب جاتی ہیں۔

پچھلی بار چینی صدر کا دورہ پاکستان، یہاں کے حالات کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا اور اب اُن کے دورے سے پہلے منصوبے کے متعلق چھوٹے صوبوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ اِس لیے بہتر ہوگا کہ یہ مسئلہ چینی صدر کے دورے سے پہلے ہی حل کرلیا جائے۔ کیونکہ چینی حکومت کے اقدامات ہی پاکستانی معیشت کو مضبوط بناسکتی ہیں۔

 

Yasirsaeed2002

MPA (400+ posts)
http://www.express.pk/story/327513/



پاک چین کوریڈور ریکو ڈک کے بعد ایک ایسا منصوبہ ہے جس پر چھوٹے صوبوں نے اعتراضات اُٹھائے ہیں۔ ریکوڈک کے حوالے سے بلوچستان کے رہنما بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔ اب پاک چین کوریڈور کے روٹ کے حوالے سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے سیاستدانوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔

جب 2013 میں تجارتی راہداری کا نقشہ انٹرنیٹ پرمجھے ملا توحیرت ہوئی کہ اسلام آباد کے بجائے اب نیا راستہ لاہور کی طرف شارپ ٹرن لیکر پنجاب اور سندھ میں سے ہوکر گوادر پہنچتا ہے، حلانکہ دُنیا بھر میں تجارتی راہدریاں شارٹ کٹ ہوا کرتی ہیں۔ اس حوالے سےحال ہی میں خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں راہدری کے روٹ کے خلاف قرارداد پیش کی گئی، جس میں مرکزی حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ اصلی روٹ کو تبدیل نہ کرے اور اگر ایسا کیا گیا تو یہ جنگ سے تباہ حال صوبے کے ساتھ انتہائی زیادتی ہوگی۔

اس سے پہلے سینٹ کے اجلاس سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے سینیٹرز واک آوٹ کرچکے ہیں۔ اُن کا موقف تھا کہ اصل روٹ جو کہ چین نے منتخب کیا تھا اگر اُسے بدلا گیا تو ملک متحد نہیں رہے گا۔ گوکہ حکومت نے اُن کو مطمئن کرنے کیلئے یہ موقف اپنایا کہ یہ تبدیلی وقتی ہوگی جو کہ سیکورٹی خدشات کی وجہ سے ہے جس کے جواب میں حاجی عدیل نے یہ سوال اُٹھایا ہے کہ سیکورٹی کے خدشات ملک کے کس حصے میں نہیں۔ سینٹیر ھمایوں مندوخیل بھی 2014 میں اس طرح کے خدشات کا اظہار کرچکے ہیں اور سینٹ سے استفعیٰ کی دھمکی بھی دی تھی۔ اس ضمن میں کچھ عرصے بعد یہ خبر منظرعام پر آئی کہ حکومت نے متبادل راستے کا آپشن بھی رکھا ہے جو خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں سے ہو کر گزرے گا۔

کیا حقیقت ہے کیا افسانہ، یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر خدشہ ہے کہ پاک چین کوریڈرو پر علاقائی مفادات کا جھگڑا اس منصوبے کے آڑ میں کہیں کوئی بڑی رکاوٹ نہ کھڑی کردے۔ دوسری جانب مین یہ سوچ کر مطمئن ہوں کہ پاکستانی اور چینی میڈیا میں اس طرح کے تحفظات کو جگہ تو ملتی ہے لیکن اس کے اثرات کم ہی ہوتے ہیں۔ البتہ حکومت نے اِن آوازوں کو پروپیگنڈا قرار دیا ہے۔ اُن کی نظر میں یہ آوازیں پاک چین کوریڈور کو متنازعہ بنانا چاہتی ہیں۔ لیکن یہ بھی یاد رکھا جائے کہ چھوٹے صوبوں کی آواز کو متنازعہ بنانا انتہائی خطرناک ذہنیت ہے جس کا خمیازہ ہم 1971میں بھگت چکے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اس منصوبے کو متنازعہ نہیں بنایا جارہا، کوئی اس کی مخالفت نہیں کررہا، بات صرف یہ ہے کہ روٹ کی تبدیلی سے پسماندہ اور مسائل میں جکڑے صوبوں کے علاقے متوقع فوائد سے محروم ہوجائیں گے اور ساتھ ہی روٹ کی لمبائی میں تقریباً ایک ہزار کلومیٹر کا اضافہ بھی ہوجائے گا جس کی وجہ سے اس منصوبے کے اخراجات میں مزید اضافہ ہوا۔ دوسری جانب، اصل راستہ نہ صرف مختصر ہے اور اُن علاقوں کو ایسے پراجیکٹس کی اشد ضرورت بھی ہے۔ بات رہی محفوظ راستوں کی تو فوج کے آپریشن کے بعد یہ علاقے کلیئر ہوگئے ہیں۔ لہذا اگر بنیادی سرمایہ کاری چین کررہا ہے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس صورتِ حال کو چین بہتر حل کر سکتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے چین کے مغربی صوبوں کو ملک کے دوسرے علاقوں کے طرز پر ترقی دینے کیلئے چینی حکومت نے گریٹ ویسٹرن ڈیویلیپمنٹ اسٹریٹیجی کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا تھا۔ چینی حکومت اُسی کے طرز پر پاکستان کے لئے بھی ہمہ گیر پروگرام ترتیب دے سکتی ہے۔ تجارتی راہدری کی بنیاد پر پاکستان کے پسماندہ علاقوں کو نہ صرف ترقی دی جاسکتی ہے بلکہ ان علاقوں سے چین افغانستان میں چینی منصوبوں کے ساتھ بھی رابطہ بھی بنا سکتا ہے۔

