مولانا قاسم نانوتوی صاحب نے اسلامی اقدار کو انگریزی سامراج سے محفوظ رکھنے اور شاہ ولی اللہ کے تحریکی سفر کو جاری رکھنے کے لئے ۱۸۶۶ میں ہندوستان کے شہر دیوبند میں ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ اس مدرسے نے جو بڑے بڑے علمأ پیدا کئے ان میں شیخ الہندمولانا محمود الحسن ، شبیر احمد عثمانی ، مناظر احسن گیلانی، مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا عبید اللہ سندھی ، مولانا حسین احمد مدنی اور سید انور شاہ کاشمیری وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ مولانا محمد الیاس جنہوں نے تبلیغی جماعت کی بنیاد رکھی اسی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ۱۹۱۴ء میں عالمی جنگ چھڑ جانے کے بعد شیخ الہند نے ہندوستان کی آزادی کے لیے تحریک شروع کی جسے تحریک ریشمی رومال کہتے ہیں شیخ الہند کا خیال تھا کہ مشرقِ وسطی کے ممالک خصوصاًافغانستان،ایران اور خلافت عثمانیہ کو متحد کیے بغیر برطانوی حکومت سے ایشیاء کو آزاد نہیں کرایا جاسکتا ہے۔ اس وقت خلافت عثمانیہ مسلمانوں کے وقار کی محافظ سمجھی جاتی تھی اس لیے آپ نے حضرت مولا نا عبید اللہ سندھی کو افغانستان جانے کا حکم دیا اورخود حجاز وخلافت عثمانیہ کا سفر کیا۔ یہ تحریک ناکام ہوئی اور شیخ الہند کو گرفتار کر کےمالٹا بھیج دیا گیا۔مدرسہ دیوبند کے اکثریتی علمأ نے تحریکِ پاکستانکی شدید مخالفت کی جب کہ صرف شبیر احمد عثمانی اس تحریک کے دست و بازو بنے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے والد مفتی محمود صاحب نے ستر کی دھائی میں یہ بیان دیا تھا کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے ۔ پاکستان میں مولانا فضل الرحمٰن، مولانا تقی عثمانی، مولانا طارق جمیل اور مولانا سمیع الحق وغیرہ دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ طالبان کا دینی مسلک بھی یہی ہے۔ پاکستان کی شہری مساجد کی اکثریت پراسی مسلک کا قبضہ ہے، اور غالباً تہہ در تہہ مذہبی ، سیاسی اور سماجی مسائل میں بھی اس مکتبۂ فکر کا بڑا ہاتھ ہے۔