canadian

Chief Minister (5k+ posts)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلامُ علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ




052511_1046_1.jpg


مشہور شامی مصنف عادل ابو شنب نے اپنی کتاب شوام ظرفاء میں عرب مُلک شام میں متعین فرانسیسی کمشنر کی طرف سے دی گئی ایک ضیافت میں پیش آنے والے ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کیا ہے۔ اُن دنوں یہ خطہ فرانس کے زیر تسلط تھا اور شام سمیت کئی آس پاس کے مُلکوں کیلئے ایک ہی کمشنر (موریس سارای) تعینات تھا۔ کمشنر نے اس ضیافت میں دمشق کے معززین، شیوخ اور علماء کو مدعو کیا ہوا تھا۔


اس ضیافت میں ایک سفید دستار باندھے دودھ کی طرح سفید ڈاڑھی والے بزرگ بھی آئے ہوئے تھے۔ اتفاق سے اُنکی نشست کمشنر کے بالکل آمنے سامنے تھی۔ کمشنر نے دیکھا کہ یہ بزرگ کھانے میں ہاتھ ڈالے مزے سے ہاتھوں کے ساتھ کھانا کھا رہا ہے جبکہ چھری کانٹے اُس کی میز پر موجود ہیں۔ ایسا منظر دیکھ کر کمشنر صاحب کا کراہت اور غُصے سے بُرا حال ہو رہا تھا۔ نظر انداز کرنے کی بہت کوشش کی مگر اپنے آپ پر قابو نا پا سکا۔ اپنے ترجمان کو بُلا کر کہا کہ اِس شیخ صاحب سے پوچھے کہ آخر وہ ہماری طرح کیوں نہیں کھاتا؟


شیخ صاحب نے ترجمان کو دیکھا اور نہایت ہی سنجیدگی سے جواب دیا؛ تو تمہارا خیال ہے کہ میں اپنئ ناک سے کھا رہا ہوں؟


کمشنر صاحب نے کہا، نہیں ایسی بات نہیں، ہمارا مطلب یہ ہے کہ تم چھری اور کانٹے کے ساتھ کیوں نہیں کھاتے؟


شیخ صاحب نے جواب دیا؛ مُجھے اپنے ہاتھوں کی صفائی اور پاکیزگی پر پورا یقین اور بھروسہ ہے، کیا تمہیں بھی اپنے چھری اور کانٹوں پر کی صفائی اور پاکیزگی پر اتنا ہی بھروسہ ہے؟


شیخ صاحب کے جواب سے کمشنر جل بھن کر رہ گیا، اُس نے تہیہ کر لیا کہ اس اہانت کا بدلہ تو ضرور لے گا۔


کمشنر کی میز پر اُس کے دائیں طرف اُسکی بیوی اور بائیں طرف اُسکی بیٹی بھی ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔


چہ جائیکہ کمشنر عربوں کی ثقافت، روایات اور دینداری سے واقف تھا، مزید براں اُس نے اس ضیافت میں شہر کے معززین اور علماء کو مدعو کر رکھا تھا۔ مگر ان سب روایتوں کو توڑتے ہوئے اُس نے اپنے لئے شراب منگوائی اور شیخ صاحب کو جلانے کی خاطر نہایت ہی طمطراق سے اپنے لیئے، اپنی بیوی اور بیٹی کیلئے گلاسوں میں اُنڈیلی۔ اپنے گلاس سے چُسکیاں لیتے ہوئے شیخ صاحب سے مخاطب ہو کر کہا؛ سنو شیخ صاحب، تمہیں انگور اچھے لگتے ہیں اور تم کھاتے بھی ہو، کیا ایسا ہے ناں؟


شیخ صاحب نے مختصراً کہا، ہاں،۔


کمشنر نے میز پر رکھے ہوئے انگوروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا؛ یہ شراب ان انگوروں سے نکالی ہوئی ہے۔ تم انگور تو کھاتے ہو مگر شراب کے نزدیک بھی نہیں لگنا چاہتے!


ضیافت میں موجود ہر شخص کمشنر اور شیخ صاحب کے درمیان پیش آنے والی اس ساری صورتحال سے آگاہ ہو چکا تھا۔ سب کے چہروں سے نادیدہ خوف کے سائے نظر آ رہے تھے اور ہر طرف خاموشی تھی۔ مگر اس شیخ صاحب کے نا تو کھانے سے ہاتھ رُکے اور نا ہی چہرے پر آئی مسکراہٹ میں کوئی فرق آیا تھا۔


کمشنر کو مخاطب کرتے ہو ئے شیخ صاحب نے کہا؛ یہ تیری بیوی ہے اور یہ تیری بیٹی ہے۔ یہ والی اُس سے آئی ہوئی ہے۔ تو پھر کیوں ایک تو تیرے اوپر حلال ہے اور دوسری حرام ہے؟


With Good Regards

مصنف لکھتا ہے کہ اسکے بعد کمشنر نے
فوراً ہی اپنی میز سے شراب اُٹھانے کا حُکم دیدیا تھا۔

 

Narcissist

Banned
Come on guys, stop this; If wine is not good according to one billion muslim, remaining 6 billion folk of this planet thinks wine a divine thing. Some call it blood of lord jesus.
 

canadian

Chief Minister (5k+ posts)
Come on guys, stop this; If wine is not good according to one billion muslim, remaining 6 billion folk of this planet thinks wine a divine thing. Some call it blood of lord jesus.

Almighty has destined some human beings for " jahanam" only and given them full liberty to do whatever they want in that short period in this world.
 

behzadji

Minister (2k+ posts)
Even in the west, there are plenty of non muslims, who have abandoned the wine due to its harmful effects...even it is mentioned in the quran that .....
يَسۡـَٔلُونَكَ عَنِ ٱلۡخَمۡرِ وَٱلۡمَيۡسِرِ*ۖ قُلۡ فِيهِمَآ إِثۡمٌ۬ ڪَبِيرٌ۬ وَمَنَـٰفِعُ لِلنَّاسِ وَإِثۡمُهُمَآ أَڪۡبَرُ مِن نَّفۡعِهِمَا*ۗ

They ask you (O Muhammad SAW) concerning alcoholic drink and gambling.[] Say: "In them is a great sin, and (some) benefit, for men, but the sin of them is greater than their benefit."
لوگ آپ سے شراب اور قمار کی نسبت دریافت کرتے ہیں۔ آپ فرمادیجیے کہ ان دونوں (کے استعمال) میں گناہ کی بڑی بڑی باتیں بھی ہیں اور لوگوں کو (بعضے) فائدے بھی ہیں اور (وہ) گناہ کی باتیں ان فائدوں سے زیادہ بڑھی ہوئی ہیں
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
انگور اور شراب

مشہور شامی مصنف عادل ابو شنب نے اپنی کتاب شوام ظرفاء میں عرب مُلک شام میں متعین فرانسیسی کمشنر کی طرف سے دی گئی ایک ضیافت میں پیش آنے والے ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کیا ہے۔ اُن دنوں یہ خطہ فرانس کے زیر تسلط تھا اور شام سمیت کئی آس پاس کے مُلکوں کیلئے ایک ہی کمشنر (موریس سارای) تعینات تھا۔ کمشنر نے اس ضیافت میں دمشق کے معززین، شیوخ اور علماء کو مدعو کیا ہوا تھا۔



اس ضیافت میں ایک سفید دستار باندھے دودھ کی طرح سفید ڈاڑھی والے بزرگ بھی آئے ہوئے تھے۔ اتفاق سے اُنکی نشست کمشنر کے بالکل آمنے سامنے تھی۔ کمشنر نے دیکھا کہ یہ بزرگ کھانے میں ہاتھ ڈالے مزے سے ہاتھوں کے ساتھ کھانا کھا رہا ہے جبکہ چھری کانٹے اُس کی میز پر موجود ہیں۔ ایسا منظر دیکھ کر کمشنر کا کراہت اور غُصے سے بُرا حال ہو رہا تھا۔ نظر انداز کرنے کی بہت کوشش کی مگر اپنے آپ پر قابو نا پا سکا۔ اپنے ترجمان کو بُلا کر کہا کہ اِس شیخ صاحب سے پوچھے کہ آخر وہ ہماری طرح کیوں نہیں کھاتا؟



شیخ صاحب نے ترجمان کو دیکھا اور نہایت ہی سنجیدگی سے جواب دیا؛ تو تمہارا خیال ہے کہ میں اپنئ ناک سے کھا رہا ہوں؟



کمشنر صاحب نے کہا، نہیں ایسی بات نہیں، ہمارا مطلب یہ ہے کہ تم چھری اور کانٹے کے ساتھ کیوں نہیں کھاتے؟



شیخ صاحب نے جواب دیا؛ مُجھے اپنے ہاتھوں کی صفائی اور پاکیزگی پر پورا یقین اور بھروسہ ہے، کیا تمہیں بھی اپنے چھری اور کانٹوں پر کی صفائی اور پاکیزگی پر اتنا ہی بھروسہ ہے؟



شیخ صاحب کے جواب سے کمشنر جل بھن کر رہ گیا، اُس نے تہیہ کر لیا کہ اس اہانت کا بدلہ تو ضرور لے گا۔



کمشنر کی میز پر اُس کے دائیں طرف اُسکی بیوی اور بائیں طرف اُسکی بیٹی بھی ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔



چہ جائیکہ کمشنر عربوں کی ثقافت، روایات اور دینداری سے واقف تھا، مزید براں اُس نے اس ضیافت میں شہر کے معززین اور علماء کو مدعو کر رکھا تھا۔ مگر ان سب روایتوں کو توڑتے ہوئے اُس نے اپنے لئے شراب منگوائی اور شیخ صاحب کو جلانے کی خاطر نہایت ہی طمطراق سے اپنے لیئے، اپنی بیوی اور بیٹی کیلئے گلاسوں میں اُنڈیلی۔ اپنے گلاس سے چُسکیاں لیتے ہوئے شیخ صاحب سے مخاطب ہو کر کہا؛ سنو شیخ صاحب، تمہیں انگور اچھے لگتے ہیں اور تم کھاتے بھی ہو، کیا ایسا ہے ناں؟



شیخ صاحب نے مختصراً کہا، ہاں۔



کمشنر نے میز پر رکھے ہوئے انگوروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا؛ یہ شراب ان انگوروں سے نکالی ہوئی ہے۔ تم انگور تو کھاتے ہو مگر شراب کے نزدیک بھی نہیں لگنا چاہتے!



ضیافت میں موجود ہر شخص کمشنر اور شیخ صاحب کے درمیان پیش آنے والی اس ساری صورتحال سے آگاہ ہو چکا تھا۔ سب کے چہروں سے نادیدہ خوف کے سائے نظر آ رہے تھے اور ہر طرف خاموشی تھی۔ مگر اس شیخ صاحب کے نا تو کھانے سے ہاتھ رُکے اور نا ہی چہرے پر آئی مسکراہٹ میں کوئی فرق آیا تھا۔



کمشنر کو مخاطب کرتے ہو ئے شیخ صاحب نے کہا؛ یہ تیری بیوی ہے اور یہ تیری بیٹی ہے۔ یہ والی اُس سے آئی ہوئی ہے۔ تو پھر کیوں ایک تو تیرے اوپر حلال ہے اور دوسری حرام ہے؟



مصنف لکھتا ہے کہ اسکے بعد کمشنر نے فوراً ہی اپنی میز سے شراب اُٹھانے کا حُکم دیدیا تھا۔

 
Last edited:

Ch Azam

Councller (250+ posts)
Re: انگور اور شراب

Verrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrrryyyyyyyyyyyyy Beautiful Quote..........