مسلمانوں میں حدیث کا علم رسول اللہﷺ کی زندگی ہی سے شروع ہو گیا تھا اور محدیثین نے انتہائی سخت شرائط، احادیث کی تصدیق کے حوالے سے، وضح کیں۔ لیکن کچھ شیعہ راوی جو کہ اپنے باطل عقیدہ تقیّہ کے باعث ثواب کمانے کے چکر میں کچھ جھوٹی اور موضوع روایت مسلموں کی کتابوں میں شامل کرانے میں کامیاب ہو گئے- لیکن الحمدولللہ محدثین کی انتھک محنت کے بعد مسلمان اکثر جھوٹی روایتوں کی نشاندہی کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
حقیقت یہ ہے کہ شیعہ کے ہاں حدیث کا علم ہجرت کے نو سو "٩٠٠" سال بعد شروع ہوا حوالہ - لہذا ان کے لیے روایات کی سند کی تصدیق کا عمل تقریبا نا ممکن تھا - سونے پہ سہاگہ شیعہ کے خیالی بارویں امام نے دو سو ساٹھ ہجری "٢٦٠" میں اس دنیا سے چھپنے کا فیصلہ کر لیا - حوالہ - لہذا جس وجہ کے سبب شیعہ نے حدیث کے علم کے فروغ اور حصول کیلئے کوئی کاوش نہ کی انہیں ان دیومالائی کتب کا ہی سہارا لینا پڑھا جو کہ شیعہ حدیث کی کتابوں کے نہ ہونے کے سبب لکھی گئیں- پھر جب ٩٠٠ ہجری کے بعد شیعہ حدیث کی کتابیں لکھی گئیں تو ان کی ترتیب کے لیے ان ہی دیومالائی کتابوں اور تاریخ کی کتابوں مثال کے طور پر تاریخ طبری کا سہارا لیا گیا جبکہ تاریخ طبری کا مصنف خود اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھتا ہے -حوالہ - کہ مجھے جو لوگوں نے روایت کیا میں نے لکھ لیا ان روایات کی سند کا میں ذمدار نہیں
[/QQ
Whabion ka Allah paaon rkhta hay jo vh jhnm.main daale ga to dozkh bhr jaaey gii
Sahih bukhari mjosi ki ktaab ka hwala
Is main Allah ki tauheen ke Alkah naooz baallah hath paaon rkhta hai yani ke jism rkhta hai Astaghfrallah
Dosri tauheen bkhari majoosi ne ki ke Allah dozkh main paaon rkhe gaa naooz baallah to vh bhr jaaey gii yani ke In whabi njs mlaaonon ke imam frzi bukhari ne allah ko jhnm phncha dya astghfrallah
Sahih Bukhari#7449
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : اخْتَصَمَتِ الْجَنَّةُ وَالنَّارُ إِلَى رَبّهِمَا ، فَقَالَتِ الْجَنَّةُ : يَا رَبِّ ، مَا لَهَا لَا يَدْخُلُهَا إِلَّا ضُعَفَاءُ النَّاسِ وَسَقَطُهُمْ ، وَقَالَتِ النَّارُ : يَعْنِي أُوثِرْتُ بِالْمُتَكَبِّرِينَ ، فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِلْجَنَّةِ : أَنْتِ رَحْمَتِي ، وَقَالَ لِلنَّارِ : أَنْتِ عَذَابِي ، أُصِيبُ بِكِ مَنْ أَشَاءُ وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْكُمَا مِلْؤُهَا ، قَالَ : فَأَمَّا الْجَنَّةُ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ مِنْ خَلْقِهِ أَحَدًا وَإِنَّهُ يُنْشِئُ لِلنَّارِ مَنْ يَشَاءُ ، فَيُلْقَوْنَ فِيهَا ، فَتَقُولُ : هَلْ مِنْ مَزِيدٍ سورة ق آية 30 ثَلَاثًا حَتَّى يَضَعَ فِيهَا قَدَمَهُ ، فَتَمْتَلِئُ وَيُرَدُّ بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ وَتَقُولُ : قَطْ قَطْ قَطْ .
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جنت و دوزخ نے اپنے رب کے حضور میں جھگڑا کیا۔ جنت نے کہا: اے رب! کیا حال ہے کہ مجھ میں کمزور اور گرے پڑے لوگ ہی داخل ہوں گے اور دوزخ نے کہا کہ مجھ میں تو داخلہ کے لیے متکبروں کو خاص کر دیا گیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت سے کہا کہ تو میری رحمت ہے اور جہنم سے کہا کہ تو میرا عذاب ہے۔ تیرے ذریعہ میں جسے چاہتا ہوں اس میں مبتلا کرتا ہوں اور تم میں سے ہر ایک کی بھرتی ہونے والی ہے۔ کہا کہ جہاں تک جنت کا تعلق ہے تو اللہ اپنی مخلوق میں کسی پر ظلم نہیں کرے گا اور دوزخ کی اس طرح سے کہ اللہ اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہے گا دوزخ کے لیے پیدا کرے گا وہ اس میں ڈالی جائے گی اس کے بعد بھی دوزخ کہے گی اور کچھ مخلوق ہے ( میں ابھی خالی ہوں ) تین بار ایسا ہی ہو گا، آخر پروردگار اپنا پاؤں اس میں رکھ دے گا، اس وقت وہ بھر جائے گی، ایک پر ایک الٹ کر سمٹ جائے گی، کہنے لگے گی بس بس بس میں بھر گئی