انا للہ و انا الیہ راجعون
موت تو برحق ہے اور ہر کسی کو آنی ہے اور سات پردوں میں بھی اسے آ جانا ہے۔ افسوس تو اُن پر ہے جو دہشتگردی اور معاشرے کے پاگل پن کے مظہر اس افسوسناک واقعہ پر اس جنونیت کا دفاع کر رہے ہیں۔ اللہ ہی جانے کہ انجامِ گلستاں کیا ہو گا۔
آج سلمان تاثیر کو برا بھلا کہتے ہوئے یہ لوگ اس جنونیت کا دفاع کر رہے ہیں۔ گذرے ہوئے کل میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں معصوموں کی جانیں خود کش حملوں کی صورت میں اس جنونیت کی نظر ہو چکی ہیں۔ اور آنے والے کل کو یہ جنونی لوگ ایک دوسرے کو بھی یونہی قتل کرتے ہوں گے (جیسا کہ طالبان کے مختلف گروہ پاکستان میں ایک دوسرے کو قتل کر کے اللہ اکبر کے نعرے بلند کر رہے ہوتے تھے۔ شاید وہ طالبان غیر ملکی تھے)۔
اسی مذہبی جنونیت کا شکار خوارج بھی تھے۔ اور موت تو برحق ہے اور بے شک سات پردوں میں بھی اسے آنا ہے اور کوئی دیوار اسے نہیں روک سکتی۔ مگر اس قابلِ مذمت واقعہ پر یہ بم پروف دیوار کا ذکر انتہائی لغو اور جنونیت کو فروغ دینا ہے۔
اور اسی خوارج گروہ کا زبردست مذہبی شخص ابن ملجم بھی تھا جس نے چوتھے خلیفہ راشد علی ابن ابی طالب پر قاتلانہ حملہ کر کے انہیں شہید کر دیا تھا اور بلاشبہ موت برحق ہے اور ہر کسی کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔
میرا تو اہل قوم کو یہی پیغام ہے کہ ہوش میں آ جائیے اور اس جنونیت سے پیچھا چھڑائیے اور ان جنونیوں کی کھل کر مذمت کریں۔ وگرنہ ایک دن اللہ کا عذاب ہم پر ایسا نازل ہو گا جس کی لپیٹ میں ہم سب آئیں گے۔ ایسے موقع پر یہ مذہبی جنونی ایسے ہی فرار ہو جائیں گے جیسا کہ طالبان نے کیا تھا کہ جب امریکہ نے حملہ کیا تو یہ معصوم نہتے شہریوں، عورتوں اور بچوں کو امریکہ طیاروں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خود پہاڑوں میں چھپتے پھرتے اور فرار ہو رہے تھے۔
اللہ کا شکر ہے کہ آج عالمی انسانی ضمیر اتنا بیدار ہے کہ جس کی وجہ سے امریکہ کی ہمت نہیں کہ وہ کھلے عام ہمارے معصوم نہتے شہریوں کا قتل عام کر سکے، وگرنہ اگر چنگیز خان کا زمانہ ہوتا تو یہ جنونی خود تو پہاڑوں میں چھپ کر فرار ہو جاتے مگر معصوم شہری آبادی کی کھوپڑیوں کا مینار تعمیر ہو جاتا۔