چھوٹے صوبوں کی آوازیں پاکستانی اور چین دونوں حکومتوں کے ضمیر کو للکارتی رہیں گی۔ دونوں حکومتوں کو پسماندہ علاقوں پر توجہ دینی چاہئے۔ یقیناً پاکستان اور چین کی دوستی ہمالیہ سے اُونچی اور سمندر سے گہری ہے لیکن بعض آوازیں یا تو اس دوستی کی اونچائیوں تک پہنچ نہیں پاتی یا اس کی گہرائی میں ڈوب جاتی ہیں۔

پچھلی بار چینی صدر کا دورہ پاکستان، یہاں کے حالات کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا اور اب اُن کے دورے سے پہلے منصوبے کے متعلق چھوٹے صوبوں میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ اِس لیے بہتر ہوگا کہ یہ مسئلہ چینی صدر کے دورے سے پہلے ہی حل کرلیا جائے۔ کیونکہ چینی حکومت کے اقدامات ہی پاکستانی معیشت کو مضبوط بناسکتی ہیں۔


I am sorry Bangash shahib to see you taking side of these useless ANP politician. Tell me one thing These ANP politicians why they have not been able to have a project like this despite they were in power for 5 years both in province and centre. At that time they were doing just corrruption and now that they are out of power they care for their province. I am sorry to say that despite the explanation by Ahsan Iqbal these people are it seems are hell bent on doing their utmost to derail this project which they will not be able to do Insha Allah.

So my request to you would be is to wait and see. As chinese president has clearly said that CPEC is for all provinces. Given the choice I will always trust Chinese president than these senators who are nothing but a nuisance. Right now only I feel indians are very jealous of this project and they will do their utmost to derail this. So we should not fall for their propaganda and please stay together and everything will be fine Insha Allah.
 
Last edited:

Bangash

Chief Minister (5k+ posts)
I am sorry Bangash shahib to see you taking side of these useless ANP politician. Tell me one thing These ANP politicians why they have not been able to have a project like this despite they were in power for 5 years both in province and centre. At that time they were doing just corrruption and now that they are out of power they care for their province. I am sorry to say that despite the explanation by Ahsan Iqbal these people are it seems are hell bent on doing their utmost to derail this project which they will not be able to do Insha Allah.

So my request to you would be is to wait and see. As chinese president has clearly said that CPEC is for all provinces. Given the choice I will always trust Chinese president than these senators who are nothing but a nuisance. Right now only I feel indians are very jealous of this project and they will do their utmost to derail this. So we should not fall for their propaganda and please stay together and everything will be fine Insha Allah.

یہ اے این پی پولیٹکس نہیں بلکہ نواز شریف جیسے لوگوں کی بدکاریاں ہے ایسے مسائل کے پیدہ ہونے سے پہلے ان کا خاتمہ لازمہ ہوتا ہے جس سے ملک مستحکم اور ایک اکائی بنتی ہے آج کل پاکستان میں کونسی جگہ ہے جہاں ایسے مسائل نہیں سندھ بلوچستان خیبر پختون خوا اور پنجاب کے اندر بھی یہ مسائل موجود ہیں بہتر یہی ہے کہ ان کا خاتمہ کیا جائے اور کالا باغ ڈیم جیسے سارے منصوبوں کو پا یا تکمیل تک پہنچایا جائے آپس میں مل بیٹھ کر ان مسلوں کو حل کرنا مشکل نہیں صرف خواہش ہونی چاہئے اور انصاف کے ساتھ فیصلے لازمی ہیں - کرپشن پاکستان کے ایک پارٹی میں نہیں بلکہ سارے ملک میں پہلا ہوا ہے- عمران خان سے امید ہے کہ وہ کرپشن کا خاتمہ کریں گے
انڈیا کی ہمیں کوئی پروہ نہیں لیکن اپنے ملک میں مسائل کو بننے سے پہلے روکنا ہر پاکستانی کا فرض ہے
 
Last edited: