omerkashmiri

Siasat.pk - Blogger
06_04.gif
 

jhootaylog

MPA (400+ posts)
اپنی موت کا خود جشن منانے والے--حامد میر

یہ کیسی سیاست ہے کہ دوسروں کی نگاہوں میں بلند ہونے کے خواہشمند اپنوں کی نگاہوں سے گرتے چلے جا رہے ہیں لیکن انہیں اپنوں کا کوئی خوف ہی نہیں۔ یہ کیسی سیاست ہے جس میں چالاکیوں، چالبازیوں اور دھوکے کو کامیابی کا پیمانہ بنا دیا گیا ہے لیکن جو حق بات کہنے سے باز نہ آئے اور اپنے اصولوں پر کھڑا رہے تو اکیلا رہ جاتا ہے اور پھر اسے سیاسی تنہائی کے طعنے دیئے جاتے ہیں۔ ذرا غور کیجئے کہ جن کا ظاہر تنہا نہیں ہے ان کا باطن تنہا ہے۔ دوسروں کو تنہائی کا طعنہ دینے والے یہ اہل سیاست اتنے بدقسمت ہیں کہ اپنے بلند بانگ دعووں پر چند دن بھی قائم نہیں رہتے، اپنے وعدوں اوراپنے اصولوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر کے اپنی سیاسی موت پر کامیابی کا جشن مناتے ہیں۔ یہ کیسی سیاست ہے جس میں تفکر و تدبر کی جگہ تکبر نے لے لی ہے۔ چند لوگ اپنے سیاسی مفادات پر کی جانے والی سودے بازیوں کو قومی مفاد قرار دے کر خلق خدا کو بے وقوف بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ جب کوئی مرد درویش یہ کہتا ہے کہ آواز خلق نقارہٴ خدا ہوتی ہے، خلق خدا کو دھوکہ مت دو تو ماضی کے ایک بدنام ڈکٹیٹر کا یہ قول سیاہ دہرایا جاتا ہے کہ اصل لیڈر وہ ہوتا ہے جو قومی مفاد میں غیر مقبول فیصلے کرتا ہے، یہ قومی مفاد کیا چیز ہے؟
حال ہی میں متحدہ قومی موومنٹ نے قومی مفاد کے نام پر وطن عزیز میں ایک انوکھا طرز سیاست متعارف کروایا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ نے گورنر سندھ کا عہدہ بھی سنبھال لیا اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔ اس طرز سیاست نے ایک بہت بڑا آئینی سوال پیدا کر دیا ہے۔ گورنر کسی بھی صوبے کا آئینی سربراہ ہوتا ہے اور صوبائی حکومت کے مشورے کے مطابق چلتا ہے۔ اس سلسلے میں آئین پاکستان کی دفعہ 105 بالکل واضح ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ گورنر صوبائی کابینہ یا وزیراعلیٰ کے مشورے پر عمل کرے گا لیکن سندھ میں تو ایسا نہیں ہوگا۔ سندھ کا گورنر اپنے وزیراعلیٰ کی کم اور صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کی زیادہ سنے گا۔ ایم کیو ایم مانے یا نہ مانے لیکن قومی مفاد کے نام پر اس کے نئے طرز سیاست نے ایک بہت بڑا آئینی تضاد پیدا کر دیا ہے جو ایم کیو ایم کی سیاست میں پائے جانے والے کنفیوژن کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ ایم کیو ایم نے آزاد کشمیر اسمبلی کی دو نشستوں پر پیدا ہونے والے تنازعے کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت سے علیحدگی اختیار کی تھی جس کے بعد کراچی میں کشیدگی اتنی بڑھی کہ ایک سو سے زائد افراد مارے گئے۔ پھر پیپلزپارٹی کے سینئر صوبائی وزیر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے مہاجروں کے خلاف ایک سخت بیان دیا اور کچھ لوگوں نے اُنہیں سندھ کی شان قرار دیدیا۔ لیکن سندھ کی اس نام نہاد شان کا ایمان کمزور نکلا اور موصوف 24 گھنٹے کے اندر اندر اپنے کہے گئے الفاظ پر معافیاں مانگتے ہوئے نظر آئے جس کے بعد ایم کیو ایم نے گورنر کا عہدہ سنبھال لیا لیکن صوبائی حکومت میں شامل نہ ہوئی۔ اس فیصلے پر کراچی کے کئی اہل فکر و دانش اور کاروباری حلقوں نے اس امید پر اطمینان کا اظہار کیا کہ شائد ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی میں مفاہمت کے بعد کراچی میں لاشیں گرنے کا عمل بند ہوجائے گا۔ افسوس کہ یہ امید حقیقت نہ بن سکی۔ ہفتہ اور اتوار کو کراچی کے علاقوں لانڈھی اور ملیر میں ایم کیو ایم کے دو گروپ آپس میں لڑتے رہے اور مصطفیٰ کمال صاحب اس تشدد کی ذمہ داری کچھ وزراء پر ڈالتے رہے۔ مصطفیٰ کمال صاحب کو معلوم ہونا چاہیئے کہ اب وہ صوبائی حکومت پر تنقید کا کوئی اخلاقی جواز نہیں رکھتے کیونکہ ان کی جماعت ایم کیو ایم صوبے کی آئینی سربراہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں ایم کیو ایم اب آدھی تنخواہ پر پیپلزپارٹی کے ساتھ کام کر رہی ہے لیکن اس آدھی تنخواہ کی خفت مٹانے کیلئے خود کو اپوزیشن جماعت بھی ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے تعلقات کی ناقابل فہم نوعیت نے سیاست کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے اور مذاق مذاق میں روزانہ پندرہ بیس شہریوں کو کراچی میں مروایا جاتا ہے۔
دونوں جماعتوں میں اختلافات ہوجائیں تو راتوں رات کراچی کے درو دیوار پر مہاجر صوبے کے حق میں نعرے نمودار ہو جاتے ہیں یہ نعرے جلتی پرتیل کا کام کرتے ہیں اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا آفاق احمد کو مہاجروں کا اصل لیڈر قرار دیکر نفرتوں کی آگ کو مزید بھڑکاتے ہیں کیونکہ انہیں یقین تھا کہ مہاجر صوبے کے نعرے متحدہ قومی موومنٹ نے لکھے تھے۔ جب صدر آصف علی زرداری اور جناب الطاف حسین کے درمیان ٹیلیفون پر گفتگو کے بعد دوبارہ صلح ہو جاتی ہے تو پھر ایم کیوایم وضاحت کر دیتی ہے کہ ہم سندھ کی تقسیم نہیں چاہتے۔ ایم کیو ایم کے چاہنے اور نہ چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ سندھ سمیت دیگر صوبوں کی تقسیم کے منصوبے کا ڈرافٹ ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے مشترکہ محسن ومربی جنرل پرویز مشرف نے تیار کیا تھا۔ مشرف کی باقیات سب کچھ کر سکتی ہیں لیکن سندھ کو تقسیم نہیں کر سکتیں۔ اس منصوبے کے حامیوں کی اخلاقی جرأت کا یہ عالم ہے کہ چپکے چپکے رات کے اندھیرے میں دیواروں پر مہاجر صوبے کے حق میں نعرے تو لکھ ڈالتے ہیں لیکن پھر جھکی جھکی نظروں کے ساتھ تردیدیں بھی کرتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے این آر او کے بطن سے جنم لینے والی دوغلی سیاست کا اعجاز ہے کہ ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کی صلح کو 24 گھنٹے بھی نہیں گزرتے کہ آفاق احمد کے ساتھی پیپلز پارٹی کی مدد سے کراچی کے کچھ علاقوں میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک دفعہ پھرلاشیں گرنے لگتی ہیں یہ کیسی سیاست ہے جو محض ستم ظریفی بن چکی ہے اس ستم ظریفی میں آپ حکومت سے باہر آئیں تو بھی لاشیں گریں اور آپ گورنر بن جائیں تو بھی لاشیں گریں۔ آپ دونوں فوج کی خوشنودی کو اصل سیاست سمجھتے ہیں اور بعض اوقات ایسے ایسے بیانات دے ڈالتے ہیں کہ فوج کو بھی تردیدوں اور وضاحت کا سہارا لینا پڑتا ہے ۔ ایک طرف تو متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلزپارٹی کا ستم ظریفانہ طرز سیاست ہے تیسری طرف عوامی نیشنل پارٹی ہے جو ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کی لڑائی میں صرف ایندھن کے طورپر استعمال ہوتی ہے اور اپنے دل کو خوش رکھنے کے لئے بار بار کراچی میں فوجی آپریشن کا مطالبہ کرتی ہے ۔ چوتھی طرف مسلم لیگ (ن) ہے جوکراچی میں فوجی آپریشن کی سخت مخالف ہے اور اس انتظار میں ہے کہ کب ایم کیو ایم ایک دفعہ پھر حکومت سے علیحدگی کا اعلان کرے گی؟ تاہم مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی انجم عقیل خان کو کسی کا انتظار نہیں۔ اربوں روپے کے فراڈ کے الزام میں گرفتار ہونے والے یہ صاحب گزشتہ جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں آئے تو پیپلزپارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ کے قدموں میں گرکر ان کے ہاتھ چومنے لگے۔ شاہ صاحب نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور انجم عقیل خان کو اس کی سیاسی تنہائی کے خاتمے کی نوید دیتے ہوئے کہا کہ فکر مت کر تو نے 2006 میں وزیراعظم گیلانی کی ضمانت کے مچلکے بھرے تھے اب ہم تیرا ساتھ دیں گے۔ عشرت العباد سے لیکر ڈاکٹر ذوالفقار مرزا تک اور مرزا سے لیکر انجم عقیل خان تک سب کے سب اپنے آپ کو قومی مفادات کا ترجمان اور عوام کا خادم قرار دیتے ہیں لیکن ان کا طرز سیاست جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف سے قطعاً مختلف نہیں جو کہتے کچھ تھے اور کرتے کچھ اور تھے۔ پاکستان کی عوام کی اکثریت کو نہ تو جھوٹے فوجی ڈکٹیٹر قبول ہیں اور نہ جھوٹے جمہوریت پسند سیاستدان قبول ہیں۔ دوسروں کی نگاہوں میں بلند ہونے کی کوشش کرنے والے اپنوں کی نگاہوں میں گرتے چلے جارہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ جھوٹے کو جھوٹا اور سچے کو سچا کہا جائے، جب ہم نے اپنے اہل سیاست کوآئینہ دکھانا شروع کر دیا تو وہ اس آئینے میں اپنی شکل کو برداشت نہیں کر پائیں گے، یا تو اپنی شکل ٹھیک کریں گے یا پھرآئینے کو توڑ ڈالیں گے ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں یہ اندر سے مرچکے اور اپنی موت کا جشن بھی خود مناتے ہیں۔

http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=545760
 

Scorpion

Banned
Re: اپنی موت کا خود جشن منانے والے--حامد میر

Yar thora ore jashan manany dou ku kay ubhi bhi logo ko Aqal nahi ai . . . . Log ub bhi in ghundoun, bhatta khorou or badmashoun ko support kurnay ma fakhar kurtay hain . . . . Jis din in ka aagay dutt gai us din Aman ho jai ga . . . .